غالب کا ہے انداز بیاں اور
کاش ایسا ہوتا کہ ہمارا مقام اس سے بھی پرے ہوتا اور ہمارے تخّیل کی پرواز لا محدود ہوتی۔
دنیا میں شائد ہی کوئی ایسا ملک ہو جہاں تیس سال سے کم عمر کے نوجوان اپنی قومی زبان نہ پڑھ سکتے ہوں اور نہ لکھ سکتے ہوں۔ یہ "اعزاز" بد قسمتی سے صرف پاکستان کو حاصل ہے۔ نئی نسل جو اردو شناس نہیں ہے وہ غالبؔ شناس کہاں سے ہوگی۔
اردو سیکھنے کا ذوق رکھنے والوں کو غالبؔ کی شاعری پڑھنی اور سمجھنی ہوگی۔ ان کے شعروں میں حکمت اور فلسفہ بھی ہے ، معرفت بھی ہے، شوخی اور ظرافت بھی ہے ، سوز بھی ہے اور رفعتِ تخیّل بھی ہے۔ نئی نسل کو ان کے کلام سے روشناس کرانے کے لیے ڈاکٹر انعام الحق جاوید کے دور میں نیشنل بک فاؤنڈیشن نے غالبؔ کا منتخب کلام (ترجمے اور تشریح کے ساتھ) شایع کیا۔ نامور اسکالر پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی نے ہماری نئی نسل کا معیار پیش نظر رکھ کر غزلوں کا انتخاب کیا ہے اور شعروں کی تشریح بھی آسان زبان میں کی ہے۔
غالبؔ کے چند اشعار قارئین کے ساتھ شئیر کیے جا رہے ہیں جن کا کم از ایک مصرعہ بے حد مقبول اور زبانِ خاص و عام ہے۔
میں نے کہا کہ بزمِ ناز غیر سے چاہیے تہی
سن کر ستم ظریف نے مجھ کو اٹھا دیا کہ یوں
یہ شعر شوخی اور شرارت سے بھرپور ہے، اس میں شاعر کہتا ہے کہ میں نے (یعنی عاشق نے) محبوب سے کہا کہ تمہاری محفل میں کچھ غیر لوگوں کی موجودگی بہت کھٹکتی ہے، غالبََا عاشق کا اشارہ رقیب کی طرف تھا، عاشق نے جب محبوب سے مطالبہ کیا کہ غیر کو اپنی محفل سے اٹھا دو تو سنگدل محبوب نے خود عاشق کو ہی اپنی محفل سے اٹھا کر مطالبہ پورا کر دیا۔
غالبؔ نے اپنے محبوب کی ستم ظریفی اور سنگدلی کا جس طرح ذکر کیا ہے ، اس سے مکرّمی جہانگیر ترین یاد آتے ہیں کہ انھوں نے بھی کچھ ایسا ہی مطالبہ اپنے محبوب عمران خان سے کیا تو انھیں بھی غالبؔ کے محبوب جیسا ہی جواب ملا ۔
درج ذیل دونوں شعر نوجوان سیاستدان طلال چوہدری کے شغلِ ''تنظیم سازی'' کو دیکھ کر یاد آرہے ہیں۔
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست نا صح
کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غمگسار ہوتا
چوہدری اس شعر میں کہہ رہا ہے کہ سب لوگ مجھے نصحیتں کرنے کے لیے ناصح بنکر تو آرہے ہیں مگر کوئی بھی میرے دردِ عشق کا علاج نہیں کرتا۔ کاش کوئی ناصح کے بجائے میرا غم گسار بن کر آتا، اور میری ٹوٹی ہوئی ٹانگوںکے بجائے ٹوٹے ہوئے دل کا بھی علاج کرتا۔
دوست غم خواری میں میرے سعی فرماویں گے کیا
زخم کے بھرنے تلک، ناخن نہ بڑھ جاویں گے کیا
اس میں موصوف کہتے ہیں کہ محبوب کی وجہ سے مجھے جو زخم لگے ہیں اس میں میرے دوست میری کیا مدد کریں گے، ان کی مدد سے جتنی دیر میں میرے زخم بھریں گے، اتنی دیر میں میرے محبوب کے وہ ناخن دوبارہ بڑھ چکے ہوںگے۔ یعنی ان ڈنڈوں پر دوبارہ شامیں چڑھ چکی ہوںگی ، جو مجھ پر برستے رہے۔
مندرجہ ذیل شعرپڑھتے ہی ذہن موجودہ حکومت کی جانب چلا جاتا ہے اور یوں لگتا ہے کہ غالبؔ نے پی ٹی آئی کی حکومت پر اپنے ایک شعر کے ذریعے بڑا جامع تبصرہ کر دیا ہے کہ
رَو میں ہے رخشِ عمر، کہاں دیکھیے تھمے
نہ ہاتھ باگ پرہے نہ پاہے رکاب میں
یعنی ہم عمر کے گھوڑے پر سوار ہیں اور یہ معلوم نہیں کہ کہاں رکے گا مگر بے اختیاری کا یہ عالم ہے کہ نہ گھوڑے کی باگ ہمارے قبضے میں ہے اور نہ ہمارا پاؤں رکاب کے اندر ہے۔ انجام کا اندازہ آپ خود لگا لیں۔ مگر یہ بات یقینی ہے کہ گھوڑا 2022 تک بھی جاتا نظر نہیں آتا۔
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پیشماں کا پیشماں ہونا
اس شعر میں لفظ "زود پیشماں" طنزاً استعمال کیا گیا ہے کہ محبوب نے اپنے جورو جفا سے توبہ کی بھی تو مجھے قتل کرنے کے بعد کی۔ ایسی پیشمانی کے کیا کہنے!! ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں کی وضاحت سن کر میاں نواز شریف کے منہ سے یقینََا یہی شعر نکلا ہوگا۔ یعنی جفا سے اس وقت توبہ کی جب مجھے حکومت سے نکال دیا۔
راولپنڈی کے اکلوتے ایم این اے کا اُسی شہر کی ایک اہم عمارت کے گیٹ نمبر چار سے جو قلبی تعلق ہے، وہ پیشِ نظر ہو تو لگتا ہے کہ درج ذیل شعر میں موصوف اپنی خواہش اور حسرت کا غالبؔ کے الفاظ میں ذکر کر رہے ہیں،
دائم پڑا ہوا تیرے در پر نہیں ہوں میں
حیف ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہوں میں
موصوف اظہار بندگی کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ کاش میں گیٹ نمبر چار پر لگا ہوا ماربل ہوتا۔
ایک اور شعر ملاحظہ کریں۔
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
اس میں شاعر کہنا چاہتا ہے کہ بظاہر یہ ایک معمولی بات معلوم ہوتی ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں آسان سے آسان کام بھی اتنا آسان نہیں ہوتا جتنا نظر آتا ہے جس طرح آدمی جو انسان کا مادی وجود ہے کے لیے بھی انسان (جو ایک اخلاقی وجود ہے) بننا کتنا مشکل ہے۔ سوشل میڈیا پرمختلف پارٹیوں کے جیالوں کے تبصرے پڑھ کر فوراً یہ شعر ذہن میں آجاتا ہے۔
غالبؔ کا ایک اور شعر ملاحظہ فرمائیں
کوئی میرے دل سے پوچھے تیرے تیرِ نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا
تیرِ نیم کش کا مطلب ہے وہ تیر جس کے لیے کمان پوری نہ کھینچی گئی ہو اور جو جسم میں اٹک کر رہ جائے۔ شاعر کہتا ہے کہ اگر تیرا تیر جگر کے پار ہو جاتا تو چُبھن کا لطف جاتا رہتا ہے، عاشق کے لیے اصل لطف محبوب کے دیے ہوئے درد میں پنہاں ہوتا ہے۔ سنا ہے کہ پارٹی سے نکالی جانے والی لاہور کی ایم پی اے صاحبہ اپنے قائد کی یاد میں آجکل اسی شعر کا ورد کرتی ہے۔
ایک اور شعر ملاحظہ فرمائیں۔
تیشے بغیر مر نہ سکا کو ہکن اسدؔ
سر گشتہء خمارِ رسوم و قیود تھا
شاعر کا مطلب ہے کہ صیحح عشَاق ظاہری رسوم یا SoPs کے پابند نہیں ہوتے۔ لیکن فرہاد چونکہ ابھی مکتب عشق میں زیر تربیت تھا اور ابھی فارغ التحصیل نہیں ہوا تھا، اس لیے رسم و رواج کا پابند تھا، اسی لیے اسے مرنے کے لیے سر پر تیشہ مارنے کی ضرورت پڑی۔ اگر وہ عاشق صادق ہوتا تو ان رسموں کا پابند نہ ہوتا اور یونہی مر جاتا۔
عشرتِ قتل گہِ اہلِ تمنّا مت پوچھ
عیدِ نظارہ ہے شمشیر کا عریاں ہونا
شاعر کہتا ہے کہ سچے عاشق محبوب پر قربان ہونے کے خواہش مند ہوتے ہیں، لہٰذاعاشقوںکو قتل گاہ میں پہنچ کر جو مسّرت ہوتی ہے اس کی کیفیّت بیان کی گئی ہے کہ تلوار کا نیام سے نکلنا عاشق کے لیے عید کی خوشی کی مانند ہوتا ہے۔
ایک اور شعر کی شوخی سے لطف اٹھائیے۔
کھُلتا کسی پہ کیوں مرے دل کا معاملہ
شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے
شاعر کہتا ہے کہ میں اگر شعر نہ کہتا تو میرا عاشقانہ مزاج لوگوں سے مخفی رہتا، دل کی بات شعروں میں ڈھل کر عام ہوئی تو میری رسوائی کا باعث بن گئی۔
ہر بو الہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوہ اہلِ نظر گئی
غالبؔ کا کہنا ہے کہ اہلِ ہوس نے سچّے عاشقوں کی اہمیّت اور قدر برباد کر کے رکھ دی ہے۔ اب دنیائے عشق میں بھی دو نمبری کا راج ہے، سچّے عاشقوں کے بجائے ہوس پرست ڈیرہ جمائے بیٹھے ہیں۔ جن کی وجہ سے ہم جیسے سچے عاشق بھی بے توقیر ہوئے ہیں۔
میں چاہا تھا کہ اندوہِ وفا سے چھوٹوں
وہ ستمگر میرے مرنے سے بھی راضی نہ ہوا
شاعر کہتا ہے کیہ میرا خیال تھا کہ موت کو گلے لگا کر آزارِ عشق سے نجات پالوںگا مگر محبوب اتنا ستمگر ہے کہ وہ میری موت پر راضی نہیں ، وہ مجھے زندہ رکھ کے مجھ پر ستم ڈھانا چاہتا ہے۔
یہ مسائلِ تصوّف ، یہ ترا بیان غالبؔ
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
یعنی اے غالبؔ ! تو کیسے دل پذیر انداز میں تصوف کے مسئلے بیان کر دیتا ہے، ایسا آسان اور دلکش انداز تو جو صرف ولیوں کی شان ہے۔ اگر تو شراب نوش نہ ہوتا توہم تجھے ولی سمجھ لیتے۔
آج واں تیغ و کفن باندھے ہوئے جاتا ہوں میں
عذر میرے قتل کرنے میں وہ اب لاویں گے کیا
غالبؔ اس شعر میں کہتے ہیں کہ پہلے تو محبوب میرے قتل نہ کرنے کا بہانہ کر دیتا تھا کہ آلہء قتل موجود نہیں مگر آج تو میں خود سارا سامان لے کر جا رہا ہوں اب تو محبوب کے پاس کوئی بہانہ نہیں ہے۔ شعرکی شوخی بڑی ہی قابل داد ہے۔
شعر و ادب کا اعلیٰ ذوق رکھنے والے ہمارے دوست ظفر حسن رضا ( سابق اکاؤنٹنٹ جنرل پنجاب) نے غالبؔ کا ایک بہت خوبصورت شعر بھیجا ہے۔
منظر اک بلندی پر کاش ہم بناسکتے
عرش سے ادھر ہوتا کا ش کہ مکاں اپنا
وہ لکھتے ہیں کہ یہ شعر انسان کے تخیل کی بلندی کا غمازّ اور تسخیرِ کائنات کی آزادی کا آئینہ دار ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ کاش ایسا ہوتا کہ ہمارا تصور ذاتِ باری کے متعلق عرش کی حدود سے آگے جا سکتا۔ اس وقت ہمارے تخّیل کی پرواز عرش تک پہنچ کر رک جاتی ہے، کاش ایسا ہوتا کہ ہمارا مقام اس سے بھی پرے ہوتا اور ہمارے تخّیل کی پرواز لا محدود ہوتی۔
اردو سیکھنے کا ذوق رکھنے والوں کو غالبؔ کی شاعری پڑھنی اور سمجھنی ہوگی۔ ان کے شعروں میں حکمت اور فلسفہ بھی ہے ، معرفت بھی ہے، شوخی اور ظرافت بھی ہے ، سوز بھی ہے اور رفعتِ تخیّل بھی ہے۔ نئی نسل کو ان کے کلام سے روشناس کرانے کے لیے ڈاکٹر انعام الحق جاوید کے دور میں نیشنل بک فاؤنڈیشن نے غالبؔ کا منتخب کلام (ترجمے اور تشریح کے ساتھ) شایع کیا۔ نامور اسکالر پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی نے ہماری نئی نسل کا معیار پیش نظر رکھ کر غزلوں کا انتخاب کیا ہے اور شعروں کی تشریح بھی آسان زبان میں کی ہے۔
غالبؔ کے چند اشعار قارئین کے ساتھ شئیر کیے جا رہے ہیں جن کا کم از ایک مصرعہ بے حد مقبول اور زبانِ خاص و عام ہے۔
میں نے کہا کہ بزمِ ناز غیر سے چاہیے تہی
سن کر ستم ظریف نے مجھ کو اٹھا دیا کہ یوں
یہ شعر شوخی اور شرارت سے بھرپور ہے، اس میں شاعر کہتا ہے کہ میں نے (یعنی عاشق نے) محبوب سے کہا کہ تمہاری محفل میں کچھ غیر لوگوں کی موجودگی بہت کھٹکتی ہے، غالبََا عاشق کا اشارہ رقیب کی طرف تھا، عاشق نے جب محبوب سے مطالبہ کیا کہ غیر کو اپنی محفل سے اٹھا دو تو سنگدل محبوب نے خود عاشق کو ہی اپنی محفل سے اٹھا کر مطالبہ پورا کر دیا۔
غالبؔ نے اپنے محبوب کی ستم ظریفی اور سنگدلی کا جس طرح ذکر کیا ہے ، اس سے مکرّمی جہانگیر ترین یاد آتے ہیں کہ انھوں نے بھی کچھ ایسا ہی مطالبہ اپنے محبوب عمران خان سے کیا تو انھیں بھی غالبؔ کے محبوب جیسا ہی جواب ملا ۔
درج ذیل دونوں شعر نوجوان سیاستدان طلال چوہدری کے شغلِ ''تنظیم سازی'' کو دیکھ کر یاد آرہے ہیں۔
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست نا صح
کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غمگسار ہوتا
چوہدری اس شعر میں کہہ رہا ہے کہ سب لوگ مجھے نصحیتں کرنے کے لیے ناصح بنکر تو آرہے ہیں مگر کوئی بھی میرے دردِ عشق کا علاج نہیں کرتا۔ کاش کوئی ناصح کے بجائے میرا غم گسار بن کر آتا، اور میری ٹوٹی ہوئی ٹانگوںکے بجائے ٹوٹے ہوئے دل کا بھی علاج کرتا۔
دوست غم خواری میں میرے سعی فرماویں گے کیا
زخم کے بھرنے تلک، ناخن نہ بڑھ جاویں گے کیا
اس میں موصوف کہتے ہیں کہ محبوب کی وجہ سے مجھے جو زخم لگے ہیں اس میں میرے دوست میری کیا مدد کریں گے، ان کی مدد سے جتنی دیر میں میرے زخم بھریں گے، اتنی دیر میں میرے محبوب کے وہ ناخن دوبارہ بڑھ چکے ہوںگے۔ یعنی ان ڈنڈوں پر دوبارہ شامیں چڑھ چکی ہوںگی ، جو مجھ پر برستے رہے۔
مندرجہ ذیل شعرپڑھتے ہی ذہن موجودہ حکومت کی جانب چلا جاتا ہے اور یوں لگتا ہے کہ غالبؔ نے پی ٹی آئی کی حکومت پر اپنے ایک شعر کے ذریعے بڑا جامع تبصرہ کر دیا ہے کہ
رَو میں ہے رخشِ عمر، کہاں دیکھیے تھمے
نہ ہاتھ باگ پرہے نہ پاہے رکاب میں
یعنی ہم عمر کے گھوڑے پر سوار ہیں اور یہ معلوم نہیں کہ کہاں رکے گا مگر بے اختیاری کا یہ عالم ہے کہ نہ گھوڑے کی باگ ہمارے قبضے میں ہے اور نہ ہمارا پاؤں رکاب کے اندر ہے۔ انجام کا اندازہ آپ خود لگا لیں۔ مگر یہ بات یقینی ہے کہ گھوڑا 2022 تک بھی جاتا نظر نہیں آتا۔
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پیشماں کا پیشماں ہونا
اس شعر میں لفظ "زود پیشماں" طنزاً استعمال کیا گیا ہے کہ محبوب نے اپنے جورو جفا سے توبہ کی بھی تو مجھے قتل کرنے کے بعد کی۔ ایسی پیشمانی کے کیا کہنے!! ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں کی وضاحت سن کر میاں نواز شریف کے منہ سے یقینََا یہی شعر نکلا ہوگا۔ یعنی جفا سے اس وقت توبہ کی جب مجھے حکومت سے نکال دیا۔
راولپنڈی کے اکلوتے ایم این اے کا اُسی شہر کی ایک اہم عمارت کے گیٹ نمبر چار سے جو قلبی تعلق ہے، وہ پیشِ نظر ہو تو لگتا ہے کہ درج ذیل شعر میں موصوف اپنی خواہش اور حسرت کا غالبؔ کے الفاظ میں ذکر کر رہے ہیں،
دائم پڑا ہوا تیرے در پر نہیں ہوں میں
حیف ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہوں میں
موصوف اظہار بندگی کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ کاش میں گیٹ نمبر چار پر لگا ہوا ماربل ہوتا۔
ایک اور شعر ملاحظہ کریں۔
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
اس میں شاعر کہنا چاہتا ہے کہ بظاہر یہ ایک معمولی بات معلوم ہوتی ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں آسان سے آسان کام بھی اتنا آسان نہیں ہوتا جتنا نظر آتا ہے جس طرح آدمی جو انسان کا مادی وجود ہے کے لیے بھی انسان (جو ایک اخلاقی وجود ہے) بننا کتنا مشکل ہے۔ سوشل میڈیا پرمختلف پارٹیوں کے جیالوں کے تبصرے پڑھ کر فوراً یہ شعر ذہن میں آجاتا ہے۔
غالبؔ کا ایک اور شعر ملاحظہ فرمائیں
کوئی میرے دل سے پوچھے تیرے تیرِ نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا
تیرِ نیم کش کا مطلب ہے وہ تیر جس کے لیے کمان پوری نہ کھینچی گئی ہو اور جو جسم میں اٹک کر رہ جائے۔ شاعر کہتا ہے کہ اگر تیرا تیر جگر کے پار ہو جاتا تو چُبھن کا لطف جاتا رہتا ہے، عاشق کے لیے اصل لطف محبوب کے دیے ہوئے درد میں پنہاں ہوتا ہے۔ سنا ہے کہ پارٹی سے نکالی جانے والی لاہور کی ایم پی اے صاحبہ اپنے قائد کی یاد میں آجکل اسی شعر کا ورد کرتی ہے۔
ایک اور شعر ملاحظہ فرمائیں۔
تیشے بغیر مر نہ سکا کو ہکن اسدؔ
سر گشتہء خمارِ رسوم و قیود تھا
شاعر کا مطلب ہے کہ صیحح عشَاق ظاہری رسوم یا SoPs کے پابند نہیں ہوتے۔ لیکن فرہاد چونکہ ابھی مکتب عشق میں زیر تربیت تھا اور ابھی فارغ التحصیل نہیں ہوا تھا، اس لیے رسم و رواج کا پابند تھا، اسی لیے اسے مرنے کے لیے سر پر تیشہ مارنے کی ضرورت پڑی۔ اگر وہ عاشق صادق ہوتا تو ان رسموں کا پابند نہ ہوتا اور یونہی مر جاتا۔
عشرتِ قتل گہِ اہلِ تمنّا مت پوچھ
عیدِ نظارہ ہے شمشیر کا عریاں ہونا
شاعر کہتا ہے کہ سچے عاشق محبوب پر قربان ہونے کے خواہش مند ہوتے ہیں، لہٰذاعاشقوںکو قتل گاہ میں پہنچ کر جو مسّرت ہوتی ہے اس کی کیفیّت بیان کی گئی ہے کہ تلوار کا نیام سے نکلنا عاشق کے لیے عید کی خوشی کی مانند ہوتا ہے۔
ایک اور شعر کی شوخی سے لطف اٹھائیے۔
کھُلتا کسی پہ کیوں مرے دل کا معاملہ
شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے
شاعر کہتا ہے کہ میں اگر شعر نہ کہتا تو میرا عاشقانہ مزاج لوگوں سے مخفی رہتا، دل کی بات شعروں میں ڈھل کر عام ہوئی تو میری رسوائی کا باعث بن گئی۔
ہر بو الہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوہ اہلِ نظر گئی
غالبؔ کا کہنا ہے کہ اہلِ ہوس نے سچّے عاشقوں کی اہمیّت اور قدر برباد کر کے رکھ دی ہے۔ اب دنیائے عشق میں بھی دو نمبری کا راج ہے، سچّے عاشقوں کے بجائے ہوس پرست ڈیرہ جمائے بیٹھے ہیں۔ جن کی وجہ سے ہم جیسے سچے عاشق بھی بے توقیر ہوئے ہیں۔
میں چاہا تھا کہ اندوہِ وفا سے چھوٹوں
وہ ستمگر میرے مرنے سے بھی راضی نہ ہوا
شاعر کہتا ہے کیہ میرا خیال تھا کہ موت کو گلے لگا کر آزارِ عشق سے نجات پالوںگا مگر محبوب اتنا ستمگر ہے کہ وہ میری موت پر راضی نہیں ، وہ مجھے زندہ رکھ کے مجھ پر ستم ڈھانا چاہتا ہے۔
یہ مسائلِ تصوّف ، یہ ترا بیان غالبؔ
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
یعنی اے غالبؔ ! تو کیسے دل پذیر انداز میں تصوف کے مسئلے بیان کر دیتا ہے، ایسا آسان اور دلکش انداز تو جو صرف ولیوں کی شان ہے۔ اگر تو شراب نوش نہ ہوتا توہم تجھے ولی سمجھ لیتے۔
آج واں تیغ و کفن باندھے ہوئے جاتا ہوں میں
عذر میرے قتل کرنے میں وہ اب لاویں گے کیا
غالبؔ اس شعر میں کہتے ہیں کہ پہلے تو محبوب میرے قتل نہ کرنے کا بہانہ کر دیتا تھا کہ آلہء قتل موجود نہیں مگر آج تو میں خود سارا سامان لے کر جا رہا ہوں اب تو محبوب کے پاس کوئی بہانہ نہیں ہے۔ شعرکی شوخی بڑی ہی قابل داد ہے۔
شعر و ادب کا اعلیٰ ذوق رکھنے والے ہمارے دوست ظفر حسن رضا ( سابق اکاؤنٹنٹ جنرل پنجاب) نے غالبؔ کا ایک بہت خوبصورت شعر بھیجا ہے۔
منظر اک بلندی پر کاش ہم بناسکتے
عرش سے ادھر ہوتا کا ش کہ مکاں اپنا
وہ لکھتے ہیں کہ یہ شعر انسان کے تخیل کی بلندی کا غمازّ اور تسخیرِ کائنات کی آزادی کا آئینہ دار ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ کاش ایسا ہوتا کہ ہمارا تصور ذاتِ باری کے متعلق عرش کی حدود سے آگے جا سکتا۔ اس وقت ہمارے تخّیل کی پرواز عرش تک پہنچ کر رک جاتی ہے، کاش ایسا ہوتا کہ ہمارا مقام اس سے بھی پرے ہوتا اور ہمارے تخّیل کی پرواز لا محدود ہوتی۔