معزز ترین شہری
یہ شکایت درست ہے کہ ہمارے عوام ظلم کا بدلہ بے زبانی سے کرتی آ رہی ہے۔
اسے ہم انسانی تاریخ کا المیہ کہیں یا انسانوں کی بدبختی کہیں یا انسانوں کی بزدلی کہ آبادی کا 90 فیصد حصہ ہوتے ہوئے دو فیصد شیطانوں کے غلام بنے ہوئے ہیں کیا 90 فیصد سے زیادہ آبادی کا دو وقت کی روٹی سے محتاج رہنا اور اس کے لیے دن رات محنت کرنا انصاف ہے یا توہین انصاف۔
سیاستدانوں کو چھوڑیے کہ ان کا یہ کھیل ہے عوام کو کیا سانپ سونگھ گیا ہے یا نہ ختم ہونے والی بے ہوشی طاری ہے کہ وہ صبح سے شام تک ایلیٹ کے ظلم سہتے ہیں جو وہ قانون کے حوالے سے کرتی ہے اور آہ نہیں کرتی۔
یہ شکایت درست ہے کہ ہمارے عوام ظلم کا بدلہ بے زبانی سے کرتی آ رہی ہے مجھے یہ کہتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے کہ ہمارا مفکر، ہمارا دانشور، ہمارا اہل علم، ہمارا ادیب، ہمارا شاعر سب بے حسی کا کمبل اوڑھے ایسی نیند سو رہے ہیں جس سے جاگنے کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ عوام میں بیداری پیدا کرنا عوام میں طبقاتی شعور پیدا کرنا، عوام میں طبقاتی مظالم کے خلاف آواز اٹھانا کس کی ذمے داری ہے؟
ہمارے محترم وزیراعظم حضرت عمران خان فرماتے ہیں کہ ترقی پذیر ملکوں سے لوٹی ہوئی رقوم واپس کی جائے؟ یہ سوال بڑا اہم ہے اور ترقی پذیر ملکوں سے لوٹی ہوئی رقوم واپس ہونی چاہئیں۔ اس حوالے سے پہلا سوال یہ ہے کہ عمران خان کا لوٹ مار کے حوالے سے مخاطب کون ہے۔ کیا عمران خان طبقاتی لٹیروں سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں یا لٹیری حکومتوں سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں؟ اگر مطالبے کے ساتھ لٹیروں کی نشان دہی کردی جاتی تو عوام کو ان کے گھروں کا بستیوں کا راستہ معلوم ہو جاتا اور عوام عمران خان کی خواہش پوری کردیتے لیکن خان صاحب نے آدھی بات کی ہے الزام تو لگایا ہے لیکن ملزم یا ملزمان کی نشان دہی نہیں کی ہے۔
پھر بے چارے عوام کیا کریں خان صاحب جانتے ہیں کہ ملک کے اور دنیا کے لٹیرے کون ہیں۔ خان صاحب بڑے سادہ دل بندے ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ ترقی پذیر ملکوں سے لوٹی ہوئی رقوم واپس کی جائیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ترقی یافتہ ملک ترقی پذیر ملکوں کو وہ رقوم واپس کردیں جو وہ لوٹ کر لے گئے ہیں، لوٹ کر لے جا رہے ہیں، لوٹ کر لے جاتے رہیں گے۔
یہ ایک یا ایک سے زیادہ افراد کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ایک ایسے ایلیٹ کا ہے قانون جس کی جیب میں پڑا رہتا ہے، قانون کے محافظ اسے ایڑھی بجا کر سلیوٹ کرتے ہیں کیا یہ طبقہ پاکستان میں نہیں ہے۔ خان بابا بڑے بھولے ہیں وہ اپنے ارد گرد پھیلے ہوئے اربوں کے لٹیروں سے یہ بات کرتے تو اس میں کوئی نہیں ہوتا کہ یہ لٹیرے خان صاحب کے ملک کے اندر ہیں اور وزیر اعظم کی حیثیت سے خان صاحب کی پہنچ ان لٹیروں تک ہے۔
خان صاحب اور ان کے وزرا رات دن ان ملکی لٹیروں کے خلاف اخباری بیانات کی توپیں داغتے رہتے ہیں حالانکہ وہ اگر چاہیں تو ان ملکی لٹیروں کی گردنیں پکڑ سکتے ہیں لیکن وہ ایسا نہیں کرپاتے ان لٹیروں کو ملک کے تمام بااختیار لوگ جانتے ہیں اور انھیں گردن سے پکڑنے میں عمران خان کی مدد کرسکتے ہیں لیکن ایسا کبھی ہوا نہ ہو رہا ہے نہ ہوگا۔
کیوں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب ہر باشعور شخص جانتا ہے لیکن۔۔۔۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ملکی لٹیرے جن کی نشان دہی خان صاحب اور ان کے رفقا روز کرتے ہیں وہ دھڑلے سے نہ صرف سیاست کر رہے ہیں بلکہ عمران خان کی حکومت گرانے کی بات کر رہے ہیں اور ڈنکے کی چوٹ پر کر رہے ہیں۔ ان ڈاکوؤں کی آواز بازگشت ریاست کے تمام ایوانوں تک جا رہی ہے پھر بھی ایک پراسرار خاموشی ہے جیسے مردے کو دفنانے کے بعد قبرستان میں ہوتی ہے۔
ایسا کیوں؟ یہ سوال ہمارا نہیں 22 کروڑ عوام کا ہے جو ہر پانچ سال بعد اپنی مرضی سے اپنے معاشی اور سیاسی قاتل چنتے ہیں اور پانچ سال تک سر گھٹنوں میں دے کر سسکتے رہتے ہیں۔ کیا 22کروڑ عوام میں 2,200بھی ایسے نہیں جو ایلیٹ کے اس کھلے ظلم پر حرف شکایت زبان پر لائیں؟ یہ کیسا ملک ہے یہ کیسے عوام ہیں؟ کیا اس کا کوئی جواب اہل علم، اہل دانش، ادیبوں، شاعروں کے پاس ہے جو ملک اور معاشرے کی کریم کہلاتے ہیں۔
خان صاحب صدیوں پرانی لوٹ مار کا حساب مانگ رہے ہیں اور وہ بھی ان سے جو خان صاحب کی پہنچ سے باہر ہیں کیا یہ دلچسپ بات نہیں کہ ہماری پہنچ سے دور غیر ملکی لٹیروں سے تو ہم لوٹ مار کا حساب مانگ رہے ہیں اور آپ کے ارد گرد اسمبلیوں میں آپ کے ساتھ بیٹھنے والے لٹیروں کی نشان دہی اور کارروائی سے گریزاں ہیں۔
یہاں ضروری ہے کہ ہم اس نظام کی بات بھی کریں جو مجرموں کو ڈکلیئرڈ مجرموں کو پکڑنے سے روکتا ہے ان کی اور ان کی لوٹی ہوئی اربوں کی دولت کی حفاظت ملک کے اندر بھی کرتا ہے اور ملک کے باہر بھی۔ ہم نہ اندھے ہیں نہ بہرے نہ گونگے، ہم بول سکتے ہیں، سن سکتے ہیں، لیکن ہم اندھے ہیں، بہرے ہیں، گونگے ہیں یہ کیسا جادو ہے جو اب ایک بار پھر سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ اپنی آواز کو میڈیا کے ذریعے گاؤں، گاؤں تک پہنچا کر سیدھے سادھے عوام کو مس گائیڈ کر رہا ہے۔
بے زبان اور بے شعور عوام اس سارے ڈرامے کو اور ڈرامے کے اداکاروں کو حیرت سے دیکھ رہے ہیں اور اپنے آپ سے سوال کر رہے ہیں کہ ملک کا وزیر اعظم اور صدر وغیرہ وغیرہ جن ''اہل وطن'' کو اربوں روپوں کے لٹیرے کہہ رہے ہیں وہ آج بھی ملک کے معزز ترین شہری ہیں، ہر جگہ جاسکتے ہیں ہر بڑے سے بڑے سے بات کر سکتے ہیں، ہر جگہ ان کی عزت کی جاتی ہے، انھیں سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے۔