عدالتی تحقیق کی ضرورت
عدلیہ کو ہی اس مسئلے یعنی اپوزیشن پر لگائے جانے والے کرپشن کے الزامات کی جامع تحقیق کرنی چاہیے۔
میاں برادران کی حکومت کے ختم ہونے کے بعد سابقہ دونوں حکومتوں کے خلاف کرپشن کے الزامات لگائے گئے، کرپشن بھی چھوٹی موٹی نہیں اربوں روپوں کی اور اس کا اس قدر شدید پروپیگنڈا ہوا کہ نہ صرف ملک کا بچہ بچہ بلکہ ساری دنیا میں اس کا خوب چرچہ ہوا۔
کرپشن ملکوں اور قوموں کے لیے زہر قاتل کی حیثیت رکھتی ہے اور جب کرپشن اربوں روپوں تک پہنچ جاتی ہے تو ملکوں اور قوموں کا مستقبل خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ پاکستان ایک پسماندہ ملک ہے جہاں کے عوام دو وقت کی روٹی کے لیے ترستے رہتے ہیں۔ ایسے غریب ملک میں اربوں کی کرپشن کا مطلب عوام اور ملک کو تباہی کے غاروں میں دھکیلنے کے علاوہ کیا ہوسکتا ہے؟
بلاشبہ سابق دو حکومتوں کے دوران بڑے پیمانے پر کرپشن کا ارتکاب کیا گیا جسے ہم ایک الزام سمجھتے ہیں اور الزام جب تک ثابت نہ ہو جائے وہ جرم نہیں کہلا سکتا۔ دونوں حکومتیں یعنی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ملک کی بڑی اور پرانی پارٹیاں ہیں ان پر الزام لگانے کا مطلب سیاسی سیٹ اپ پر عدم اعتماد کا اظہار کرنا ہے۔
کسی ایک جماعت کو دوسری جماعت پر الزام لگانے کا حق تو ہوتا ہے لیکن الزام کو ثابت کرنا الزام لگانے سے بڑی ذمے داری ہے۔ بدقسمتی سے اس حوالے سے الزامات کو ثابت کرنے کا مرحلہ ابھی نہیں آیا۔ یوں اس حوالے سے ملک ایک خطرناک ابہام کا شکار ہے جس کا ازالہ ہونا چاہیے۔
ہمارے ملک میں تحقیقات کا ایک منظم اور مربوط نظام موجود ہے اور ہمارے تحقیقاتی ادارے ملک کے اندر ہی نہیں بلکہ ملک کے باہر بھی اس حوالے سے مصروف ہیں، پھر کیا وجہ ہے کہ سابقہ حکومتوں کی کرپشن کے حوالے سے وہ پیش رفت نہیں ہوسکی جس کی امید کی جا رہی تھی۔
گاہے گاہے یہ بیانات تحقیقاتی اداروں کی طرف سے آتے ہیں کہ اتنی بھاری ریکوری ہوئی ہے۔ یہ بڑی اچھی بات ہے کہ ہمارے تحقیقاتی ادارے کام کر رہے ہیں اور کرپشن کی ریکوری بھی ہو رہی ہے لیکن اس کا یہ پہلو بہرحال تشنہ ہے کہ نہ ریکوری کے پورے اعداد و شمار میڈیا میں آتے ہیں نہ ملزمان کے نام آتے ہیں۔
کرپشن کے حوالے سے جو خبریں میڈیا میں آتی رہی ہیں اگرچہ وہ تشنہ ہیں لیکن ان سے یہ اندازہ تو بہرحال ہوتا ہے کہ ملک میں بہت بڑے پیمانے پر کرپشن کا ارتکاب کیا گیا۔ ادھر حکومت جن جماعتوں اور افراد کے خلاف کرپشن کے الزامات لگا رہی ہے وہ ''ملزمان'' جرم یا الزام سے صاف انکاری ہیں، الزامات اور پروپیگنڈے کا رخ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی طرف ہے۔
دونوں جماعتیں نہ صرف ان الزامات کو جھٹلاتی ہیں بلکہ اپنے آپ کو پارسا ثابت کرنے کی کوشش بھی کرتی ہیں، اس مبہم صورت حال کا خاتمہ ضروری ہے۔ کیونکہ جب تک ایسی صورت حال ہے عوام بھی کنفیوژڈ ہیں۔ہماری سیاسی اشرافیہ میں ایماندار لوگ بھی ہو سکتے ہیں، تحقیقات کے حوالے سے جب تک کرپشن کی رقم اور کرپشن کا ارتکاب کرنے والوں کی مصدقہ رپورٹس سامنے نہیں آجاتیں، بے گناہ اور گنہگار کا تعین مشکل ہے۔ عمران حکومت سابقہ حکومتوں پر کرپشن کے الزامات تو لگا رہی ہے لیکن ان الزامات کو جب تک ثابت نہیں کیا جاتا ملزمان کو مجرم نہیں کہا جاسکتا۔
عمران حکومت کے پاس تحقیقی ادارے موجود ہیں۔ اگرچہ اس حوالے سے نیب کی تحقیقات کی نامکمل رپورٹیں ہمارے میڈیا کی زینت بھی بنتی رہتی ہیں لیکن اپوزیشن اسے حکومت کا پروپیگنڈا کہہ کر مسترد کردیتی ہے، اس متنازعہ مسئلے کو حل ہونا ضروری ہے ، اس حوالے سے عدلیہ کی اچھی ساکھ رکھنے والے ججوں پر مشتمل ایک تحقیقاتی کمیشن بنانے کی ضرورت ہے جو اس مسئلے یعنی کرپشن کے الزامات کا باریک بینی سے جائزہ لے کر اپنی تحقیقات کو عوام کے سامنے پیش کرکے دودھ اور پانی کو الگ الگ کردے تاکہ یہ اختلافی صورت حال ختم ہو اور عوام کے سامنے واضح تصویر آسکے۔
ہمارے ملک میں بھی سرمایہ دارانہ نظام موجود ہے اور سرمایہ دارانہ نظام میں کرپشن عام ہوتی ہے، اس حوالے سے کرپشن کے الزامات بے بنیاد نہیں کہلا سکتے۔ اس تناظر میں تحقیقات کی اور مکمل تحقیقات کی شدید ضرورت ہے۔ اب یہ حکومت، اس کے اداروں اور عدلیہ کی مشترکہ ذمے داری ہے کہ وہ اس مسئلے کو شفاف طریقے سے حل کریں۔
ہمارے ملک میں جیساکہ ہم نے نشان دہی کی ہے، بہترین تحقیقاتی ادارے موجود ہیں، اس اہم قومی مسئلے کو حل کرنے کے لیے ان سے بھی مدد لی جاسکتی ہے۔ اس حوالے سے ہمارا سب سے بڑا تحقیقاتی ادارہ نیب ہے لیکن ہماری اپوزیشن نے اس ادارے کے خلاف پروپیگنڈے کا ایک ایسا طوفان اٹھایا ہے کہ اب اس کی کارکردگی مشکوک ہوکر رہ گئی ہے، اسی تناظر میں ہم نے یہ تجویز دی تھی کہ عدلیہ کے اچھی ساکھ رکھنے والے ججوں پر مشتمل ایک ٹریبونل بنایا جائے جو باریک بینی سے اس مسئلے کا جائزہ لے کر اپنی رپورٹ قوم کے سامنے پیش کرے۔
آج کی اپوزیشن کل کی حکمران ہو سکتی ہے اگر اپوزیشن پر لگائے گئے الزامات کا غیر جانبداری سے فیصلہ نہیں ہوتا تو اپوزیشن کا وجود مشکوک ہو جاتا ہے۔ انتخابات کا مرحلہ بھی آ رہا ہے اگر اپوزیشن کا کردار صاف اور واضح نہیں ہوتا تو پھر عوام اعتماد کے ساتھ اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کرسکتے۔
ہمارے اہل سیاست عوام میں قابل اعتماد نہیں رہے لہٰذا اب عدلیہ کو ہی اس مسئلے یعنی اپوزیشن پر لگائے جانے والے کرپشن کے الزامات کی جامع تحقیق کرنی چاہیے تاکہ عوام آنے والے الیکشن میں پورے اعتماد کے ساتھ اپنے ووٹ کا استعمال کرسکیں، مبہم اور مشکوک ماحول میں الیکشن کرانا کسی طرح بھی قومی مفاد میں نہیں ہوسکتا۔