دہشت گرد کون ہیں
جب Helen Thomas نے ایک یہودی ربی کو جواب دیا کہ فلسطین میں موجود تمام یہودیوں کو چاہیے کہ وہ اپنے اپنے وطن کو۔۔۔
NEW DELHI:
جب Helen Thomas نے ایک یہودی ربی کو جواب دیا کہ فلسطین میں موجود تمام یہودیوں کو چاہیے کہ وہ اپنے اپنے وطن کو لوٹ جائیں۔ تو ربی نے پوچھا کہ کہاں چلے جائیں؟ اس پر Helen Thomasنے ایمانداری سے جواب دیتے ہوئے کہا کہ پولینڈ، امریکا اور جرمنی سمیت دیگر جہاں سے ا ن کو لایا گیا ہے۔ بہر حال اس جواب کے بعد اسے وائٹ ہاؤس کی بہترین رپورٹر کی جاب سے ہاتھ دھونا پڑے اور اسے اس نوکری سے نکال دیا گیا۔ یقیناً اس کا یہ دلیرانہ اور ایماندارانہ جواب اسی بات کا متقاضی تھا کہ اس کے ساتھ اسی قسم کا سلوک روا رکھا جاتا کیونکہ اس نے ایمانداری کے ساتھ سچائی کو بیان کرتے ہوئے بتایا کہ سر زمین فلسطین کو عالمی صیہونی ازم نے کس طرح سے ہتھیا لیا ہے اور کس طرح سے غاصبانہ تسلط قائم کر رکھا ہے۔
اسرائیل پر قبضے کی مارچ1948ء سے ہی منصوبہ بندی کر لی گئی تھی کہ فلسطینیو ں کی بڑے پیمانے پر نسل کُشی کی جائے گی تا کہ فلسطین میں صیہونیوں کی آبادی کے تناسب کو فلسطینیوں کی آباد ی کے تناسب سے بڑھایا جائے تاہم پھر ایسا ہی ہوا کہ مئی 1948ء میں ساڑھے سات لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو ظلم اور تشدد کے باعث فلسطین سے ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا گیا جب کہ لاکھوں فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ پانچ سو اکتیس دیہات کو تباہ و برباد کر دیا گیا جب کہ گیارہ سے زیادہ فلسطینی شہروں کو بھی مکمل طور پر منہدم کر دیا گیا تھا یہی وہ دن تھا کہ جسے فلسطینیوں نے ''مصیبت کا دن'' یعنی ''یوم نکبہ'' قرار دیا تھا۔ البتہ صیہونی کی اس سازش کے نتیجے میں 80 فیصد فلسطینیوں کی آبادی کو اقلیت میں تبدیل کر دیا گیا اور غاصب صیہونیوں کو سر زمین فلسطین کا مالک بنا دیا گیا۔ جنہوں نے نہ صرف فلسطین کی زمین پر غاصبانہ تسلط قائم کیا بلکہ ساتھ ساتھ فلسطینیوں کے گھروں کی جگہ پر صیہونیوں کی کالونیاں بنانا شروع کر دیں۔
دہشت گرد کون؟
فلسطین کے عوام جو ان غیر قانونی صیہونیوں سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتے اگر کوشش بھی کریں تو صیہونی ان کے گھرو ں کو نذر آتش کر دیتے ہیں، حال ہی میں ہانی ابوہیکل کی ملکیت میں موجود باغات اور درختوں کو صیہونیوں نے دسویں مرتبہ نذر آتش کیا ہے۔ جب کہ ماضی میں بھی اس طرح کیا گیا تھا کہ ہانی ابو ہیکل کے گھر کو صیہونی دہشتگردوں نے نذر آتش کر دیا تھا اور حال ہی میں ایک مرتبہ پھر اس کے درختوں کو نذر آتش کر دیا گیا ہے۔ ہانی ابو ہیکل کے درختو ں کو نذر آتش کیے جانے سے ایک روز قبل ہی صیہونی غاصب افواج کے دستوں نے ہانی کے گھر پر چھاپہ مارا اور ہانی کو متنبہ کیا کہ اگر اس نے اپنی زمین کو صیہونیوں کے حق میں نہ چھوڑا تو پھر صیہونی دہشت گرد تنظیم کے لوگوں کے حوالے کر دیا جائے جس طرح ماضی میں انھوں نے اس کے گھر کو نذر آتش کیا تھا۔ اور پھر اگلے ہی روز صیہونی آباد کاروں کے ایک گروہ نے کیمیائی مادہ کے ساتھ ہانی کے زیتون کے باغ میں موجود درجنوں درختوں کو آگ لگا دی اور صیہونی فوجی اس عمل کی چوکیداری پر مامور تھے تا کہ کوئی بھی فلسطینی ان درختوں پر پانی ڈال کر آگ بجھانے کی کوشش نہ کرے۔
شاید ہی سر زمین فلسطین پر کوئی ایسا دن بھی گذرتا ہو گا کہ جس روز فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار نہ کیا جاتا ہو یا ان کے باغات اور کھیتوں کو آگ کی نظر نہ کیا جاتا ہو۔Gilad Atzmon کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق اسرائیلی ریاست اور اس کی لابی صرف مشرق وسطیٰ ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے امن کے لیے سنگین خطرہ بن چکی ہے۔ دور حاضر میں صیہونزم اور اس کی لابی ایک ایسا خطرہ ہے جس کا دنیا کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور دنیا میں امن و امان قائم کرنے کے لیے صیہونزم ایک ایسی لائن ہے جس کی حمایت اور مخالفت در اصل اچھائی اور برائی کی تعریف کرنے میں مدد گار ہے یعنی اگر کوئی صہیونزم کا حامی ہے تو اس کا مطلب ہے برائی کی طرف ہے اور اگر کوئی صیہونزم کے خلاف ہے تو یقینا اچھائی کی طرف ہے۔
برطانوی پارلیمنٹ بھی امریکی کانگریس سے مختلف نہیں ہے کہ جس نے مسئلہ فلسطین سے خیانت میں ہمیشہ صف اول کا کردار ادا کیا ہے کیونکہ برطانوی پارلیمنٹ کے 80 فیصد اراکین پارلیمنٹ CFI یعنی (Conservative Friends of Israel).) نامی تنظیم کے ممبر ہیں۔
اسرائیلی روزنامے ''ہارٹز'' میں شا یع ہونے والی خبر میں لکھا گیا ہے کہ اسرائیل اور امریکا اس بات پر متفق ہیں کہ ایران دنیا کے لیے سنگین خطرہ ہے کیونکہ وہ نیوکلیئر انرجی کے حصول میں کوشاں ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایران کس طرح دنیا کے لیے خطر ناک ہو سکتا ہے کہ جس نے آج تک ایک ایٹمی ہتھیار نہیں بنا یا ہے، جب کہ اسرائیل کے پاس دو سو سے زائد ایٹم بم بنے بنائے رکھے ہیں۔
پروفیسر Jim Fetzer اسرائیل کے جنونی وزیر اعظم نیتن یاہو کی جانب سے دیے جانے والے بیان کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یہ اسرائیلی وزیر اعظم کا جھوٹا پراپیگنڈا ہے کہ جنہوں نے کہا کہ ایران نے تیس سال قبل ہی ایٹمی ہتھیار بنا لیے تھے، حالانکہ سچائی اس کے برعکس ہے جو دنیا پر عیاں ہو چکی ہے۔ دوسری طرف امریکی خفیہ اداروں نے 2007ء میں ایک رپورٹ پیش کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ایران ایٹمی ہتھیار نہیں بنا رہا ہے اور اس رپورٹ کو 2011ء میں ایک مرتبہ پھر بیان کیا گیا۔
خلاصہ یہ ہے کہ اسرائیل اب زیادہ دیر تک اس پراپیگنڈے کے باعث دنیا کو بے وقوف نہیں بنا سکے گا کہ ایران کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں یا ایران ایٹمی ہتھیار بنا رہا ہے، بلکہ اسرائیل یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ اسرائیلی ایٹمی ہتھیار نہ صرف خطے کے لیے بلکہ پوری دنیا کے امن کے لیے خطرہ بن چکے ہیں اور اسرائیل کا وجود خود دنیا کے امن کے لیے نہ صرف سوالیہ نشان بلکہ بہت سنگین خطرہ ہے۔ تاہم اسرائیل اس بات سے بھی آگاہ ہے کہ وہ وقت دور نہیں کہ جب صیہونی آباد کارو ں کو بالآخر ان کی آبائی سر زمینوں پر جانا پڑے گا کہ جہاں سے انھیں لا کر یہاں بسایا گیا ہے۔ اور یہی حقیقت بھی ہے۔
جب Helen Thomas نے ایک یہودی ربی کو جواب دیا کہ فلسطین میں موجود تمام یہودیوں کو چاہیے کہ وہ اپنے اپنے وطن کو لوٹ جائیں۔ تو ربی نے پوچھا کہ کہاں چلے جائیں؟ اس پر Helen Thomasنے ایمانداری سے جواب دیتے ہوئے کہا کہ پولینڈ، امریکا اور جرمنی سمیت دیگر جہاں سے ا ن کو لایا گیا ہے۔ بہر حال اس جواب کے بعد اسے وائٹ ہاؤس کی بہترین رپورٹر کی جاب سے ہاتھ دھونا پڑے اور اسے اس نوکری سے نکال دیا گیا۔ یقیناً اس کا یہ دلیرانہ اور ایماندارانہ جواب اسی بات کا متقاضی تھا کہ اس کے ساتھ اسی قسم کا سلوک روا رکھا جاتا کیونکہ اس نے ایمانداری کے ساتھ سچائی کو بیان کرتے ہوئے بتایا کہ سر زمین فلسطین کو عالمی صیہونی ازم نے کس طرح سے ہتھیا لیا ہے اور کس طرح سے غاصبانہ تسلط قائم کر رکھا ہے۔
اسرائیل پر قبضے کی مارچ1948ء سے ہی منصوبہ بندی کر لی گئی تھی کہ فلسطینیو ں کی بڑے پیمانے پر نسل کُشی کی جائے گی تا کہ فلسطین میں صیہونیوں کی آبادی کے تناسب کو فلسطینیوں کی آباد ی کے تناسب سے بڑھایا جائے تاہم پھر ایسا ہی ہوا کہ مئی 1948ء میں ساڑھے سات لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو ظلم اور تشدد کے باعث فلسطین سے ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا گیا جب کہ لاکھوں فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ پانچ سو اکتیس دیہات کو تباہ و برباد کر دیا گیا جب کہ گیارہ سے زیادہ فلسطینی شہروں کو بھی مکمل طور پر منہدم کر دیا گیا تھا یہی وہ دن تھا کہ جسے فلسطینیوں نے ''مصیبت کا دن'' یعنی ''یوم نکبہ'' قرار دیا تھا۔ البتہ صیہونی کی اس سازش کے نتیجے میں 80 فیصد فلسطینیوں کی آبادی کو اقلیت میں تبدیل کر دیا گیا اور غاصب صیہونیوں کو سر زمین فلسطین کا مالک بنا دیا گیا۔ جنہوں نے نہ صرف فلسطین کی زمین پر غاصبانہ تسلط قائم کیا بلکہ ساتھ ساتھ فلسطینیوں کے گھروں کی جگہ پر صیہونیوں کی کالونیاں بنانا شروع کر دیں۔
دہشت گرد کون؟
فلسطین کے عوام جو ان غیر قانونی صیہونیوں سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتے اگر کوشش بھی کریں تو صیہونی ان کے گھرو ں کو نذر آتش کر دیتے ہیں، حال ہی میں ہانی ابوہیکل کی ملکیت میں موجود باغات اور درختوں کو صیہونیوں نے دسویں مرتبہ نذر آتش کیا ہے۔ جب کہ ماضی میں بھی اس طرح کیا گیا تھا کہ ہانی ابو ہیکل کے گھر کو صیہونی دہشتگردوں نے نذر آتش کر دیا تھا اور حال ہی میں ایک مرتبہ پھر اس کے درختوں کو نذر آتش کر دیا گیا ہے۔ ہانی ابو ہیکل کے درختو ں کو نذر آتش کیے جانے سے ایک روز قبل ہی صیہونی غاصب افواج کے دستوں نے ہانی کے گھر پر چھاپہ مارا اور ہانی کو متنبہ کیا کہ اگر اس نے اپنی زمین کو صیہونیوں کے حق میں نہ چھوڑا تو پھر صیہونی دہشت گرد تنظیم کے لوگوں کے حوالے کر دیا جائے جس طرح ماضی میں انھوں نے اس کے گھر کو نذر آتش کیا تھا۔ اور پھر اگلے ہی روز صیہونی آباد کاروں کے ایک گروہ نے کیمیائی مادہ کے ساتھ ہانی کے زیتون کے باغ میں موجود درجنوں درختوں کو آگ لگا دی اور صیہونی فوجی اس عمل کی چوکیداری پر مامور تھے تا کہ کوئی بھی فلسطینی ان درختوں پر پانی ڈال کر آگ بجھانے کی کوشش نہ کرے۔
شاید ہی سر زمین فلسطین پر کوئی ایسا دن بھی گذرتا ہو گا کہ جس روز فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار نہ کیا جاتا ہو یا ان کے باغات اور کھیتوں کو آگ کی نظر نہ کیا جاتا ہو۔Gilad Atzmon کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق اسرائیلی ریاست اور اس کی لابی صرف مشرق وسطیٰ ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے امن کے لیے سنگین خطرہ بن چکی ہے۔ دور حاضر میں صیہونزم اور اس کی لابی ایک ایسا خطرہ ہے جس کا دنیا کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور دنیا میں امن و امان قائم کرنے کے لیے صیہونزم ایک ایسی لائن ہے جس کی حمایت اور مخالفت در اصل اچھائی اور برائی کی تعریف کرنے میں مدد گار ہے یعنی اگر کوئی صہیونزم کا حامی ہے تو اس کا مطلب ہے برائی کی طرف ہے اور اگر کوئی صیہونزم کے خلاف ہے تو یقینا اچھائی کی طرف ہے۔
برطانوی پارلیمنٹ بھی امریکی کانگریس سے مختلف نہیں ہے کہ جس نے مسئلہ فلسطین سے خیانت میں ہمیشہ صف اول کا کردار ادا کیا ہے کیونکہ برطانوی پارلیمنٹ کے 80 فیصد اراکین پارلیمنٹ CFI یعنی (Conservative Friends of Israel).) نامی تنظیم کے ممبر ہیں۔
اسرائیلی روزنامے ''ہارٹز'' میں شا یع ہونے والی خبر میں لکھا گیا ہے کہ اسرائیل اور امریکا اس بات پر متفق ہیں کہ ایران دنیا کے لیے سنگین خطرہ ہے کیونکہ وہ نیوکلیئر انرجی کے حصول میں کوشاں ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایران کس طرح دنیا کے لیے خطر ناک ہو سکتا ہے کہ جس نے آج تک ایک ایٹمی ہتھیار نہیں بنا یا ہے، جب کہ اسرائیل کے پاس دو سو سے زائد ایٹم بم بنے بنائے رکھے ہیں۔
پروفیسر Jim Fetzer اسرائیل کے جنونی وزیر اعظم نیتن یاہو کی جانب سے دیے جانے والے بیان کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یہ اسرائیلی وزیر اعظم کا جھوٹا پراپیگنڈا ہے کہ جنہوں نے کہا کہ ایران نے تیس سال قبل ہی ایٹمی ہتھیار بنا لیے تھے، حالانکہ سچائی اس کے برعکس ہے جو دنیا پر عیاں ہو چکی ہے۔ دوسری طرف امریکی خفیہ اداروں نے 2007ء میں ایک رپورٹ پیش کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ایران ایٹمی ہتھیار نہیں بنا رہا ہے اور اس رپورٹ کو 2011ء میں ایک مرتبہ پھر بیان کیا گیا۔
خلاصہ یہ ہے کہ اسرائیل اب زیادہ دیر تک اس پراپیگنڈے کے باعث دنیا کو بے وقوف نہیں بنا سکے گا کہ ایران کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں یا ایران ایٹمی ہتھیار بنا رہا ہے، بلکہ اسرائیل یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ اسرائیلی ایٹمی ہتھیار نہ صرف خطے کے لیے بلکہ پوری دنیا کے امن کے لیے خطرہ بن چکے ہیں اور اسرائیل کا وجود خود دنیا کے امن کے لیے نہ صرف سوالیہ نشان بلکہ بہت سنگین خطرہ ہے۔ تاہم اسرائیل اس بات سے بھی آگاہ ہے کہ وہ وقت دور نہیں کہ جب صیہونی آباد کارو ں کو بالآخر ان کی آبائی سر زمینوں پر جانا پڑے گا کہ جہاں سے انھیں لا کر یہاں بسایا گیا ہے۔ اور یہی حقیقت بھی ہے۔