حجاب فقط خود کو ڈھانپنے کا نام نہیں
’تصور پردہ‘ کے وسیع معنوں کو عام کرنے کی ضرورت ہے
'حجاب' ہمارے مذہب کا عطا کردہ ایک معیار عزت و عظمت ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ یہ ایک عورت کا فخر بھی ہے اور وقار بھی۔۔۔ یہ ایک مسلمان عورت کی پہچان اور اس کے مضبوطی کردار کی علامت بھی ہے۔
جب ہم ایک خاتون کے حجاب کی بات کر تے ہیں،کہ یہ ایک عورت کے تحفظ اور حفاظت کا ذریعہ ہے، تو پھر ہمیں چاہیے کہ ہم اس کو صرف ڈیڑھ گز کے کپڑے تک محدود نہ کریں، بلکہ یہ 'حجاب' ہماری روزمرہ گفتگو کا مظہر بھی ہو اور ہمارے ہر عمل کا ایک خاکہ بھی۔۔۔ یہ معاشرے میں ایک خاتون کی حدود کے تعین کے ساتھ اسے یہ بھی شعور دیتا ہے کہ کس طرح وہ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکتی ہے، وہ کن جگہوں پر، کس طرح اپنا کردار بہ حسن وخوبی نبھا سکتی ہے۔ سماج میں کون سی راہ اس کے لیے پروقار اور اس کے شایان شان ہے اور کون سا راستہ اس کے لیے بہتر نہیں، اور سماج کی کس اچھائی اور برائی کو وہ اپنے کردار سے بھی کافی حد تک روک سکتی ہے۔
اس کا عمل صرف اس کی ذات تک محدود نہیں رہتا، بلکہ وہ آگے منتقل ہوتا چلا جاتا ہے۔ باحجاب عورت دوسری خواتین کے لیے رول ماڈل ہوتی ہے، اس کے خیالات، سوچ، اس کی زبان سے نکلے الفاظ، اس کے افعال اس کی تعلیم کے عکاس ہیں۔
عورت حجاب کسی جبر، ظلم یا قید کی علامت سمجھ کر نہیں کرتی، بلکہ وہ اسے ایک ڈھال کی طرح سمجھتی ہے، حجاب اپنے آپ میں اس کی آزادی و حفاظت کا استعارہ ہے۔ میرے خیال میں ہمیں حجاب کے سلسلے میں اپنی سوچ کے دائرے اور خیالات کے کینوس کو تھوڑا سا وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک مسلم معاشرے میں حجاب صرف عورت کی پہچان اور اس کے وقار کو نمایاں کرتا ہے۔
عام طور پر حجاب کا تصور آتے ہی ایک باپردہ خاتون ذہن کے پردے پر ابھر تی ہے، جو کہ اپنی جگہ درست اور صحیح ہے، لیکن معاشرہ صرف عورت سے ہی تو نہیں بنتا...؟ ایک معاشرے میں مردوزن دونوں کی ہی جگہ برابر اور مستحکم ہونا چاہیے اور ان دونوں کی موجودگی ہی متوازن معاشرے کو پروان چڑھاتی ہے۔ جس طرح عورت ومرد کی مثال گاڑی کے دو پہیوں سے دی جاتی ہے کہ دونوں کی نہ صرف موجودگی ضروری ہے، بلکہ توازن بھی برقرار رہے گا، تبھی گاڑی ٹھیک طرح اپنی منزل کی طرف رواں رہے گی۔
اسی طرح باحیا، پاکیزہ، بلند اقدار اور تہذیب یافتہ معاشرے کو بھی وہی افراد با اخلاق اور باوقار بنا سکتے ہیں، جس کی دونوں اصناف سیرت و کردار میں اعلیٰ ہوں، اگر مسلم معاشرے کی عورت تو باحیا ہو، لیکن دوسری طرف مرد مختلف قسم کی برائیوں میں ملوث ہوں، تو وہ معاشرہ کیسے اپنا معیار برقرار رکھ سکے گا؟ دینی، سماجی و اخلاقی اقدار ایک مرد سے بھی حیا داری کی طالب ہیں۔
محفوظ معاشرہ کی تعمیر و ترقی میں دونوں کا متوازی کردار ہی معاون ثابت ہوگا۔ معاشرے میں بڑھتی ہوئی ذہنی آلودگی، غیر انسانی واقعات، دفاتر، فیکٹریوں اور دیگر اداروں میں خواتین کے ساتھ غیر اخلاقی سلوک، حد تو یہ کہ تعلیمی اداروں میں طالبات کے ساتھ نامناسب رویے جو بڑھتے بڑھتے طالبات کو اقدام خودکشی تک لے جا رہے ہیں۔
اس کی وجوہات میں صرف خواتین کی بے حجابی نہیں، بلکہ مرد حضرات کے کردار کے وہ جھول، کمزوریاں اور اخلاقی پستی بھی ہے ، جس کے سبب وہ کسی بھی حد کو پار کرنے میں، کوئی عار نہیں محسوس کرتے۔ آئے روز سامنے آنے والے شرم ناک واقعات اس بات کے غماز ہیں کہ ہمارے شہروں میں بھی خواتین کے لیے صورت حال محفوظ نہیں رہی ہے۔
اس لیے ضروری ہے کہ حیا و حجاب کو صرف عورت کے خود کو ڈھانپنے کا نام دینے کے بہ جائے، اس 'حجاب' کے اصل مفہوم کو مرد وزن میں خوب اچھی طرح عام کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ ہمارے سماجی رویے بہتر ہوں۔ گھروں میں رہنے والی اور گھروں سے نکلنے والی خواتین اور بچیاں کسی کی بری نظر سے بھی محفوظ رہ سکیں۔
جب ہم ایک خاتون کے حجاب کی بات کر تے ہیں،کہ یہ ایک عورت کے تحفظ اور حفاظت کا ذریعہ ہے، تو پھر ہمیں چاہیے کہ ہم اس کو صرف ڈیڑھ گز کے کپڑے تک محدود نہ کریں، بلکہ یہ 'حجاب' ہماری روزمرہ گفتگو کا مظہر بھی ہو اور ہمارے ہر عمل کا ایک خاکہ بھی۔۔۔ یہ معاشرے میں ایک خاتون کی حدود کے تعین کے ساتھ اسے یہ بھی شعور دیتا ہے کہ کس طرح وہ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکتی ہے، وہ کن جگہوں پر، کس طرح اپنا کردار بہ حسن وخوبی نبھا سکتی ہے۔ سماج میں کون سی راہ اس کے لیے پروقار اور اس کے شایان شان ہے اور کون سا راستہ اس کے لیے بہتر نہیں، اور سماج کی کس اچھائی اور برائی کو وہ اپنے کردار سے بھی کافی حد تک روک سکتی ہے۔
اس کا عمل صرف اس کی ذات تک محدود نہیں رہتا، بلکہ وہ آگے منتقل ہوتا چلا جاتا ہے۔ باحجاب عورت دوسری خواتین کے لیے رول ماڈل ہوتی ہے، اس کے خیالات، سوچ، اس کی زبان سے نکلے الفاظ، اس کے افعال اس کی تعلیم کے عکاس ہیں۔
عورت حجاب کسی جبر، ظلم یا قید کی علامت سمجھ کر نہیں کرتی، بلکہ وہ اسے ایک ڈھال کی طرح سمجھتی ہے، حجاب اپنے آپ میں اس کی آزادی و حفاظت کا استعارہ ہے۔ میرے خیال میں ہمیں حجاب کے سلسلے میں اپنی سوچ کے دائرے اور خیالات کے کینوس کو تھوڑا سا وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک مسلم معاشرے میں حجاب صرف عورت کی پہچان اور اس کے وقار کو نمایاں کرتا ہے۔
عام طور پر حجاب کا تصور آتے ہی ایک باپردہ خاتون ذہن کے پردے پر ابھر تی ہے، جو کہ اپنی جگہ درست اور صحیح ہے، لیکن معاشرہ صرف عورت سے ہی تو نہیں بنتا...؟ ایک معاشرے میں مردوزن دونوں کی ہی جگہ برابر اور مستحکم ہونا چاہیے اور ان دونوں کی موجودگی ہی متوازن معاشرے کو پروان چڑھاتی ہے۔ جس طرح عورت ومرد کی مثال گاڑی کے دو پہیوں سے دی جاتی ہے کہ دونوں کی نہ صرف موجودگی ضروری ہے، بلکہ توازن بھی برقرار رہے گا، تبھی گاڑی ٹھیک طرح اپنی منزل کی طرف رواں رہے گی۔
اسی طرح باحیا، پاکیزہ، بلند اقدار اور تہذیب یافتہ معاشرے کو بھی وہی افراد با اخلاق اور باوقار بنا سکتے ہیں، جس کی دونوں اصناف سیرت و کردار میں اعلیٰ ہوں، اگر مسلم معاشرے کی عورت تو باحیا ہو، لیکن دوسری طرف مرد مختلف قسم کی برائیوں میں ملوث ہوں، تو وہ معاشرہ کیسے اپنا معیار برقرار رکھ سکے گا؟ دینی، سماجی و اخلاقی اقدار ایک مرد سے بھی حیا داری کی طالب ہیں۔
محفوظ معاشرہ کی تعمیر و ترقی میں دونوں کا متوازی کردار ہی معاون ثابت ہوگا۔ معاشرے میں بڑھتی ہوئی ذہنی آلودگی، غیر انسانی واقعات، دفاتر، فیکٹریوں اور دیگر اداروں میں خواتین کے ساتھ غیر اخلاقی سلوک، حد تو یہ کہ تعلیمی اداروں میں طالبات کے ساتھ نامناسب رویے جو بڑھتے بڑھتے طالبات کو اقدام خودکشی تک لے جا رہے ہیں۔
اس کی وجوہات میں صرف خواتین کی بے حجابی نہیں، بلکہ مرد حضرات کے کردار کے وہ جھول، کمزوریاں اور اخلاقی پستی بھی ہے ، جس کے سبب وہ کسی بھی حد کو پار کرنے میں، کوئی عار نہیں محسوس کرتے۔ آئے روز سامنے آنے والے شرم ناک واقعات اس بات کے غماز ہیں کہ ہمارے شہروں میں بھی خواتین کے لیے صورت حال محفوظ نہیں رہی ہے۔
اس لیے ضروری ہے کہ حیا و حجاب کو صرف عورت کے خود کو ڈھانپنے کا نام دینے کے بہ جائے، اس 'حجاب' کے اصل مفہوم کو مرد وزن میں خوب اچھی طرح عام کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ ہمارے سماجی رویے بہتر ہوں۔ گھروں میں رہنے والی اور گھروں سے نکلنے والی خواتین اور بچیاں کسی کی بری نظر سے بھی محفوظ رہ سکیں۔