تاریخ کو اگر عجیب وغریب اتفاقات کا مجموعہ کہا جائے، تو بے جا نہ ہوگا اب برصغیر کی تاریخی درس گاہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو ہی دیکھیے، جہاں سے ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ مملکت کی زبردست تحریک اٹھی، مولانا ابولکلام آزاد نے اس نظریے سے اختلاف کیا، جس کے نتیجے میں اسی جامعہ کے طلبا نے کچھ تلخی کا بھی مظاہرہ کیا پھر مسلمانان ہند کی علیحدہ مملکت قائم تو ہوگئی، مگر یہ مادر علمی اس مملکت کے جغرافیے سے بہت پرے رہ گئی اب اسے تاریخ کی ستم ظریفی کہیے یا کچھ اور کہ اسی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی بانہوں میں قائم عظیم الشان کتب خانہ آج 'مولانا آزاد لائبریری' کہلاتا ہے۔
اسی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں 17 اکتوبر 2017ء کو سرسید احمد خان کا دو سو سالہ جشن پیدائش منانے کی تیاریاں ہیں۔ اس سلسلے میں سرسید پر ایک جامع کتابیات (Bibliography) تیار کی جا رہی ہے۔ اس اہم کام کا بار اٹھائے ممتاز محقق ڈاکٹر عطا خورشید کراچی تشریف لائے تو ہم نے بھی ان کے قیمتی وقت میں کچھ نقب لگا کر انہیں مہمان کرلیا۔
ڈاکٹر عطا خورشید کا اصل نام طیب سجاد اصغر ہے۔ 25 جنوری 1963ء کو بہار کے شہر گیا، میں آنکھ کھولی، جو گوتم بدھا کی نگری کہلاتی ہے، وہیں تعلیم حاصل کی۔ پانچ بہن بھائیوں میں اُن کا نمبر تیسرا ہے۔ والد ہائی اسکول میں تدریس کے فرائض انجام دیتے تھے۔
کہتے ہیں کہ پہلے صوفیا، رﺅسا، اور شرفا کے گھروں میں کتب کے ذخیرے ہوتے تھے، سو خانقاہی ماحول میں پرورش پانے والے ڈاکٹر عطا کا شوق مہمیز کرنے میں بھی گھر کے کتب خانے کا نمایاں کردار رہا، جہاں مخطوطات ومطبوعات کی تعداد تقریباً پانچ ہزار تھی، اس کا کیٹلاگ انہوں نے خود تیار کیا۔ ان کی دل چسپی دیکھتے ہوئے اسکول کے زمانے ہی سے کتب خانے کی چابی ان کے حوالے کردی گئی تھیں۔
1984ءمیں اردو اور 1985ء میں فارسی میں ایم اے کے بعد علم کتب خانہ جات (لائبریری سائنس) میں ایم اے کا ڈول ڈالا۔ جس کے بعد پٹنہ کی خدا بخش لائبریری میں بطور 'سیمی پروفیشنل اسسٹنٹ' اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا، کچھ عرصے بعد اسسٹنٹ لائبریرین ہو گئے۔ 1992ءمیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی مولانا آزاد لائبریری میں بطور اسٹنٹ لائبریرین آئے۔ کتب خانے کے شعبہ مشرقیات اور مخطوطات کے نگراں رہے اور 2006ء سے ڈپٹی لائبریرین کے عہدے پر فائز ہیں۔
گفتگو کا آغاز انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی مولانا آزاد لائبریری کی شروعات کے حوالے سے کچھ یوں کیا کہ 1877ء میں انہوں نے ہندوستان کے وائسرائے لارڈ لیٹن (Robert Bulwer-Lytton) سے اس کا سنگ بنیاد رکھوایا، یوں یہ 'لیٹن لائبریری' کہلائی۔ سرسید کے ذاتی ذخیرہ اس کی ابتدائی کتب تھیں، بعد میں علی گڑھ کے دیگر رﺅسا نے بھی کتب ہدیہ کیں، جو اُن کے نام سے موسوم 'گوشے' میں جمع کی جاتی رہیں۔
سرسید کے بیٹے سید محمود نے بھی اپنے نادر ونایاب کتب سے آراستہ ذخیرہ عطیہ کیا، جس میں سولہویں صدی کی بہت سی کتب کے علاوہ ابن سینا کی کتاب الشفا کا 1593ء میں اٹلی سے شایع ہونے والا قدیم نسخہ بھی شامل تھا۔ 1927ءمیں گورکھ پور کے رئیس سبحان اللہ خان نے اور 1960ء میں ابوالکلام آزاد کے دوست حبیب الرحمن خاں شیروانی نے بہت نایاب ذخیرہ عطیہ کیا۔
ڈاکٹر عطا خورشید بتاتے ہیں کہ حبیب الرحمن شیروانی کو مخطوطہ شناسی (Manuscriptology) میں مَلکہ حاصل تھا۔ ذخیرہ کتب کے دیگر نمایاں عطیہ کنندگان میں مولوی عبدالسلام خاں (رام پور)، نواب مصطفیٰ خاں شیفتہ، سر شاہ سلیمان، احسن مارہروی، صاحب زادہ آفتاب احمد خاں، رام بابو سکسینہ وغیرہ شامل ہیں۔ کراچی سے مشفق خواجہ نے وہاں "گوشہ بابائے اردو" جب کہ ملتان سے لطیف الزماں خان نے "گوشہ رشید احمد صدیقی" قائم کرایا۔ اپنی زندگی میں دونوں شخصیات باقاعدہ کتابیں خرید خریدکر وہاں بھیجا کرتے تھے۔ ڈاکٹر عطا خورشید بتاتے ہیں کہ اگر عطیہ کی جانے والی کتب دو ہزار سے کم ہوں، تو ان کا الگ گوشہ قائم نہیں کیا جاتا، بلکہ وہ عام ذخیرے میں شامل ہو جاتی ہیں۔
سرسید کی 'لیٹن لائبریری' کے 'مولانا آزاد لائبریری' بننے پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر عطا خورشید نے بتایا کہ ڈاکٹر ذاکر حسین (جو بہار کے گورنر اور ہند کے صدر بھی بنے) نے بطور شیخ الجامعہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، 1955ء میں نئی عمارت کی تعمیر شروع کرائی، 1960ء میں یہ سات منزلہ عمارت مکمل ہوئی، اس دوران مولانا ابوالکلام آزاد دار فانی سے کوچ کر چکے تھے، اس لیے فیصلہ ہوا کہ مولانا آزاد کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے یہ کتب خانہ ان کے نام سے موسوم کر دیا جائے۔
مولانا آزاد لائبریری کی 10 لاکھ کتب میں اردو، ہندی، عربی، فارسی اور سنسکرت کے علاوہ فرنچ اور جرمن زبان کی کتب بھی شامل ہیں۔ اردو کتب ڈیڑھ لاکھ ہیں۔ انیسویں صدی سے اب تک کے 50 ہزار سے زائد شمارے ہیں، بہت سے رسائل کی مکمل فائل بھی موجود ہیں۔ ہندی کتب 38 ہزار ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہندی کتب تو ہندو یونیورسٹی (بنارس) جواہر لال نہرو یونیورسٹی (دلی) میں بھی وافر ہیں، جب کہ اردو کتب وہاں زیادہ نہیں، اس لیے اردو پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا زیادہ حق بنتا ہے۔
مولانا آزاد لائبریری کے شعبہ مخطوطات میں چھے ہزار عربی، آٹھ ہزار فارسی، جب کہ دو ہزار اردو مخطوطات ہیں۔ اردو مخطوطات کی جامع فہرست وہ تیار کر چکے ہیں۔ فارسی مخطوطات کی فہرست پر کام جاری ہے۔ یہاں قدیم ترین مخطوطہ کلام پاک کا ہے، جو جناب علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منسوب کیا جاتا ہے۔ یہ خط کوفی میں ہرن کی جھلی پر لکھا گیا ہے۔
اُس کے بعد پانچویں صدی ہجری کے صوفی القشیری کی تصوف پر لکھی عربی تصنیف' عیون الاجوبہ فی فنون الاسولہ' ہے، جو مصنف کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہے۔ ہندوستان میں دریافت شدہ 'نہج البلاغہ' کا قدیم ترین نسخہ بھی یہاں ہے، جس کی کتابت 538ھ کی ہے۔ اس نسخے کی عکسی اشاعت ایران کے تعاون سے کی گئی۔ مولانا آزاد لائبریری میں مخطوطات کمپیوٹر پر دیکھنے کی سہولت ہے، اصل مخطوطہ ضرورت پڑنے پر فراہم کیا جاتا ہے۔ مخطوطات کے حوالے سے زیادہ تر محققین ایران اور یورپ سے آتے ہیں۔ ویزے کی سختیوں کی بنا پر گزشتہ دس برس سے کوئی محقق پاکستان سے باقاعدہ تحقیق کے لیے نہیں آسکا۔
مخطوطات کی عمومی شناخت کے سوال پر ڈاکٹر عطا خورشید نے بتایا کہ مخطوطات میں مصنف حمدیہ اور نعتیہ تحریر کے بعد وجہ تالیف لکھتا ہے۔ ساتھ ہی کتاب کے آخری صفحے پر ناقلین یا کاتبین ایک 'ترقیمہ' درج کرتے ہیں، جس میں وہ کتاب کے عنوان، مصنف اور اپنے بارے میں لکھتے، اور اس کے ساتھ کتاب کب اور کہاں لکھی اور نقل کی گئی وغیرہ لکھتے، جس سے مخطوطہ پہچاننے میں مدد ملتی ہے۔ اگر اس کتاب پر کسی نے یادداشت لکھی ہے، تو وہ بھی معاون ثابت ہوتی ہے۔
مخطوطات کی اشاعت کے حوالے سے ڈاکٹر عطا خورشید نے اس کی دو صورتیں ذکر کیں۔ ایک تو یہ کہ اس کا عکس لے کر مِن وعَن شایع کر دیں۔ ایسا کرنے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اب اس قابلیت کے لوگ نہیں جو اس قدیم تحریر کی تدوین کر سکیں۔ 1914ء میں نواب محمد اسحق خان نے امیر خسرو کو شایع کرنے کا کام کیا، تو انہیں بھی شکوہ تھا کہ اب فارسی جاننے والے وہ لوگ نہیں رہے۔ اب سو سال بعد تو حالت اور بھی دگرگوں ہوگئی ہے۔ تدوین کی صورت میں طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں موجود اس کتاب کے نسخے جمع کیے جاتے ہیں، پھر ان میں جو صحیح ہو اسے شایع کیا جاتا ہے۔ چھپے ہوئے نسخوں کے برعکس مخطوطات میں ہر نسخہ انفرادیت کا حامل ہوتا ہے۔ اگر صرف ایک ہی نسخہ میسر ہو تو پھر وہی مِن وعَن شایع کرنا پڑتا ہے۔ اگر مواد پڑھنے کے قابل ہو اس پر ایک مقدمہ لکھ کر شایع کر دیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر عطا خورشید بتاتے ہیں کہ مخطوطہ شناسی کے حوالے سے ایک اہم مرحلہ اس کے 'خط' کی پہچان ہے۔ سب سے پرانا خط 'خط کوفی' ہے، جس میں قرآن پاک کے قدیم نسخے ہیں، اس کے بعد کلام پاک خط نسخ میں شایع ہو رہا ہے۔ 'خط نسخ' کوجلی لکھیں، تو یہ 'خط ثلث' کہلاتا ہے۔ ہندوستان کے مخطوطوں میں 'خط شکستہ' ملتا ہے، ایران سے ملنے والے مخطوطے 'خط شفیعہ' میں ہیں، جو ذرا سا نمائشی انداز لیے ہوئے ہوتا ہے۔ اسے شناخت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ 'خط شکستہ' کو پڑھنا بہت دشوار ہے، اسے پڑھنے والے بہت کم لوگ ہیں۔
ڈاکٹر عطا خورشید کو پی ایچ ڈی کی تحقیق کے دوران 'خط شکستہ' پر کافی عبور حاصل ہوا، جس کے نتیجے میں اب وہ سید عطا شاہ فانی کی کوئی بھی تحریر پڑھ سکتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اس خط کا انداز بہت جلدی میں لکھی جانے والی تحریر جیسا ہوتا ہے۔ 'خط شکستہ' کو 'خط دیوانی' بھی کہتے ہیں، کیوں کہ درباروں سے فرامین اسی خط میں جاری ہوتے یا کچہری کے کاغذات میں بھی یہی استعمال ہوتا تھا۔ موجودہ 'خط نستعلیق' اہتمام مانگتا ہے، اس کی ابتدا مغلیہ دور میں ہوئی، اپنی خوب صورتی کی بنا پر یہ سب سے زیادہ ممتاز ہے۔
ڈاکٹر عطا خورشید کا ماننا ہے کہ کمپیوٹر کے آنے سے خطاطی کا فن مجروح ہوا، لیکن کتابت کی گئی کتب کی بات ہی اور ہے۔
ڈاکٹر عطا خورشید نے انیسویں صدی کی شخصیت 'سید عطا شاہ فانی گیاوی' پر پی ایچ ڈی کیا، جن کی 30 سے زائد عربی اور فارسی تصانیف ہیں۔ اردو سیرت نگاری کے اوائل میں ان کا کام نمایاں ہے۔ اردو میں حج کا پہلا سفرنامہ 1844ء(بمطابق 1260ھ) میں سیدعطا شاہ نے ہی لکھا۔ جس کا عنوان 'دید مغرب المعروف باہدایت المسافرین' تھا۔ تین جلدوں پر مشتمل اس سفرنامے کی اب صرف پہلی جلد دست یاب ہے۔ پہلی جلد دانا پور (پٹنہ) تا بمبئی، دوسری جلد بمبئی تا سفر مقدس، جب کہ تیسری جلد واپسی کے سفر پر مشتمل ہے۔
ڈاکٹر عطا خورشید کہتے ہیں کہ مولانا آزاد لائبریری اپنے ذخیرے اور خدمات کے سبب ہندوستان کی اول درجے کی لائبریری شمار ہوتی ہے۔ کتب خانے کی خدمات علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلبہ کے لیے بلامعاوضہ ہیں۔ بیرونی قارئین دوہزار روپے (قابل واپسی) جمع کرا کے استفادہ کر سکتے ہیں۔
ڈاکٹر عطا خورشید سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا ذکر چھِڑا تو انہوں نے بتایا ہندوستان میں دو جگہوں پر محمد علی جناح کی تصویر لگی ہے، ایک پاکستان کا سفارت خانہ اور دوسرا علی گڑھ یونیورسٹی کا یونین ہال، کیوں کہ وہ وہاں کے تاحیات رکن تھے۔
ڈاکٹر عطا خورشید نے یہ انکشاف کیا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ٹیسٹ کی بنیاد پر داخلوں کے سبب یہاں میڈیکل اور انجینئرنگ میں غیر مسلم طلبا کی تعداد زیادہ ہے، لیکن ان کے رہن سہن اور بول چال سے آپ اندازہ نہیں لگا سکتے۔ ہاسٹل میں ہندو اور مسلم طلبا باہم شیر وشکر رہتے ہیں۔ باہر حالات کیسے بھی ہوں جامعہ کے احاطے میں کبھی تفریق محسوس نہیں کی گئی۔
1992ءمیں بابری مسجد کی شہادت کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کے حوالے سے ڈاکٹر عطا خورشید نے بتایا کہ اُس زمانے کے ہندی اخبارات نے یہ لکھنا شروع کیا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اسپتال میں آنے والے زخمیوں کو مارا جا رہا ہے۔ صحافی سعید نقوی صرف اس معاملے کی پرکھ کے لیے 136 کلو میٹر طے کرکے براستہ سڑک دلی سے علی گڑھ پہنچے۔ تو انہوں نے دیکھا کہ کچھ صحافی خوف کی وجہ سے آگے جانے سے گریزاں تھے۔ سعید نقوی انہیں اندر لے کر گئے اور دکھایا کہ یہ زخمی موجود ہیں آپ ان سے خود پوچھیے کہ کیا ان سے کوئی غلط برتاﺅ کیا گیا ہے؟
ڈاکٹر عطا خورشید کی شادی خدا بخش لائبریری کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد رضا بیدار صاحب کی صاحب زادی ڈاکٹر شائستہ سے ہوئی۔ اب وہ بھی ان کے ساتھ مولانا آزاد لائبریری میں کام کرتی ہیں۔ تین بیٹیاں ہیں۔ بڑی بیٹی ندا فاطمہ نے ایل ایل بی کیا اور اب سول سروس میں جانا چاہتی ہیں۔ دوسری بیٹی سدرہ فاطمہ انگریزی میں آنرز کر رہی ہیں، چھوٹی بیٹی سنبل فاطمہ ایم بی بی ایس کے لیے کوشاں ہیں۔
مصروفیت ہو یا فرصت ڈاکٹر عطا خورشید کا محور کتاب ہے، زیاد توجہ تحقیق کے موضوعات پر رہتی ہے۔ قاضی عبدالودو کی تصانیف متاثر کرتی ہیں۔ حافظ محمود شیرانی کے تحقیقی اسرار ورموز کے معترف، اُن کے مقالات شیرانی کے گرویدہ۔ شعبہ عربی (علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) کے پروفیسر مختار احمد آرزو کی شخصیت کے دل دادہ ہیں، ان پر ایک کتاب 'مختار نامہ' بھی لکھ چکے ہیں۔ اشاریہ جات اور کتابیات سمیت کل 13 تصانیف منصہ شہود پر آچکی ہیں۔ ان دنوں مولانا آزاد لائبریری میں اٹھارہویں اور انیسویں صدی کی مطبوعات کی کتابیات اور اردو رسائل کی ڈائریکٹری تیار کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ علمی کام لائبریرین کی خصوصی لگن اور جذبے کے بغیر علمی کام ممکن نہیں، کیوں کہ اسے پتا ہوتا ہے کہ کتب خانے میں کیا خزانے موجود ہیں۔
زمانہ طالب علمی کے بعد فلمیں نہیں دیکھیں، ٹی وی پر صرف خبریں دیکھتے ہیں۔ ڈاکٹر عطا خورشید کے تمام بہن بھائی ہندوستان میں ہی ہیں، جب کہ ایک بھائی کو خالہ کراچی لے آئی تھیں۔ اس لیے منقسم خاندانوں کے دکھ کو بہت محسوس کرتے ہیں۔ آمدورفت کے لیے پریشانیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ سرکاری ملازم ہونے کے باوجود ویزے تک کی کڑی جانچ کی گئی۔ دونوں ممالک میں آنا جانا بے حد دشوار کر دیا گیا ہے۔ یہ ساری سختیاں بہت تکلیف دیتی ہیں۔
ڈاکٹر عطا خورشید سرحد پار کی کتابوں سے محرومی پر بھی بے حد دل گرفتہ ہیں، کہتے ہیں کہ ڈاک خرچ میں ہوش رُبا اضافے سے کتابوں کا تبادلہ رک گیا، عالم یہ ہے کہ 200 روپے کی کتاب پر 990 روپے ڈاک خرچ آتا ہے۔ دیگر سارک ممالک کے لیے یہ اخرجات کم ہیں، جب کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان یہ دس گنا تک زیادہ ہیں۔
٭٭٭
چوکھٹے
"ہم مخطوطات تک مکمل رسائی دیتے ہیں"
ڈاکٹر عطا خورشید کہتے ہیں کہ مولانا آزاد لائبریری مکمل ایئرکنڈیشنڈ اور کمپیوٹرائزڈ ہے، 24 گھنٹے کھلی رہتی ہے۔ بہ ذریعہ کمپیوٹر اس کا کیٹلاگ دیکھا جا سکتا ہے۔ 1950ءسے قبل کی تمام کتب اسکین کر کے ڈال دی گئی ہیں، جنہیں ڈاﺅن لوڈ بھی کیا جا سکتا ہے۔ مخطوطات کے صرف کیٹلاگ آن لائن ہیں۔ کتب خانے سے رابطہ کرنے پر مطلوبہ مخطوطے تک بامعاوضہ رسائی دے دی جاتی ہے۔ یہ کتب خانوں کی رِیت ہے کہ مخطوطات نہ صرف انٹرنیٹ پر نہیں ڈالتے، بلکہ طبعی طور پر بھی ان کے مواد تک ایک تہائی رسائی دیتے ہیں۔ اس کی وجہ پوچھی تو ڈاکٹر عطا خورشید نے کہا کہ وہ نہیں چاہتے کہ ایک نایاب چیز ان کے پاس ہے تو یہ اعزاز کسی اور کے پاس جائے، جب کہ ہم اسے ایک امانت سمجھتے ہوئے دوسروں تک پہنچانا ضروری سمجھتے ہیں، اس لیے ہمارے ہاں دیگر ہندوستانی کتب خانون کے برعکس مخطوطات تک مکمل رسائی دی جاتی ہے۔ اگر یہ چیزیں الماریوں اور صندوقوں میں بند رہے، تو پھر اس کا کیا فائدہ۔ اگر کوئی اسے ایڈٹ کرنا چاہتا ہے، اور اسے ایک تہائی حصے تک رسائی دی جائے، تو وہ بے مصرف ہے۔ کسی ضرورت مند کو ایک کتاب کے لیے تین بار زحمت دینے کے بہ جائے ایک ہی بار رسائی دینا بہتر ہے۔
نایاب کتب کا تحفظ
نادر ونایاب کتب کی حفاظت کے حوالے سے ڈاکٹر عطا خورشید نے بتایا کہ مولانا آزاد لائبریری میں مخطوطات کے لیے 'پیپر کنزرویٹو لیب' ہے، جہاں جدید طریقے سے مخطوطات کو محفوظ کیا جاتا ہے۔ کسی کتاب کو محفوظ کرنے کے لیے ماہرین کی ٹیم پہلے اس کی سیاہی کا جائزہ لیتی ہے۔ یہ اگر پھیلنے والی نہیں ہو، تو اسے لائم واٹر (Limewater) میں ڈال کر کاغذ کا پیلا پن دور کیا جاتا ہے، اس کے بعد کاغذ پر سلوشن لگایا جاتا ہے۔ جب بھی پرانی کتابوں کا کوئی ذخیرہ آتا ہے، تو پہلے اس کی صفائی ہوتی ہے۔ یہ کتابوں کی صفائی کا پرانا طریقہ ہے، جس میں روئی کی مدد سے ایک ایک صفحے کی صفائی کی جاتی ہے، جس سے کاغذ متاثر نہیں ہوتا۔ اس کام کو 'وراقت' کہتے ہیں اور یہ کام کرنے والا 'وراق' کہلاتا ہے، یعنی ورق پلٹنے والا۔ اس عمل کے بعد 'فیومگیشن چیمبر' میں کتاب رکھ کر کیڑوں کا خاتمہ کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور طریقہ جاپانی ٹشو کا استعمال ہے، جسے ضعیف اور بوسیدہ کاغذ پر چسپاں کر دیا جاتا ہے اور پھر اس کتاب کو اسکین کر لیتے ہیں۔ اس خفیف ٹشو کی یہ خوبی ہے کہ اسے بہ آسانی اتارا بھی جا سکتا ہے۔
مطبوعہ کتابوں کا مستقبل
ڈاکٹر عطا خورشید کہتے ہیںکہ اگرچہ 'ای بکس' آرہی ہیں، لیکن ابھی ہم مکمل طور پر پیپر لیس (Paperless) نہیں ہوسکتے، وجہ اردو کتابوں کے جملہ حقوق (کاپی رائٹ) ہیں۔ ہمارے ہاں پرانی کتب کی 'پی ڈی ایف' تو بن رہی ہیں، لیکن نئی کتب کو اس سطح تک آنے میں ابھی کافی وقت لگے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بات کا اندازہ اردو میں آن لائن جرنلز کی محدود تعداد سے لگا سکتے ہیں۔ انگریزی میں ایسے رسائل کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ اب ہم بھی قیمتاً آن لائن ان کے پاس ورڈ حاصل کرلیتے ہیں، مطبوعہ شکل خریدتے ہی نہیں، جب کہ اردو کے رسائل خریدتے ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے 106 مختلف شعبہ جات کے علیحدہ کتب خانے بھی ہیں، جس میں بھی کتب لاکھوں میںہیں۔ طلبہ صرف مطبوعہ مواد سے استفادہ کرنے ہی کتب خانے آتے ہیں، ورنہ باقی مواد تو وہ ایک جنبش پر بہ ذریعہ کمپیوٹر بھی دیکھ سکتے ہیں۔
سینیارٹی کے لیے 20،20 سال فیل ہوتے!
ڈاکٹر عطا خورشید علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی انفرادیت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سرسید نے یہاں تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا، جہاں والدین اپنے بچوں کو تربیت کے لیے ہاسٹل کے سینئر طلبا کے حوالے کر جاتے، جہاں ان کی مثالی تربیت ہوتی، اور پھر وہ سینئر ہوکر نئے آنے والوں کی تربیت کرتا۔ ڈاکٹر عطا خورشید کو ماضی کی اس روایت کے برقرار نہ رہنے کا افسوس ہے۔ کہتے ہیں کہ اُس نظام میں کچھ خرابیاں بھی سامنے آرہی تھیں، جیسے یہاں سینئر طلبا کا جو بلند مقام اور مرتبہ ہوتا تھا، اُس شان کو برقرار رکھنے کے لیے سینئر طلبا جان بوجھ کر 20، 20 سال فیل ہوتے، امتحانات ہی نہیں دیتے۔ یہاں تک کہ بیٹا بھی وہیں، باپ کے ساتھ طالب علم ہوتا۔ سید حامد 1980ءتا 1985ءعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے، انہوں نے ایسے تمام سینئر طلبا کو فارغ کیا، جس سے یہ مسئلہ تو حل ہوا، لیکن دوسری طرف تربیت کی دیرینہ روایت کو بھی زک پہنچی، ساتھ ہی یہاں اساتذہ اور طلبا نے بھی روایتی سیاہ شیروانی اور سفید پاجاما ترک کر دیا۔ یہ ملبوس اب صرف جامعہ کے اہم دنوں کا اہتمام رہ گیا، ورنہ پہلے کلاس کے لیے یہ لباس ایک دیرینہ روایت تھی۔ اب زیادہ تر اساتذہ اور طلبہ پتلون قمیص میں دکھائی دیتے ہیں۔