سیاسی کارکنوں کی بے قدری
بے نظیر بھٹو ٹاؤن کی قرعہ اندازی کے سلسلے میں وزیر اعلیٰ ہاؤس میں منعقدہ تقریب میں نظر انداز کیے جانے پر لیاری کی۔۔۔
بے نظیر بھٹو ٹاؤن کی قرعہ اندازی کے سلسلے میں وزیر اعلیٰ ہاؤس میں منعقدہ تقریب میں نظر انداز کیے جانے پر لیاری کی ایک جیالی نے شدید ہنگامہ آرائی کی اور کہا کہ میں30 سال سے پی پی کی کارکن ہوں، پارٹی کے لیے قربانیاں دیں مگر مجھے نظر انداز کیا گیا ہے جس پر میں احتجاج پر مجبور ہوئی ہوں۔
کارکنوں کی طرف سے سیاسی پارٹیوں میں نظر انداز کیے جانے کی شکایات کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ چار پانچ عشروں سے جاری ہیں اور سیاسی کارکن خود کو نظر انداز کیا جانا برداشت نہیں کرتے اور موقع ملتے ہی ہنگامہ اور شور کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے رہتے ہیں مگر پارٹی اور قیادت پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ سیاسی کارکنوں کو اہمیت پہلی بار پیپلز پارٹی کے بانی و چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ملنا شروع ہوئی جو محترمہ بینظیر بھٹو کے دور تک جاری رہی، ان کے بعد تو پارٹی میں جیل کے ساتھیوں اور ذاتی دوستوں کی اہمیت رہی، پی پی کی سابق سندھ حکومت میں وزیر اعلیٰ اور وزراء کے دوروں اور تقریبات میں پی پی کے جیالے نظر انداز کیے جانے پر مشتعل رہتے تھے اور موقع ملتے ہی دل کی بھڑاس نکالتے تھے اور اپنے ارکان اسمبلی پر ہی نہیں بلکہ وزیروں پر بھی کرپشن، رشوت پر ملازمتیں دینے کے الزامات لگاتے تھے اور شور شرابا کرتے تھے۔ گزشتہ حکومت میں سندھ میں تو وزیروں، مشیروں، معاونین خصوصی کی سب سے بڑی فوج موجود تھی مگر حکومت کے آخری سالوں میں جیالے عہدیدار کارکنوں میں آنے سے گھبراتے تھے کیوں کہ جیالوں کا یہ بھی ریکارڈ ہے کہ وہ ایک حد تک زیادتیاں برداشت کرتے تھے مگر جب حد ہو جاتی تھی تو ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے تو پھر وہ ارکان اسمبلی اور وزراء علیٰ کو تو کیا وزیر اعلیٰ کو بھی معاف نہیں کرتے اور ان کے سامنے احتجاج کر کے بد عنوانیوں کے کچے چھٹے کھول کر رکھ دیتے ہیں۔
سابق وزرائے اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی حکومتوں تک جیالوں کی شنوائی ہو جاتی تھی اور جیالوں کی قربانیوں کی قدر کر کے ان کی ضروریات معلوم اور شکایات رو برو یا تحریری صورت میں حاصل کر کے ازالہ کیا جاتا تھا اور قربانیاں دینے والوں کو نوازا بھی جاتا تھا، پی پی کی سابق وفاقی اور سندھ حکومت میں پہلی بار جیالوں کی طرف سے اپنی ہی حکومت کے وزیروں، ارکان اسمبلی اور عہدیداروں پر رشوت لے کر نوکریاں دینے کے الزامات لگے اور اکثر الزامات غلط نہیں بلکہ حقیقی تھے مگر قیادت نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔
پیپلز پارٹی کے کھاتے میں یہ بھی ریکارڈ ہے کہ دور آمریت میں پی پی کے جیالوں نے خود سوزی کی جس کے نتیجے میں متعدد جاں بحق اور زخمی ہوئے تو شکارپور کے علاقے سلطان کوٹ کا ایک نوجوان جیالا جہانگیر خان واحد جیالا تھا جس نے شکارپور کے ایک ہوٹل میں پریس کانفرنس میں صحافیوں کو پارٹی کی طرف سے نظر انداز کیے جانے کی اپنی دکھ بھری بپتا سنائی اور پھر اچانک پستول اپنی کنپٹی پر رکھی اور خود کو گولی مادی تھی۔
لالا جہانگیر سپاف میں تھا اور دور آمریت میں پولیس کی طرف سے طلباء کے جلوس پر فائرنگ کے نتیجے میں شدید زخمی ہو گیا تھا اور اس کا نچلا دھڑ ناکارہ ہو گیا تھا اور صحت یابی کے بعد اپنی زندگی وہیل چیئر پر گزاری تھی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی پہلی حکومت میں لالا جہانگیر کو نثار مگسی کے ساتھ علاج کے لیے لندن بھی بھجوایا تھا مگر اس کے ناکارہ نچلے دھڑ کو دوبارہ کار آمد بنانا ممکن نہ تھا اور وہ وطن لوٹ آیا تھا۔ محترمہ کے دور میں جہانگیر کی ہر ممکن مدد کی گئی، محترمہ کی جلاوطنی کے بعد پی پی رہنماؤں نے پارٹی کے لیے معذور ہو جانے والے سپاف کے جوان جیالے کو نظر انداز کر دیا، ملک میں اس کی سننے اور مدد کرنے والا کوئی کروڑ پتی بڑا جیالا نہیں تھا اور پارٹی اور جیالے رہنماؤں سے مایوس ہو کر جہانگیر خان نے بھری پریس کانفرنس میں خود کشی کر کے اپنے دکھوں اور معذور زندگی سے نجات حاصل کر لی تھی۔
ذوالفقار علی بھٹو اپنے کارکنوں کو کتنی اہمیت دیتے تھے اس کا واضح ثبوت وزیر اعظم بن کر پہلی بار ان کا شکارپور آنا تھا جہاں انتظامیہ نے ان کے لیے انسپکشن بنگلو کے وسیع لان میں علاقے کے بڑوں کو جمع کر رکھا تھا۔ بھٹو صاحب نے تقریر کرتے ہوئے کھڑے ہوکر پی پی کارکنوں کو وہاں موجود نہ پایا تو برہم ہو گئے اور پھر جلسہ چھوڑ کر سرکاری گاڑی میں بیٹھے اور گھنٹہ گھر چلنے کو کہا۔ جہاں 1970ء کے عام انتخابات کی مہم میں انھوں نے ٹیکسی اسٹینڈ پر شہر کا سب سے اونچا پیپلز پارٹی کا پرچم لہرایا تھا۔ عوامی وزیر اعظم پرچم کے مقام پر پہنچ کر لکڑی سے بنی سیڑھیوں پر چڑھ کر بالکونی پر آئے اور وزیر اعظم بھٹو نے اچانک گھنٹہ گھر آ جانے کی خبر سن کر ٹیکسی اسٹینڈ پر بڑی تعداد میں لوگ جمع ہو چکے تھے جہاں انھوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ مجھے میرے کارکنوں سے دور نہیں رکھا جا سکتا اس لیے میں بڑے لوگوں کے اجتماع کو چھوڑ کر عوام میں آ گیا ہوں۔ذوالفقار علی بھٹو حقیقی طور پر عوام کے رہنما تھے۔ اور سرکاری سیکیورٹی اور پروٹوکول چھوڑ کر عوام میں آ جاتے تھے اور ان کی یہ عوام دوستی پی پی کے کسی رہنما میں نہیں تھی۔
پی پی کے شریک چیئرمین صدر مملکت بن کر 5 سال ایوان صدر میں محفوظ بیٹھے رہے اور نوجوان چیئرمین کو دہشت گردی کے خوف سے حالیہ انتخابات میں انتخابی مہم سے دور رکھا گیا اور پی پی کے دونوں سابق وزرائے اعظم اپنی حکومت میں تو عوام سے دور رہے ہی مگر انتخابات میں بھی وہ اپنے انتخابی حلقوں سے نہ نکلے اور شکست سے دو چار ہوئے اور تینوں کے دور میں جیالوں کو قریب پھٹکنے نہیں دیا گیا۔ سابق حکومت میں مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف لاڑکانہ آئے تھے جہاں سکیورٹی کے نام پر لیگی متوالوں کو میاں صاحب سے دور رکھا گیا، میاں صاحب کی ملاقات سے مایوس ایک لیگی متوالے نے بطور احتجاج خود کو آگ لگا لی تھی اور ن لیگ کی طرف سے اسے لیگی کارکن ہی ماننے سے انکار کر دیا گیا تھا۔ جن کا علاج ق لیگ کے چوہدری نے کرایا تھا مگر اس کی جان نہ بچ سکی تھی۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ غریب و متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ سیاسی کارکن نظریہ سے زیادہ اپنے قائد سے محبت اور مفاد کے لیے بنتے ہیں جب کہ بڑے لوگ اسمبلیوں میں آنے اور وزیر بننے کے لیے سیاسی پارٹی میں آتے جاتے ہیں جب کہ سیاسی کارکنوں کی وفاداری کم ہی تبدیل ہوتی ہے، اپوزیشن دور میں غریب کارکن ہی ہوتے ہیں جو پولیس کے ڈنڈے کھاتے ہیں، حکومتی تشدد برداشت کرتے ہیں، جیلوں میں پڑے رہتے ہیں اور جب ان کی پارٹی حکومت بناتی ہے تو انھیں نظر انداز کر دیا جاتا ہے اور بڑے رہنما اور خوشامدی آگے آ جاتے ہیں جن کے پیچھے موجود غریب کارکن حکمران بننے والوں کو نظر آنا بند ہو جاتے ہیں۔