ٹریفک میں نظم و ضبط کا فقدان اور حادثات

سڑکوں پر نظم و ضبط کی صورت حال قائم کرنے کےلیے عوام میں شعور بیدار کرنے کی اشد ضرورت ہے

ٹریفک قوانین کی قانون شکنی سے منفی رویے جنم لے رہے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اگر لفظ ''نظم و ضبط'' پر غور کیا جائے تو اس کی اہمیت ہمیں اپنے چاروں طرف معلوم ہوگی۔ نظم و ضبط ایک سلسلہ اور ترتیب کا نام ہے جو معاشرے کے نظام کو منظم اور مضبوط کرتا ہے اور جس معاشرے میں نظم و ضبط کا وجود نہیں ہوگا وہاں افراتفری اور منفی نتائج نظر آئیں گے۔ یہ لفظ اپنے آپ میں بہت سی خوبیاں پروئے ہوئے ہے۔ عملی زندگی میں نظم و ضبط کی ایک مثال پاکستان کی سڑکوں پر دیکھیں تو حالات یکسر مختلف ہوں گے کیونکہ نظم و ضبط کی غیر موجودگی حادثات کے بڑھنے کا باعث بن رہی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ آخر ہمیں سڑکوں پر نظم و ضبط کی ضرورت ہی کیوں ہے؟ کیا آپ نے کبھی سوچا ہوگا کہ ایسے کون سے عوامل ہیں جو سڑکوں پر نظم و ضبط کو قائم رکھ سکتے ہیں؟ پاکستان کی سڑکوں پر موجود مختلف رنگ و ڈیزائن کی بنی لائنوں کے بارے میں بہت ہی کم لوگوں کو معلوم ہوگا۔ ہم اکثر روزانہ کام کے سلسلے کےلیے سڑکوں پر سفر کرتے ہیں اور مختلف رنگ و ڈیزائن کی لائنوں کو دیکھتے ہیں۔ اکثر افراد کے ذہن میں یہ بات آتی ہوگی کہ ان کا کوئی مقصد نہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک میں بھی ایسا ہی سمجھتی تھی۔ حالانکہ یہ مختلف لائنیں سڑکوں پر نظم و ضبط پیدا کرنے کا سبب ہیں۔ سڑکوں پر موجود مختلف رنگ و ڈیزائن کی لائنوں کا مطلب جاننا بہت ضروری ہوچکا ہے اور کیسے ڈرائیور حضرات نظم و ضبط پر قائم رہ کر حادثات سے بچ سکتے ہیں۔

سب سے پہلے اکثر شاہراہوں کے کناروں پر ''ایک لمبی زرد لائن'' بنی ہوتی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں پارکنگ کی اجازت ہرگز نہیں ہے۔ اگر سڑک پر ''تقسیم شدہ سفید لائن'' موجود ہے تو عموماً یہ سڑک مرکزی شاہراہ سے ذیلی سڑک میں تبدیل ہوجاتی ہے جبکہ غور کیا جائے تو آپ کو ان سڑکوں پر بہت کم ٹریفک ملے گی۔ اس لائن کا مطلب یہ ہے کہ آپ آرام سے ایک لائن سے دوسری لائن میں منتقل ہوسکتے ہیں۔ ایسا کرنے سے کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔

اگر آپ سڑک پر ''لمبی سفید لائن'' دیکھیں تو یہ ذیلی سڑک سے مرکزی شاہراہ کی طرف منتقل ہوجائے گی۔ جبکہ اس لائن سے مراد یہ ہے کہ آپ ایک لائن سے دوسری لائن پر منتقل نہیں ہوسکتے، اس پر آپ کو پابندی ہے۔ کیونکہ مرکزی شاہراہ پر ٹریفک معمول سے زیادہ ہوتی ہے، یک دم اوورٹیکنگ حادثات کو جنم دے سکتی ہے۔ آپ کو لائن میں اس وقت تک رہنا ہوگا جب تک ایک لائن دوسری لائن میں تبدیل نہ ہوجائے۔ سڑکوں پر ''تقسیم شدہ زرد لائن'' سے مراد یہ ہے ڈرائیور دورانِ ڈرائیورنگ اپنی آگے والی گاڑی کو آرام سے اوورٹیک کرسکتا ہے، لیکن اس کے لیے احتیاط ملحوظ ہے۔ اوورٹیک کرنے سے پہلے اگلی یا پچھلی گاڑی کو اشارہ دینا بہت ضروری ہوتا ہے۔

سڑک پر ''دو اکٹھی زرد لائنیں'' جب موجود ہوں تو اس سے مراد یہ ہے کہ ڈرائیور اپنی لائن میں رہ کر ہی ڈرائیونگ کریں، بلاوجہ اوورٹیکنگ کرنے پر پابندی ہے۔ کیونکہ یہ خطرناک عمل ہے۔ اس کے علاوہ ''ایک تقسیم شدہ اور ایک زرد لائن'' سے مراد یہ ہے کہ ڈرائیور ڈرائیونگ کے دوران دوسری گاڑی کو اوورٹیک کرسکتا ہے۔ ایسا عمل ذیلی سڑکوں پر ممکن ہے جبکہ مرکزی شاہراہ پر یہ عمل خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ جبکہ ''تقسیم شدہ زرد لائن'' سے مراد یہ ہے کہ ڈرائیور غیر معمولی احتیاط کے ساتھ اپنی اگلی گاڑی کو اوورٹیک کرسکتا ہے۔


سڑکوں پر موجود یہ رنگ و ڈیزائن حفاظت کےلیے بنائے گئے ہیں تاکہ حادثات کم سے کم ہوسکیں لیکن پاکستان میں ڈرائیور حضرات کو سڑکوں پر موجود ان لائنوں کا مطلب معلوم ہی نہیں ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہاں ڈرائیورز قانون شکنی کرنے میں ذرا بھی عار محسوس نہیں کرتے بلکہ اپنے ساتھ دوسروں کا بھی نقصان کروا لیتے ہیں، جسکا ازالہ ناممکن ہے۔

اس کے علاوہ دوسرا نقطہ جو انتہائی اہم ہے وہ ڈرائیوروں کو معلوم ہی نہیں کہ انہیں کون سی لائن میں رہ کر ڈرائیونگ کرنی چاہیے۔ جیسے کہ عام طور پر سڑکوں پر دو یا تین لائنیں ہوتی ہیں، فرض کیا جائے کہ اگر سڑک پر تین لائنیں موجود ہیں تو وہ گاڑیاں جو دائیں طرف مڑنا چاہتی ہیں ان کو دائیں لائن پر ہونا چاہیے، جبکہ سیدھے راستے پر جانے والوں کو درمیان میں ہونا چاہیے، بائیں جانب مڑنے والوں کو ہمیشہ بائیں لائن پر ہونا چاہیے۔ تاہم، بسیں ہمیشہ بائیں لائن پر ہونی چاہئیں کیونکہ بس اسٹاپ سڑک کے بائیں جانب ہی واقع ہوتے ہیں۔

مرکزی شاہراہوں پر رفتار کے لحاظ سے وہ گاڑیاں جو آہستہ چلتی ہیں، جیسے کہ ٹرک، انہیں سڑک کے بائیں جانب ہونا چاہیے جبکہ تیز رفتار گاڑیوں کو سڑک کے دائیں جانب ہونا چاہیے۔ اوورٹیک کرتے وقت لائن میں تبدیلی کی اجازت ہے۔ آہستہ چلنے والی گاڑیوں کو اوورٹیک کرنے کے بعد واپس بائیں لین میں آنا ہوگا۔ تاہم عام طور پر مرکزی شاہراہوں پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ ٹرک دائیں لین پر آہستہ آہستہ گاڑی چلاتے ہیں اور دوسرے ڈرائیوروں کو بائیں جانب سے پیچھے چھوڑ دیتے ہیں، جبکہ آہستہ چلنے والی گاڑیاں ٹریفک کی رفتار کو کم کرتی ہیں۔

ٹریفک قوانین کی قانون شکنی سے منفی رویے جنم لے رہے ہیں اور یہ منفی رویہ جات سڑکوں پر حادثات کو دن بدن بڑھا رہے ہیں۔ کیونکہ جب نظم و ضبط کی پاسداری نہ ہو تو معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے۔ سڑکوں پر نظم و ضبط کی صورت حال پیدا کرنے کےلیے عوام میں شعور بیدار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ جب تک شعور بیدار نہ کیا گیا تب تک حادثات کی شرح میں کمی ناممکن ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story