رزقِ حلال کی فضیلت و برکات
’’زمین میں چلنے پھرنے والے تمام جان داروں کی روزی اﷲ ہی کے ذمّے ہے۔‘‘
اے ایمان والو! جمعہ کے دن جب نماز کی اذان دی جائے تو تم اﷲ کے ذکر کی طرف جلدی آیا کرو اور خرید و فروخت چھوڑ دیا کرو' یہ تمہارے لیے بہت ہی بہتر ہے اگر تم سمجھو پھر جب نماز ادا کر چکھو تو زمین میں پھیل جاؤ اور اﷲ کا فضل تلاش کرو اور کثرت سے اﷲ کا ذکر کیا کرو تاکہ تم فلاح پاجاؤ۔
انسان دنیا میں بہتر زندگی گزارنے اور ہر طرح کے عیش و آرام اور دنیاوی آسائشات کے حصول کی خاطر ہمہ وقت مصروف عمل رہتا ہے اور اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ کم وقت میں زیادہ مادی فوائد حاصل کرلے تاکہ بیوی، بچوں، والدین، بہن بھائیوں، خویش و اقارب وغیرہ بلند معیاری زندگی حاصل کرسکیں۔
ان خواہشات کی تکمیل ظاہری طو ر پر کسب معاش کے بغیر ممکن نہیں ہوتی چناں چہ ہر شخص کسی نہ کسی انداز میں زندگی گزارنے اور من چاہی سہولیات کے حصول میں سرگرداں رہتا ہے اور بعض نفس پرست اس سلسلے میں تمام دینی شرعی اخلاقی قانونی حدود بھی پھلانگ کر سب کچھ حاصل کرنے کی سعی و جہد میں جتے رہتے ہیں اور بس دنیا ہی کے ہو کر رہ جاتے ہیں۔ جب کہ سلیم الفطرت بالخصوص اہل ایمان دنیاوی ضروریات کے لیے کسب حلال کو ترجیح دیتے ہیں گرچہ بہ ظاہر اس راہ میں مشکلات اور فوائد و ثمرات میں کم یابی ہی کیوں نہ ہو وہ ہر حال میں پاکیزہ اور حلال روزی کمانے کو ہی پسند کرتے ہیں اور ایسے پاک باز لوگوں کے مال میں اﷲ تعالیٰ خیر و برکت عطا فرما دیتا اور انہیں اطمینان قلب نصیب فرما دیتا ہے۔
خالق کائنات نے کسب حلال میں بھی اصول و ضوابط بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے اہل ایمان! جمعہ کے دن جب کہ تم خرید و فروخت یعنی کاروبار یا کسب معاش میں مصروف ہو اور اس دوران موذن تمہیں نماز کے لیے صدائیں دینا شروع ہو جائے تو سارے کام سمیٹ کر مسجد کا رخ کرلو یہ عمل تمہارے حق میں خیر و برکت کا باعث ہے اگر تم سمجھتے ہو تو یہی تمہارے لیے بہتر ہے۔
حالاں کہ اگر خالصتاً مادی نکتہ نگاہ سے دیکھا جائے تو بہ ظاہر لین دین یا کاروبار بند کرنے سے تو نقصان دکھائی دیتا ہے لیکن رب کائنات نے تمام سرگرمیوں کی موقوفی اور فریضۂ نماز کی ادائی کو بہتر قراردیا ہے اور یقیناً اسی میں بھلائی ہے اور بندۂ مومن اس وعدۂ ربانی پر یقین کامل رکھتے ہوئے مسجد کا رخ کرتا ہے اور اﷲ کی حلال کردہ روزی کو اپنے لیے ناجائز تصور کرلیتا ہے تو رب تعالیٰ بھی اپنے ایسے بندوں کو ناکام و نامراد نہیں کرتا بل کہ اپنی اطاعت و فرماں برداری اور بندۂ مومن کی دیانت داری کے ذریعے کسب حلال کے لیے کی جانے والی کوشش میں اپنی رحمت سے خیر و برکت کا عنصر شامل فرما دیتا ہے اور ایسے لوگ بہ ظاہر کم مائیگی کے باوجود مطمئن و مسرور زندگی گزارتے ہیں۔
جب کہ کسب حرام سے انسان ڈھیروں روپیا پیسا اور دیگر مادی وسائل تو اکٹھے کر لیتا ہے لیکن اسے اطمینان قلب کی دولت میسر نہیں آتی بلکہ ہر وقت دھڑکا لگا رہتا ہے کہ حکومت و قانون کی نظر میں نہ آجائے یا کسی اور مصیبت میں گرفتار نہ ہوجائے۔ اسی طرح آگے فرمایا کہ جب نماز ادا کرلو تو پھر زمین میں پھیل جاؤ اور رب تعالیٰ کا فضل تلاش کرو۔
یعنی حصول روزی میں مشغول ہو جاؤ لیکن یاد رکھو! اس دوران بھی کثرت سے اﷲ کا ذکر کرتے رہو تاکہ تم کامیابی حاصل کرلو۔ یعنی دنیاوی و اخروی فوز و فلاح پا جاؤ۔ مطلب یہ کہ دوران کاروبار یا لین دین میں اﷲ کو یاد رکھو جب اﷲ تعالیٰ کا تصور ہر وقت موجود رہے گا تو پھر بندہ مومن ناجائز منافع خوری نہیں کرے گا نہ ہی ذخیرہ اندوزی کے ذریعے قیمتیں بڑھانے اور ہوس زر کا شکار ہو گا۔
جب بندہ مومن کے پیش نظر اپنے خالق و مالک کی ذات ہو تو وہ کسی گاہک کو لاعلم رکھ کر ناقص مال فروخت نہیں کرے گا اور نہ ہی اچھے مال سے ناقص مال کو بدلے گا۔ نہ اپنی ملازمت میں کسی خیانت و بددیانتی کا مرتکب ہوگا اور نہ ہی کسی کرپشن، چور بازاری یا رشوت وغیرہ جیسی لعنتوں میں مبتلا ہوگا، بل کہ ہر حال میں بندۂ مومن رب تعالیٰ کی خشیت کی بہ دولت اپنے تمام تر معاملات میں درستی کا پہلو ملحوظ رکھتا ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے پوری کائنات بالخصوص انسانوں اور حیوانات و جنات وغیرہ کو پیدا کیا اور ان کی پرورش و پرداخت کی ذمے داری خود اپنے اوپر لازم ٹھہرائی ہے۔ چناں چہ فرمان رب العالمین کا مفہوم ہے: ''زمین میں چلنے پھرنے والے تمام جان داروں کی روزی اﷲ ہی کے ذمے ہے۔'' (سورہ ھود) ''بے شک! اﷲ تعالیٰ ہی سب کو روزی دینے والا مضبوط طاقت والا ہے۔'' (سورۃ الذاریات)
ہماری روزی رسانی کا خود رب تعالیٰ نے ذمہ لے رکھا ہے اور وہی سب کو روزی پہنچانے والا ہے۔ اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ کسب حلال کے ذریعے اﷲ تعالیٰ کی خوش نُودی اور خیر و برکت کا حق دار بننا چاہتا ہے یا کسب حرام سے دنیا و آخرت کی مصیبتیں اکٹھی کرنا چاہتا ہے۔ حالاں کہ انسان کو ملتا وہی ہے جو اس کے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے البتہ اس کے حصول کا اختیار انسان کو دیا گیا ہے چاہے تو پاکیزہ و حلال طریقے سے اپنا مقدر سنوارے یا ناجائز و حرام آمدنی سے ظلم و طغیان کا شکار ہوجائے ۔
قرآن مجید میں اس مسئلے کو انتہائی وضاحت سے بیان کردیا گیا ہے کہ تم تو انسان ہو، تمہیں تو رب تعالیٰ روزی دے گا ہی وہ تو رب العالمین ہے تمہیں ہی نہیں بل کہ دیگر مخلوقات کو بھی روزی پہنچاتا ہے جسے تم روزی نہیں دیتے بل کہ انہیں بھی اﷲ تعالیٰ ہی رزق فراہم کرتا ہے ۔ ایک مقام پر ارشاد فرمایا۔ مفہوم: ''اور ہم نے اسی زمین میں تمہارے لیے روزی کے سامان بنائے ہیں اور ان کے لیے بھی جن کو تم روزی نہیں دیتے ہو۔'' (بل کہ ہم ہی انہیں روزی دیتے ہیں) (سورۃ الحجر)
اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ ہر جان دار کی روزی رزق اﷲ تعالٰی ہی دینے ولا ہے۔ غور کا مقام ہے کہ اﷲ تعالیٰ کس کس انداز میں اپنی مخلوقات کی روزی کا بندوبست کرتا ہے۔ چرند پرند کو دیکھیں کہ رب تعالیٰ کس طرح انہیں رزق پہنچاتا ہے۔ چوپایوں کو دیکھیں جو ہمارے لیے پیدا کیے گئے انہیں بھی اﷲ ہی رزق دیتا ہے۔ اسی طرح جنگلی درندے اور کیڑے مکوڑے حشرات الارض ہیں وہ کہاں سے اپنی روزی حاصل کرتے ہیں؟ سب کے سب اﷲ ہی سے رزق پاتے اور زندہ رہتے ہیں۔ تو پھر کیا اﷲ تعالیٰ اپنی حسین ترین مخلوق جسے اس نے اشرف المخلوات بنایا' اسے بے یار و مددگار چھوڑ دے گا۔
نہیں! ہرگز نہیں! بل کہ انسان کے لیے بھی اس نے بے پناہ ذرایع وسائل تخلیق فرمائے ہیں البتہ ان کے حصول کے لیے پاکیزہ و حلال طریقوں کا حکم دیا اور حرام سے بچنے کی تلقین فرمائی۔ ہر جان دار کو اﷲ تعالیٰ ان کے درجوں کے مطابق روزی بہم پہنچا رہا ہے۔ صبح دم پرندے اور جانور اپنے گھونسلوں اور بلوں سے بستیوں اور جنگلوں کی طرف نکلتے ہیں اور دن بھر ادھر ادھر اپنی روزی تلاش کر کے شام کو پیٹ بھر کر واپس ہوتے ہیں۔ چناں چہ امام کائناتؐ کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے: ''اگر تم اﷲ پر کماحقہ توّکل (اعتماد) کرلو تو جس طرح وہ پرندوں کو روزی دیتا ہے اسی طرح تمہیں بھی روزی دے گا کہ وہ صبح کو بھوکے نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس ہوتے ہیں۔'' (ترمذی)
البتہ یہ رب تعالیٰ کا نظام ہے کہ وہ کسی کو کشادگی تو کسی کو تنگی عطا فرماتا ہے تاکہ معاشرہ میں اعتدال رہے اور انسان ایک دوسرے سے مربوط رہے۔ اگر سب ہی مال دار ہوں تو پھر مختلف خدمات کے انسائی وسائل ناپید ہوجائیں۔ اسی طرح اگر سبھی تنگ دست ہوں تو ذرائع روزگار مفقود ہوجائیں۔ دنیا کا نظام اسی طرح چلتا رہتا ہے کہ کسی کو متمول تو کسی کو زیردست رکھا گیا ہے تاکہ ایک دوسرے کی ضروریات بھی پور ی ہوتی رہیں اور کوئی کسی سے لاتعلق بھی نہ رہے کہ کسی کی نظر میں دوسرے کی اہمیت ہی نہ رہے۔
اﷲ تعالیٰ نے اس تقسیم کو یوں بیان فرمایا ہے، مفہوم: ''ہم نے لوگوں کی روزیوں کو دنیا کی زندگی میں تقسیم کر دیا ہے ۔ کسی کو درجے میں اونچا کر دیا ہے کسی کو ا س سے کم۔'' (سورۃ الزخرف)
ایک مقام پر اس طرح بیان فرمایا۔ مفہوم: ''اﷲ تعالیٰ جس کی روزی کو کشادہ کرنا چاہتا ہے، کشادہ کر دیتا ہے اور جس کی روزی کم کرنا چاہتا ہے، کم کر دیتا ہے۔'' (سورۃ الرعد)
معلوم ہوا کہ روزی کی تنگی و کشادگی میں اﷲ تعالیٰ کی حکمت پوشیدہ ہے اس طرح دونوں کی آزمائش ہو جاتی ہے کہ وہ کتنے شکر گزار اور ثابت قدم رہتے ہیں۔ اس لیے ہر شخص کو اپنی حالت اور ہمت کے مطابق روزی تلاش کرنے میں جدوجہد کرنا ضروری ہے۔ قرآن مجید میں محنت و جدوجہد کی ترغیب اس طرح دلائی گئی ہے۔
مفہوم: ''انسان کو جو کچھ ملتا ہے وہ اس کی سعی و کوشش سے ملتا ہے۔'' (سورۃ النجم) اسی طرح دوسرے مقام پر یوں فرمایا، مفہوم: ''وہ اﷲ جس نے تمہارے لیے زمین کو مسخّر کر دیا کہ تم اس کے راستوں میں چلو اور اس کی دی ہوئی روزی میں سے کھاؤ اور اسی کے پاس مرنے کے بعد زندہ ہو کر جانا ہے۔'' (سورۃ الملک)
معلوم ہوا کہ مقدر کی روزی حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرنا ضروری ہے اور اس کے حصول میں حلال و پاکیزہ ذرائع اختیار کرنا فرض ہے۔ کسب حلال میں بڑی بزرگی و برکت ہے اور اس میں دین و دنیا کی سعادت پوشیدہ ہے۔ حلال کمائی کرنے والا لوگوں کی نظروں میں بھی محبوب ہوتا ہے اور اﷲ کے ہاں بلندی درجات کا حامل گردانا جاتا ہے اور وہ اسے اپنا محبوب بنا لیتا ہے اور وہ جو عبادت کرتا اسے قبول فرما لیتا ہے جب کہ حرام کھانے والے کی کوئی عبادت قبول نہیں کی جاتی۔
رحمت عالمؐ کے فرمان کا مفہوم ہے: ''حلال روزی کا طلب کرنا ضروری ہے۔ اﷲ تعالیٰ کے فرض کے بعد۔'' (بیہقی) یعنی اﷲ تعالیٰ کے دیگر فرائض مثلاً نماز روزہ حج زکوٰۃ کی ادائی کے بعد کسب حلال کی بھی جستجو کرنا بہت ضروری ہے۔ اس لیے کہ تمام عبادات کی قبولیت کا دار و مدار اسی پر ہے۔ امام کائناتؐ کے فرمان عالی شان کا مفہوم ہے: ''یقینا اﷲ پاک ہے اور پاک ہی کو قبول فرماتا ہے۔''
دعاؤں اور عبادتوں کی مقبولیت بھی کسب حلال سے مشروط ہے۔ رحمۃ للعالمینؐ کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے: ''جس نے پاکیزہ کمائی کھائی اور سنّت کے مطابق کام کیا اور لوگوں کو اپنی ایذا رسانی سے امن میں رکھا وہ جنّت میں داخل ہوگا۔'' (ترمذی)
انسان دنیا میں بہتر زندگی گزارنے اور ہر طرح کے عیش و آرام اور دنیاوی آسائشات کے حصول کی خاطر ہمہ وقت مصروف عمل رہتا ہے اور اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ کم وقت میں زیادہ مادی فوائد حاصل کرلے تاکہ بیوی، بچوں، والدین، بہن بھائیوں، خویش و اقارب وغیرہ بلند معیاری زندگی حاصل کرسکیں۔
ان خواہشات کی تکمیل ظاہری طو ر پر کسب معاش کے بغیر ممکن نہیں ہوتی چناں چہ ہر شخص کسی نہ کسی انداز میں زندگی گزارنے اور من چاہی سہولیات کے حصول میں سرگرداں رہتا ہے اور بعض نفس پرست اس سلسلے میں تمام دینی شرعی اخلاقی قانونی حدود بھی پھلانگ کر سب کچھ حاصل کرنے کی سعی و جہد میں جتے رہتے ہیں اور بس دنیا ہی کے ہو کر رہ جاتے ہیں۔ جب کہ سلیم الفطرت بالخصوص اہل ایمان دنیاوی ضروریات کے لیے کسب حلال کو ترجیح دیتے ہیں گرچہ بہ ظاہر اس راہ میں مشکلات اور فوائد و ثمرات میں کم یابی ہی کیوں نہ ہو وہ ہر حال میں پاکیزہ اور حلال روزی کمانے کو ہی پسند کرتے ہیں اور ایسے پاک باز لوگوں کے مال میں اﷲ تعالیٰ خیر و برکت عطا فرما دیتا اور انہیں اطمینان قلب نصیب فرما دیتا ہے۔
خالق کائنات نے کسب حلال میں بھی اصول و ضوابط بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے اہل ایمان! جمعہ کے دن جب کہ تم خرید و فروخت یعنی کاروبار یا کسب معاش میں مصروف ہو اور اس دوران موذن تمہیں نماز کے لیے صدائیں دینا شروع ہو جائے تو سارے کام سمیٹ کر مسجد کا رخ کرلو یہ عمل تمہارے حق میں خیر و برکت کا باعث ہے اگر تم سمجھتے ہو تو یہی تمہارے لیے بہتر ہے۔
حالاں کہ اگر خالصتاً مادی نکتہ نگاہ سے دیکھا جائے تو بہ ظاہر لین دین یا کاروبار بند کرنے سے تو نقصان دکھائی دیتا ہے لیکن رب کائنات نے تمام سرگرمیوں کی موقوفی اور فریضۂ نماز کی ادائی کو بہتر قراردیا ہے اور یقیناً اسی میں بھلائی ہے اور بندۂ مومن اس وعدۂ ربانی پر یقین کامل رکھتے ہوئے مسجد کا رخ کرتا ہے اور اﷲ کی حلال کردہ روزی کو اپنے لیے ناجائز تصور کرلیتا ہے تو رب تعالیٰ بھی اپنے ایسے بندوں کو ناکام و نامراد نہیں کرتا بل کہ اپنی اطاعت و فرماں برداری اور بندۂ مومن کی دیانت داری کے ذریعے کسب حلال کے لیے کی جانے والی کوشش میں اپنی رحمت سے خیر و برکت کا عنصر شامل فرما دیتا ہے اور ایسے لوگ بہ ظاہر کم مائیگی کے باوجود مطمئن و مسرور زندگی گزارتے ہیں۔
جب کہ کسب حرام سے انسان ڈھیروں روپیا پیسا اور دیگر مادی وسائل تو اکٹھے کر لیتا ہے لیکن اسے اطمینان قلب کی دولت میسر نہیں آتی بلکہ ہر وقت دھڑکا لگا رہتا ہے کہ حکومت و قانون کی نظر میں نہ آجائے یا کسی اور مصیبت میں گرفتار نہ ہوجائے۔ اسی طرح آگے فرمایا کہ جب نماز ادا کرلو تو پھر زمین میں پھیل جاؤ اور رب تعالیٰ کا فضل تلاش کرو۔
یعنی حصول روزی میں مشغول ہو جاؤ لیکن یاد رکھو! اس دوران بھی کثرت سے اﷲ کا ذکر کرتے رہو تاکہ تم کامیابی حاصل کرلو۔ یعنی دنیاوی و اخروی فوز و فلاح پا جاؤ۔ مطلب یہ کہ دوران کاروبار یا لین دین میں اﷲ کو یاد رکھو جب اﷲ تعالیٰ کا تصور ہر وقت موجود رہے گا تو پھر بندہ مومن ناجائز منافع خوری نہیں کرے گا نہ ہی ذخیرہ اندوزی کے ذریعے قیمتیں بڑھانے اور ہوس زر کا شکار ہو گا۔
جب بندہ مومن کے پیش نظر اپنے خالق و مالک کی ذات ہو تو وہ کسی گاہک کو لاعلم رکھ کر ناقص مال فروخت نہیں کرے گا اور نہ ہی اچھے مال سے ناقص مال کو بدلے گا۔ نہ اپنی ملازمت میں کسی خیانت و بددیانتی کا مرتکب ہوگا اور نہ ہی کسی کرپشن، چور بازاری یا رشوت وغیرہ جیسی لعنتوں میں مبتلا ہوگا، بل کہ ہر حال میں بندۂ مومن رب تعالیٰ کی خشیت کی بہ دولت اپنے تمام تر معاملات میں درستی کا پہلو ملحوظ رکھتا ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے پوری کائنات بالخصوص انسانوں اور حیوانات و جنات وغیرہ کو پیدا کیا اور ان کی پرورش و پرداخت کی ذمے داری خود اپنے اوپر لازم ٹھہرائی ہے۔ چناں چہ فرمان رب العالمین کا مفہوم ہے: ''زمین میں چلنے پھرنے والے تمام جان داروں کی روزی اﷲ ہی کے ذمے ہے۔'' (سورہ ھود) ''بے شک! اﷲ تعالیٰ ہی سب کو روزی دینے والا مضبوط طاقت والا ہے۔'' (سورۃ الذاریات)
ہماری روزی رسانی کا خود رب تعالیٰ نے ذمہ لے رکھا ہے اور وہی سب کو روزی پہنچانے والا ہے۔ اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ کسب حلال کے ذریعے اﷲ تعالیٰ کی خوش نُودی اور خیر و برکت کا حق دار بننا چاہتا ہے یا کسب حرام سے دنیا و آخرت کی مصیبتیں اکٹھی کرنا چاہتا ہے۔ حالاں کہ انسان کو ملتا وہی ہے جو اس کے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے البتہ اس کے حصول کا اختیار انسان کو دیا گیا ہے چاہے تو پاکیزہ و حلال طریقے سے اپنا مقدر سنوارے یا ناجائز و حرام آمدنی سے ظلم و طغیان کا شکار ہوجائے ۔
قرآن مجید میں اس مسئلے کو انتہائی وضاحت سے بیان کردیا گیا ہے کہ تم تو انسان ہو، تمہیں تو رب تعالیٰ روزی دے گا ہی وہ تو رب العالمین ہے تمہیں ہی نہیں بل کہ دیگر مخلوقات کو بھی روزی پہنچاتا ہے جسے تم روزی نہیں دیتے بل کہ انہیں بھی اﷲ تعالیٰ ہی رزق فراہم کرتا ہے ۔ ایک مقام پر ارشاد فرمایا۔ مفہوم: ''اور ہم نے اسی زمین میں تمہارے لیے روزی کے سامان بنائے ہیں اور ان کے لیے بھی جن کو تم روزی نہیں دیتے ہو۔'' (بل کہ ہم ہی انہیں روزی دیتے ہیں) (سورۃ الحجر)
اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ ہر جان دار کی روزی رزق اﷲ تعالٰی ہی دینے ولا ہے۔ غور کا مقام ہے کہ اﷲ تعالیٰ کس کس انداز میں اپنی مخلوقات کی روزی کا بندوبست کرتا ہے۔ چرند پرند کو دیکھیں کہ رب تعالیٰ کس طرح انہیں رزق پہنچاتا ہے۔ چوپایوں کو دیکھیں جو ہمارے لیے پیدا کیے گئے انہیں بھی اﷲ ہی رزق دیتا ہے۔ اسی طرح جنگلی درندے اور کیڑے مکوڑے حشرات الارض ہیں وہ کہاں سے اپنی روزی حاصل کرتے ہیں؟ سب کے سب اﷲ ہی سے رزق پاتے اور زندہ رہتے ہیں۔ تو پھر کیا اﷲ تعالیٰ اپنی حسین ترین مخلوق جسے اس نے اشرف المخلوات بنایا' اسے بے یار و مددگار چھوڑ دے گا۔
نہیں! ہرگز نہیں! بل کہ انسان کے لیے بھی اس نے بے پناہ ذرایع وسائل تخلیق فرمائے ہیں البتہ ان کے حصول کے لیے پاکیزہ و حلال طریقوں کا حکم دیا اور حرام سے بچنے کی تلقین فرمائی۔ ہر جان دار کو اﷲ تعالیٰ ان کے درجوں کے مطابق روزی بہم پہنچا رہا ہے۔ صبح دم پرندے اور جانور اپنے گھونسلوں اور بلوں سے بستیوں اور جنگلوں کی طرف نکلتے ہیں اور دن بھر ادھر ادھر اپنی روزی تلاش کر کے شام کو پیٹ بھر کر واپس ہوتے ہیں۔ چناں چہ امام کائناتؐ کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے: ''اگر تم اﷲ پر کماحقہ توّکل (اعتماد) کرلو تو جس طرح وہ پرندوں کو روزی دیتا ہے اسی طرح تمہیں بھی روزی دے گا کہ وہ صبح کو بھوکے نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس ہوتے ہیں۔'' (ترمذی)
البتہ یہ رب تعالیٰ کا نظام ہے کہ وہ کسی کو کشادگی تو کسی کو تنگی عطا فرماتا ہے تاکہ معاشرہ میں اعتدال رہے اور انسان ایک دوسرے سے مربوط رہے۔ اگر سب ہی مال دار ہوں تو پھر مختلف خدمات کے انسائی وسائل ناپید ہوجائیں۔ اسی طرح اگر سبھی تنگ دست ہوں تو ذرائع روزگار مفقود ہوجائیں۔ دنیا کا نظام اسی طرح چلتا رہتا ہے کہ کسی کو متمول تو کسی کو زیردست رکھا گیا ہے تاکہ ایک دوسرے کی ضروریات بھی پور ی ہوتی رہیں اور کوئی کسی سے لاتعلق بھی نہ رہے کہ کسی کی نظر میں دوسرے کی اہمیت ہی نہ رہے۔
اﷲ تعالیٰ نے اس تقسیم کو یوں بیان فرمایا ہے، مفہوم: ''ہم نے لوگوں کی روزیوں کو دنیا کی زندگی میں تقسیم کر دیا ہے ۔ کسی کو درجے میں اونچا کر دیا ہے کسی کو ا س سے کم۔'' (سورۃ الزخرف)
ایک مقام پر اس طرح بیان فرمایا۔ مفہوم: ''اﷲ تعالیٰ جس کی روزی کو کشادہ کرنا چاہتا ہے، کشادہ کر دیتا ہے اور جس کی روزی کم کرنا چاہتا ہے، کم کر دیتا ہے۔'' (سورۃ الرعد)
معلوم ہوا کہ روزی کی تنگی و کشادگی میں اﷲ تعالیٰ کی حکمت پوشیدہ ہے اس طرح دونوں کی آزمائش ہو جاتی ہے کہ وہ کتنے شکر گزار اور ثابت قدم رہتے ہیں۔ اس لیے ہر شخص کو اپنی حالت اور ہمت کے مطابق روزی تلاش کرنے میں جدوجہد کرنا ضروری ہے۔ قرآن مجید میں محنت و جدوجہد کی ترغیب اس طرح دلائی گئی ہے۔
مفہوم: ''انسان کو جو کچھ ملتا ہے وہ اس کی سعی و کوشش سے ملتا ہے۔'' (سورۃ النجم) اسی طرح دوسرے مقام پر یوں فرمایا، مفہوم: ''وہ اﷲ جس نے تمہارے لیے زمین کو مسخّر کر دیا کہ تم اس کے راستوں میں چلو اور اس کی دی ہوئی روزی میں سے کھاؤ اور اسی کے پاس مرنے کے بعد زندہ ہو کر جانا ہے۔'' (سورۃ الملک)
معلوم ہوا کہ مقدر کی روزی حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرنا ضروری ہے اور اس کے حصول میں حلال و پاکیزہ ذرائع اختیار کرنا فرض ہے۔ کسب حلال میں بڑی بزرگی و برکت ہے اور اس میں دین و دنیا کی سعادت پوشیدہ ہے۔ حلال کمائی کرنے والا لوگوں کی نظروں میں بھی محبوب ہوتا ہے اور اﷲ کے ہاں بلندی درجات کا حامل گردانا جاتا ہے اور وہ اسے اپنا محبوب بنا لیتا ہے اور وہ جو عبادت کرتا اسے قبول فرما لیتا ہے جب کہ حرام کھانے والے کی کوئی عبادت قبول نہیں کی جاتی۔
رحمت عالمؐ کے فرمان کا مفہوم ہے: ''حلال روزی کا طلب کرنا ضروری ہے۔ اﷲ تعالیٰ کے فرض کے بعد۔'' (بیہقی) یعنی اﷲ تعالیٰ کے دیگر فرائض مثلاً نماز روزہ حج زکوٰۃ کی ادائی کے بعد کسب حلال کی بھی جستجو کرنا بہت ضروری ہے۔ اس لیے کہ تمام عبادات کی قبولیت کا دار و مدار اسی پر ہے۔ امام کائناتؐ کے فرمان عالی شان کا مفہوم ہے: ''یقینا اﷲ پاک ہے اور پاک ہی کو قبول فرماتا ہے۔''
دعاؤں اور عبادتوں کی مقبولیت بھی کسب حلال سے مشروط ہے۔ رحمۃ للعالمینؐ کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے: ''جس نے پاکیزہ کمائی کھائی اور سنّت کے مطابق کام کیا اور لوگوں کو اپنی ایذا رسانی سے امن میں رکھا وہ جنّت میں داخل ہوگا۔'' (ترمذی)