طالبان سے مذاکرات کی آخری کوشش

وزیر اعظم نواز شریف کی زیر صدارت منگل کو کابینہ کی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ امن کے ...


Editorial December 18, 2013
حکیم اﷲ محسود کی ڈرون حملہ میں ہلاکت کا واقعہ پیش نہ آتا تو اب تک شاید مکالماتی مسافت کا ایک سرکاری دور بھی مکمل ہو چکا ہوتا. فوٹو: فائل

وزیر اعظم نواز شریف کی زیر صدارت منگل کو کابینہ کی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ امن کے قیام کی خاطر تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کے لیے آخری سنجیدہ کوشش کر کے دیکھ لی جائے، البتہ اس دوران دہشت گردی کے خاتمے اور انتہا پسندی کے راستے پر چلنے والوں کو سختی سے کچلنے کے لیے آخری حل کے طور پر فیصلہ کن فوجی آپریشن کرنے کے لیے موسمی شدت کو مدنظر رکھتے ہوئے تیاریاں مکمل کر لی جائیں۔ تحریک طالبان پاکستان سے اتمام حجت کے تحت بات چیت کا فیصلہ اپنے دور رس اور خطے کی ہمہ گیر تزویراتی حرکیات، ملکی سلامتی اور جاری دہشت گردی کے حوالہ سے ایک غیر معمولی فیصلہ ہے جو سیاسی و عسکری قیادت میں اتفاق کا مظہر بھی ہے۔ تاہم ملک کو درپیش کثیر جہتی بحرانوں کے تناظر میں طالبان سے بات چیت کو اگر ارباب اختیار ملک کے عظیم تر مفاد میں سمجھتے ہیں تب بھی انھیں طالبان کے عزائم، ایجنڈے اور اب تک کی ہولناک اور ریاست دشمن کارروائیوں کی گہری تفہیم کے ساتھ پیش رفت کرنی چاہیے۔

صورتحال حالت جنگ جیسی ہے، لہٰذا بات چیت کے لیے ضروری ہے کہ تحفظات اور مشروط مکالماتی رضامندی یا انوکھے مطالبات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے طالبان قیادت بات چیت کی میز پر آئے۔ اگر حکیم اﷲ محسود کی ڈرون حملہ میں ہلاکت کا واقعہ پیش نہ آتا تو اب تک شاید مکالماتی مسافت کا ایک سرکاری دور بھی مکمل ہو چکا ہوتا، بہر حال اب جب کہ فیصلہ پاکستانی قیادت نے کر ہی لیا ہے تو ان اطلاعات کی حقیقت کیا ہو گی جن میں کہا گیا ہے کہ حکومت کی طرف سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے راستے کو ترجیح دینے کے اعلان کے چند ہی گھنٹے بعد طالبان نے مذاکرات کے ''آپشن'' کو مسترد کر دیا ہے۔ ادھر پاکستانی طالبان کے نئے سربراہ اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے حکومت کے ساتھ سے مذاکرات سے بار بار انکار کے باوجود یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ بعض عسکریت پسند بیک ڈور چینلز سے مذاکرات میں دلچسپی ظاہر کر رہے ہیں۔ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ ملا فضل اللہ کی طرف سے مذاکرات سے انکار اور ملک بھر میں کارروائیوں کا اعلان کیا گیا ہے تاہم مذاکراتی عمل میں پیش رفت کے اشارے ملے ہیں۔ بلاشبہ یہ کڑوی گولی ہے، ان بیک ڈور چینلز کی حقیقت بھی قوم کو بتائی جائے، سیاسی جماعتوں کو ایک بار پھر اعتماد میں لیا جائے، تا کہ مذاکرات لاحاصل ہوں تو حکومت فیس سیونگ کا سامان کر سکے۔

یاد رہے طالبان کا مائنڈ سیٹ فسطائیت کے خمیر سے اٹھا ہے جس نے پاکستانی ریاست، اس کے آئین، جمہوری نظام کی تباہی اور شہریوں کو زندگی اور امن سے محروم کرنے کی ہولناک کارروائیاں کی ہیں۔ بات چیت کے لیے حکومت کی پیش قدمی عالی ظرفی ہے اس کا طالبان کو مثبت جواب دینا چاہیے۔ اس میں شک نہیں کہ وفاقی حکومت کا طالبان سے ممکنہ بات چیت کا فیصلہ اگر نتیجہ خیز ہوا تو اس سے خطے کی تمام تر صورتحال بدل سکتی ہے اور دہشت گردی سمیت فاٹا کے متعدد سماجی اور سیاسی مسائل کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔ تاہم مذاکرات کے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں قومی سیاست اور میڈیا میں بھی ''یاراں نال بہاراں'' منطقی و غیر منطقی اور انتہائی جذباتی وابستگی و حقارت پر مبنی محسوسات کی فراوانی ہے۔ اچھے اور برے طالبان کی بحث جاری ہے، انداز نظر کا ایک سیل رواں بھی ہے مگر جہاں قومی وقار، سالمیت، یکجہتی اور داخلی امن و امان کا تعلق ہے، مسائل، اختلافات اور تنازعات کا حل مذاکرات ہی میں مضمر ہے۔ بات چیت سے شدید اختلاف اور مکالمہ کی حمایت جمہوری عمل ہے، جو بھی نتیجہ نکلتا ہے اس کے مضمرات، اثرات اور نتائج کا پاکستان کو پیشگی ادراک کرنا چاہیے۔

پانی سے خالی سوئمنگ پول میں چھلانگ لگانے کا نتیجہ سب کو معلوم ہونا چاہیے۔ یوں بھی نائن الیون کے بعد دہشت گردی اور ڈرون حملوں کی جس اذیت کا پاکستانی عوام کو سامنا ہے اس میں تحریک طالبان کی پاکستان مخالف سرگرمیوں، خود کش حملوں، بم دھماکوں اور فاٹا کے علاقے جنوبی و شمالی وزیرستان میں ہونے والی ہلاکتوں کو کسی طور فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ وزیر اعظم کی زیر صدارت ہونے والے مذکورہ اجلاس میں پاکستان کے قومی مفاد کو مقدم رکھتے ہوئے قومی سیکیورٹی پالیسی تشکیل دینے، ملک کی اندرونی سلامتی کے لیے اسٹرٹیجی بنانے اور پاک افغان تعلقات کے موضوعات پر ایک طرف تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا جب کہ دوسری جانب طالبان سے مذاکرات کے امکانات اور امریکا کی جانب سے پاک افغان سرحدی علاقے میں عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت کے بارے میں پائی جانے والی مبینہ شکایات کا جائزہ لیا گیا اور بہر طور فیصلہ کیا گیا کہ آل پارٹیز کانفرنس کی جانب سے دیے گئے مینڈیٹ کے تناظر میں شدت پسندی کی راہ پر چلنے والوں سے امن مذاکرات کے لیے آخری کوشش کے طور پر رابطے کیے جائیں۔

اگرچہ حساس اداروں کی جانب سے پیش کی گئی معلومات کے مطابق اس بات کا امکان نہ ہونے کے برابر ظاہر کیا گیا کہ تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات ممکن ہوں، تاہم وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ اگر طالبان کے ساتھ مذاکرات کی راہ کامیاب نہیں ہوئی تو ہمارے پاس دوسرے آپشنز بھی موجود ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں اور دانشوروں کا کہنا ہے کہ موسم کی شدت کا ایک خوش گوار پہلو یہ بھی ہے کہ مذاکرات سے برف پگھلنے لگے گی، ادھر بات چیت کا در کھلنے سے وہ فکری حلقے بھی سوچ میں پڑ جائیں گے جن کا دلچسپ خیال ہے کہ طالبان کو جنوبی و شمالی وزیرستان میں ''اختیارات'' دے کر مطمئن کیا جائے، ان کی ''امارت'' تسلیم کی جائے۔ بہر کیف طالبان سے مذاکرات اور ممکنہ جنگ کی ناگزیریت کے تناظر میں ارباب اختیار امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے اس بیان کو پیش نظر رکھیں جس میں انھوں نے کہا ہے کہ امریکا القاعدہ رہنماؤں کو چن چن کر مارے گا، عالمی سطح پر امن کے قیام کے لیے دنیا ہمارا ساتھ دے۔ افغانستان، اور پاکستان سے اہم القاعدہ رہنماؤں کی ہلاکت کے بعد القاعدہ تقسیم ہو چکی ہے مگر اب بھی وہ عالمی خطرہ ہے۔ لہٰذا امید کی جانی چاہیے کہ مذاکرات کے بارے میں طالبان کے فوری رسپانس کی حقیقت سے اہل وطن کو ضرور اچھی خبر ملے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں