ادویہ کے خام مال کی کلیئرنس میں تاخیر فارماسیوٹیکل سیکٹر کو مشکلات
دواؤں کی قلت ہوگئی، خام مال کی کلیئرنس میں 3 سے 4 ماہ کا عرصہ لگ جاتا ہے، عائشہ حق
فارما سیوٹیکل سیکٹر کو جان بچانے والی ادویات کے بھارت سے درآمدکردہ خام مال کی کلیئرنس میں بیوروکریسی کی رکاوٹوں کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے خام مال کی کلیئرنس میں 3 سے 4 ماہ کا عرصہ لگ جاتا ہے۔
ذرائع کے مطابق اسلام آباد اور نئی دلی کے دریان تجارتی روابط معطل ہوئے ایک سال سے زائد کا عرصہ گزرچکا ہے جس کی وجہ سے فارما سیوٹیکل سیکٹر کو سرطان، تپ دق( ٹی بی) اور سانپ کے کاٹے کی ادویہ کے خام مال کی قلت کا سامنا ہے۔
گزشتہ روز صحافیوں کے گروپ سے آن لائن گفتگو کرتے ہوئے فارما بیورو کی ایگزیکٹیو ڈائرکٹر عائشہ ٹیمی حق نے کہا کہ موجودہ تناؤ سے پُر حالات کے باوجود پاکستان بھارت سے ادویہ کے لیے خام مال درآمد کررہا ہے۔ تاہم ملکی بندرگاہوں پر خام مال کی کلیئرنس میں 3 سے 4 ماہ کا عرصہ لگ جاتاہے جس کی وجہ سے مارکیٹ میں متذکرہ بالا امراض کی ادویہ کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بندرگاہ کے حکام دیگر ممالک سے درآمد کردہ خام مال اگلے ہی روز کلیئر کردیتے ہیں اسی طرح انھیں بھارت سے درآمدکردہ اجزا بھی کلیئر کرنے چاہیئں۔ غیرمعمولی تاخیر ہونے کی وجہ سے درآمدکردہ خام مال متعلہ عملے کی لاپرواہی کی وجہ سے متعدد بار گُم ہوچکا ہے جسے فارماسیوٹیکل کمپنیوں کو بھارت سے دوبارہ منگوانا پڑا ہے۔ اس خام مال کی شیلف لائف محدود ہوتی ہے اور کلیئرنس میں تاخیر کی وجہ سے ان کے کارآمد رہنے کا عرصہ مختصر ہوجاتا ہے۔
عائشہ حق کا کہنا تھا کہ ٹی بی اور سانپ کے کاٹے کی دوا کے خام اجزا صرف بھارت تیار کرتا ہے اس لیے فارماسیوٹیکل انڈسٹری کے پاس بھارت سے اس کی درآمد کے سوا کوئی آپشن نہیں۔ کینسر کی ادویہ کا خام مال دیگر ممالک سے درآمد کیا جاسکتا ہے مگر اس سے لاگت ایک ہزار گنا بڑھ جائے گی۔ واضح رہے پاکستان میں 700 فارماسیوٹیکل کمپنیاں 7000دوائیں تیار اور مارکیٹ کررہی ہیں۔
ذرائع کے مطابق اسلام آباد اور نئی دلی کے دریان تجارتی روابط معطل ہوئے ایک سال سے زائد کا عرصہ گزرچکا ہے جس کی وجہ سے فارما سیوٹیکل سیکٹر کو سرطان، تپ دق( ٹی بی) اور سانپ کے کاٹے کی ادویہ کے خام مال کی قلت کا سامنا ہے۔
گزشتہ روز صحافیوں کے گروپ سے آن لائن گفتگو کرتے ہوئے فارما بیورو کی ایگزیکٹیو ڈائرکٹر عائشہ ٹیمی حق نے کہا کہ موجودہ تناؤ سے پُر حالات کے باوجود پاکستان بھارت سے ادویہ کے لیے خام مال درآمد کررہا ہے۔ تاہم ملکی بندرگاہوں پر خام مال کی کلیئرنس میں 3 سے 4 ماہ کا عرصہ لگ جاتاہے جس کی وجہ سے مارکیٹ میں متذکرہ بالا امراض کی ادویہ کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بندرگاہ کے حکام دیگر ممالک سے درآمد کردہ خام مال اگلے ہی روز کلیئر کردیتے ہیں اسی طرح انھیں بھارت سے درآمدکردہ اجزا بھی کلیئر کرنے چاہیئں۔ غیرمعمولی تاخیر ہونے کی وجہ سے درآمدکردہ خام مال متعلہ عملے کی لاپرواہی کی وجہ سے متعدد بار گُم ہوچکا ہے جسے فارماسیوٹیکل کمپنیوں کو بھارت سے دوبارہ منگوانا پڑا ہے۔ اس خام مال کی شیلف لائف محدود ہوتی ہے اور کلیئرنس میں تاخیر کی وجہ سے ان کے کارآمد رہنے کا عرصہ مختصر ہوجاتا ہے۔
عائشہ حق کا کہنا تھا کہ ٹی بی اور سانپ کے کاٹے کی دوا کے خام اجزا صرف بھارت تیار کرتا ہے اس لیے فارماسیوٹیکل انڈسٹری کے پاس بھارت سے اس کی درآمد کے سوا کوئی آپشن نہیں۔ کینسر کی ادویہ کا خام مال دیگر ممالک سے درآمد کیا جاسکتا ہے مگر اس سے لاگت ایک ہزار گنا بڑھ جائے گی۔ واضح رہے پاکستان میں 700 فارماسیوٹیکل کمپنیاں 7000دوائیں تیار اور مارکیٹ کررہی ہیں۔