کوچۂ سخن
غزل
جیسے سیڑھی ہو کوئی تا بہ فلک، ایسی تھی
ہجر اور وصل کے مابین سڑک ایسی تھی
تاب آنکھوں میں کہاں تھی کہ اسے دیکھ سکیں
اُس کے آنے سے اندھیرے میں چمک ایسی تھی
ہو سکا پھر نہ کبھی دل کا جزیرہ آباد
میرے سینے میں ترے غم کی کسک ایسی تھی
دشت کو طُور بناکر بھی جُنوں کم نہ ہُوا
وحشت ِ عشق کے لاوے میں بھڑک ایسی تھی
جیسے ہر شخص کا دل تجھ پہ مَرا جاتا تھا
تجھ پہ مرکوز نگاہوں میں لپک ایسی تھی
سانولے جسم کی جیسے تھی پسینے میں مہک
میرے اشکوں میں نہاں موجِ نمک ایسی تھی
عمر بھر دے نہ سکا وقت کا طاغوت شکست
میرے احساس میں ایماں کی کُمک ایسی تھی
دی ہر اک پیڑ کی شاخوں نے گواہی مشتاق
اُس کے ہر انگ میں موجود لچک ایسی تھی
(حبیب الرحمان مشتاق۔گلگت )
۔۔۔
غزل
سوچتا ہوں کہوں، جادوئی رنگ میں ایک دن ناگہاں کوئی ایسی غزل
شعر پڑھتے ہوئے آسماں سے اترنے لگیں دیویاں،کوئی ایسی غزل
کوئی ایسی غزل کھیت میں لڑکیاں پھول چنتے ہوئے گنگنائیں جسے
گنگنائیں جسے پھول چنتے ہوئے کھیت میں لڑکیاں، کوئی ایسی غزل
کاش میں کہہ سکوں، اپنے رنگین خوابوں میں ڈوبی ہوئی لڑکیاں جب پڑھیں
اور پڑھتے سمے، خواب گاہوں میں اڑنے لگیں تتلیاں، کوئی ایسی غزل
اک طرف پھول اور گھاس چرتے ہرن،پربتوں پر دھنک جیسے پینٹنگ لگے
اک طرف منجمد آبشاروں سے گرتی ہوئی مچھلیاں، کوئی ایسی غزل
کوئی ایسا سخن ایک اک لفظ میں جس کے تاثیر ہو میگنٹ کی طرح
جب میں پڑھنے لگوں بھول جائیں دکاں دار سود و زیاں، کوئی ایسی غزل
یہ بھی ممکن ہے اردو زباں میں کہوں اور دنیا کے فکشن سے بہتر لگے
آہ بھرنے لگیں،رشک کرنے لگیں،کافکا،موپساں، کوئی ایسی غزل
(ظہور منہاس۔مظفر آباد)
۔۔۔
غزل
زندگی اس قدر گھماتی ہے
موت کی سمت لے کے جاتی ہے
یہ محبت کسی کی سنتی نہیں
حکم اپنا فقط چلاتی ہے
جانے زنداں میں کیوں ہوا آ کر
میری زنجیر کو ہلاتی ہے
جتنا وحشت سے بھاگتا ہوں میں
پاس اتنا مجھے بلاتی ہے
شاعری میں ہی میری طاقت ہے
مجھ کو مضبوط یہ بناتی ہے
مجھ کو مغرب میں غرق ہونا نہیں
میری تہذیب یہ بتاتی ہے
عشق والوں کو ہے خبر شہبازؔ
ہوش مدہوش ہو کے آتی ہے
(شہباز ماہی۔رینالہ خورد، اوکاڑہ)
۔۔۔
غزل
وحشت کے سدِباب کا کچھ حل نکال دوست
رَسی کو صرف دیکھ لے اور بَل نکال دوست
کردار ٹِک نہیں رہے منزل کے خوف سے
ناٹک کے اختتام سے مقتل نکال دوست
چابی کا کام اس جگہ کرتی ہیں چُٹکیاں
میں ہو گیا ہوں تجھ میں مقفل، نکال دوست
وہ پَل کہ جس میں مل رہے، پتھر اور آئینہ
البم میں ڈھونڈ کر ذرا، وہ پَل نکال دوست
آنکھیں دکھا رہی ہے چراغوں کو تیرگی
اپنے رُخِ جمال کی مشعل نکال دوست
دل کے نگر میں چاہتا ہے گر، تُو امن و چین
ویسیؔ کو اس جگہ سے، مکمل نکال دوست
(اویس احمد ویسی۔ زیارت معصوم۔ ایبٹ آباد)
۔۔۔
غزل
درمیاں کوئی سلسلہ بھی نہیں
اور یوں ہے کہ وہ جدا بھی نہیں
کون بچھڑا قصور تھا کس کا
کیا کہیں تم سے اب گلہ بھی نہیں
ہجر طاری ہے موسمِ جاں پہ
درمیاں کوئی فاصلہ بھی نہیں
نہ تلاطم نہ کوئی شورش ہے
زیست کا ا س طرح مزہ بھی نہیں
یاسیت نقش ہے ہر اک شے پر
آج میرے قریں خدا بھی نہیں؟
(سارہ خان ۔اسلام آباد)
۔۔۔
غزل
غموں کو ہنس کے سہا درد کو سہارا کیا
تمہارے ہجر میں کیا کیا نہیں گوارہ کیا
کسی کے عشق نے ایسا ہنر دیا مجھ کو
بدن کو چاند کیا روح کو ستارہ کیا
میں ایک غلطی فقط ایک بار کرتی ہوں
اسی لیے نہ کبھی عشق پھر دوبارہ کیا
تمام عمر ترے ہجر میں گزاری ہے
تمام عمر تری یاد پر گزارا کیا
کوئی پڑھے جو مجھے داد تمہیں دیتا ہے
تمہارے حسن کو شعروں میں یوں سنوارا کیا
حسین پہلے سے تھی میں مگر یہ مانتی ہوں
تمہی نے چھو کے مجھے آسماں کا تارا کیا
(ناہیداختربلوچ ۔ ڈیرہ اسمٰعیل خان)
۔۔۔
غزل
جی میں آتا ہے کہ دیکھوں یہ محبت کیا ہے
پھر میں کہتا ہوں کہ رہنے دو ضرورت کیا ہے
بات بے بات جھگڑتے ہو خفا ہوتے ہو
صاف بولو کہ تمہیں مجھ سے شکایت کیا ہے
لینے جاتا ہوں میں بازار سے خوشیاں اکثر
اور بس پوچھ کے آ جاتا ہوں قیمت کیا ہے
سارا گلشن نہیں بس ایک شجر کاٹا ہے
پر خدا جانے پرندوں کو مصیبت کیا ہے
کام بتلائیے، تعریف نہ کیجے میری
آپ کے لہجے سے دکھتا ہے کہ نیت کیا ہے
پہلے ہم لوگ پرندوں پہ ہنسا کرتے تھے
خود پہ آئی تو سمجھ آیا یہ ہجرت کیا ہے
(اسامہ رحمٰن مانی۔چکوال)
۔۔۔
غزل
اتنا پیارا جو مسکراتی ہیں
آپ کھانے میں پھول کھاتی ہیں؟
پیرہن جو بھی پہنتی ہے وہ
تتلیاں خود ہی بُن کے لاتی ہیں
میں بھی اتنا سنورنے لگتا ہوں
آپ جتنے قریب آتی ہیں
اچھا لگتا ہے مجھ کو سن کر آپ
میرے اشعار گنگناتی ہیں
یہ تو سب سے کمال بات ہے کہ
آپ باتیں نہیں بناتی ہیں
ان کو عزت ضرور ملتی ہے
جو کہ عزت کمانا چاہتی ہیں
جن کی عادت ہو بیٹھ کر کھانا
گھر کے کاموں سے جی چراتی ہیں
جو وفادار لڑکیاں ہوں وقاصؔ
بھاگ کر گھر نہیں بساتی ہیں
(وقاص احمد۔ملتان)
۔۔۔
غزل
گر ضرورت تمہیں، سہارے ہیں
ہم تمہارے لیے تمہارے ہیں
تیری دنیا تو قید خانہ تھا
قیدخانے میں دن گزارے ہیں
لہر بپھری ہوئی ہے دریا میں
اور سہمے ہوئے کنارے ہیں
آپ انکار کر نہیں سکتے
آپ اپنے نہیں ہمارے ہیں
( احسن خلیل احسن۔ ڈیرہ اسماعیل خان)
۔۔۔
غزل
غم زدوں کو سخن ضروری ہے
پتھروں کی لگن ضروری ہے
ان پرندوں کے آشیانے کو
اک بڑی سی تھکن ضروری ہے
جس طرف سے یہ تیر چلتے ہیں
اس نظر میں چبھن ضروری ہے
شام کو پھولتی شفق کو بھی
روشنی کی کرن ضروری ہے
ظلم ڈھاتے ہوئے اماموں کو
ایک برا سا شگن ضروری ہے
ہو بڑے نام کی اگر چاہ تو
اک سفر کی کٹھن ضروری ہے
موت کے بعد زندگی کے لیے
رب کے آگے جگن ضروری ہے
(امیر معاویہ۔ میانوالی)
۔۔۔
غزل
کوئی اپنا نہ پاس ہے سائیں
دل ہمارا اداس ہے سائیں
پہلے ہر ایک یار تھا اپنا
لیکن اب اقتباس ہے سائیں
میرے زخموں کو یوں کریدیں مت
آپ سے التماس ہے سائیں
میں جسے کچھ پتا نہیں چلتا
وہ زمانہ شناس ہے سائیں
اب محبت سے دور رہتا ہوں
یہ بڑی بدحواس ہے سائیں
(راجہ حارث دھنیال۔اسلام آباد)