انتہا پسندی برصغیر میں ہی نہیں ہر طرف بڑھ رہی ہے

ہندوستان میں کوشش کے باوجود ہندی رابطے کی زبان نہیں بن پائی، زبیر رضوی


Mehmood Ul Hassan December 19, 2013
اردو کے معروف ہندوستانی شاعر، نقاد اور براڈ کاسٹر زبیر رضوی سے مکالمہ۔ فوٹو : فائل

''زندگی چھوٹی چھوٹی خوشیوںکاتعاقب کرتے بیت گئی''یاپھریوں کہ''زندگی راہ کے پتھر ہٹاتے بیت گئی۔''

''میں نے اپنے پہلے مجموعے''لہرلہر ندیا گہری'' سے سبزۂ ساحل تک خودکو دہرانے یا اپنی ہی تقلیدکرنے کا رویہ نہیں اپنایا، اس کے برخلاف خود کورد کرنے کاعمل برابر اپنائے رکھا۔میں سمجھتاہوں کہ خود کورد کرنے کے عمل کا مطلب اپنی شاعری کو ایک نئی صورت دینے کے عمل سے گزرناہے۔میں شاعری کو ایک ایسا جھوٹ سمجھتاہوں جس کے توسط سے سچ کو پایاجاتا ہے، میں نے ایسا کرتے ہوئے اس سارے سچ کوبھی اپناورثہ سمجھا جومجھ سے پہلے کی گئی شاعری میں دمکتا چمکتارہا تھا۔''

''انسانی زندگی کے مشاہدے میںجوصورت میرے لیے سب سے زیادہ پریشان کن بنتی ہے، وہ غریبی اور پھٹے پرانے کپڑوں میں بسرہوتی بیمارزندگی ہے۔ انسانی غارت گری کے درپے کوئی بہیمانہ عمل مجھے بے چین کردیتاہے اور انسانی زندگی میں جہاں کہیں بھی عشق کی سرشاری ملتی ہے تورگوں میں خون اچھلنے لگتا ہے۔ میرا عقیدہ ہے، سیاست انسانی دکھ دردکو تماشائی کی آنکھ سے دیکھتی ہے اور شاعری انسان کے پورے دکھ درد کا حصہ بن جاتی ہے۔''

زبیررضوی کی دو مختلف تحریروں کے یہ اقتباسات ان کی بیتی زندگی ،شاعری کے بارے میں نظریے اور تصور زندگی کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ زبیر رضوی نے عمر بھر جو بھی کچھ کیا، اپنے ڈھب سے کیا اور اپنی شرائط کے ماتحت کیا۔ جبر کسی نوع کا ہو اسے قبول کرنے سے انکاری رہے۔ ممتاز دینی گھرانے سے تعلق کی بنا پرانھیں مدرسے میں داخل کرایا گیا مگر یہاں کی فضا سے مانوس نہ ہوسکے اور اسکول کا رخ کر لیا۔ جوانی میں حیدرآباد دکن میں دوران قیام ترقی پسند تحریک سے متاثر ہوئے۔ 52ء میں دہلی میں آن بسے تو یہاں تنظیمی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کا حصہ لیا۔ سڑکوں پر کھڑے ہوکراخباربیچے۔جذبے نے سجاد ظہیر کو بھی متاثر کیا۔

آگے چل کرجب انھیں اس ماحول میں گھٹن اور تنگی کا احساس ہوا تواس وابستگی کو خیرباد کہہ دیا اوراس تحریک کے ناقد بن گئے اور اب تو یہ تک کہتے ہیں کہ ترقی پسندوں نے میرا جی اور ن۔م راشد کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بدنام کیا۔انحراف کی اس روش کے نشان تخلیقی سرگرمی میں بھی ملتے ہیں۔ ''لہرلہر ندیا گہری''، ''،خشت دیوار''،''مسافت شب''، ''پرانی بات ہے''، ''دامن''، ''دھوپ کا سائبان'' ''انگلیاں فگار اپنی'' اور سبزۂ ساحل ''ان کے شعری مجموعے ہیں،جن میں نظم، غزل ، گیت اور نثری نظم کی صورت اظہارملتا ہے۔ ان کی شاعری ''پرانی بات ہے''سے ایک نئے دور میں داخل ہوئی،جس میں شامل ستائس سلسلہ وارنظموں کواردو میں منفرد تجربے سے تعبیر کیا گیا۔ان کی طویل نظم ''صادقہ'' کو بھی ناقدین کی بھرپورتوجہ حاصل ہوئی۔

ناقدین اور قاری سے ہٹ کرمشاعرے کے سامعین میں اپنے ترنم کے باعث مقبول ہوئے۔ان کا شمارمشاعرے ''لوٹنے والے شعرا میں ہوتاہے۔شاعری کے تعلق سے یاد آیا کہ جوانی کے زمانے میںجوش ملیح آبادی نے انھیں بڑا شاعر بنانا چاہا مگر اس کے لیے جو شرط انھوں نے عائد کرنا چاہی وہ انھیں قبول نہ تھی، اس لیے یہ بڑے شاعرنہ بن سکے۔ تخلیق ادب کے ساتھ ساتھ کئی دوسرے روگ بھی انھوں نے پالے، جس میں غم روزگار بھی ہے۔ والد اور بڑے بھائی کی دیکھا دیکھی ان کے ہاں خواہش توتدریس سے متعلق ہونے کی تھی، لیکن ایسا نہ ہوسکا، تو پھر انھیں روزی روٹی کمانے کے لیے ہمدرددواخانہ میں کلرکی کا سہارا میسر آگیا۔ ادھر کام کرنے کے باعث انھیں آگے چل کراردو کے ایک نقاد سے یہ طعنہ بھی سننا تھا کہ 'اجی! یہ زبیررضوی جو بڑے ادیب بنے پھرتے ہیں، میں جانتا ہوں انھیں، ہمدرد دواخانے میں پڑیا باندھا کرتے تھے۔

ہمدرد دواخانے میں کام کے دوران انھیں حکیم عبدالحمید دہلوی کوقریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔اس محترم کے بارے میں نہایت عمدہ خاکہ زبیر رضوی کی یادداشتوں''گردش پا'' میں شامل ہے۔ ''گردش پا'' سے پتا چلتا ہے کہ وہ پرتاثیر نثرلکھنے پربھی قدرت رکھتے ہیں۔ زندگی بھربہت سی آپ بیتیاں ان کی نظر سے گزریں، جن میں پبلونرودا کی یادداشتوں نے سب سے بڑھ کر متاثر کیا، جس کے منتخب حصوں کو انھوں نے اردو میں ترجمہ بھی کیا۔ ''نیاورق'' کے مدیرساجد رشیدکے اصرار پرآپ بیتی لکھنے پرآمادہ ہوئے تونیرودا کے اسلوب کی تقلید کو مناسب جانا۔ اس کے سوا یہ باتیں ان نے ملحوظ رکھیں۔

''ریڈیوکا آدمی تھا،اور فلیش بیک کی تکنیک سے واقف تھا تومیں نے سوچا کہ میں اپنے تجربے کو استعمال کرکے لکھوں گا۔اس کے بعدیہ طے کیا کہ کس قسم کی زبان میں زندگی کی کہانی بیان ہوگی۔آپ بیتی میں ناظر کے طور پرشامل ہوں، کہیں کہیں میری شمولیت بھی ہے۔''

ادب سے ہٹ کرزبیر رضوی نے براڈ کاسٹرکی حیثیت سے ممتازمقام حاصل کیا۔ 1963ء میں جونیئر اسکرپٹ رائٹر کی حیثیت سے سفرشروع کیا۔ آل انڈیا ریڈیو سے وابستگی کے دوران کئی نمایاں عہدوں پرفائز رہے۔ریڈیوکے لیے مختلف نوعیت کے بہت سے پروگراموں کوپروڈیوس کیا۔کئی ممتازشخصیات کا انٹرویو کیا۔ لتا اوردلیپ کمارکے انٹرویوز کوآپ صحافت کی اصطلاح میںاسکوپ سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ لتا سے انٹرویوکی بہت دھوم مچی۔ مہدی حسن ہندوستان گئے تو انھوں نے شرط عائد کی کہ وہ ریڈیو کے لیے اس شخص کو ہی انٹرویو دیں گے جس نے لتا سے انٹرویو کیا تھا۔ امیتابھ بچن سے انٹروی وبھی کیا، جو آواز کی کوالٹی کے بارے میں بڑے حساس تھے۔یہ اپنی طرف سے دوبہترین مشینیں لے کرانٹرویو کو پہنچے تھے،ان پر کچھ گفتگوریکارڈ کرکے سنی تو امیتابھ بچن مطمئن نہ ہوئے اور''پھرکبھی'' کہہ دیا۔ اس اثنا میں پروڈکشن اسسٹنٹ ایک اور مشین لے آیا، اب جو آواز کی کوالٹی کو دیکھا گیا تو امیتابھ بچن مطمئن ہوئے۔

اس واقعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ ماضی کی یادوں میں کھوگئے اور اس زمانے کو یاد کرنے لگے جب انھوں نے امیتابھ بچن کے والد ہری ونش رائے بچن کے ساتھ کئی کامیاب کوی سمیلن پڑھے تھے۔اچھی بات یہ ہے کہ انھوں نے انٹرویوزکو ٹرانس کرائب کرکے صفحہ قرطاس پرمنتقل کرلیا ہے، اور پہلے مرحلے میں27 ممتازشخصیات کے انٹرویوز پرمشتمل کتاب ''چہرہ بہ چہرہ روبرو''کے نام سے زیرطبع ہے۔

ان کے پھیلے ہوئے کام کے بارے میںبات کا سلسلہ اور بھی آگے بڑھائیں گے لیکن بیچ میں مختصراً ان کی ذاتی زندگی کا احوال۔

زبیر رضوی نے1936ء میں امروہہ کے ممتاز دینی گھرانے میں آنکھ کھولی۔آٹھ بھائیوں میں ان کا چوتھا نمبرہے۔تقسیم کے بعد ان کے چاربھائیوں نے پاکستان ہجرت کی۔ باقی چار نے ہندوستان میں رہنا پسند کیا۔ممتاز عالم دین مولانااحمد احسن محدث ان کے داداتھے، جو مولانا قاسم نانوتوی کے شاگردوں میں سے تھے۔ ان کے والد سید محمد رضوی عربی اور اردو کے مدرس رہے۔زبیررضوی کی تعلیم وتربیت خالص مذہبی ماحول میں ہوئی۔میٹرک تک کے تعلیمی مدارج امروہہ اور حیدرآباد دکن میں رہ کرطے کئے۔دلی یونیورسٹی سے بی اے اور ایم اے کیا۔تیس برس آل انڈیا ریڈیو سے متعلق رہے ۔

سات برس سینئر اسپورٹس ڈائریکٹررہنے کے بعد 1993ء میں ریٹائر ہوئے۔انھوں نے 1988ء کے سیؤل اولمپکس ،1987ء میں پاکستان اور ہندوستان میں ہونے والے کرکٹ ورلڈ کپ اور1992 ء میں ایشین گیمز بیجنگ کو آل انڈیا ریڈیو کے لیے کور کیا ۔واجپائی کے دورۂ لاہور کے لیے ٹی وی پرکمنٹری کی۔دوبرس اردو اکادمی دہلی کے سیکرٹری کی حیثیت سے کام کیا۔کراچی میں مقیم نقاد وقاراحمد رضوی ان کے بڑے بھائی ہیں۔عربی زبان کے عالم اور ناموراردو ادیب ڈاکٹرخورشید رضوی ان کے عزیز ہیں۔1952ء کے بعد سے دہلی میں قیام پذیر ہیں۔ ان دنوں وہ دنیا بھر کے نامور ادیبوں کی شخصیت وفن کو اردو میں متعارف کرانے کے سلسلے کو کتابی صورت میں چھپوانے کا چارہ کررہے ہیں۔تقسیم کے بعد ہندوستانی سینما کے سنہری دور پر کتاب بھی لکھ رہے ہیں۔

اردو ادب کے لیے ان کی ایک کنٹری بیوشن ''ذہن جدید''بھی ہے، جو گذشتہ 23برس سے اپنا معیارقائم رکھے ہوئے ہیں۔اردو میں ایسے ادبی رسالے اکا دکا ہی ہیں، جس میں مدیرکی شخصیت کا عکس بھی جھلکتاہو۔ رسالے کی منفرد بات یہ ہے کہ وہ محض ادب تک محدود نہیں بلکہ اس میںفنون لطیفہ کی دوسری شاخوں سے متعلق تحریروں سے بھی اعتنا کیا جاتا ہے،کہ فلم، تھیٹر، موسیقی، رقص، کارٹون سے متعلق مواد بھی اس میں ہوتا ہے ۔وہ رسالوں کو ادب تک محدود کرنے کے حق میں نہیں اور کہتے ہیں کہ اس کے ذریعے تخلیقیت کا بڑا تناظرقائم کرنا چاہیے اور ''ذہن جدید''کے ذریعے سے یہی کوشش انھوں نے کی ہے۔اردو کے ادبی رسائل میں دنیابھر کے بہترین ادب کو اردو میں متعارف کرانے والے اجمل کمال کے ''آج''کے قائل ہیں۔ تھیٹرسے ان کی دلچسپی تین سطحوں پرہے۔تھیٹر شوق سے دیکھتے ہیں۔

اس کے بارے میں لکھا شوق سے پڑھتے ہیں۔ اور پھر اس پر لکھتے بھی ہیں۔ گذشتہ برس ان کی کتاب ''عصری ہندوستانی تھیٹر'' شائع ہوئی، جس میں انھوں نے اردو ہندی تھیٹرکے حوالے سے سیرحاصل معلومات فراہم کی ہیں اور مدلل انداز میں تجزیہ کیا۔ اس سے قبل وہ ہندوستان میں اسٹیج ہونے والے اردو ڈراموں کے انتخاب پرمبنی چارکتابیںمرتب کرچکے ہیں۔ اس تمام مساعی کا مقصداس خیال کو باطل ثابت کرنا ہے کہ اردو میں آغا حشرکے بعدتھیٹرکی سرگرمی ماند پڑ گئی تھی۔'' فکشن پرگہری نظررکھنے والے زبیررضوی کو اردو فکشن نگاروں سے شکوہ ہے کہ کسی نے اپنے قاری کی تربیت نہیں کی، سوائے انتظار حسین کے۔ہم نے ان سے پوچھ لیا ''انتظار صاحب نے کہاں قاری کی تربیت کی ہے؟'' ''ان کی تنقیدی کتابوں''علامتوں کا زوال'' اور ''نظریے سے آگے'' کو دیکھ لیجیے، آپ کو اپنے سوال کا جواب مل جائے گا۔'' زبیر رضوی کو اس بات کا رنج ہے کہ منٹو صدی منائی گئی تو کسی نے بلراج مینرا کا نام نہ لیا، حالانکہ انھوں نے اس وقت منٹوکا نام لیا، جب ان کا زیادہ چرچا نہیں تھا۔وہ بتاتے ہیں ''بلراج مینرا نے اپنے رسالے'' شعور'' میں منٹو سے متعلق بہت عمدہ تحریروں کو جگہ دی اورمنٹو کے کام کی پانچ جلدوں میں ہندی میں اشاعت کو ممکن بنایا، جس سے استفادہ سب کر رہے ہیں لیکن بلراج مینرا سے کسی تقریب کی صدارت تو کیا کرائی جاتی کسی نے اس کا نام تک نہیں لیا۔'' ان کے خیال میں اوربھی بہت سے افراد ہیں، جن کی خدمات کا صحیح معنوں میں اعتراف نہیں کیا گیا۔

اس ضمن میں گذشتہ چار دھائیوں سے ترجمے کو اپنی علمی تگ وتاز کا مرکزبنالینے والے محمد عمرمیمن اور ''واراینڈ پیس''، ''برادرز کرامازوف'' اور''تکبر اور تعصب'' جیسے بڑے ادبی شاہکاروں کو اردو میں منتقل کرنے والے شاہد حمید کا نام لیتے ہیں۔ اردو زبان کے بارے میں ان سے جو بات چیت رہی ، اس کا لب لباب کچھ یوں ہے۔ ''پاکستان میں لوگوں کو اس بات کا پتا ہونا چاہیے کہ اردوسارے ہندوستان کے مسلمانوں کی نہیں بلکہ صرف شمالی ہندوستان کے مسلمانوں کی زبان ہے۔ جنوبی ہندوستان میں کیرالہ کے مسلمان ملیالم بولتے ہیں، اور اس زبان میں ویکوم محمد بشیرنے اعلیٰ درجے کا ادب تخلیق کیا ہے۔ اس طرح تامل ناڈو کے مسلمان تامل بولتے ہیں۔ اس بات پراصرار کے بجائے کہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان ہے،اس کو مین اسٹریم زبان بنانا چاہیے۔ ہندوستان میں ترسیلی زبان کی حیثیت سے اس میں بڑی قوت ہے۔ اگر کسی جگہ تیلگو اوربنگلہ بولنے والے دو افراد ہوں تو دونوں ایک دوسرے کی زبان نہیں سمجھ سکیں گے لیکن اگران سے اردو میں بات کی جائے تو دودونوں سمجھ لیں گے۔

ہندی کو مین اسٹریم زبان بنانے کی کوشش کامیاب نہیں ہوئی اور وہ اردو کی طرح سے رابطے کی زبان نہیں بن پائی،اردو کے ساتھ اگرکوئی دوسری زبان ہندوستان میں رابطے کی زبان کا کام دیتی ہے تووہ انگریزی ہے۔ قیام پاکستان کے حق میں ساری جنگ اردو میں لڑی گئی اورمتحدہ ہندوستان کے حامیوں نے بھی اپنی جنگ اردو میں لڑی۔اس زمانے میں سارے نمایاں اخباراردو میں تھے یا انگریزی میں، اخبار کی صورت میں ہندی کہیں نہیں تھی۔ اردوایسی زبان ہے، جس کو آپ کسی مخصوص علاقے سے متعلق نہیں کہہ سکتے، جیسے تامل برسوں سے تامل علاقے کی زبان ہے۔ زبانیں راتوں رات اپنا قالب تبدیل نہیں کرتیں، بلکہ لسانی تقاضوں کے تحت آگے بڑھتی ہیں،اردو میں بھی رفتہ رفتہ عربی اور فارسی کے اثرات کم ہوتے چلے گئے،اسی طرح ہندی بھی آہستہ آہستہ سنوری اور اس کا بوجھل پن دور ہوا۔'' زبیررضوی فلم اور میڈیا کی شہرت کو اد ب کے میدان میں استعمال کرنے والے ادیبوں کے سخت ناقد ہیں۔

ہمارے معاشروں میں بڑے فنکاروں سے جو ناروا سلوک ہوتا ہے، اس کی بابت کہتے ہیں '' جوبھی فنکار معاشرے سے بغاوت کرے گا اس پر بارش سنگ تو ہوگی۔'' ان کی دانست میں انتہا پسندی برصغیر کا ہی مسئلہ نہیں بلکہ یہ ہر طرف بڑھ رہی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں