بُک شیلف
جانیے دلچسپ و عجیب کتابوں کے احوال۔
دشت بے کنار
شاعر: شاداب صدیقی، قیمت:600 روپے، صفحات:247
ناشر: الحمد پبلی کیشنز، کراچی (0322 2830957)
کلام میں خوبصورتی اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب انسان کے محسوسات بہت عمیق ہوں، یہی گہرائی انسان کو دوسروں سے منفرد انداز اور سوچ عطا کرتی ہے۔ جب سوچ افکاراور خیالات میں بدل جاتی ہے تو انسان اپنے دل کی بات یا خیالات دوسروں تک پہنچانا چاہتا ہے کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرے تو اس کے ذہن و دل میں پروان چڑھنے والے افکار ایک بوجھ بن جاتے ہیں، ایسے میں قلم کا سہارا لیا جاتا ہے، گویا قلم ادیب کے لئے ایک بہت بڑی نعمت ہے جو اس کا بوجھ آگے منتقل کرنے میں اس کی مدد کرتا ہے۔
شاداب صدیقی نے بھی بڑی خوبصورتی سے اپنے افکار بیان کئے ہیں ان کی شاعری کے حوالے سے اکرم کنجاہی کہتے ہیں ''شاداب صدیقی محبت کے ازلی جذبے کی لطافتوں سے آشنا ہیں اور یہی وہ سچا جذبہ ہے جو تخلیق کے لیے توانائی کا کام کرتا ہے۔ وہ غزل کی تہذیب اور مزاج کو سمجھتے ہیں ۔ انھوں نے عشق و محبت کی قلبی واردات کو جس طرح محسوس کیا ، اشعار میں بلا کم و کاست بیان کر دیا۔ ل
ہٰذا اس کا بھرپور اظہار ان کا شعری سرمایہ بنا ہے۔''امین جالندھری کہتے ہیں '' شاداب صدیقی سہل آسان اور رواں مصرعوں کی بنت پر کماحقہ دسترس رکھتے ہیں، احوال دل کو '' تلخی دوراں'' سے عبارت کرتے ہیں تاکہ عوام الناس '' غم'' کی اہمیت سے آگاہ ہوں اور اس دولت بے پایاں سے مسرت کشید کرنے کا ہنر جان جائیں۔'' مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
شذرات سرسید ، جلد اول
صفحات:۴۸۳ صفحات، سفید کاغذ پر طبع شدہ، مضبوط جلد اور دیدہ زیب سرورق، قیمت ۵۰۰ روپے۔
ملنے کا پتا: مجلس ترقی ادب، ۲ کلب روڈ ، نرسنگھ داس گارڈن ، مال روڈ لاہور
سرسید احمد خاں کے یہ مضامین وشذرات علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ، جو اردو صحافت کی تاریخ کا پہلا دو لسانی اخبار تھا، سے منتخب کیے گئے ہیں۔ ان شذرات کے مرتب علی اصغر عباس ہیں، جنہیں سرسید کے افکار وآثار پر مخصص مانا جاتا ہے۔ پاکستان میں یہ کتاب پہلی بار شائع ہو رہی ہے۔ شامل کتاب شذرات کی تعداد ۱۷۰ہے، جن میں زیادہ تعداد ان شذرات کی ہے، جو ایک دو صفحوں پر مشتمل ہیں، جبکہ کچھ مضامین تین چار صفحات پر بھی محیط ہیں۔ شبلی، حالی، داغ، امیر علی، بدرالدین طیب جی، بابو ابی ناش چندر، سید محمود، محمد حسین آزاد، غالب، گارساں دتاسی و دیگر مستشرقین کے بارے میں شذرات کے علاوہ مختلف سیاسی اور سماجی موضوعات اور بین الاقوامی مسائل پر لکھے گئے شذرات بھی شامل کتاب ہیں۔
'شروع کی بات' کے عنوان سے مرتب علی اصغر عباس کا مقدمہ بھی خاصے کی چیزہے، جس میں انہوں نے سرسید تحریک کے پیش منظر، سائنٹفک سوسائٹی اور تہذیب الاخلاق کی خدمات کا ذکر کیا ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ اس کتاب کا مطالعہ علی گڑھ تحریک اور سرسید افکار کے ضمن میں نہایت اہمیت کا حامل ہے۔
تاریخ ادب اردو ، جلد چہارم
صفحات ۱۶۳۶، کاغذ سفید، سرورق جاذب نظر، قیمت : ۲۰۰۰
ملنے کا پتا: مجلس ترقی ادب، ۲ کلب روڈ ، نرسنگھ داس گارڈن ، مال روڈ لاہور
اردو اور انگریزی میں اردو زبان وادب کی متعدد تواریخ لکھی گئی ہیں، لیکن ڈاکٹر جمیل جالبی کی چار ضخیم جلدوں پر مشتمل ''تاریخ ادب اردو'' کو ان تمام تواریخ میں جامع ترین قرار دیا گیا ہے۔ زیر نظر جلد چہارم انیسیویں صدی کے نصف آخر کے منظرنامے یعنی جنگ آزادی سے شروع ہوتی ہے۔
فصل اول مرزا غالب اور دوسرے بڑے شعرا کے کے علاوہ دیگر ممتاز ترین شعرا، فصل دوم اردو مرثیے کا آغاز و ارتقا اورروایت، فصل سوم دور جدید کی توسیع اور اردو کے عناصر خمسہ کے متعلق ہے۔ علاوہ ازیں اسی جلد میں اردو داستانوں کی تمہید و مطالعہ، ناول اور دیگر اصناف نثر، مذہبی تصانیف کی اردو نثر اور کتب تاریخ کی اردو نثر، نعت گوئی کے نئے رنگ، روایت اور انیسویں صدی کے اختتام اور جدید دور کی شاعری کے ارتقائی مراحل کا محاکمہ کیا گیا ہے۔
کتاب کے آخر میں تفصیلی اشاریہ بھی دیا گیا ہے ۔ جالبی صاحب نے ''تاریخ ادب اردو'' کے حقوق اشاعت مجلس ترقی ادب کے نام کر دیے ہیں ، جس نے ان تمام جلدوں کو یکے بعد دیگرے شائع کیا ہے۔ اول اول یہ تمام ایڈیشن ٹائپ میں شائع ہوئے تھے، لیکن اب نئی اشاعت نستعلیق رسم الخط میں ہے۔
رسالہ ء قواعد فارسی
صفحات : ۶۴، قیمت :۱۵۰ روپے
ملنے کا پتا: مجلس ترقی ادب، ۲ کلب روڈ ، نرسنگھ داس گارڈن ، مال روڈ لاہور
ڈپٹی نذیر احمد کا تالیف کردہ رسالہ ء فارسی موسوم بہ صرف صغیر پہلی بار ۱۸۷۰ء اور دوسری بار ۱۸۹۲ء میں شائع ہوا ۔ اشاعت دوم کے سرورق کا عکس شامل کتاب ہے۔ ڈپٹی نذیر احمد نے یہ رسالہ اردو کے ان طلبہ کے لیے لکھا تھا، جنہں فارسی زبان سکھانا مقصود تھا۔ ۱۲۸سال بعد بعد یہ رسالہ تصحیح متن و حواشی کے ساتھ ڈاکٹر تحسین فراقی نے مجلس ترقی ادب سے پہلی بار شائع کیا ہے، جس سے فارسی زبان کے قواعد پر مشتمل اس رسالے کی تفہیم آسان ہو گئی ہے۔ یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ اردو زبان، ادبیاب کی طرح زبان کے قواعد وضوابط میں بھی فارسی کی خوشہ چیں ہے بلکہ بقول مرتب اردو زبان کی تکمیل فارسی کی تحصیل کے بغیر ناممکن ہے۔ اس لیے فارسی کے ساتھ اردو زبان و ادب کے طلبہ کے لیے بھی زیر نظر رسالہ کا مطالعہ مفید ہے۔
سیاست نامہ
صفحات : ۲۷۰، خوش نما سرورق ، قیمت :۳۰۰ روپے
ملنے کا پتا : مجلس ترقی ادب، ۲ کلب روڈ ، نرسنگھ داس گارڈن ، مال روڈ لاہور
ابوعلی حسن بن علی خواجہ نظام الملک طوسی کی تصنیف کردہ اور مرزا محمد منور کی ترجمہ کردہ یہ کتاب مجلس ترقی ادب کے زیر اہتمام دوسری بار شائع ہو رہی ہے۔ اشاعت اول اردو ٹائپ میں ہوئی تھی جبکہ موجودہ ایڈیشن خط نستعلیق میں کمپوز کروا کے شائع کیا گیا ہے۔
کتاب کا مقدمہ سید عابد علی عابد نے تحریر کیا تھا ۔ شروع میں سبب تصنیف کتاب بیان کیا گیا ہے، جس کی رو سے سلجوقی سلطان سعید ابوالفتح ملک شاہ بن محمد امین نے ارباب دانش کو ہدایت کی کہ وہ سلطنت کے ہر شعبے کا جائزہ لے کر سفارشات مرتب کریں، جن کی روشنی میں سلاطین سلاجقہ کی روایات کو سلطنت میں بحال رکھا جا سکے نیز دینی اور دنیوی امور حسب قاعدہ سرانجام دیے جا سکیں۔ مختلف عمائدین و اہل فکر و دانش نے سفارشات مرتب کیں، تاہم سلطان نے نظام الملک کی تصنیف کو پسند کیا۔
کتاب پچاس مختصر ابواب پرمشتمل ہے، جس کے مندرجات ایک مثالی ریاست کی تشکیل و تزئین کے ضامن سمجھے جاتے ہیں۔سیاست نامہ میں روایات و حکایات اور داستانوں اور تاریخی واقعات کی موجودگی شیخ سعدی کی گلستان سعدی کے اسلوب کی یاد دلاتی ہے۔ دونوں کی غایت بھی ایک ہی تھی۔ گلستان سعدی کی طرح اس کا اسلوب بھی دلکش و دلچسپ ہے۔
پاکستان کی روشن اقلیتیں
مصنف: علی احمد ڈھلوں
قیمت:1400 روپے، صفحات:368
ناشر: لیڈر پبلی کیشنز، باڑہ ٹاور، کوئنز روڈ، لاہور (042 36300951)
اگر ایک قطار میں گلدستے سجائے گئے ہوں جن میں ایک ہی رنگ کے گلدستے بھی ہوں اور ایسے گلدستے بھی ہوں جن میں مختلف رنگوں کے پھول لگائے گئے ہوں تو یقیناً رنگ برنگے پھولوں سے مزین گلدستہ ایک ہی رنگ کے پھولوں سے بنے گلدستے کی نسبت زیادہ خوبصورت نظر آئے گا۔ اسی طرح جس معاشرے میں مختلف نسل، مذاہب اور اقوام کے افراد ہوں گے وہ مثالی ہو گا بشرطیکہ وہاں مساوات ہو ۔ گویا معاشرے کی رنگا رنگی اور بوکلمونی اسے بہترین معاشرے کے درجے پر لے جاتی ہے ۔
جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو ہمارا معاشرہ بھی ایسا ہی تھا۔ قائد اعظم ؒ نے اپنے دور میں اس حسن توازن کو قائم رکھا ۔ مسلمانوں کے علاوہ دوسری قومیتوں اور مذاہب کے افراد بھی اعلیٰ حکومتی عہدوں پر کام کر رہے تھے اور انھوں نے پاکستان حاصل کرنے کی جدوجہد میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا تھا۔ اس دور کی کابینہ کی رنگا رنگی اسے چار چاند لگا رہی تھی، جس میں اقلیتوں کی بھرپور نمائندگی موجود تھی۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ہمارے معاشرے کی یہ رنگا رنگی ماند پڑتی چلی گئی۔
حالانکہ ہمارے اقلیتی بھائی ملک وقوم کی دل و جان سے خدمت کرتے رہے مگر تعصب کی فضا نے انھیں دل گرفتگی سے دوچار کئے رکھا، ایسے میں علی احمد ڈھلوں جیسی شخصیات نے انھیں اپنا ہونے کا احساس دلا رکھا ہے، ان کی یہ کتاب اقلیتوں کو بہت بڑا خراج عقیدت ہے اور ہمارے معاشرے میں پائے جانے والے شدت پسند عناصر کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔کتاب کی ابتدا قائد اعظمؒ کے پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے اجلاس سے کئے گئے خطاب سے کی گئی ہے جس میں آپ اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے فرماتے ہیں ''آپ آزاد ہیں۔
آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کیلئے۔ آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے اور ریاست پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب، ذات یا نسل سے ہو۔ ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں''۔ آپ کا یہ خطاب پاکستان کی اقلیتوں کے حوالے سے ہماری رہنمائی کیلئے کافی ہے۔ معروف صحافی و تجزیہ کار عارف نظامی کہتے ہیں'' برادرم علی احمد ڈھلوں نے '' پاکستان کی روشن اقلیتیں '' رقم کر کے نہ صرف پاکستانی مسلمانوں پر اقلیتی برادری کا 73 سالہ واجب الادا قرض چکا دیا بلکہ پاکستان کے قیام کی تعمیر و ترقی میں قربانیاں دینے اور خون پسینہ ایک کرنے والے اقلیتی بھائیوں کو خراج عقیدت پیش کر کے قومی پرچم میں سفید رنگ کی جامع تشریح کر دی ہے ۔
ایسا لگتا ہے کہ ہمارے جھنڈے کے دونوں رنگوں کی انفرادی خصوصیات اجاگر ہو گئی ہیں'' ۔ معروف مذہبی دانشور جاوید احمد غامدی کہتے ہیں '' علی احمد ڈھلوں کی کتاب ' پاکستان کی روشن اقلیتیںحب الوطنی اور تعمیر وطن کی تڑپ کا نتیجہ ہے ۔ انھوں نے ان بیسیوں غیر مسلم محسنوں کا انتہائی دل نواز اور ضمیر کو جھنجھوڑنے والا تذکرہ کیا ہے کہ ان کے وہ ہاتھ چوم لینے کو دل کرتا ہے جنھوں نے لفظوں کے موتی پروئے اور یہ بار اور جھومر ان تمام ہستیوں کو پہنا دیے ہیں ۔'' شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری کچھ یوں رقم طراز ہیں'' یہ بات سچ ہے کہ وطن عزیز پاکستان میں ریاستی سطح پر اقلیتوں کے حقوق کا ہمیشہ خیال رکھا گیا لیکن کچھ ایسے ناخوشگوار واقعات بھی رونما ہوئے ہیں جن کی وجہ سے دنیائے عالم میں پاکستان کے تشخص کو نقصان پہنچا ہے اور بعض اوقات اقلیتوں کے حقوق کی بات کہنے والوں کو بھی دبائو میں لایا جاتا رہا ہے۔ ایسی صورت میں زیر نظر کتاب ' پاکستان کی روشن اقلیتیں' لکھنا اور اور اقلیتوں کی پاکستان کے لئے خدمات کا اعتراف کرنا یقییناً بہترین عمل ہے۔
یہ کتاب اس بات کا ثبوت ہے کہ اقلیتیں اس ملک کے ساتھ ہمیشہ وفادار رہیں۔'' غیر ملکی مفکرین نے بھی اسے قابل فخر کتاب قرار دیا ہے اور خراج تحسین پیش کیا ہے۔ بے شک مصنف نے ہمارے پاکستانی بھائیوں کی خدمات پیش کر کے انتہائی شاندار کارنامہ سرانجام دیا ہے اس کے لیے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں، انھوں نے پاکستان کا روشن چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا ہے، نئی نسل کو اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے، امید ہے کہ اس کتاب کے پھیلائو اور مطالعہ سے ہمارے معاشرے میں رواداری کو مزید فروغ ملے گا۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
ملے جو کہکشاں میں
امجد علی کا تعلق پاکستانی صحافیوں کے اس قبیلے سے ہے جن کی صحافتی سرگرمیوں اور اظہار کا خمیر فنون لطیفہ سے گہرے لگاؤ سے اٹھتا ہے۔ یہ کالج ہی کے زمانے سے لاہور کے مختلف اخبارات میں چھپنا شروع ہو گئے تھے۔ مصوری بھی کرتے ہیں اور ن کی بنائی ہوئی تصاویر بھی جرائد میں جگہ پاتی ہیں۔ 1987ء میں جرمنی کی عالمی سروس ڈوئچے ویلے کے شعبہ اردو سے منسلک ہئے اور سینئر ایڈیٹر اور پروڈیوسر کی حیثیت سے حالات حاضرہ، ادبی اور ثقافتی پروگرام پیش کرتے رہے۔
صحافتی سرگرمیوں کے علاوہ اپنے آبائی گاؤں ''ٹھٹھہ غلام کا دھیرو کا'' میں اپنے جرمن اساتذہ کے ساتھ مل کر فلاحی و ترقیاتی منصوبے بھی چلا رہے ہیں۔ زیرنظر کتاب ''ملے جو کہکشاں میں'' پاکستان اور بھارت سے تعلق رکھنے والے دس عظیم فنکاروں کے انٹرویوز اور ان شخصیات کے بارے میں دیگر ممتاز لوگوں کے تاثرات پر مبنی ہے جو ڈوئچے ویلے کی اُردو سروس کے مشہور پروگرام کہکشاں میں پیش کئے گئے۔ اس پروگرام کے روح رواح امجد علی ہی تھے۔
اِس کتاب میں جن چودہ شخصیات کو شامل کیا گیا ہے، ان کے نام ہی غیرمعمولی دلچسپی اور کشش کے حامل ہیں۔ جن بڑے ستاروں کو اس کہکشاں کا حصہ بنایا گیا ہے ان میں ملکہ ترنم نور جہاں، لتا منگیشکر، موسیقار نوشاد، گلوکار محمد رفیع، موسیقار خیام، مجروح سلطان پوری، ندا فاضلی، قتیل شفائی، گلزار، موسیقار ایم اشرف، موسیقار نثار بزمی، علی سردار جعفری، نصرت فتح علی خان اور اُستاد امجد علی خان شامل ہیں۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ لوگوں کے دلوں پر راج کرنے والے فنکارں کے باے میں ان کے پرستاروں کو غیرمعمولی دلچسپی ہوتی ہے، ان کے بارے میں جاننے کے لئے بے چین رہتے ہیں اور اگر کوئی بات خود ان کی اپنی زبانی بیان ہو تو وہ پرستاروں کے لئے اور بھی زیادہ پرکشش ہو جاتی ہے۔
اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں اوپر بیان کی گئی شخصیات کے محض انٹرویو شامل نہیں بلکہ ان عظیم فنکاروں کے بارے میں انہی کے شعبہ سے تعلق رکھنے والی دیگر اہم شخصیات کے تاثرات بھی شامل ہیں جس نے اس کتاب میں شامل مواد کو اور بھی زیادہ دلچسپ اور معتبر بنا دیا ہے۔اس کتاب کے حوالے سے ایک اور امتیازی بات یہ ہے کہ جن شخصیات کو اس کتاب میں شامل کیا گیا ہے، مصنف کے اپنے ہاتھ سے بنے ہوئے ان فکاروں کے پورٹریٹ (تصاویر) بھی کتاب کا حصہ ہیں جس سے امجد علی کی متنوع صلاحیتوں سے آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ پھر کیمرے سے بنی ہوئی تصویر کے برعکس اپنے ہاتھ سے بنی ہوئی تصویر میں مصور کا وہ احترام اور محبت بھی شامل ہوتی ہے جو اس شخصیت کے لئے اس کے دل میں موجود ہوتی ہے۔ ان تصاویر نے کتاب کے بیانیے کو مزید فنکارانہ رنگ دے دیا ہے۔
کتاب کی پیشکش کا انداز شاندار ہے۔ مجلد کتاب کے کاغذ اور طباعت کا معیار بہت اچھا ہے جسے احمد پبلی کیشنز 2-A سید پلازہ چیٹرجی روڈ اُردو بازار لاہور (042-37220633) نے شائع کیا ہے۔ قیمت 695 روپے ہے۔
شاعر: شاداب صدیقی، قیمت:600 روپے، صفحات:247
ناشر: الحمد پبلی کیشنز، کراچی (0322 2830957)
کلام میں خوبصورتی اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب انسان کے محسوسات بہت عمیق ہوں، یہی گہرائی انسان کو دوسروں سے منفرد انداز اور سوچ عطا کرتی ہے۔ جب سوچ افکاراور خیالات میں بدل جاتی ہے تو انسان اپنے دل کی بات یا خیالات دوسروں تک پہنچانا چاہتا ہے کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرے تو اس کے ذہن و دل میں پروان چڑھنے والے افکار ایک بوجھ بن جاتے ہیں، ایسے میں قلم کا سہارا لیا جاتا ہے، گویا قلم ادیب کے لئے ایک بہت بڑی نعمت ہے جو اس کا بوجھ آگے منتقل کرنے میں اس کی مدد کرتا ہے۔
شاداب صدیقی نے بھی بڑی خوبصورتی سے اپنے افکار بیان کئے ہیں ان کی شاعری کے حوالے سے اکرم کنجاہی کہتے ہیں ''شاداب صدیقی محبت کے ازلی جذبے کی لطافتوں سے آشنا ہیں اور یہی وہ سچا جذبہ ہے جو تخلیق کے لیے توانائی کا کام کرتا ہے۔ وہ غزل کی تہذیب اور مزاج کو سمجھتے ہیں ۔ انھوں نے عشق و محبت کی قلبی واردات کو جس طرح محسوس کیا ، اشعار میں بلا کم و کاست بیان کر دیا۔ ل
ہٰذا اس کا بھرپور اظہار ان کا شعری سرمایہ بنا ہے۔''امین جالندھری کہتے ہیں '' شاداب صدیقی سہل آسان اور رواں مصرعوں کی بنت پر کماحقہ دسترس رکھتے ہیں، احوال دل کو '' تلخی دوراں'' سے عبارت کرتے ہیں تاکہ عوام الناس '' غم'' کی اہمیت سے آگاہ ہوں اور اس دولت بے پایاں سے مسرت کشید کرنے کا ہنر جان جائیں۔'' مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
شذرات سرسید ، جلد اول
صفحات:۴۸۳ صفحات، سفید کاغذ پر طبع شدہ، مضبوط جلد اور دیدہ زیب سرورق، قیمت ۵۰۰ روپے۔
ملنے کا پتا: مجلس ترقی ادب، ۲ کلب روڈ ، نرسنگھ داس گارڈن ، مال روڈ لاہور
سرسید احمد خاں کے یہ مضامین وشذرات علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ، جو اردو صحافت کی تاریخ کا پہلا دو لسانی اخبار تھا، سے منتخب کیے گئے ہیں۔ ان شذرات کے مرتب علی اصغر عباس ہیں، جنہیں سرسید کے افکار وآثار پر مخصص مانا جاتا ہے۔ پاکستان میں یہ کتاب پہلی بار شائع ہو رہی ہے۔ شامل کتاب شذرات کی تعداد ۱۷۰ہے، جن میں زیادہ تعداد ان شذرات کی ہے، جو ایک دو صفحوں پر مشتمل ہیں، جبکہ کچھ مضامین تین چار صفحات پر بھی محیط ہیں۔ شبلی، حالی، داغ، امیر علی، بدرالدین طیب جی، بابو ابی ناش چندر، سید محمود، محمد حسین آزاد، غالب، گارساں دتاسی و دیگر مستشرقین کے بارے میں شذرات کے علاوہ مختلف سیاسی اور سماجی موضوعات اور بین الاقوامی مسائل پر لکھے گئے شذرات بھی شامل کتاب ہیں۔
'شروع کی بات' کے عنوان سے مرتب علی اصغر عباس کا مقدمہ بھی خاصے کی چیزہے، جس میں انہوں نے سرسید تحریک کے پیش منظر، سائنٹفک سوسائٹی اور تہذیب الاخلاق کی خدمات کا ذکر کیا ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ اس کتاب کا مطالعہ علی گڑھ تحریک اور سرسید افکار کے ضمن میں نہایت اہمیت کا حامل ہے۔
تاریخ ادب اردو ، جلد چہارم
صفحات ۱۶۳۶، کاغذ سفید، سرورق جاذب نظر، قیمت : ۲۰۰۰
ملنے کا پتا: مجلس ترقی ادب، ۲ کلب روڈ ، نرسنگھ داس گارڈن ، مال روڈ لاہور
اردو اور انگریزی میں اردو زبان وادب کی متعدد تواریخ لکھی گئی ہیں، لیکن ڈاکٹر جمیل جالبی کی چار ضخیم جلدوں پر مشتمل ''تاریخ ادب اردو'' کو ان تمام تواریخ میں جامع ترین قرار دیا گیا ہے۔ زیر نظر جلد چہارم انیسیویں صدی کے نصف آخر کے منظرنامے یعنی جنگ آزادی سے شروع ہوتی ہے۔
فصل اول مرزا غالب اور دوسرے بڑے شعرا کے کے علاوہ دیگر ممتاز ترین شعرا، فصل دوم اردو مرثیے کا آغاز و ارتقا اورروایت، فصل سوم دور جدید کی توسیع اور اردو کے عناصر خمسہ کے متعلق ہے۔ علاوہ ازیں اسی جلد میں اردو داستانوں کی تمہید و مطالعہ، ناول اور دیگر اصناف نثر، مذہبی تصانیف کی اردو نثر اور کتب تاریخ کی اردو نثر، نعت گوئی کے نئے رنگ، روایت اور انیسویں صدی کے اختتام اور جدید دور کی شاعری کے ارتقائی مراحل کا محاکمہ کیا گیا ہے۔
کتاب کے آخر میں تفصیلی اشاریہ بھی دیا گیا ہے ۔ جالبی صاحب نے ''تاریخ ادب اردو'' کے حقوق اشاعت مجلس ترقی ادب کے نام کر دیے ہیں ، جس نے ان تمام جلدوں کو یکے بعد دیگرے شائع کیا ہے۔ اول اول یہ تمام ایڈیشن ٹائپ میں شائع ہوئے تھے، لیکن اب نئی اشاعت نستعلیق رسم الخط میں ہے۔
رسالہ ء قواعد فارسی
صفحات : ۶۴، قیمت :۱۵۰ روپے
ملنے کا پتا: مجلس ترقی ادب، ۲ کلب روڈ ، نرسنگھ داس گارڈن ، مال روڈ لاہور
ڈپٹی نذیر احمد کا تالیف کردہ رسالہ ء فارسی موسوم بہ صرف صغیر پہلی بار ۱۸۷۰ء اور دوسری بار ۱۸۹۲ء میں شائع ہوا ۔ اشاعت دوم کے سرورق کا عکس شامل کتاب ہے۔ ڈپٹی نذیر احمد نے یہ رسالہ اردو کے ان طلبہ کے لیے لکھا تھا، جنہں فارسی زبان سکھانا مقصود تھا۔ ۱۲۸سال بعد بعد یہ رسالہ تصحیح متن و حواشی کے ساتھ ڈاکٹر تحسین فراقی نے مجلس ترقی ادب سے پہلی بار شائع کیا ہے، جس سے فارسی زبان کے قواعد پر مشتمل اس رسالے کی تفہیم آسان ہو گئی ہے۔ یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ اردو زبان، ادبیاب کی طرح زبان کے قواعد وضوابط میں بھی فارسی کی خوشہ چیں ہے بلکہ بقول مرتب اردو زبان کی تکمیل فارسی کی تحصیل کے بغیر ناممکن ہے۔ اس لیے فارسی کے ساتھ اردو زبان و ادب کے طلبہ کے لیے بھی زیر نظر رسالہ کا مطالعہ مفید ہے۔
سیاست نامہ
صفحات : ۲۷۰، خوش نما سرورق ، قیمت :۳۰۰ روپے
ملنے کا پتا : مجلس ترقی ادب، ۲ کلب روڈ ، نرسنگھ داس گارڈن ، مال روڈ لاہور
ابوعلی حسن بن علی خواجہ نظام الملک طوسی کی تصنیف کردہ اور مرزا محمد منور کی ترجمہ کردہ یہ کتاب مجلس ترقی ادب کے زیر اہتمام دوسری بار شائع ہو رہی ہے۔ اشاعت اول اردو ٹائپ میں ہوئی تھی جبکہ موجودہ ایڈیشن خط نستعلیق میں کمپوز کروا کے شائع کیا گیا ہے۔
کتاب کا مقدمہ سید عابد علی عابد نے تحریر کیا تھا ۔ شروع میں سبب تصنیف کتاب بیان کیا گیا ہے، جس کی رو سے سلجوقی سلطان سعید ابوالفتح ملک شاہ بن محمد امین نے ارباب دانش کو ہدایت کی کہ وہ سلطنت کے ہر شعبے کا جائزہ لے کر سفارشات مرتب کریں، جن کی روشنی میں سلاطین سلاجقہ کی روایات کو سلطنت میں بحال رکھا جا سکے نیز دینی اور دنیوی امور حسب قاعدہ سرانجام دیے جا سکیں۔ مختلف عمائدین و اہل فکر و دانش نے سفارشات مرتب کیں، تاہم سلطان نے نظام الملک کی تصنیف کو پسند کیا۔
کتاب پچاس مختصر ابواب پرمشتمل ہے، جس کے مندرجات ایک مثالی ریاست کی تشکیل و تزئین کے ضامن سمجھے جاتے ہیں۔سیاست نامہ میں روایات و حکایات اور داستانوں اور تاریخی واقعات کی موجودگی شیخ سعدی کی گلستان سعدی کے اسلوب کی یاد دلاتی ہے۔ دونوں کی غایت بھی ایک ہی تھی۔ گلستان سعدی کی طرح اس کا اسلوب بھی دلکش و دلچسپ ہے۔
پاکستان کی روشن اقلیتیں
مصنف: علی احمد ڈھلوں
قیمت:1400 روپے، صفحات:368
ناشر: لیڈر پبلی کیشنز، باڑہ ٹاور، کوئنز روڈ، لاہور (042 36300951)
اگر ایک قطار میں گلدستے سجائے گئے ہوں جن میں ایک ہی رنگ کے گلدستے بھی ہوں اور ایسے گلدستے بھی ہوں جن میں مختلف رنگوں کے پھول لگائے گئے ہوں تو یقیناً رنگ برنگے پھولوں سے مزین گلدستہ ایک ہی رنگ کے پھولوں سے بنے گلدستے کی نسبت زیادہ خوبصورت نظر آئے گا۔ اسی طرح جس معاشرے میں مختلف نسل، مذاہب اور اقوام کے افراد ہوں گے وہ مثالی ہو گا بشرطیکہ وہاں مساوات ہو ۔ گویا معاشرے کی رنگا رنگی اور بوکلمونی اسے بہترین معاشرے کے درجے پر لے جاتی ہے ۔
جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو ہمارا معاشرہ بھی ایسا ہی تھا۔ قائد اعظم ؒ نے اپنے دور میں اس حسن توازن کو قائم رکھا ۔ مسلمانوں کے علاوہ دوسری قومیتوں اور مذاہب کے افراد بھی اعلیٰ حکومتی عہدوں پر کام کر رہے تھے اور انھوں نے پاکستان حاصل کرنے کی جدوجہد میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا تھا۔ اس دور کی کابینہ کی رنگا رنگی اسے چار چاند لگا رہی تھی، جس میں اقلیتوں کی بھرپور نمائندگی موجود تھی۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ہمارے معاشرے کی یہ رنگا رنگی ماند پڑتی چلی گئی۔
حالانکہ ہمارے اقلیتی بھائی ملک وقوم کی دل و جان سے خدمت کرتے رہے مگر تعصب کی فضا نے انھیں دل گرفتگی سے دوچار کئے رکھا، ایسے میں علی احمد ڈھلوں جیسی شخصیات نے انھیں اپنا ہونے کا احساس دلا رکھا ہے، ان کی یہ کتاب اقلیتوں کو بہت بڑا خراج عقیدت ہے اور ہمارے معاشرے میں پائے جانے والے شدت پسند عناصر کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔کتاب کی ابتدا قائد اعظمؒ کے پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے اجلاس سے کئے گئے خطاب سے کی گئی ہے جس میں آپ اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے فرماتے ہیں ''آپ آزاد ہیں۔
آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کیلئے۔ آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے اور ریاست پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب، ذات یا نسل سے ہو۔ ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں''۔ آپ کا یہ خطاب پاکستان کی اقلیتوں کے حوالے سے ہماری رہنمائی کیلئے کافی ہے۔ معروف صحافی و تجزیہ کار عارف نظامی کہتے ہیں'' برادرم علی احمد ڈھلوں نے '' پاکستان کی روشن اقلیتیں '' رقم کر کے نہ صرف پاکستانی مسلمانوں پر اقلیتی برادری کا 73 سالہ واجب الادا قرض چکا دیا بلکہ پاکستان کے قیام کی تعمیر و ترقی میں قربانیاں دینے اور خون پسینہ ایک کرنے والے اقلیتی بھائیوں کو خراج عقیدت پیش کر کے قومی پرچم میں سفید رنگ کی جامع تشریح کر دی ہے ۔
ایسا لگتا ہے کہ ہمارے جھنڈے کے دونوں رنگوں کی انفرادی خصوصیات اجاگر ہو گئی ہیں'' ۔ معروف مذہبی دانشور جاوید احمد غامدی کہتے ہیں '' علی احمد ڈھلوں کی کتاب ' پاکستان کی روشن اقلیتیںحب الوطنی اور تعمیر وطن کی تڑپ کا نتیجہ ہے ۔ انھوں نے ان بیسیوں غیر مسلم محسنوں کا انتہائی دل نواز اور ضمیر کو جھنجھوڑنے والا تذکرہ کیا ہے کہ ان کے وہ ہاتھ چوم لینے کو دل کرتا ہے جنھوں نے لفظوں کے موتی پروئے اور یہ بار اور جھومر ان تمام ہستیوں کو پہنا دیے ہیں ۔'' شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری کچھ یوں رقم طراز ہیں'' یہ بات سچ ہے کہ وطن عزیز پاکستان میں ریاستی سطح پر اقلیتوں کے حقوق کا ہمیشہ خیال رکھا گیا لیکن کچھ ایسے ناخوشگوار واقعات بھی رونما ہوئے ہیں جن کی وجہ سے دنیائے عالم میں پاکستان کے تشخص کو نقصان پہنچا ہے اور بعض اوقات اقلیتوں کے حقوق کی بات کہنے والوں کو بھی دبائو میں لایا جاتا رہا ہے۔ ایسی صورت میں زیر نظر کتاب ' پاکستان کی روشن اقلیتیں' لکھنا اور اور اقلیتوں کی پاکستان کے لئے خدمات کا اعتراف کرنا یقییناً بہترین عمل ہے۔
یہ کتاب اس بات کا ثبوت ہے کہ اقلیتیں اس ملک کے ساتھ ہمیشہ وفادار رہیں۔'' غیر ملکی مفکرین نے بھی اسے قابل فخر کتاب قرار دیا ہے اور خراج تحسین پیش کیا ہے۔ بے شک مصنف نے ہمارے پاکستانی بھائیوں کی خدمات پیش کر کے انتہائی شاندار کارنامہ سرانجام دیا ہے اس کے لیے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں، انھوں نے پاکستان کا روشن چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا ہے، نئی نسل کو اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے، امید ہے کہ اس کتاب کے پھیلائو اور مطالعہ سے ہمارے معاشرے میں رواداری کو مزید فروغ ملے گا۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
ملے جو کہکشاں میں
امجد علی کا تعلق پاکستانی صحافیوں کے اس قبیلے سے ہے جن کی صحافتی سرگرمیوں اور اظہار کا خمیر فنون لطیفہ سے گہرے لگاؤ سے اٹھتا ہے۔ یہ کالج ہی کے زمانے سے لاہور کے مختلف اخبارات میں چھپنا شروع ہو گئے تھے۔ مصوری بھی کرتے ہیں اور ن کی بنائی ہوئی تصاویر بھی جرائد میں جگہ پاتی ہیں۔ 1987ء میں جرمنی کی عالمی سروس ڈوئچے ویلے کے شعبہ اردو سے منسلک ہئے اور سینئر ایڈیٹر اور پروڈیوسر کی حیثیت سے حالات حاضرہ، ادبی اور ثقافتی پروگرام پیش کرتے رہے۔
صحافتی سرگرمیوں کے علاوہ اپنے آبائی گاؤں ''ٹھٹھہ غلام کا دھیرو کا'' میں اپنے جرمن اساتذہ کے ساتھ مل کر فلاحی و ترقیاتی منصوبے بھی چلا رہے ہیں۔ زیرنظر کتاب ''ملے جو کہکشاں میں'' پاکستان اور بھارت سے تعلق رکھنے والے دس عظیم فنکاروں کے انٹرویوز اور ان شخصیات کے بارے میں دیگر ممتاز لوگوں کے تاثرات پر مبنی ہے جو ڈوئچے ویلے کی اُردو سروس کے مشہور پروگرام کہکشاں میں پیش کئے گئے۔ اس پروگرام کے روح رواح امجد علی ہی تھے۔
اِس کتاب میں جن چودہ شخصیات کو شامل کیا گیا ہے، ان کے نام ہی غیرمعمولی دلچسپی اور کشش کے حامل ہیں۔ جن بڑے ستاروں کو اس کہکشاں کا حصہ بنایا گیا ہے ان میں ملکہ ترنم نور جہاں، لتا منگیشکر، موسیقار نوشاد، گلوکار محمد رفیع، موسیقار خیام، مجروح سلطان پوری، ندا فاضلی، قتیل شفائی، گلزار، موسیقار ایم اشرف، موسیقار نثار بزمی، علی سردار جعفری، نصرت فتح علی خان اور اُستاد امجد علی خان شامل ہیں۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ لوگوں کے دلوں پر راج کرنے والے فنکارں کے باے میں ان کے پرستاروں کو غیرمعمولی دلچسپی ہوتی ہے، ان کے بارے میں جاننے کے لئے بے چین رہتے ہیں اور اگر کوئی بات خود ان کی اپنی زبانی بیان ہو تو وہ پرستاروں کے لئے اور بھی زیادہ پرکشش ہو جاتی ہے۔
اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں اوپر بیان کی گئی شخصیات کے محض انٹرویو شامل نہیں بلکہ ان عظیم فنکاروں کے بارے میں انہی کے شعبہ سے تعلق رکھنے والی دیگر اہم شخصیات کے تاثرات بھی شامل ہیں جس نے اس کتاب میں شامل مواد کو اور بھی زیادہ دلچسپ اور معتبر بنا دیا ہے۔اس کتاب کے حوالے سے ایک اور امتیازی بات یہ ہے کہ جن شخصیات کو اس کتاب میں شامل کیا گیا ہے، مصنف کے اپنے ہاتھ سے بنے ہوئے ان فکاروں کے پورٹریٹ (تصاویر) بھی کتاب کا حصہ ہیں جس سے امجد علی کی متنوع صلاحیتوں سے آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ پھر کیمرے سے بنی ہوئی تصویر کے برعکس اپنے ہاتھ سے بنی ہوئی تصویر میں مصور کا وہ احترام اور محبت بھی شامل ہوتی ہے جو اس شخصیت کے لئے اس کے دل میں موجود ہوتی ہے۔ ان تصاویر نے کتاب کے بیانیے کو مزید فنکارانہ رنگ دے دیا ہے۔
کتاب کی پیشکش کا انداز شاندار ہے۔ مجلد کتاب کے کاغذ اور طباعت کا معیار بہت اچھا ہے جسے احمد پبلی کیشنز 2-A سید پلازہ چیٹرجی روڈ اُردو بازار لاہور (042-37220633) نے شائع کیا ہے۔ قیمت 695 روپے ہے۔