ایک تھا کروڑ پتی

ناعمہ نے یہ کہتے ہوئے بخوشی طلاق لے لی کہ میں کروڑ پتی ہوں اور مجھے تمھارے جیسے کئی ایک مل جائیں گے


اسلم اپنے غصے اور جلد بازی کی بدولت کروڑ پتی تو کیا، پتی بھی نہ رہا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

یہ کہانی دیار غیر میں مقیم خواتین کی نجی محفل سے شروع ہوئی، جہاں پر تذکرہ آیا متحدہ عرب امارات کے ایک معروف بینک کا، جس کے بانڈز خرید کر کروڑ پتی بنا جاسکتا تھا۔ محفل میں موجود ناعمہ نے اسی شام کو ڈیوٹی پر سے لوٹنے والے اپنے شوہر کو اپنا جیب خرچ پیش کرکے بانڈز خریدنے پر قائل کرلیا۔ اور یوں اسلم بھائی نے بھابھی کے نام پر بانڈز خرید لیے۔ پھر ایک دن یوں ہوا کہ اسلم بھائی پسینے میں شرابور فرنس (بھٹی) کے سامنے کھڑے آگ سے کھیلنے میں مصروف تھے کہ بینک کی طرف ان کو کروڑ پتی بننے کی خوشخبری سنائی گئی۔ جسے انھوں نے نہ صرف جھوٹ قرار دیا، بلکہ بینک کے نمائندے کو بری طرح ڈانٹ بھی دیا کہ آپ کو لوگوں کو ورغلانے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں ہے۔ کیونکہ غم روزگار کی مشغولیت میں وہ بھول چکے تھے کہ انہوں نے بانڈز بھی خریدے ہوئے ہیں۔

ڈیوٹی سے فراغت پر انہوں نے بینک کو تصدیق کےلیے فون کیا تو وہ واقعی کروڑ پتی بن چکے تھے۔ اگلے چند دن بھابھی کا بینک اکاؤنٹ کھلوانے اور رقم کی وصولی میں صرف ہوئے، کیونکہ بانڈز ان کے نام پر تھے۔ اور پھر وہ شام بھی آگئی جب بھائی اور بھابھی آنے والے سہانے مستقبل کے تانے بانے بن رہے تھے۔ پہلے نوکری چھوڑ کر بڑے گھر کا فیصلہ ہوا، پھر گاڑی، فارم اور اور... سب ہی باتیں اتفاق رائے سے طے ہونے پر آخر میں تذکرہ آیا اسلم کی چھوٹی بہن کا، جس کے زیور کےلیے بھائی نے پندرہ لاکھ روپے رکھنے کی تجویز پیش کی۔ بھابھی کے اختلاف پر بات بڑھنی شروع ہوئی اور اس قدر بڑھی کہ بھابھی نے بھائی کی اتھارٹی کو یہ کہہ کر للکار دیا کہ رقم ان کی ہے اور وہ ان کی بہن پر ایک روپیہ خرچ نہیں کریں گی۔ بات تلخ کلامی سے ہوتی ہوئی طلاق پر اختتام پذیر ہوئی۔ اور ناعمہ نے یہ کہتے ہوئے بخوشی طلاق لے لی کہ میں کروڑ پتی ہوں اور مجھے تمھارے جیسے کئی ایک مل جائیں گے۔

ناعمہ، اسلم کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ کر پاکستان لوٹ آئیں۔ اور اسلم اپنے غصے، جلد بازی کی بدولت کروڑ پتی تو کیا، پتی بھی نہ رہا۔ آج بھی اسلم رزق حلال کی خاطر آگ سے کھیلنے میں مصروف ہے۔ یہ کہانی نہیں بلکہ ہماری کمپنی کے ہمارے ہی ایک پاکستانی بھائی کی آپ بیتی ہے۔ جو ہمیں دعوت فکر دیتی ہے کہ اولاد کی تعلیم کے ساتھ تربیت بھی بے حد ضروری ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے ہم اولاد کو پالتو جانور کی مانند پالتے ہیں۔ بہترین خوراک، اسکول، کپڑے، جوتے، گھر، گاڑی، صحت کی شاندار سہولتیں تو دینے کی کوشش کرتے ہیں مگر تربیت کو شاید بھول جاتے ہیں۔ رشتوں کا احترام، جھوٹ و سچ کی اہمیت، ایمانداری، حلال و حرام، حقوق العباد کی اہمیت سے روشناس کروانے کا تو ہمارے ہاں رواج ہی ختم ہوتا جارہا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے ہم اپنی اولاد کو مالی لحاظ سے خوشحال کرنے کے ساتھ اخلاقی لحاظ سے بھی مالامال کریں۔ خاص طور پر مائیں بیٹیوں کو ساس، نند اور دیگر سسرالی رشتے داروں کی قدر کرنے اور ان کی خدمت کرنے کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرنے کی کوشش کریں۔ اور بیٹوں کو ڈاکٹر، پائلٹ وغیرہ ضرور بنائیں لیکن ایک اچھے شوہر میں جو صفات مطلوب ہوتی ہیں وہ بھی ان میں پیدا کریں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو وہ دن دور نہیں جب شکست و ریخت کا شکار ہمارا معاشرہ بہت جلد زمیں بوس ہوجائے گا۔

یونیسیف کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں شادی کی عمر کو پہنچنے والی ایک کروڑ سے زائد لڑکیاں شادیوں کے انتظار میں بیٹھی ہیں۔ شادی کے انتظار میں بیٹھی لڑکیوں میں 75 فیصد تعلیم یافتہ ہیں۔ مزید برآں وطن عزیز میں تقریباً 60 لاکھ تک بیوائیں بھی موجود ہیں۔ اس لیے ہمیں مزید وقت ضائع کیے بغیر آج ہی سے میدان عمل میں اترنے کی ضرورت ہے۔ اور اس سلسلے میں ہمیں بطور خاندان کا سربراہ، بڑا بھائی، بہن اپنے ہی گھر سے آج ہی سے ابتدا کرنا ہوگی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔