SOPs پر عمل نہ ہونے کی کہانی ۔۔

کم سطح پر موجود اس وبا پر معاشرے یا کم از کم اسکولوں میں تو باآسانی قابو پایا جاسکتا ہے۔



دنیا بھر میں کورونا کی وبا کے باعث سال 2020 رواں صدی کے کیلینڈر پر ہمیشہ سرخ نشان کے ساتھ تاریخی ریکارڈ میں محفوظ رہے گا ۔ اس وبا نے تقریباً پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھا ہے۔

ایک طرف کچھ ممالک میں لاکھوں لوگ اپنی زندگیاں ہار گئے تو دوسری طرف اکثر ممالک کو اس وبا نے موذی مرض کے ساتھ ساتھ ایک بڑے معاشی بحران میں مبتلا کردیا ۔ خوش قسمتی سے یہ وبا ہمارے ملک پاکستان میں کم پھیلی۔ یہ ہماری حکومت یا ہماری عوام کی کاوشوں کے باعث نہیں بلکہ یہ سب قدرت کی مہربانیوں کے باعث ہوا ۔

عالمی ادارہ صحت کے یومیہ جاری ہونیوالے اعداد و شمار کے مطابق ہمارا ملک کورونا سے متاثر شدہ دنیا کے ان ممالک میں سے ایک ہے ، جہاں اب بھی وائرس کے مریضوں کی تعداد ہر آنیوالے دن کم ہونے کے بجائے بڑھ رہی ہے ۔پھر سرکاری و میڈیائی اطلاعات بھی یہی ہیں کہ پاکستان میں کورونا وائرس میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے ۔ جس سے عوام میں یہ تشویش پیدا ہوگئی ہے کہ کہیں یہ کورونا وائرس کی ملک میں دوسری لہر تو نہیں ہے ؟

دنیا میں کئی ممالک نے کورونا کی ویکسین ایجاد کرنے کا دعویٰ کیا ہے ، جوکہ آزمائشی مراحل سے گذر رہی ہیں ۔ ایسی ہی ایک ویکسین جو کہ چین نے تیار کی ہے ، وہ پاکستان میں انسانوں پر آزمائش کے تیسرے مرحلے میں جاری ہے ۔ اگر یہ ویکسین تیار ہوجاتی ہے تو یہ دنیا بھر بالخصوص پاکستان میں کورونا کے علاج میں اہم سنگ میل ثابت ہوگی۔ لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین نے اپنی ویکسین کا آزمائشی مرحلہ اپنے ملک کے بجائے ہمارے ملک میں کیوں شروع کر رکھا ہے ؟

پھر ہماری حکومت اپنے لوگوںکی زندگیاں خطرے میں ڈالنے کی اجازت کس طرح دے سکتی ہے ؟ جہاں تک عوام کی فکر کی بات ہے تو ملک میں آٹے اور چینی کی قیمتوں میں گردن توڑ اضافے سمیت مہنگائی کے طوفان کے باوجود اسی ہفتے جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں 300%اضافہ کرنے والی حکومت کی جانب سے عوام کی فکر والی بات مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہے۔ اصل کہانی تو شاید کچھ اور ہی ہے ۔

دیکھا جائے تو دنیا بھر میں اس وائرس سے بچاؤ کا واحد حل احتیاطی تدابیر کو قرار دیکر اُس پر 100% عمل کیا گیا ، جس سے وہ ممالک جو اس ہولناک وبا سے بری طرح متاثر تھے ، وہ بھی اب محفوظ ممالک کی فہرست میں شامل ہوچکے ہیں ۔ لیکن اُس کے لیے انھوں نے سخت قسم کی SOPsتیار کرکے اُن پر بھرپور طریقے سے عمل کیا ہے ۔

ہمارے یہاں تو یہ صورتحال ہے کہ عوام تو چھوڑیں خواص کی بھی ایک بڑی تعداد نے وبائی بھیانک صورتحال ، وبا کے خوف اورسخت ترین لاک ڈاؤن کے دوران بھی ماسک پہننے ، سماجی فاصلہ رکھنے اور سینی ٹائیزر کے استعمال جیسی احتیاطی تدابیر پر درست نمونے عمل نہیں کیا بلکہ اس وبائی وائرس کے موجود ہونے سے ہی انکاری رہی ۔پھر اس ملک میں کنفیوژن اتنی ہے کہ وفاقی وزیر صحت مڈل اسکول کھولنے کے لیے وزیر اعظم کے مشیر برائے تعلیم کے ساتھ میڈیا پر لائیو آکر اعلان کرتے نظر آتے ہیں تو عین اُسی وقت ملک کے ایک صوبہ (صوبہ سندھ) کا محکمہ تعلیم اس فیصلے کے برخلاف 23تاریخ کے بجائے 28تاریخ کو مڈل اسکول کھولنے کا فیصلہ کرتے نظر آتاہے۔ جب کہ پرائمری اسکولز کھولنے پر بھی دونوں حکومتیں ایک پیج پر نہیں ہیں ۔

وفاقی حکومت 28ستمبر سے پرائمری اسکولز کھولنے کا فیصلہ کرچکی ہے تو سندھ کی صوبائی وزیر صحت پرائمری اسکولز کوکم از کم ایک ڈیڑھ ماہ کے بعد کھولنے کا مشورہ دے رہی ہیں۔ جس پر سندھ حکومت کی جانب سے 28ستمبر کو فیصلہ کرنے کا اعلان بھی سامنے آیا ہے ۔ پھر ملک میں وہی سرکاری سطح کے کنفیوژن کا کھیل اب بھی جاری ہے ۔ وفاقی حکومت تین صوبوں میں مڈل اسکول 23ستمبر سے کھول چکی ہے لیکن سندھ حکومت نے صوبہ بھر میں 28ستمبر سے کھولنے کا عندیہ دیا ہے ۔جب کہ پرائمری پر بھی یہی رسہ کشی جاری ہے ۔ ایسی Confusedصورتحال میں کیسی SOPs ، کون ان SOPsپر عمل کریگا اور کون عمل کروائے گا؟

دنیا میں تقریباً ایک سال گردش کرنے والے کورونا وائرس کو لے کر ملک میں اب تک متضاد Theoriesسرگرداں ہیں ، لوگوں کا ایک بڑا طبقہ اب بھی کورونا کو محض توہم پرستی گردانتا ہے ۔ جب کہ ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو کورونا کی موجودگی پر یقین تو رکھتا ہے مگر احتیاطی تدابیر پر مبنی SOPsپر مکمل عمل نہیں کرتے یا پھر شاید SOPsپر عملدرآمد اُن کے بس میں نہیں ہے ۔ کیونکہ ہماری آبادی کے 40%لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں تو 30% آبادی کو زندگی کی ضروری بنیادی سہولیات ہی میسر نہیں۔

اسکولوں کی عمارتیں ٹوٹی ہوئی ہیں ، بیٹھنے کے لیے ڈیسکوں کی پہلے ہی کمی ہے ، جو 73سال میں بھی پوری نہیں ہوسکی ہے ۔ جب لوگوں کو پیٹ بھر کھانا میسر نہ ہو اور صاف پانی و صحت عامہ کی عام سہولیات ہی نہ رکھتے ہوں ، تو ایسے میں وہ کیسے احتیاط کے طور پر لاگو ہونے والی SOPs پر عمل کر پائیں گے ؟ یہی وجہ ہے کہ ملک میں SOPsکو سنجیدہ ہی نہیں لیا گیا ۔ SOPsپر عمل نہ ہونے کی وجوہات میں حکومت کی جانب سے پیدا کیے گئے کنفیوژن اور عوام کی لاپرواہی کے علاوہ عوام کی اکثریت کی مالی پوزیشن مستحکم نہ ہونا شامل ہیں ۔

یومیہ20روپے کا ماسک، ٹرانسپورٹ میں سماجی فاصلہ رکھنے سے گاڑی میں گنجائش سے کم بچوں کی صورت میں کرایہ کا اضافی خرچ کے ساتھ ساتھ سینی ٹائیزر اور ٹشو کا خرچ وغیرہ جیسے کئی ایسے اُمور ہیں ، جس کے اخراجات کچھ صاحب ِ ثروت لوگوں کے سوا نصف سے زیادہ بچوں کے والدین کے لیے ناقابل برداشت ہیں ۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ جہاں بچوں کو یونیفارم اور شوز مکمل طور پر میسر نہ ہوں ، جہاں ہاتھ دھونے کے لے پانی موجود نہ ہو ، وہاں سینی ٹائیزر اور ماسک جیسی اشیاء کا استعمال غربت کے مارے ان بچوں اور مفلسی کے شکار والدین کی تضحیک اُڑانے کے برابر نہ ہوگا؟

اس وبا سے حال کے بدترین معاشی بحران کے بعد سب سے بڑا نقصان مستقبل کے معماروں کی تعلیم کا ہوا ہے۔ 28فروری سے مسلسل 6ماہ تک اسکول بند رہے ۔ اس دوران آن لائن کلاسز کے اعلانات کیے گئے ۔ جوکہ معاشرے میں انسٹرومینٹل و ٹیکنالوجی سے ناشناسائی ، بڑے پیمانے پر غربت کے ہونے ، لوگوں کی استطاعت نہ ہونے اور بجلی وانٹر نیٹ کی عدم روانی جیسے مسائل کے باعث اُس آن لائن والے طریقے سے بھی طالب علموں کو کوئی خاص فائدہ نہ ہوسکا۔

پھرگذشتہ دو ماہ سے کورونا میں کمی کے باعثSOPsکے تحت مرحلہ وار اسکول کھولنے کے اعلانات تو کیے گئے اور پہلے مرحلے پر نویں ، دسویں ، گیارہویں ، بارہویں کے ساتھ ساتھ یونیورسٹیز کی سطح تک تعلیمی ادارے کھول بھی دیے گئے لیکن کھلنے والے تعلیمی اداروں کی ایک طرف تدریسی صورتحال نفع بخش نہیں ہے تو دوسری طرف SOPsپر عمل نہ ہونے کی شکایات کا بھی کافی شور برپا رہا ہے ۔ جس کے تحت ملک بھر میں کورونا بڑھنے کی وجہ سے اسکول انتظامیاؤں کواپنے کئی تعلیمی اداروں کو دوبارہ بند کرنا پڑا تو کئی اسکولوں کو سرکار نے SOPsکی خلاف ورزی پر سیل کردیا ۔کیونکہ کہا یہ جارہا ہے کہ SOPsکو نظر انداز کرنے کے باعث کورونا وائرس کے کیسز میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے ۔

ہم سمجھتے ہیں کہ کم سطح پر موجود اس وبا پر معاشرے یا کم از کم اسکولوں میں تو باآسانی قابو پایا جاسکتا ہے اور SOPsپر عمل بھی ہوسکتا ہے لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب سرکاری سطح پر اس کی ذمے داری وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ تمام صوبائی حکومتیں ہم آہنگی اور نیک نیتی سے ادا کرتے ہوئے SOPsپر عمل کی مد میں آنیوالے اخراجات اپنے ذمے لے لیں ۔ کیونکہ عوام کی جان اور مال کی حفاظت ریاست کا اولین فرض بنتا ہے، اوریہ تو روز ِ روشن کی طرح سب پر واضح ہے کہ کورونا کی اس وبا سے عوام کی جان و مال اس وقت غیر محفوظ ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔