جام دُرک اور مست توکلی کے دیس میں
فارسی میں کہتے ہیں کہ ’’لذیذ بُود حکایت‘ دراز تر گفتم‘‘ سو میرے ساتھ بھی یہی ہوا ہے کہ احوال لکھنا تھا کوئٹہ میں ۔۔۔
فارسی میں کہتے ہیں کہ ''لذیذ بُود حکایت' دراز تر گفتم'' سو میرے ساتھ بھی یہی ہوا ہے کہ احوال لکھنا تھا کوئٹہ میں NAB کے زیر اہتمام عالمی اینٹی کرپشن ڈے کی تقریب کا اور گزشتہ پورا کالم کچھ اچھی باتوں اور یادوں کے ذکر میں گزر گیا۔ اب اس سے پہلے کہ بات پھر کچھ اور تفصیلات کی طرف نکل جائے یہ بتاتے چلیں کہ یہ اجلاس ایک بڑے ہوٹل کے ہال میں 9 دسمبر کی صبح دس بجے شروع اور دوپہر تقریباً ڈیڑھ بجے تک جاری رہا، صدارت کچھ عرصہ قبل کے نگران وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو کے ذمے تھی اور ان کے ساتھ اسٹیج پر DG نیب سید خالد اقبال کے ساتھ نیشنل پارٹی کے دو ایم پی (محترمہ یاسمین لہڑی اور ڈاکٹر اسحاق بلوچ) NIM کے ڈائریکٹر جنرل محفوظ علی خان اور مجھے مقررین کی جگہ دی گئی تھی جب کہ حاضرین میں بلوچستان حکومت کے افسروں اور نمایندوں شہریوں سمیت صوبے کے دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے طلبا و طالبات کی ایک کثیر تعداد شامل تھی۔
پروگرام کی ترتیب کچھ یوں تھی کہ ابتدائی کلمات کے بعد ایک ایک کر کے اسٹیج پر بٹھائے گئے لوگوں کو کرپشن' اینٹی کرپشن اور نیب کے رول پر اپنے اپنے خیالات کا اظہار کرنا تھا جس کے دوران ہر مقرر کو ان طلبا و طالبات میں انعامات بھی تقسیم کرنے تھے جنہوں نے مضمون نویسی' تقاریر اور پوسٹر سازی کے مقابلوں میں پوزیشنز حاصل کی تھیں اور اس کے بعد چند منتخب انعام یافتہ مقررین نے اپنی شعلہ بیانی کا مظاہرہ کرنا تھا یہ سب کام بہت خوش اسلوبی اور سلیقے سے انجام پائے، سب سے زیادہ اہم اور حوصلہ افزا بات یہ تھی کہ انعام یافتگان میں بہت بڑی تعداد ان بچیوں کی تھی جن کا تعلق ایسے علاقوں سے تھا جہاں ہمارے میڈیا کی اطلاعات کے مطابق اعلیٰ تعلیم تو کیا ابتدائی تعلیم کی فراہمی بھی قریب قریب نا ممکن تھی، ان بچیوں نے جس اعتماد اور ذہانت کا مظاہرہ کیا وہ انتہائی دل خوش کن تھا مزید کھوج پر پتہ چلا کہ چند ایک علاقوں کو چھوڑ کر پورے صوبے میں لڑکیاں تعلیم کے میدان میں تیزی سے آگے بڑھ رہی ہیں اور دہشت گردی کی وارداتوں اور بموں کے دھماکوں کے باوجود کالج اور یونیورسٹیاں بہت حد تک اپنا اپنا کام کر رہی ہیں۔
اگلے روز مجھے کوئٹہ گرلز کالج کی ایک خصوصی محفل مشاعرہ میں یہ جان کر مزید مسرت ہوئی کہ صرف اس ایک کالج میں اس وقت چھ ہزار لڑکیاں زیر تعلیم ہیں، پرنسپل محترمہ ڈاکٹر شگفتہ اقبال اور ان کی رفیقان کار نے خوب محنت سے اس محفل کو سجایا جب کہ بچیوں کا انہماک' دلچسپی اور خوشی دیدنی تھی۔ جس توجہ اور سلیقے سے انھوں نے اس مشاعرے کو سنا اور بیچ بیچ میں کچھ شعروں اور مصرعوں کو دہرایا اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ ان کی تربیت بہت عمدگی کے ساتھ کی گئی ہے ان میں وہ الہڑ پن تو تھا جو اس عمر کا خاصہ ہے مگر ان کے لباس انداز گفتگو اور نشست و برخاست میں ایک ایسی تمیز اور حیاداری تھی جو نہایت اثر انگیز تھی اس نیم قبائلی اور مخصوص رسم و رواج کے حامل معاشرے میں لڑکیوں کی تعلیم کا یہ رجحان اس بات کا شاہد ہے کہ وہاں کے زیادہ تر لوگ تعلیم کے نہیں اس بے مہار آزادی کے مخالف ہیں جو شاید کسی بھی متوازن معاشرے کے نزدیک روا نہیں۔
برادرم ہاشم ندیم سے میری پہلی بالمشافہ ملاقات چند برس قبل جہانگیر بکس کے دفتر میں برادران نبیل' نواز اور عدیل کے توسط سے ہوئی تھی ان دنوں ابھی وہ ایک مقبول ناول نگار کے طور پر نمایاں ہونا شروع ہی ہوئے تھے اب تو وہ ماشاء اللہ کئی منزلیں طے کرکے ایک ایسے اعلیٰ مقام کے حامل ہو چکے ہیں جو ان کی نسل کے شاید کسی اور نثر نگار کو نصیب نہیں ہوا، اتفاق سے ان کا تعلق بھی ہمارے دوست اور معروف شاعر سرور جاوید کی طرح صوبائی انتظامیہ سے ہے۔ دونوں دوستوں سے کئی ایک ملاقاتیں ہوئیں اور تقریباً ہر تقریب میں وہ شامل بھی ہوئے لیکن ان سے اصل اور تفصیلی گفتگو اس کھانے کے دوران ہوئی جس میں ان کے ایک سخن نواز دوست مجھے ڈی جی نیب سید خالد اقبال اور عزیزی نوید حیدر ہاشمی کو ایک نو تعمیر اور خوبصورت ریستوران میں لے گئے جس کا کھانا بھی اس محفل احباب کی طرح گرم' عمدہ اور خوش ذائقہ تھا۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری کو اگر ترقی پسند بلوچستان کی سب سے نمایاں آواز کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا میں نے جب بھی کسی ادبی کانفرنس میں ان کو بولتے سنا وہ نہ صرف مجھے سب سے الگ نظر آئے بلکہ ان کی گفتگو کی عمومی تلخی میں بھی ایک صاحب مطالعہ جدید سوچ کے حامل اور روایت کا بھرپور شعور رکھنے والے شخص کا درد دل نمایاں دکھائی دیا وہ بھی ڈاکٹر عبدالمالک کی طرح میڈیکل ڈاکٹر اور ان کے تحریکی ساتھی ہیں دو برس قبل جب وہ منیر بادینی صاحب کے ہم راہ میرے غریب خانے پر تشریف لائے تو ان سے تفصیلی ملاقات کا موقع ملا اور مجھے علی احمد بروہی مرحوم بہت یاد آئے کہ وہ بھی اصولوں کے پکے مگر اندر سے بہت نرم دل اور محبتی انسان تھے ۔شاید یہ آبادی کے لحاظ سے چھوٹے صوبوں کا وہ عمومی ردعمل ہے جس میں وہ ایک ایسے استحصال کے شاکی نظر آتے ہیں جو اصل میں ایک ایسا قومی مسئلہ ہے جس کی شکل صوبائی مسائل کے تناظر میں آپ سے آپ بدل جاتی ہے۔
طے شدہ پروگرام کے مطابق میں ان سے ملنے کے لیے ان کے کلینک پہنچا تو معلوم ہوا کہ انھوں نے اپنے ''سنگت'' کے کچھ دوستوں کو بھی مدعو کر رکھا ہے اور وہ سب لوگ قریب ہی ایک چھوٹے اور سادہ سے کمرے میں میرا انتظار کر رہے ہیں، یہاں بلوچستان کے مشہور افسانہ نگار آغا گل بھی موجود تھے جو بلاشبہ کہانی بیان کرنے کا اپنا مخصوص انداز اور ماحول رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری ''سنگت'' کے نام سے ایک ادبی رسالہ بھی شایع کرتے ہیں جس میں بقول احمد ندیم قاسمی ''زندگی آمیز اور زندگی آموز'' ادب کی جگہ دی جاتی ہے کہاں جہاں آرا تبسم اور تسنیم صنم سمیت کچھ دوستوں نے اپنا کلام سنایا اور کتابیں بھی عنایت کیں۔ میں نے محسوس کیا کہ ان احباب کے دل و دماغ میں مرکز اور دیگر صوبوں کے حوالے سے کچھ ایسے گلے ہیں جن میں سے کچھ تو بالکل بجا ہیں لیکن بہت سے معاملات مکالمے اور اعتماد کی کمی کی وجہ سے خراب اور غیر واضح ہو چکے ہیں۔ سو شعر و شاعری کے علاوہ زیادہ تر گفتگو اسی ''مکالمے'' کے احیا کے گرد گھومتی رہی جس کا خاطر خواہ نتیجہ نکلا اور میں نے دیکھا کہ محفل کے اختتام پر جمی ہوئی گرد میں بہت حد تک کمی واقع ہو چکی تھی۔