گلگت بلتستان کے کالے اور سفید گلیشیئرز
ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی کے باعث یہ گلیشیئرز تیزی کے ساتھ پگھل رہے ہیں
گلگت بلتستان دنیا میں ایسا خطہ ہے جہاں کے رہنے والوں کی مخصوص رہن سہن، زبان، رسم و رواج اور جغرافیائی طور پر سنگلاخ پہاڑی سلسلے، گلیشیءرز، دریا، سرسبز وادیاں اور تاریخی و دفاعی اعتبار سے دنیا میں منفرد مقام رکھتے ہیں۔ گلگت بلتستان دنیا میں جغرافیائی اور سیاحتی اعتبار سے اس لیے مختلف ہے کہ یہاں پر پاکستان و دنیا کے تین عظیم پہاڑی سلسلے ہمالیہ، ہندوکش اور قراقرم آپس میں مل رہے ہیں۔ اور ان تین پہاڑی سلسلوں میں موجود دلکش گلیشیئرز کا وجود ہے۔ کوہ قراقرم کے گلیشیئرز گلگت بلتستان کی خوبصورتی، انسانی ضرورت اور سیاحت کےلیے اہم اور اکثر انسانی وجود کےلیے خطرہ بھی ہیں۔
کوہ قراقرم دنیا کے بڑے پہاڑی سلسلوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ پہاڑی سلسلہ پاکستان، چین اور ہندوستان کے سرحدی علاقوں میں واقع ہے۔ قراقرم کے معنی کالی بھربھری مٹی یا پتھر ہے۔ قراقرم میں سب سے اونچی چوٹی کے ٹو ہے۔ اس کی بلندی دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ ماہرین کے مطابق قراقرم پہاڑی سلسلہ کم عمر، گنجان اور مشکل ترین پہاڑی سلسلہ ہے۔ قراقرم رینج کی لمبائی 500 کلومیٹر یعنی 3000 میٹر ہے۔ اس سلسلہ قراقرم میں 180 سے زیادہ چوٹیوں کی بلندی 7000 میٹر سے زائد ہے۔ جن میں سے 148 کے قریب پاکستان میں اور باقی ہندوستان اور چین میں ہیں۔
دریائے سندھ اسی قراقرم رینج کے گلیشیئرز سے نکل کر پاکستان کو سیراب کرتا ہے۔ قراقرم کے اس پہاڑی سلسلے میں بڑے بڑے گلیشیئرز ہیں، جن میں بٹورا گلیشیئر پھسو گوجال ہنزہ میں، سیاچن گلیشیئر، بلتورو گلیشیئر، اور بیافو گلیشیئر بلتستان میں اور ہسپر گلیشیئر نگر میں واقع ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں میں دنیا کا تیسرا بڑا برفانی ذخیرہ موجود ہے۔ جس سے تقریباً دو ارب انسانوں کو پانی فراہم ہوتا ہے۔
گلگت بلتستان کے گلیشیئرز پر کی گئی ریسرچ کے مطابق یہاں پر 5218 گلیشیئرز اور 2415 گلیشیائی جھیلیں موجود ہیں۔ جن میں سے 52 جھیلوں کو انسانی آبادی کےلیے خطرناک قرار دیا گیا ہے۔ یہ گلیشیائی جھیلیں گلگت بلتستان میں ہنزہ، گوجال، استور، شگر، شکیوٹ، اشکومن، یاسین اور گوپس میں موجود ہیں۔
تحقیقی ادارے بنیادی طور پر گلیشیئرز کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں، یعنی ان کی تین اقسام ہیں۔ پہلا تختہ یخ Ice Sheet، دوسرا کلاہ یخ Ice Caps، اور تیسرا براعظمی تختہ یخ Continental Ice Sheet ہے۔
ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں گلیشیئرز کے حوالے سے نر اور مادہ کا تصور ہے۔ یہ ایک پرانی داستان ہے کہ کالے گلیشیئر نر اور سفید گلیشیئرز مادہ ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق یہ کالے اور سفید گلیشیئرز سات سال آگے کی طرف حرکت کرتے ہیں اور سات سال پیچھے کی طرف۔ جب یہ سات سال آگے کی طرف حرکت کر رہے ہوتے ہیں تو ایک مقام پر آکر آپس میں مل جاتے ہیں۔ مقامی افراد کے مطابق ان کا آپس میں ملنا نر اور مادہ کی نشانی ہے۔ پھر یہ پیچھے کی طرف حرکت کرنا شروع کرتے ہیں۔ ہنزہ کے سب ڈویژن گوجال میں اب بھی ایسے کالے اور سفید گلیشیئرز موجود ہیں جو سات سال آگے اور سات سال پیچھے کی طرف حرکت کررہے ہیں۔
گلیشیئرز مختلف مراحل سے گزر کر بنتے ہیں۔ جب موسم سرما میں خوب برف باری ہوکر جم جاتی ہے تو پھر گرمیوں میں یہ پگھلنا شروع ہوتے ہیں۔ اسی دوران بعض ایسی ٹھنڈی جگہ جہاں تمام سال درجہ حرارت منفی رہتا ہے وہاں یہ برف مزید جم کر سخت ہوتا ہے۔ ہر سال یہ برف تہہ در تہہ جمتا رہتا ہے اور اس کا حجم بڑھتا جاتا ہے۔ جب سالہا سال جمنے والی برف کی تہہ بڑھتی جاتی ہے تو اس کا نچلا حصہ زمین کی گرمی کے باعث نرم ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے یہ سرکنا شروع کرتا ہے، اسے گلیشیئر کا سرکنا کہتے ہیں۔ گلیشیئر جسامت میں جتنا بڑا ہوگا اس کی رفتار اتنی سست ہوگی اور جسامت میں چھوٹے گلیشیئر کا سرکنا تیز ہوگا۔
ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی کے باعث یہ گلیشیئرز تیزی کے ساتھ پگھل رہے ہیں۔ گلوبل وارمنگ کے باعث درجہ حرارت میں آنے والی تبدیلیوں سے گلگت بلتستان میں خطرناک حد تک حالات تبدیل ہوئے ہیں۔ جس میں لینڈ سلائیڈنگ، دریائی کٹاؤ، بارش اور برفباری کا زیادہ ہونا، زلزلہ، سیلاب شامل ہے۔ پچھلے کچھ سال سے گلگت بلتستان کے لوگ ان قدرتی آفات کے خوف میں زندگی گزار رہے ہیں۔
سی پیک منصوبہ بھی گلگت بلتستان ہی سے گزر رہا ہے۔ جب سی پیک کے تحت آنے والے وقتوں میں روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں گاڑیاں یہاں سے گزریں گی تو منفی اثرات ان گلیشیئرز پر بھی پڑیں گے۔ اسی لیے ضروری ہے کہ سی پیک کے تحت ماحولیات کےلیے بھی کام کرنے پر ابھی سے توجہ مرکوز کی جائے۔ اس سی پیک پروجیکٹ کے تحت گلگت بلتستان میں موجود بنجر زمینوں کو پانی کی سہولت پہنچا کر شجرکاری کی جاسکتی ہے۔
کورونا وائرس کے باعث جب پوری دنیا میں کارخانے اور دوسرے معاملات زندگی بند ہوئے تو ماہرین کے مطابق ماحولیاتی آلودگی کسی حد تک کم ہوئی ہے اور خاص کر اوزون سطح پر اس کا مثبت اثر پڑا ہے۔
بی بی سی کے مطابق ماہرین موسمیات نے خبردار کیا ہے کہ پاکستانی گلیشیئرز پگھل کر اس صدی کے وسط تک مکمل طور پر ختم ہوجائیں گے۔ جس سے پاکستان میں پانی کی شدید قلت پیدا ہوجائے گی۔ لیکن ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں کے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان میں گلیشیئرز کم ہونے کے بجائے بڑھ رہے ہیں۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت پاکستان گلگت بلتستان کے لوگوں میں شعور و آگاہی، قدرتی آفات سے بچاؤ، شجر کاری، ماحول دوست منصوبے اور محفوظ مقامات کی نشاندہی کےلیے ہنگامی بنیادوں پر کام کا آغاز کرے۔ کیونکہ پاکستان کی بقا گلگت بلتستان میں موجود ان گلیشیئرز میں ہے۔ اگر یہ گلیشیئرز تیزی کے ساتھ پگھل گئے تو پاکستان کا وجود خطرے میں ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کوہ قراقرم دنیا کے بڑے پہاڑی سلسلوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ پہاڑی سلسلہ پاکستان، چین اور ہندوستان کے سرحدی علاقوں میں واقع ہے۔ قراقرم کے معنی کالی بھربھری مٹی یا پتھر ہے۔ قراقرم میں سب سے اونچی چوٹی کے ٹو ہے۔ اس کی بلندی دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ ماہرین کے مطابق قراقرم پہاڑی سلسلہ کم عمر، گنجان اور مشکل ترین پہاڑی سلسلہ ہے۔ قراقرم رینج کی لمبائی 500 کلومیٹر یعنی 3000 میٹر ہے۔ اس سلسلہ قراقرم میں 180 سے زیادہ چوٹیوں کی بلندی 7000 میٹر سے زائد ہے۔ جن میں سے 148 کے قریب پاکستان میں اور باقی ہندوستان اور چین میں ہیں۔
دریائے سندھ اسی قراقرم رینج کے گلیشیئرز سے نکل کر پاکستان کو سیراب کرتا ہے۔ قراقرم کے اس پہاڑی سلسلے میں بڑے بڑے گلیشیئرز ہیں، جن میں بٹورا گلیشیئر پھسو گوجال ہنزہ میں، سیاچن گلیشیئر، بلتورو گلیشیئر، اور بیافو گلیشیئر بلتستان میں اور ہسپر گلیشیئر نگر میں واقع ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں میں دنیا کا تیسرا بڑا برفانی ذخیرہ موجود ہے۔ جس سے تقریباً دو ارب انسانوں کو پانی فراہم ہوتا ہے۔
گلگت بلتستان کے گلیشیئرز پر کی گئی ریسرچ کے مطابق یہاں پر 5218 گلیشیئرز اور 2415 گلیشیائی جھیلیں موجود ہیں۔ جن میں سے 52 جھیلوں کو انسانی آبادی کےلیے خطرناک قرار دیا گیا ہے۔ یہ گلیشیائی جھیلیں گلگت بلتستان میں ہنزہ، گوجال، استور، شگر، شکیوٹ، اشکومن، یاسین اور گوپس میں موجود ہیں۔
تحقیقی ادارے بنیادی طور پر گلیشیئرز کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں، یعنی ان کی تین اقسام ہیں۔ پہلا تختہ یخ Ice Sheet، دوسرا کلاہ یخ Ice Caps، اور تیسرا براعظمی تختہ یخ Continental Ice Sheet ہے۔
ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں گلیشیئرز کے حوالے سے نر اور مادہ کا تصور ہے۔ یہ ایک پرانی داستان ہے کہ کالے گلیشیئر نر اور سفید گلیشیئرز مادہ ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق یہ کالے اور سفید گلیشیئرز سات سال آگے کی طرف حرکت کرتے ہیں اور سات سال پیچھے کی طرف۔ جب یہ سات سال آگے کی طرف حرکت کر رہے ہوتے ہیں تو ایک مقام پر آکر آپس میں مل جاتے ہیں۔ مقامی افراد کے مطابق ان کا آپس میں ملنا نر اور مادہ کی نشانی ہے۔ پھر یہ پیچھے کی طرف حرکت کرنا شروع کرتے ہیں۔ ہنزہ کے سب ڈویژن گوجال میں اب بھی ایسے کالے اور سفید گلیشیئرز موجود ہیں جو سات سال آگے اور سات سال پیچھے کی طرف حرکت کررہے ہیں۔
گلیشیئرز مختلف مراحل سے گزر کر بنتے ہیں۔ جب موسم سرما میں خوب برف باری ہوکر جم جاتی ہے تو پھر گرمیوں میں یہ پگھلنا شروع ہوتے ہیں۔ اسی دوران بعض ایسی ٹھنڈی جگہ جہاں تمام سال درجہ حرارت منفی رہتا ہے وہاں یہ برف مزید جم کر سخت ہوتا ہے۔ ہر سال یہ برف تہہ در تہہ جمتا رہتا ہے اور اس کا حجم بڑھتا جاتا ہے۔ جب سالہا سال جمنے والی برف کی تہہ بڑھتی جاتی ہے تو اس کا نچلا حصہ زمین کی گرمی کے باعث نرم ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے یہ سرکنا شروع کرتا ہے، اسے گلیشیئر کا سرکنا کہتے ہیں۔ گلیشیئر جسامت میں جتنا بڑا ہوگا اس کی رفتار اتنی سست ہوگی اور جسامت میں چھوٹے گلیشیئر کا سرکنا تیز ہوگا۔
ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی کے باعث یہ گلیشیئرز تیزی کے ساتھ پگھل رہے ہیں۔ گلوبل وارمنگ کے باعث درجہ حرارت میں آنے والی تبدیلیوں سے گلگت بلتستان میں خطرناک حد تک حالات تبدیل ہوئے ہیں۔ جس میں لینڈ سلائیڈنگ، دریائی کٹاؤ، بارش اور برفباری کا زیادہ ہونا، زلزلہ، سیلاب شامل ہے۔ پچھلے کچھ سال سے گلگت بلتستان کے لوگ ان قدرتی آفات کے خوف میں زندگی گزار رہے ہیں۔
سی پیک منصوبہ بھی گلگت بلتستان ہی سے گزر رہا ہے۔ جب سی پیک کے تحت آنے والے وقتوں میں روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں گاڑیاں یہاں سے گزریں گی تو منفی اثرات ان گلیشیئرز پر بھی پڑیں گے۔ اسی لیے ضروری ہے کہ سی پیک کے تحت ماحولیات کےلیے بھی کام کرنے پر ابھی سے توجہ مرکوز کی جائے۔ اس سی پیک پروجیکٹ کے تحت گلگت بلتستان میں موجود بنجر زمینوں کو پانی کی سہولت پہنچا کر شجرکاری کی جاسکتی ہے۔
کورونا وائرس کے باعث جب پوری دنیا میں کارخانے اور دوسرے معاملات زندگی بند ہوئے تو ماہرین کے مطابق ماحولیاتی آلودگی کسی حد تک کم ہوئی ہے اور خاص کر اوزون سطح پر اس کا مثبت اثر پڑا ہے۔
بی بی سی کے مطابق ماہرین موسمیات نے خبردار کیا ہے کہ پاکستانی گلیشیئرز پگھل کر اس صدی کے وسط تک مکمل طور پر ختم ہوجائیں گے۔ جس سے پاکستان میں پانی کی شدید قلت پیدا ہوجائے گی۔ لیکن ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں کے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان میں گلیشیئرز کم ہونے کے بجائے بڑھ رہے ہیں۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت پاکستان گلگت بلتستان کے لوگوں میں شعور و آگاہی، قدرتی آفات سے بچاؤ، شجر کاری، ماحول دوست منصوبے اور محفوظ مقامات کی نشاندہی کےلیے ہنگامی بنیادوں پر کام کا آغاز کرے۔ کیونکہ پاکستان کی بقا گلگت بلتستان میں موجود ان گلیشیئرز میں ہے۔ اگر یہ گلیشیئرز تیزی کے ساتھ پگھل گئے تو پاکستان کا وجود خطرے میں ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔