کتاب پڑھے بغیر نہیں سوتا تدریس نوکری نہیں شوق ہے شیخ الجامعہ این ای ڈی

اچھے لوگ چُنیں، تو کام خودبخود ہوتا ہے، شیخ الجامعہ ’این ای ڈی‘ یونیورسٹی ڈاکٹر سروش لودھی کے حالات زیست

 زندگی کے ہر کام سے لطف اندوز ہوتا ہوں، سروش لودھی (فوٹو: ایکسپریس)

'1962ء میں جب نادرشا اڈیلجی ڈنشا (Nadirshaw Edulji Dinshaw) یونیورسٹی کی موجودہ جگہ اُس وقت کے کالج پرنسپل محمود عالم نے لی تو کس کو خبر تھی کہ مستقبل میں یہ کالج ملک کی ایک نمایاں اور اہم جامعہ کا روپ دھارلے گا اور اُس وقت جس بچے کی عمر ایک سال ہے وہ نہ صرف یہاں زانوئے تلمذ طے کرے گا، بلکہ یہاں لیکچرر بنے گا اور پھر ترقی کرتے کرتے ایک دن شیخ الجامعہ کے عہدے پر فائز ہوگا۔'


شہر قائد کی ایک سورج زدہ دوپہر میں یہ گفتگو ڈاکٹر سروش لودھی سے تھی، جنہوں نے کچھ دن قبل ہی این ای ڈی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی مسند سنبھالی ہے نہایت نستعلیق شخصیت کے حامل ڈاکٹر سروش کافی نپے تلے انداز میں اپنے وقت کی تنظیم کرتے ہیں ہم سے پہلے کا سمے سنڈیکیٹ کے ایک رکن کے نام تھا، تو ہمارے بعد کے لمحات این ای ڈی کے ایک سابق طالب علم کے لیے تھے یعنی انجینئرنگ کے یہ استاد وقت کی بیش قیمت دولت خوب چھان پھٹک کر صرف کرتے ہیں، سو ہم نے خود کو ملنے والے مختصر سے وقت کو غنیمت جانا اور بات چیت شروع کی، دو طرفہ گفتگو اُن کی بے تکلفی اور خاکساری کے سبب اور بھی سہل ہوتی چلی گئی۔


ڈاکٹر سروش لودھی نے یکم جون 1961ء کو آبائی گھر فردوس کالونی (کراچی) میں آنکھ کھولی، اس کے بعد پاپوش نگر میں رہے اور پھر 1963ءمیں دستگیر (فیڈرل بی ایریا) آ بسے، 1992ء تک یہی مسکن رہا، اس کے بعد گلستان جوہر میں قیام رہا اور اب جامعہ کراچی کے نزدیک ایک فلیٹ کے مکین ہیں۔ ڈاکٹر سروش کی والدہ دستگیر گورنمنٹ گرلز سیکنڈری اسکول کی پہلی ہیڈ مسٹریس تھیں، جب کہ والد حشمت اللہ لودھی ایس ایم سائنس کالج میں پرنسپل تھے، جو بعد میں ایڈیشنل سیکریٹری تعلیم ہوگئے، والد ریڈیو اور ٹی وی سے بھی منسلک رہے اور کتابیں بھی لکھیں۔ گھر میں تعلیم اور تربیت پر بہت زیادہ توجہ تھی۔ شاید والدین کے تدریس سے وابستگی کا ہی اثر تھا کہ ڈاکٹر سروش لودھی نے دوسری جماعت ہی میں استاد بننے کا فیصلہ کرلیا۔


سات بہن بھائیوں میں ڈاکٹر سروش کا نمبر تیسرا ہے۔ کہتے ہیں کہ ہمارے سارے بہن بھائی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، سب سے بڑی بہن ڈاکٹر ہیں، جو سعودی عرب میں رہتی ہیں، کبھی ازراہ مذاق اُن سے کہتے ہیں کہ 'تم نے تو پڑھا ہی نہیں، فقط ایم بی بی ایس ہی کیا ہے' باقی سب نے تو مزید تخصیصی تعلیم حاصل کی ہے۔ چھے بہن بھائیوں میں تین بھائی اور دو بہنوں نے شعبہ طب میں مہارت حاصل کی، جب کہ سب سے چھوٹے بھائی نے اِن کی طرح سول انجینئر کا میدان چُنا،اور ان کے شاگرد بھی رہے۔


ڈاکٹر سروش کے والد حشمت لودھی کا تعلق لکھنو سے، جب کہ والدہ میرٹھ سے ہیں، کہتے ہیں کہ والدہ نے 1950ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے کیا۔ اُس زمانے میں لڑکیوں کو زیادہ نہیں پڑھایا جاتا تھا، لیکن اُن کے نانا نے والدہ کو میرٹھ سے علی گڑھ پڑھنے کے لیے بھیجا، جس پر نانا کے بزرگوں نے ملنا جلنا چھوڑدیا کہ امجد علی (نانا) کا تو دماغ خراب ہو گیا، بیٹی کو پڑھا رہا ہے۔


ڈاکٹر سروش کہتے ہیں کہ ایک تعلیم یافتہ ماں کا فائدہ اگلی نسلوں کو بہت ہوا۔ اُن کی والدہ نے درس وتدریس سے وابستگی کے باوجود اپنے ساتوں بچوں پر کڑی نظر رکھی، یہی نہیں وہ شاعری بھی کرتی تھیں اور انہوں نے کتابیں بھی لکھیں۔


ڈاکٹر سروش کے دادا 'رائل انڈین آرمی' میں ڈاکٹر تھے اور وہ پہلی جنگ عظیم میں ترکی کے محاذ پر متعین رہے۔ اُن کی لکھنو میں تعیناتی کے دوران ڈاکٹر سروش کے ایک تایا 18 سال کی عمر میں ایک حادثے میں انتقال کر گئے، جن کی تدفین لکھنو میں ہوئی، یوں دادا بھی وہیں رہ گئے اور اُن کے والد حشمت لودھی کی پیدائش بھی وہیں ہوئی۔


ڈاکٹر سروش چلڈرن ہومز اسکول بہادر آباد میں زیرتعلیم رہے، 1977ء میں نمایاں نمبروں سے میٹرک کیا۔ اس کے بعد ایس ایم سائنس کالج میں پری انجینئرنگ میں داخلہ لیا، جہاں کے پرنسپل ان کے والد تھے۔ انٹر میں بھی نمایاں کام یابی حاصل کی اور پھر این ای ڈی یونیورسٹی میں سول انجینئرنگ کے طالب علم ہوگئے، چوں کہ بڑے بھائی میڈیکل سائنس کے طالب علم تھے، اس لیے انجینئرنگ کے چناﺅ میں کچھ تامل رہا۔


کہتے ہیں اس وقت کا تدریسی سلسلہ ایسا تھا کہ ساڑھے چار سال کی ڈگری پانچ سال میں تفویض ہوئی، دسمبر 1985ءمیں فارغ ہوئے، اس سے ایک ماہ پہلے ہی کنسلٹنٹ کی نوکری مل گئی، جہاں پانچ ماہ رہے۔ اس کے بعد 'اوری گن اسٹیٹ یونیورسٹی (امریکا) میں ڈیڑھ سال رہے، جہاں اسٹریکچرل انجینئرنگ میں ماسٹرز کیا۔ وطن واپسی سے پہلے ہی ان کے والد نے 'این ای ڈی' میں تدریس کی اسامی کے لیے ان کے کاغذات جمع کرادیے۔


مئی 1988ء میں بطور لیکچرر این ای ڈی یونیورسٹی کا حصہ بن گئے۔ اُس وقت کی یہ خوشی اور ولولہ آج بھی تازہ ہے کہ اپنی ہی مادر علمی میں تدریسی خدمات انجام دینے کا موقع مل رہا ہے۔ 1991ءمیں اسسٹنٹ پروفیسر بن گئے۔ 1994ء میں حکومت پاکستان کی 'سینٹرل اوورسیز ٹریننگ اسکیم' (COTS) کے تحت پی ایچ ڈی کی اسکالر شپ ملی، جس پر اسکاٹ لینڈ کی Heriot-Watt University گئے، جہاں سے 1998ءمیں واپسی ہوئی۔


ڈاکٹر سروش نے اب این ای ڈی یونیورسٹی کے ماحول میں کافی بدلاﺅ پایا، اُس وقت کے شیخ الجامعہ ابوالکلام اُن سے متاثر ہوئے اور انہیں ایڈہاک پر ایسو سی ایٹ پروفیسر کر دیا اور ان سے کہا کہ دو ذمے داریاں ہیں ان میں سے ایک منتخب کرلیں۔ ایک ڈائریکٹریٹ آف انڈسٹریل لائژن (Directorate of Industrial Liaison)، اور دوسرا یونیورسٹی کے آئی ایس او 9000 کی سرٹیفکیشن کی، یوں 1998ءمیں وہ کوالٹی انشورنس مینجر آف یونیورسٹی ہوگئے اور یونیورسٹی کے کوالٹی انشورنس ماڈل پر کام شروع کیا، ساتھ ایسوسی ایٹ پروفیسر کے طور پر تدریس وتحقیق بھی جاری رہی۔


نومبر 2002ءمیں این ای ڈی پاکستان کی پہلی پبلک سیکٹر یونیورسٹی بنی، جسے آئی ایس او 9000 سرٹیفکیشن حاصل ہوا۔ اس مقصدکے لیے انہوں نے جامعہ کے ہر شعبے کے کاموں کو پانچ ہزار صفحات کی ضخیم دستاویز میں سمویا۔ کہتے ہیں کہ اس سے انہیں جامعہ کے نظام کو نہایت باریک بینی سے سمجھنے کا موقع ملا اور ساری خرابیوں اور ان کے حل کی بھی خبر ہوئی، 2005ء تک یہاں خدمات دیں۔


اس دوران 2000ء میں پروفیسر کے عہدے پر ترقی ہوگئی، بقول ڈاکٹر سروش 'اُس وقت عموماً اتنی کم عمری میں یہ مرحلہ طے نہیں ہوتا تھا۔' اس کے ساتھ ساتھ سول انجینئرنگ کے 'کو چیئرمین' کا عہدہ بھی مل گیا، جس میں پوسٹ گریجویٹ پروگرام کی نگرانی کی، 2003ء میں شعبہ سول انجینئرنگ کے مسند نشیں ہوگئے، جب کہ 2010ء میں کلیہ 'سول انجینئرنگ اینڈ آرکیٹکچر' کے ڈین بن گئے۔


انہیں میری ٹوریس (Meritorious) پروفیسر کا درجہ بھی حاصل ہوا، سینئر موسٹ پروفیسر بھی رہے، پھر مارچ 2017ء سے این ای ڈی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے عہدے پر فائز ہیں۔


ڈاکٹر سروش سابق شیخ الجامعہ ابوالکلام کی سرپرستی اور تحقیقی تربیت کے لیے صاحبزادہ فاروق احمد رفیقی کی راہ نمائی کا اعتراف کرتے ہیں۔ ابوالکلام کے بعد افضل حق شیخ الجامعہ ہوئے، تو ڈاکٹر سروش نے ان کے ساتھ بھی کام کیا۔ ساتھ ہی تحقیقی کا کام بھی جاری رہا۔ 2016ءمیں ریسرچ ایکسی لینس ایوارڈ ملا، جو اب تک صرف دو لوگوں کو ہی دیا گیا ہے۔ 100 سے زائد ریسرچ پبلی کیشنز ہیں۔ یونیسکو (UNESCO) کی جانب سے ایک کتاب زلزلوں سے متعلق لکھی۔ پاکستان میں نیشنل ڈیزاسٹر اتھارٹی کے علاوہ یونیسکو اور 'یو این ڈی پی' (United Nations Development Programme) وغیرہ کے بہت سارے تحقیقی منصوبوں کا حصہ رہے۔


ڈاکٹر سروش حکومت سندھ کے 'پرائیوٹ پبلک پارٹنر شپ بورڈ' کے بھی رکن ہیں۔ این ای ڈی یونیورسٹی کے علاوہ مہران یونیورسٹی اور سندھ مدرسة الاسلام یونیورسٹی وغیرہ کے سنڈیکٹ کے رکن رہے۔ ستمبر 2007ءمیں کراچی (شیرشاہ) میں پل گرنے کا حادثہ ہوا، تو اس کی تحقیقاتی کمیٹی کا بھی حصہ رہے۔ جب ہم نے یہ سنا کہ وہ کراچی انفراسٹریکچر ڈیولپمنٹ کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹریٹ میں بھی سرگرم ہیں، جو کراچی میں 'گرین لائن بس منصوبہ' بنا رہی ہے، تو ہمیں اس منصوبے کی نذر ہونے والے سیکڑوں پیڑ پودے یاد آگئے، جس کے حوالے سے ڈاکٹر سروش نے کہا کہ ترقی کے لیے یہ قربانی مجبوری تھی، لیکن اگر ایک درخت کاٹنا پڑا، تو اس کی جگہ دو درخت لگانے چاہیے تھے۔ درختوں کی منتقلی کے تذکرے پر انہوں نے کہا کہ ان میں اکثر چھوٹے پودے تھے، جو منتقل نہیں کیے جا سکتے تھے۔


ڈاکٹر سروش دوستوں کے حوالے سے خود کو خوش نصیب سمجھتے ہیں، تمام دوست اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں، وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ بھی ان کے ہم جماعت رہے، ماضی بازیافت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دونوں باری باری ایک دوسرے کے گھر پر پڑھتے، مراد علی شاہ کے والد عبداللہ شاہ انہیں چھوڑنے آتے۔ سیاست کی طرف کبھی توجہ نہیں دی، لیکن ذاتی طور پر اب بھی مراد علی شاہ سے دوستی ہے، کہتے ہیں 27 برس بعد ہمارے عہدوں میں زمین آسمان کا فرق ہے، لیکن آج بھی ذاتی نوعیت کا کسی بھی مشورے کے لیے وہ انہیں ہی فون کرتے ہیں۔



ہم نے سیاسی مشاورت کا سوال داغا، تو ڈاکٹر سروش نے نفی کی کہ میں سیاسی آدمی نہیں ہوں، لیکن کچھ برس قبل وطن واپسی کے لیے سب سے پہلے مجھ سے پوچھا، میں نے کہا کہ آپ کو آنا چاہیے اور پھر انہوں نے واپسی کا فیصلہ کیا۔ بچپن کی دوستیوں کے حوالے سے کہتے ہیں کہ غربت نہیں تھی، لیکن اس کے باوجود میل جول ایسا ہوتا کہ دوپہر میں یار دوست ملے اور پوچھا کہ تمہاری جیب میں کتنے پیسے ہیں اور ہماری جیب میں اتنے ہیں، چلو مل ملا کر کچھ کھا پی لیتے ہیں۔ سارے دوست گھر میں آتے جاتے تھے، کہتے ہیں کہ یہ ایک طریقہ تھا جس سے بڑے خبر رکھتے تھے کہ بچے کا اٹھنا بیٹھنا کن لوگوں میں ہے، اور وہ کن گھرانوں سے ہیں۔


ڈاکٹر سروش سمجھتے ہیں کہ 'این ای ڈی' چوں کہ 1977ء میں جامعہ بنی، اس لیے یہاں تحقیق کا ماحول بننے میں وقت لگا، جب ابوالکلام وائس چانسلر بنے تو صورت حال بہتر ہوئی۔ ڈاکٹر سروش کا ماننا ہے کہ اچھے لوگ منتخب کرلیں، انہیں سہولیات اور آزادی دیں تو پھر یہ کام خودبخود کرتے ہیں۔ وہ یہی ماحول پوری این ای ڈی یونیورسٹی میں قائم کرنا چاہتے ہیں۔ نچلے انتظامی امور میں مداخلت کو کام رکنے کا سبب سمجھتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ عام طور پر انتظامی امور سے مراد 'پولیسنگ' لیا جاتا ہے، جب کہ اسے آخری مرحلے پر رکھنا چاہیے۔


ڈاکٹر سروش کی خواہش ہے کہ این ای ڈی یونیورسٹی کا اصل مقام ومرتبہ لوگوں کے سامنے آنا چاہیے، کہتے ہیںکہ این ای ڈی اور ڈاﺅ (DOW) یونیورسٹی جیسے ادارے اس ملک میں جو سماجی ومعاشی تبدیلی لائے ہیں، اسے کسی نے ماپا نہیں، این ای ڈی یونیورسٹی ہمیشہ اپنے طلبہ سے پہچانی گئی، یہ دنیا کے ہر کونے میں بہت کام یاب ہیں۔ ڈاکٹر سروش لودھی کے عہدے کی مدت مارچ 2021ء تک ہے، کہتے ہیں کہ اللہ نے زندگی اور موقع دیا، تو وہ 2021ء میں این ای ڈی کے قیام کی صد سالہ تقریبات بڑے پیمانے پر منائیں گے، اس کے لیے دنیا بھر کے کام یاب المنائی کی معاونت حاصل کر رہے ہیں، این ای ڈی کے نام پر پیسہ دینے والے لوگ بہت ہیں۔


ہم نے سرکاری مدد کا سوال کیا تو کہنے لگے کہ ضرورت ہوگی، تو وہ بھی لیں گے، ہمارے معاملے میں صوبائی اور وفاقی حکومت نے ہمیشہ فراخ دلی کا مظاہرہ کیا ہے۔ سابق وائس چانسلر ابوالکلام کے زمانے میں این ای ڈی یونیورسٹی میں کافی تعمیرات ہوئیں، یہ اُن کی خوش قسمتی کہہ لیجیے کہ اسی زمانے میں ڈاکٹر عطاالرحمن چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن بنے اور انہوں نے بہت پیسہ دیا۔ البتہ تین، چار سال قبل این ای ڈی یونیورسٹی کے مالی حالات بہت خراب ہوئے، تو حکومتِ سندھ نے دو حصوں میں 85 کروڑ روپے دیے۔ کہتے ہیں کہ اس کا اجرا 27 جون اور 10 جولائی کو کیا گیا، تا کہ یہ رقم دو الگ الگ مالی سالوں میں تقسیم ہو جائے۔


ڈاکٹر سروش لودھی 1993ء میں والدہ کی پسند سے رشتہ ازدواج سے منسلک ہوئے، شریک حیات والدہ کی کزن ہیں۔ شادی کے وقت وہ جامعہ کراچی میں ایم اے فائنل (اسلامک اسٹڈیز) میں تھیں۔ 1994ء میں وہ پی ایچ ڈی کے لیے باہر گئے، ایک ماہ بعد اہلیہ بھی چند ماہ کی بیٹی کے ساتھ وہاں آگئیں۔ اُن کی نصف بہتر دینی رجحان کی حامل ہیں اور عالمہ بن رہی ہیں۔ دو سال قبل انہوں نے سفر حج کا فیصلہ کیا، تو ڈاکٹر سروش باریش ہوگئے۔


ڈاکٹر سروش لودھی کے چار بچے ہیں، بڑی بیٹی سول انجینئرنگ فائنل میں زیر تعلیم ہے، بیٹا آئی بی اے میں کمپیوٹر سائنس میں زانوئے تلمذ طے کر رہا ہے، چھوٹا بیٹا حفظ قرآن کے بعد اب نویں، جب کہ چھوٹی بیٹی ساتویں جماعت میں زیر تعلیم ہے۔


ڈاکٹر سروش زندگی کے ہر کام سے لطف اندوز ہونے پر یقین رکھتے ہیں، کہتے ہیں کہ نوکری نہیں کرتا، بلکہ اپنا شوق پورا کرتا ہوں۔ فرصت کا وقت بچوں کے ساتھ بِتانے کی کوشش کرتے ہیں اور دن کا کچھ حصہ اپنے والد کے ساتھ گزارتے ہیں، وہ بھی ہر دوسرے روز ان کے دفتر کا چکر لگاتے رہتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ باقی بہن بھائی بھی بہت سعادت مند ہیں، لیکن اُن کی اپنے والد سے قربت کچھ اور ہی ہے، اسے وہ اپنی خوش نصیبی قرار دیتے ہیں۔


ڈاکٹر سروش رات کو کتاب پڑھے بغیر نہیں سوتے، چاہے پندرہ منٹ ہی کیوں نہ پڑھیں۔ ان دنوں شعیب اختر کی خود نوشت زیر مطالعہ ہے۔ کبھی بہ یک وقت دو، دو کتابیں بھی پڑھتے ہیں۔ شفیق الرحمن کو بہت پڑھا، اب سفرنامے زیادہ شوق سے پڑھتے ہیں۔ پہلا سفرنامہ بیگم اختر ریاض الدین کا پڑھا تھا۔ ابن انشا اور مستنصر حسین تارڑ سے زیادہ متاثر ہیں۔ ذاتی ذخیرے میں کئی ہزار کتب ہیں۔ جب ڈین (Dean) تھے، تو اپنے کمرے میں کتابوں کے واسطے بڑے بڑے شیلف بنوالیے تھے، اب نئے کمرے میں بھی یہ انتظام کرا رہے ہیں۔ کتابیں گھر نہیں لے کر جاتے کہ 'ڈانٹ پڑتی ہے۔'


انگریزی فلمیں بہت پسند رہیں، اب دل چسپی نہیں، رنگ نیلا اور موسم سردی کا بھاتا ہے، پتلون قمیص میں خود کو آرام دہ پاتے ہیں۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہوآلہ وسلم کی تعلیمات اور طریقہ کار کو بہترین مشعل راہ قرار دیتے ہیں۔ قائداعظم کے کردار، اصول اور محنت نے گرویدہ کیا۔ باکسر محمد علی کلے کو رول ماڈل مانتے ہیں، اُن کی خودنوشت 'دی گریٹسٹ' سے بہت متاثر ہیں، یہ کتاب انہیں 1976ء میں اپنے اسکول پرنسپل سے تحفے میں ملی۔ والدہ نے تربیت ایسی کی کہ کھانے میں ہر چیز کھالیتے ہیں۔ کہتے ہیں والدہ کی ہدایت پر کھانا خود گرم کرنے کی عادت ہے، یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ بہن کرے، کیوں کہ وہ بھی پڑھ کر آرہی ہے، والدہ کہتیں کہ خود کھانا گرم کرو، بلکہ بہن کو بھی کر کے دو۔ ڈاکٹر سروش چاہتے ہیں کہ لوگ محنت کو عادت بنالیں، کیوں کہ اس کے بغیر کچھ نہیں ملتا۔


٭٭٭

چوکھٹے


'استاد وہ جو طلبہ کو سوچنے پر مجبور کرے'


ڈاکٹر سروش لودھی کی تدریس سے وابستگی کو تین عشرے تمام ہو چکے ہیں، لیکن اب بھی وہ بغیر پڑھے کلاس میں نہیں جاتے۔ کہتے ہیں کہ بنا پڑھے جانے کی کوئی تُک ہی نہیں ہے۔ گو کہ اب متعلقہ موضوعات پر ایک نظر ہی ڈالتے ہیں، لیکن یہ ضروری ہے۔ کلاس میں اگر آپ یہ بتانے جا رہے ہیں کہ آپ کو بہت آتا ہے، تو اس سے بڑی حماقت اور کوئی نہیں۔ استاد کا اصل کام مشکل چیز کو آسان بنا کر طلبہ تک پہچانا ہے، اپنی بات اس سطح پر لائیں کہ بہ آسانی سمجھی جائے۔ لیکچر کی ادائیگی کے ساتھ بورڈ کی مدد لینا اور 'سلائیڈز' کی ترتیب بھی اہم ہے۔ ہمیں کلاس کو ہمیشہ ہلکا پھلکا رکھنا چاہیے، کیوں کہ انجینئرنگ کے مضامین اتنے میتھمٹیکل ہوتے ہیں کہ توجہ مرکوز رکھنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ اس لیے طویل کلاسوں کے دوران ہلکی پھلکی باتیں کرنا بھی ضروری ہیں۔ اگر استاد صرف سنا کر چلا ائے، تو شاید 80 فی صد طلبہ بات ہی نہ سمجھ پائیں۔ ضروری ہے کہ انہیں بھی سوال جواب کے ذریعے کلاس میں شامل کریں، اس طرح وہ زیادہ بہتر سمجھتے ہیں، پڑھانے کے بعد اگر سوچ کی رمق پیدا نہ ہو، تو حق ادا نہ کیا۔ کلاس کا مقصد صرف یہ نہیں کہ سوال حل کرنا آجائے۔


یونیورسٹی کے لیے مزید جگہ کی تلاش ہے


ڈاکٹر سروش کہتے ہیں کہ 100 ایکڑ پر قائم این ای ڈی یونیورسٹی اب تنگی ¿ داماں کا شکوہ کر رہی ہے، اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ حکومت انہیں مزید جگہ دے، اور اب یہ کراچی سے باہر ہی ممکن ہو سکتی ہے، کیوں کہ شہر میں اتنی بڑی کوئی جگہ خالی نہیں۔ جس وقت جامعہ کراچی سے متصل این ای ڈی یونیورسٹی کے لیے زمین لی گئی، تب یہ شہر سے 12 میل دور تھی، تب ہی اس زمانے میں جامعہ کراچی کا احوال ایک معاصر روزنامے میں "شہر سے بارہ کوس پرے " کے عنوان سے شایع ہوتا تھا۔ کہتے ہیں کہ 1967ءمیں ان کی خالہ انگریزی میں ایم اے کر رہی تھیں، انہیں جامعہ کراچی آنے کے لیے فیڈرل بی ایریا سے براستہ لالو کھیت اور تین ہٹی، جہانگیر روڈ آنا پڑتا، جہاں ایک مزار کے پاس جامعہ کی بسیں کھڑی ہوتی تھیں، جو جیل سے گھوم کر براستہ پیر کالونی، 'کنٹری کلب روڈ' (نیوٹاﺅن) پر آتی، جہاں آگے سبزی منڈی کے بعد کوئی آبادی نہیں تھی، 'نیپا' (NIPA) کے بعد پہاڑی پر ایک پتلی سی سڑک آگے جاتی تھی، بائیں ہاتھ پر 'ایرو کلب' تھا، جہاں سے گلائیڈرز طیارے چلتے تھے، اب یہاں شادی ہال قائم ہے۔ سڑک صرف کناروں سے پکی تھی، جہاں بس کے پہیے چلتے تھے، باقی سڑک کچی ہوتی۔


کبھی والدہ سے تھپڑ بھی پڑ جاتا تھا


ڈاکٹر سروش کا خیال ہے کہ اپنے بہن بھائیوں میں وہ سب سے زیادہ شرارتی تھے، اس لیے وہ نہ صرف والدہ کو تنگ کرتے، بلکہ اہل محلہ کے لیے بھی درد سر رہے،کبھی کرکٹ کھیلتے ہوئے کسی کے گھر کا شیشہ توڑ دیتے، تو کبھی کسی گھر کی چھت پر گیند لینے چڑھ جاتے۔ ایسے میں والدہ کے علاوہ ہم سایوں کی ڈانٹ ڈپٹ بھی کھاتے۔ اُن کی والدہ صرف 57 سال کی عمر میں فوت ہوگئیں۔ والدہ کے وضع کردہ نظم وضبط کے حوالے سے ڈاکٹر سروش بتاتے ہیں کہ ان کا اسکول دور تھا، چناں چہ والدہ ان سے پہلے گھر آجاتی تھیں۔ گھر آتے ہی کپڑے بدل کر کھانا کھاتے، اس کے بعد عصر تک ہوم ورک کرتے، اس کے بعد نہا دھو کر چائے کے ساتھ کچھ کھالیتے، اس کے بعد گھر سے باہر کھیلنے کی اجازت ہوتی تھی۔ مغرب کی اذان ہوتے ہی گھر لوٹنے کی پابندی توڑنے کے سبب اکثر ڈانٹ کھاتے۔ کالج کے زمانے میں، جس روز کلاسیں ذرا تاخیر سے ہوتیں، یہ کھیلنے کی اجازت لینے والدہ کے اسکول پہنچ جاتے۔ وہ دفتری امور میں مصروف ہونے کے سبب منع تو نہ کر پاتیں، لیکن گھر آنے کے بعد برہم ہوتیں کہ وہاں نہ آیا کرو۔ والدہ کا زبانی غصہ کافی ہوتا تھا، لیکن کبھی کوئی بڑی غلطی ہو تو ایک آدھ تھپڑ بھی پڑ جاتا تھا۔ البتہ والد تک شکایت پہنچانے کی نوبت نہیں آتی تھی۔ والد سے ویسے بھی دوستانہ تعلقات تھے، اُن سے کوئی بھی بات منوالیتے تھے۔

Load Next Story