پاکستانی ڈراموں اور فلموں میں کام کرنے والے 8 بھارتی اداکار

بھارت کے کئی نامور فنکار پاکستانی فلموں اور ڈراموں میں کام کرچکے ہیں


زنیرہ ضیاء September 29, 2020
بھارت کے کئی ٹاپ نامور فنکار پاکستانی فلموں اور ڈراموں میں کام کرچکے ہیں فوٹوفائل

پاکستانی ڈرامے دنیا بھر میں مقبول ہیں اور بھارتی پروڈیوسرز، ہدایت کار و فنکار تو پاکستانی ڈراموں اور پاکستانی فنکاروں سے بے حد متاثر ہیں۔ میڈیا میں اکثر پاکستانی فنکاروں کے بھارت جاکر کام کرنے کی خبریں گردش کرتی ہیں لیکن یہ شاید کسی کو نہیں معلوم ہوگا کہ بھارت کے بھی کئی نامور فنکار پاکستانی فلموں اور ڈراموں میں کام کرچکے ہیں۔

نصیرالدین شاہ



نصیرالدین شاہ کا شمار بھارت کے لیجنڈ اداکاروں میں ہوتا ہے جو ''معصوم''، ''عشقیہ'' اور ''سرفروش'' جیسی سپرہٹ فلموں میں کام کرچکے ہیں۔ نصیرالدین شاہ کے چاہنے والے بھارت کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی موجود ہیں۔



نصیرالدین شاہ نے 2007 میں شعیب منصور کی سپرہٹ فلم ''خدا کے لیے'' میں نہایت اہم کردار ادا کیا تھا اس فلم میں نصیرالدین شاہ کے علاوہ اداکار شان، فواد خان اور ایمان علی نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ اس کے علاوہ وہ 2013 میں ایک اور پاکستانی پنجابی فلم ''زندہ بھاگ'' میں بھی کام کرچکے ہیں۔

سارہ خان



سارہ خان بھارت کی مقبول اداکارہ ہیں ان کا ڈراما ''بدائی'' بھارت کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی بہت پسند کیاگیا تھا۔ ''بدائی'' کے علاوہ سارہ خان کئی مقبول بھارتی ڈراموں اور رئلیٹی شو ''بگ باس'' میں بھی کام کرچکی ہیں۔ سارہ خان نے 2016 میں پاکستانی اداکار نور حسن کے ساتھ ڈراما ''بے خودی'' میں کام کیا تھا اس کے علاوہ انہوں نے 2017 میں ایک اور پاکستانی ڈرامے ''لیکن'' میں بھی کام کیا تھا اور یہ دونوں ڈرامے بہت مقبول ہوئے تھے۔

اوم پوری



بالی ووڈ کو کئی بہترین فلمیں دینے والے لیجنڈ اداکار اوم پوری اب اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن جب تک وہ زندہ تھے پاکستانی ڈراموں اور فلموں کے بہت بڑے فین تھے۔ انہوں نے پاکستان کی سپر ہٹ فلم ''ایکٹر ان لا'' میں کام کیا تھا۔ اس فلم میں انہوں نے فہد مصطفیٰ کے والد کا کردار ادا کیا تھا اس کے علاوہ وہ ایک اور پاکستانی فلم ''لوڈ ویڈنگ'' میں بھی کام کرچکے ہیں۔

شوئیتا تیواری



ڈراما سیریل ''کسوٹی زندگی کی'' کی پریرنا کو کون نہیں جانتا بھارتی اداکارہ شوئیتا تیواری نے پریرنا کا کردار ادا کیاتھا اور یہ کردار اتنا زیادہ مقبول ہوا تھا کہ شوئیتا کا نام پاکستان اور انڈیا کے ہر گھر میں لیا جانے لگا تھا۔ شوئیتا تیواری کئی ڈراموں اور بگ باس کے علاوہ پاکستانی فلم میں بھی کام کرچکی ہیں۔ انہوں نے 2014 میں فلم ''سلطنت'' میں کام کیا تھا۔ اس فلم کی ہدایات سید فیصل بخاری نے دی تھی۔



فلم''سلطنت'' کا بجٹ 22 کروڑ تھا اور اس کے بنانے والوں نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ اس وقت کی مہنگی ترین پاکستانی فلم ہے۔ فلم کا اسکرین پلے اور ڈائیلاگز معروف مصنف پرویز کلیم نے لکھے تھے۔ فلم کی زیادہ تر شوٹنگ دبئی میں ہوئی تھی۔ فلم ''سلطنت'' میں شوئیتا تیواری نے ہیروئن کا کردار ادا کیا تھا لیکن یہ فلم بہت بڑی فلاپ ثابت ہوئی تھی۔

آکاش دیپ سیگل



بھارتی ٹی وی کے ایک اور نامور اداکار آکاش دیپ سیگل جو بھارتی ڈرامے ''کیونکہ ساس بھی کبھی بہو تھی'' سے مقبول ہوئے تھے یہ بھی فلم ''سلطنت'' کی کاسٹ میں شامل تھے۔ آکاش دیپ سیگل بھارت میں منفی کرداروں کے لیے مشہور ہیں اور اس فلم میں بھی انہوں نے ولن کا کردار ادا کیا تھا۔

جونی لیور



بھارت کے نمبر ون کامیڈین جونی لیور کو پاکستان میں بھی بے حد پسند کیا جاتا ہے اور لوگ یہاں بھی ان سے اتنی ہی محبت کرتے ہیں جتنی محبت انہیں بھارتی عوام سے ملتی ہے۔ جونی لیور نے 2011 میں پاکستانی فلم ''لو میں گم'' میں کامیڈی کردار اداکیا تھا اس فلم میں پاکستانی اداکارہ ریما خان اور معمر رانا نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ فلم کو ڈائریکٹ اور پروڈیوس بھی ریما خان نے ہی کیا تھا اور اس فلم کی زیادہ تر شوٹنگ آذر بائیجان اور ملیشیا میں ہوئی تھی۔ یہ فلم باکس آفس پر کامیاب رہی تھی۔

نیہا دھوپیا



بالی ووڈ اداکارہ نیہا دھوپیا بھی پاکستان میں کام کرچکی ہیں۔ انہوں نے 2008 میں فلم ''کبھی پیار نہ کرنا'' سے پاکستان فلم انڈسٹری میں ڈیبیو کیا تھا اس فلم میں پاکستانی اداکارہ وینا ملک، زارا شیخ اور معمر رانا نے مرکزی کردار ادا کیاتھا۔ تاہم نیہا دھوپیا اس کے بعد کسی اور پاکستانی فلم یا ڈرامے میں نظر نہیں آئیں۔

ونود کھنا



بھارتی لیجنڈ اداکار ونود کھنا بھی 2007 میں پاکستانی فلم ''گاڈ فادر'' میں کام کرچکے ہیں۔ یہ فلم ہالی ووڈ کی کلاسیکل مووی ''گاڈ فادر'' سے متاثر ہوکر بنائی گئی تھی۔ اس فلم میں ونود کھنا کے ساتھ اداکارہ میرا، میکال ذولفقار، بھارتی اداکار ارباز خان اور شفقت چیمہ نے اہم کردار ادا کیے تھے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔