سکّے ثقافت کی ترویج کا بہترین وسیلہ ثابت ہوسکتے ہیں خلیل نجمی
بچپن کی حسین یادیں کتابوں سے وابستہ ہیں، اسکول جانے سے قبل اسکیچ بک سے دوستی ہوگئی، خلیل نجمی
میڈیلین پورٹریٹ آرٹسٹ، خلیل نجمی کی کہانی۔ فوٹو : فائل
WASHINGTON:
یہ ایک مجسمہ ساز کا قصّہ ہے، جو اوزاروں سے لکڑی تراشتا ہے، اُس پر چہرے ڈھالتا ہے۔ اِس مہارت سے کہ دیکھنے والا حیران رہ جائے!
دیوار گیر مجسمے یعنی Bas-reliefs خلیل نجمی کا اصل میدان ہیں۔ Bas-relief سے مراد ہے پتھر، لکڑی یا کسی اور دھات پر کندہ کردہ ایسا نقش، جو اپنی اساس سے ابھرا ہوا ہو۔ اِس کی ایک بڑی مثال ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکے سکّے ہیں۔ سکّے ہی آج خلیل نجمی کی توجہ کا مرکز ہیں۔ مختلف جہتوں پر کام کر رہے ہیں۔ اُن کے نزدیک سکّے ثقافت کی ترویج کا بہترین وسیلہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ محسنین پاکستان کو خراج تحسین پیش کرنے کا بھی موثر ذریعہ ہیں یہ۔ خواہش مند ہیں کہ وقتاً فوقتاً سکّوں کی سیریز جاری کی جائے، جو نئی نسل کو ہماری تاریخ اور ثقافت کے قریب لانے میں معاون ہو۔
یوں تو تمام دھاتوں پر کام کیا، مگر لکڑی من پسند ''میڈیم'' ہے۔ خلیل صاحب کے مجسموں میں دیکھنے والے کو گہرائی کا احساس ہوتا ہے۔ لگتا ہے کہ کندہ کردہ حصہ خاصا دبیز ہے، مگر مجسمے کو قریب سے دیکھنے پر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ قطعی دبیز نہیں، یہ تو اُن کا جادوئی فن ہے، جو نقش کو زندہ کردیتا ہے۔ قائد اعظم، کنگ عبداﷲ، پرنس آغا خان، محترمہ بے نظیر بھٹو اور جہانگیر خان سمیت کئی شخصیات کو دیوار گیر مجسموں پر ڈھال چکے ہیں۔ ایک بینک کے 3 dimensional ''لوگو'' پر بھی کام کیا۔ اُن کے فن کی ایک خوبی اور ہے۔ ان کے مجسمے میڈیلین پورٹریٹ کے طور پر بھی کام کرسکتے ہیں۔ یعنی اُن سے سکّوں اور تمغوں کی ''ڈائی'' تیار ہوسکتی ہے۔ کہتے ہیں،''تمغوں اور سکّوں کی 'ڈائی' تیار کرنے کے لیے جو میڈیلین پورٹریٹ درکار ہوتے ہیں، اُن کا finishing standard بہت بلند ہوتا ہے۔ تو میرے relief میں finishing اِس سطح کی ہوتی ہے کہ وہ براہ راست سکّوں کی تیاری میں استعمال ہوسکتے ہیں۔''
ڈبنگ آرٹسٹ کے طور پر بھی اُنھوں نے کام کیا۔ پرویز بشیر کے ادارے کے تحت ہونے والے ڈبنگ کے منصوبے سے جُڑے رہے۔ پانچ انگریزی فلموں کا اردو اسکرپٹ لکھا۔ صدا کاری کی۔ اِس شعبے میں ہدایت کاری کا فریضہ بھی انجام دیا۔
اُن کا پورا نام مرزا خلیل بیگ ہے۔ گھر والے نجمی کہہ کر پکارتے۔ عملی زندگی میں آنے کے بعد خلیل نجمی ہوگئے۔ وہ 11 ستمبر 1960 کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد، ابراہیم بیگ لکھنؤ سے تھے۔ وہ پاکستان نیوی سے ریٹائر ہوئے۔ بعد کی زندگی مرچنٹ نیوی میں گزری۔ والد سے ان کے دوستانہ روابط تھے۔ کہتے ہیں،''جس زمانے میں ہم پیدا ہوئے، اُس وقت والدین خاصے سخت مزاج ہوا کرتے تھے، مگر ہمارے ساتھ اُن کا بہت ہی مشفقانہ تعلق رہا۔''
ایک بہن چار بھائیوں میں خلیل صاحب تیسرے ہیں۔ کھیلوں میں فٹ بال اور کرکٹ کا تجربہ کیا، مگر بچپن کی حسین یادیں کتابوں سے وابستہ ہیں۔ ایڈورٹائزنگ کی دنیا سے منسلک اپنے ماموں، ایس ایم شاہد کے وہ بہت قریب تھے۔ اُن کی لائبریری دست رس میں تھی۔ اردو لٹریچر سے دوستی ہوئی، تو ابن انشا، مشتاق احمد یوسفی اور کرنل محمد خان کی شگفتہ تحریروں کا ذایقہ چکھا۔ ساتھ ہی منٹو، عصمت چغتائی اور کرشن چندر کی حقیقت بیان کرتی کہانیوں سے جُڑے رہے۔ طالب علم اوسط درجے کے تھے۔ البتہ ہم نصابی سرگرمیوں میں پیش پیش رہتے۔ 78ء میں پی اے ایف ماڈل اسکول بیس مسرور، کراچی سے میٹرک کیا۔ حالات تعلیمی سفر میں رکاوٹ بنے، تو عملی زندگی میں قدم رکھا۔ ماموں ہی کے ادارے آسکر ایڈورٹائزنگ کا، بہ طور آرٹسٹ، حصہ بن گئے۔ پھر اِسی شعبے کے ہو کر رہ گئے۔ کچھ عرصے بعد اورینٹ سے جڑ گئے۔ پھر جاوید جبار کے ادارے کا حصہ بن گئے۔ 91ء میں آؤٹ ڈور ایڈورٹائزنگ کا ادارہ قائم کیا۔ آج اسی کو سنبھال رہے ہیں۔ پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے اِسی زمانے میں گریجویشن کیا۔ پیشہ ورانہ سفر کے باعث کچھ برس آرٹ سے دُور بھی رہے ، مگر یہ زمانہ بے چینی سے بھرپور تھا۔
آرٹ سے رشتہ کیسے استوار ہوا؟ یہ سوال انھیں ماضی میں لے گیا۔ آرٹ میں دل چسپی بہ درجہ اتم موجود تھی۔ اسکول میں داخلے سے قبل ہی اسکیچ بک سے دوستی ہوگئی۔ ہمیشہ اسے ساتھ رکھتے۔ تصویریں بناتے۔ رشتے داروں کو دکھاتے۔ ماموں اُن کی حوصلہ افزائی کیا کرتے۔ اسکول کے زمانے میں ربر پر بلیڈ سے Carving (کندہ کاری) کا تجربہ کیا۔ ربر کے بعد چاک پر نقاشی کی۔ اب لکڑی کی جانب متوجہ ہوئے۔ اس ضمن میں کہتے ہیں،''اخبارات پہلے پرنٹنگ بلاکس سے چھپا کرتے تھے۔ غالباً 70 کی دہائی کے وسط میں نئی ٹیکنالوجی آئی، تو یہ بلاکس بے کار ہوگئے۔ ماموں کی ایڈورٹائزنگ ایجینسی تھی۔ تو اُن کے پاس مختلف کمپنیوں کے بلاک ہوا کرتے تھے۔ وہ اُنھوں نے میرے حوالے کر دیے۔''
یہ بلاکس کسی خزانے سے کم نہیں تھے۔ پہلے اُن پر رنگوں کو آزمایا۔ احساس ہوا کہ یہ اُن کا میدان نہیں۔ پھر ایک انوکھا خیال سوجھا۔ بہ قول اُن کے،''بچپن میں جب گلی سے چھابڑی اور ٹھیلے والے آوازیں لگاتے گزرتے، تو میں بھاگتا ہوا گھر سے باہر آجاتا۔ مجھے اُن کی آواز بہت مسحور کن لگتی تھی۔ پھر میرا دھیان ان کے پیروں کی جانب گیا۔ میں نے سوچا، یہ دن بھر محنت کرتے ہیں، پیدل چلتے ہیں، ان کے پیر کیسے ہوتے ہوں گے۔ کسی کے پیر پھٹے ہوئے، کٹے ہوئے تھے۔ کسی کے پیر میں نقص تھا۔ چند کے لمبے چوڑے، چند کے چھوٹے چھوٹے۔ تو میں نے ان کے پیروں کے لکڑی پر پرنٹ لینے شروع کیے۔ میں اُن کے پیر گیلے کروا کر لکڑی کے ٹکڑے پر اُنھیں کھڑا کرواتا۔ پینسل سے عکس واضح کرتا، جس کے بعد Carving کا سلسلہ شروع ہوتا۔''
آنے والے چند برس محنت کشوں کے پیروں کی کندہ کاری میں صرف ہوئے۔ اُن ہی دنوں کسی کی عیادت کی غرض سے اسپتال جانا ہوا، تو ایک ضعیف مریض سے سامنا ہوا۔ چہرہ جھریوں سے بھرا۔ کھڑکی سے آنے والی دھوپ چہرے پر پڑ رہی تھی۔ نین نقش بہت خوب صورتی سے ابھر کر سامنے آئے۔ چہرے نے دھیان کھینچ لیا۔ فوراً کیمرے سے تصویر اتار لی۔ اس تصویر کو لکڑی پر منتقل کیا۔ پھر اس کی Carving کی۔ دو مہینے پر مشتمل یہ تجربہ حیرت انگیز ثابت ہوا۔ اتنا مسرور کن کہ وہ اُس میں کھو گئے۔ اسی پورٹریٹ کے وسیلے خود کو پہچاننے کا موقع ملا۔ دوستوں، رشتے داروں نے اسے سراہا۔ کچھ آرڈرز بھی ملے۔ اسی زمانے میں لکڑی پر کیلی گرافی شروع کی۔ اسمائے ربانی توجہ کا مرکز رہے۔ کیلی گرافی کے نمونے مختلف کمپنیوں کے کیلینڈرز پر شایع ہوئے۔ 88ء میں ایک حکومتی ادارے کے ''سنگل شیٹ کیلینڈر'' کے لیے، جس پر ماضی میں فقط صادقین صاحب کے فن پارے جگہ حاصل کرتے تھے، نئے فن کاروں کو موقع دینے کے لیے ملک گیر مقابلے کا اہتمام کیا گیا۔ ہزاروں انٹریز بھیجی گئیں۔ اِس مقابلے میں اُن کا ''پیس'' منتخب ہوا۔ وہ انتہائی خوش گوار لمحہ تھا۔
میڈیلین پورٹریٹ کا تذکرہ آیا، تو بتانے لگے کہ Bas-relief میں مہارت حاصل کرنے کے بعد وہ سوچنے لگے کہ اِسے کس طرح دنیا کے سامنے پیش کیا جائے۔ شش و پنج کے اُن ہی دنوں میں ''پاکستان منٹ'' (حکومت پاکستان کی ٹکسال) نے ایک روپے کا سکّہ جاری کیا۔ سکّے پر بنی قائداعظم کی تصویر میں اُنھیں بہتری کا امکان نظر آیا۔ اِس ضمن میں ''پاکستان منٹ'' کو ایک خط روانہ کیا۔ کوئی جواب نہیں آیا۔ ماسٹر آف دی منٹ سے ملاقات کی کوشش کی۔ اِس بار بھی ناکامی ہوئی۔ متواتر کوششوں کے بعد بالآخر 2007-8 میں خلیل نجمی کی، اُس زمانے کے ماسٹر آف دی منٹ، مصباح الحق سے ملاقات ہوگئی۔ شکایت کی کہ سکّے پر جو قائد کی تصویر ہے، وہ اُن کے شایان شان نہیں۔ بہتری کی گنجایش ہے۔ ماسٹر آف دی منٹ اُنھیں اپنے ساتھ اس ڈیپارٹمنٹ میں لے گئے، جہاں سکّے ڈیزائن ہوتے۔ وہاں وہ ''پیٹرن'' رکھا تھا، جس سے ایک روپے کا سکّہ تیار ہوا۔ اُنھوں نے خامیوں کی نشان دہی کی۔ ساتھ ہی اپنا ایک ''پیس'' پیش کیا، جسے دیکھ کر وہ بہت متاثر ہوئے۔
خلیل صاحب کو اِس ضمن میں کام کرنے کی پیش کش کی۔ اُنھوں نے قائد اعظم کا پورٹریٹ بنایا۔ ادارے کی جانب سے اُسے سراہتے ہوئے ایک ستائشی خط جاری کیا گیا۔ ساتھ ہی علامہ اقبال اور فاطمہ جناح کی تصویر بنانے کی ذمے داری سونپ دی۔ اس منصوبے پر کام جاری تھا کہ پاکستان منٹ میں انتظامیہ تبدیلی ہوگئی۔ منصوبہ تعطل کا شکار ہوگیا۔ اِس ضمن میں وہ مختلف حکومتی عہدے داروں سے رابطہ کرنے میں جُٹے ہیں۔ بہ قول ان کے،''میں خاصا ہوم ورک کر چکا ہوں۔ کئی آئیڈیاز بھی ہیں۔ اُنھیں عملی شکل دینے کے لیے حکومتی تعاون کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ اِس کام میں وقت لگتا ہے۔''
برسوں سے لکڑی پر جادوگری دِکھا رہے ہیں، مگر کبھی اپنے فن پاروں کی نمایش نہیں کی۔ اِس بابت کہتے ہیں،''نمایش کے لیے کم از کم چالیس فن پارے درکار ہوتے ہیں۔ اب چالیس فن پاروں کی تیاری میں ستر اسی مہینے صَرف ہوں گے۔ اگر اتنا وقت فن پاروں کی تیاری میں لگے گا، تو گزر بسر کیسے کریں گے۔ دراصل یہ کام میں نے اپنے شوق کے لیے کیا۔ نمایش کرنے کے حالات کبھی بن ہی نہیں سکے۔''
پینٹ شرٹ میں خود کو آرام دہ محسوس کرنے والے خلیل نجمی ہر موسم سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ چائنیز سے رغبت ہے۔ گائیکی میں لتا، مہدی حسن اور نیرہ نور کی آواز بھاتی ہے۔ دلیپ کمار کی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ ''صاحب بیوی اور غلام'' من پسند فلم ہے۔ 91ء میں شادی ہوئی۔ خدا نے تین بیٹیوں، دو بیٹوں سے نوازا۔ بچوں میں بھی تخلیقی ذوق منتقل ہوا۔ زندگی سے مطمئن ہیں۔ منٹو کے مداح ہیں۔ ''ٹوبہ ٹیک سنگھ'' من پسند افسانہ ہے۔ مستقبل میں ایک آرٹ انسٹی ٹیوٹ قائم کرنے کے خواہش مند ہیں۔ چاہتے ہیں کہ اپنا فن نئی نسل میں منتقل کریں۔ آج کل میورل کی ایک سیریز پر کام کر رہے ہیں، جس کا مقصد نوجوان نسل میں جذبۂ حب الوطنی پیدا کرنا ہے۔ اس پروجیکٹ میں ہم خیال دوستوں کے ساتھ وفاقی وزیر اطلاعات، پرویز رشید اور اسٹیٹ بینک کی انتظامیہ کا تعاون حاصل ہے۔