نیلسن منڈیلا مساوات کی علمبردار شخصیت
ماضی بعید و قریب اور عصر حاضر میں رونما ہونے والے رنگ و نسل کے امتیاز پر مبنی اختلافات، تعصب، انتہا پسندی۔۔۔
ماضی بعید و قریب اور عصر حاضر میں رونما ہونے والے رنگ و نسل کے امتیاز پر مبنی اختلافات، تعصب، انتہا پسندی و تنگ نظری و جنون، انسانیت کی تذلیل اور حقوق انسانی کی پامالی نیز غیر منصفانہ حاکمیت کے تناظر میں رسول انسانیتؐ کی ایک بڑی عطا اور دنیا پر آپؐ کا باقی رہنے والا احسان، وحدت انسانی کا عظیم انقلابی تصور ہے، اس سے پہلے انسان قبائل و اقوام کے اونچے نیچے طبقات اور تنگ نسلی دائرں میں بٹا ہوا تھا اور ان طبقات کا باہمی فرق ایسا اور اتنا تھا جتنا انسان و حیوان، آزاد و غلام اور عابد و معبود کا فرق ہو سکتا ہے۔
آپؐ سے پہلے وحدت و مساوات انسانی کا تصور خواب و خیال بن چکا تھا، رسولؐؐ اﷲ نے صدیوں کی طویل خاموشی اور چھائے ہوئے اندھیرے میں عقلوں کو جھنجھوڑ دینے والا اور حالات کا رخ موڑ دینے والا انقلابی اعلان فرمایا ''اے لوگو! تمہارا رب ایک اور تمہارا مورث اعلیٰ بھی ایک ہے، تم سب آدم ؑ کی اولاد ہو اور آدمؑ مٹی سے بنے تھے۔ تم میں اﷲ عز وجل کے نزدیک سب سے زیادہ شریف، سب سے زیادہ متقی انسان ہے اور کسی عربی کو کسی عجمی پر، کسی گورے کو کسی کالے پر، کسی سرخ کو کسی سفید پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ ہی کے سبب سے، فرمایا ''اﷲ تعالیٰ نے تم سے جاہلی عصبیت اور آبا پر فخر کا طریقہ ختم کر دیا ہے، اب یا تو مومن متقی ہو گا یا فاجر شقی'' اور یہ انسانی وحدت و مساوات اور انسانی اخوت پر مبنی بلیغ و تاریخی طرز عمل ہی تھا کہ رحمت للعالمینؐ حضرت بلال حبشیؓ سے انتہائی شفقت و الفت فرماتے، نیز اکابر صحابہؓ حضرت بلالؓ کی جس قدر عزت و احترام کرتے اور آپؓ کو میرے آقا بلال ؓ کہہ کر پکارا کرتے، یہ سب اپنی مثال آپ ولا زوال طرز عمل در اصل اسلام ہی کا خاصہ تھا۔
اسلام کی یہ حقوق انسانی، وسیع القلبی و وسعت قلب و ظرف، وسیع نظری اور نسلی عدم امتیاز پر مبنی یہ روشنی اور یہ بلیغ و تاریخی اعلان و پیغام دنیا میں جہاں جہاں پہنچا اور جس جس نے قبول کیا اور اپنایا وہاں اسلام کا نور پھیلتا چلا گیا اور انسانی وحدت و مساوات کا تصور عام ہو گیا، غلامی کا خاتمہ ہو گیا اور انسانیت کا سر فخر سے بلند تر ہو گیا، اسلام ایک فطری دین ہے اور آزادی و مساوات انسان کا فطری حق ہے اس فطری حق کی حصول کی ایک داستان کے چند نقوش ہمیں نیلسن منڈیلا، جان ولز مینارڈ، مارٹن لوتھر اور امریکی صدر باراک اوباما وغیرہ کی زندگی میں نظر آتے ہیں۔
1968ء میں امریکی ایوان نمایندگان میں منتخب ہو کر آنے والے سیاہ فام جان ولز مینارڈ کو امریکی سفید فام منتخب نمایندگان نے قبول کرنے سے قطعی انکار کرتے ہوئے ان کے ایوان میں بیٹھنے پر پابندی عائد کر دی، ان کا کہنا تھا کہ وہ ایوان میں کسی کالے کو برداشت نہیں کر سکتے، جان ولز مینارڈ نے اپنے حق کے لیے آواز بلند کی تاہم نسل پرست ایوان نمایندگان نے اس احتجاج کو حقارت اور توہین آمیز انداز میں رد کر دیا اور اسے بالآخر ایوان سے باہر نکلنا ہی پڑا۔
1950ء کی مشہور تقریر میں مارٹن لوتھر کنگ نے کہا تھا کہ ''ایک دن میرے لوگ ایسی دنیا میں رہیں گے جہاں ان کی پہچان رنگ و نسل کی بجائے ان کا کردار ہو، یہی میرا خواب ہے'' یکے بعد دیگرے 2008ء اور پھر 6 نومبر 2012ء میں منتخب امریکی صدر باراک اوباما کا انتخاب امریکا میں سیاسی انقلاب کی جدید دور کا آغاز ہے جس میں جدید امریکا کی رنگ و نسل کی تمام جاہلانہ بندشوں سے آزاد ایک متحد و منظم امریکا کے واضح پیغام کا بخوبی اظہار ہوتا ہے۔ یہ وہی نسلی تعصب پر مبنی معاشرہ تھا جس کی گھٹن کا اندازہ خود باراک اوباما کے بیان کردہ ان واقعات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے ''جب میں کسی بڑے اسٹور میں داخل ہوتا تھا تو سیکیورٹی گارڈ میری رنگت کی وجہ سے مجھے چور سمجھ لیتے تھے اور میں جب تک اسٹور میں رہتا تھا یہ میرے پیچھے منڈلاتے رہتے تھے، میں جوان ہوا اور کھانے کے لیے ریستورانوں میں جانے لگا تو سفید فام جوڑے مجھے ریستوران کا کار بوائے سمجھ کر اپنی گاڑیوں کی چابیاں پکڑا دیتے تھے اور مجھے پولیس بھی بلا وجہ تنگ کرتی تھی، میں ان زیادتیوں پر دل ہی دل میں کڑھتا رہتا تھا، میں بعض اوقات اشتعال میں بھی آ جاتا تھا'' الغرض ایک طویل عرصے تک امریکا میں رنگ و نسل کی بنیاد پر ایک واضح خلیج کالے اور گوروں کے درمیان حائل رہی۔
حال ہی میں ڈاکٹر نیلسن منڈیلا 95 برس کی عمر میں اس دار فانی سے کوچ کر گئے وہ ایک عہد ساز شخصیت تھے ان کی رحلت سے دنیا ایک عظیم انسان، مساوات، امن و انصاف اور نسلی عدم امتیاز کے علمبردار سے محروم ہو گئی ہے، خود باراک اوباما نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ''دنیا نے سب سے زیادہ متاثر کن، باہمت اور انتہائی اچھا انسان کھو دیا، انھوں نے کہا کہ ذاتی طور پر نیلسن منڈیلا متاثر تھے، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے منڈیلا کو انصاف کا دیوتا قرار دیا، انھوں نے خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ جو تحریک رنگ و نسل کے خاتمے، ا نسانی برابری، امیر غریب کے درمیان امتیاز ختم کرنے کے لیے انھوں نے چلائی، اس کی بنیاد پر وہ محض افریقی اقوام کے لیے ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے لوگوں کے لیے تحریک اور جد وجہد کا استعارہ بن گئے ہیں ان کے علاوہ پوری دنیا کی اہم سیاسی شخصیات اور حکمرانوں نے منڈیلا کی آخری رسومات میں شرکت کی اور انھیں خراج عقیدت پیش کیا، 5 دسمبر کو ان کا انتقال ہوا اور 15 دسمبر کو ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں مکمل سرکاری اعزاز کے ساتھ ان کے آبائی گاؤں ''کونو'' میں تدفین ہوئی۔
ڈاکٹر نیلسن منڈیلا نے اپنے وطن سے نسلی امتیاز، عدم مساوات، نفرتوں اور مظالم کے خاتمے کے لیے عدم تشدد کے عظیم اصول پر تحریک چلائی اور اپنی انتھک محنت اور قربانیوں کی بدولت فتح یاب ہوئے۔ اور حتمی کامیابی سے ہمکنار کر کے دنیا بھر کے مظلوموں کے لیے عظیم قابل تقلید مثال قائم کی اور مشعل راہ و مینارہ نور ثابت ہوئے۔ منڈیلا کا ملک جنوبی افریقا کئی دہائیوں تک سفید فام حکمرانوں کی نسلی امتیاز کی پالیسی کی بنیاد پر روا رکھی جانے والی نا انصافیوں اور اس کے نتیجے میں مقامی سیاہ فارم آبادی کے رد عمل کی بناء پر نفرتوں کا جہنم بنا رہا، منڈیلا نے عنفوان شباب ہی میں نسلی امتیاز کے خلاف تحریک میں شمولیت اختیار کی جس کی پاداش میں جولائی 1963ء میں انھیں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔
جیل میں 27 سالہ طویل قید کے دوران بھی وہ نسلی امتیاز کے خلاف صف آراء رہے اور تحریک کی رہنمائی کرتے رہے، اپنے ہم وطنوں کو منڈیلا نے تشدد کے بجائے دلیل سے اپنا مقدمہ لڑنے کی تلقین کی، 1990ء میں رہائی کے بعد انھوں نے نسل پرست حکومت کے بجائے منتخب جمہوری حکومت کے قیام کے لیے مذاکرات اور قومی مفاہمت کی راہ اختیار کی اور بالآخر منڈیلا 1994ء میں وہ بابائے قوم کی حیثیت سے آزاد ملک کے پہلے صدر منتخب ہوئے، ماضی کی زیادتیوں کا ازالہ کرنے کے لیے منڈیلا نے ٹروتھ اینڈ ری کنسی لی ایشن ضرور تشکیل دیا مگر اس کی رپورٹ آنے کے بعد سب کو عام معافی دے دی، صدارت کے منصب سے علیحدہ ہونے کے بعد بھی وہ انسانیت کی خدمت پر کار بند رہے اور پوری دنیا کے ستم رسیدہ مظلوموں کے حق میں اور نسلی تفاوت یا امتیاز (Apartheid) کے خلاف آواز بلند کرتے رہے، وہ انسانی وقار، آزادی، امن، مساوات، مفاہمت، انصاف، صبر اور ذہانت کی علامت تھے اور ان کی شخصیت تمام مظلوموں کے لیے قابل تقلید نمونے کی حیثیت رکھتی ہے، منڈیلا کو 250 سے زائد عالمی اعزازات سے نوازا گیا، 1992ء میں نشان پاکستان دیا گیا، دنیا کی بے شمار عظیم یونیورسٹیز نے انھیں PRD کی ڈگریاں دیں، وہ نوبل انعام یافتہ تھے، وہ اقتدار کی غلام گردشوں کے کبھی اسیر نہ ہوئے، ان کا مطمع نظر صرف اپنے فرض کی ادائیگی، عوامی خدمت اور مثبت لسانیت رہا اور پھر اقتدار خود ان کا غلام و اسیر ہو گیا جو تاریخ میں سنہری حرفوں سے لکھے جانے کے قابل ہے جو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔
ان کی زندگی ہمارے حکمرانوں اور سیاست دانوں کے لیے بھی سبق ہے بشرطیکہ ہم ان سے کچھ سیکھنا چاہیں، منڈیلا گوتم بدھ اور گاندھی سے متاثر تھے اور گاندھی خود رحمت للعالمینؐ سے بہت متاثر تھے اور انھوں نے مختلف مواقع پر اپنی عقیدت کا اظہار بھی کیا جب کہ گوتم بدھ کی تعلیمات کے پیش نظر اکثر محققین کا اتفاق ہے کہ غالب گمان ہے کہ وہ پیغمبر ہوں، اس طرح حقوق انسانی، مساوات، انصاف، امن، نسلی عدم امتیاز کے یہ تانے بانے اسلام ہی کا خاصہ قرار پاتے ہیں، خود منڈیلا کے انسانیت دوست طرز عمل اور اقدامات نے پر امن بقائے باہمی پر مبنی معاہدات امن و صلح اور فتح مکہ کی یاد تازہ کر دی اور بلا شبہ یہ ایک المیہ ہے کہ مسلمانوں سے زیادہ غیر مسلموں نے اسلام اور سیرت مطہرہؐ سے استفادہ کیا اور کہاں سے کہاں پہنچ گئے اور غافل مسلمان باہم دست و گریباں ہیں اور امن و سلامتی کی بجائے نفرتوں، عداوتوں اور نسلی و مذہبی عصبیتوں کے علمبردار بنے بیٹھے ہیں اور وہ بھی اسلام کے نام پر اور خدا کے لیے...