آئی ٹی اور پاکستان
کیا وجہ ہے کہ ہم دنیا سے 50 سے 70 سال پیچھے چل رہے ہیں جبکہ ہمارے ہمسائے تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں
دنیا میں کمپنیاں بنتی ہیں، کاروبار کرتی ہیں، نفع نقصان کا حساب ہوتا ہے اور پھر وہ ایک وقت کے بعد ختم ہوجاتی ہیں۔ لیکن کچھ کمپنیاں ایسی ہوتی ہیں جو دہائیوں سے کام کررہی ہوتی ہیں۔ ان میں سے کچھ ایسی ہوتی ہیں جنہیں مارکیٹ میں نصف صدی سے زیادہ ہوچکا ہوتا ہے اور ایسی کمپنیاں جو اپنے کاروباری دورانیے کے سو سال مکمل کرچکی ہوتی ہیں، وہ بہت کم ہوتی ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ اندرون لاہور کھانے پینے، چمڑہ رنگنے، لوہے سمیت ایسے کئی کاروبار آپ کو مل جائیں گے جو کم از کم 80 سال پرانے ہیں لیکن وہ گمنام بھی ہیں اور انہیں اتنے عرصے بعد منافع کی جس سطح پر ہونا چاہیے، یہ اُس کے آس پاس بھی نہیں ہیں؟ یہ وجہ سوچ کا فرق، ترقی کی خواہش کی عدم موجودگی ہے۔
دنیا گزشتہ دہائی میں بہت تیزی سے آئی ٹی کے بزنس کی جانب جاچکی ہے۔ لیپ ٹاپ اور موبائل فون کسی وقت میں لگژری سمجھا جاتا تھا، یہ آج ضرورت ہے۔ ان کے بغیر زندگی گزارنا ایک مشکل کام ہے اور جیسے جیسے دنیا ڈیجیٹل اور اسمارٹ ہوتی جارہی ہے، ویسے ویسے اِن کی اہمیت ہماری زندگی میں بڑھتی جارہی ہے۔ فیس بک اور ٹویٹر آپ کے قومی شناختی کارڈ کے بعد دوسری شناخت ہیں۔ پاکستان میں ایسی کئی کمپنیاں موجود ہیں جنہوں نے گوگل اور فیس بک کا درست استعمال کیا اور آج وہ کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے کا کاروبار کررہی ہیں۔
دنیا میں ایسی کمپنیاں بھی موجود ہیں جنہوں نے مارکیٹ کے بدلتے ہوئے ٹرینڈز کا صحیح اندازہ نہیں کیا اور پھر وہ ختم ہوگئیں یا بزنس میں بہت پیچھے چلی گئیں۔ میری خواہش ہے کہ پاکستان بھر کے بزنس اسکولز میں یاہو، ایچ ٹی سی، بلیک بیری، نوکیا، گوگل پلس، گوگل آرکٹ، مائی اسپیس کو بطور کیس اسٹڈی پڑھایا جائے اور دوسری جانب ٹویٹر، فیس بک، ایمازون، بیدو وغیرہ کو بھی بطور کیس اسٹڈی پڑھایا جائے۔
سافٹ ویئر اور آئی ٹی کے کاروبار کا مستقبل کیا ہے۔ اس بات کا اندازہ اس سے لگائیے کہ ہمارے دونوں ہمسائے جس شعبے پر سب سے زیادہ توجہ دے رہے ہیں وہ آئی ٹی ہے۔ ڈیجیٹل انڈیا کی مہم تو ابھی چند سال قبل کی بات ہے۔ 2019 میں بھارت کا آئی ٹی سیکٹر سے ریونیو 130 ارب ڈالر تھا۔ دنیا جہاں کی آئی ٹی کمپنیاں بھارت میں موجود ہیں۔ دنیا بھر کے ٹاپ سی ای اوز بھارتی نژاد ہیں۔ نامور اسٹور وال مارٹ نے فلپ کارٹ کے ساتھ بھارت سے 2019 میں 6 ارب ڈالر سے زائد کمائے تھے۔ یہ اتنی رقم ہے جتنی پاکستان کو 2018 میں آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ کی مد میں چاہیے تھی۔ بھارت میں ہی ریل گاڑی کی ٹکٹ بکنگ سروس کی ویب سائٹ نے 2019 میں 38 ملین ڈالر سے زائد کا ریونیو کمایا تھا۔
چین کی جانب دیکھیے۔ 2018 میں چین کا آئی ٹی سے ریونیو 118 ارب ڈالر تھا۔ 2020 کی پہلی ششماہی میں چین کی سافٹ ویئر انڈسٹری 3.56 ٹریلین یوان یعنی 508 ارب ڈالر تک جاپہنچی ہے۔ یہ گزشتہ سال کی نسبت 6.7 فیصد کا اضافہ ہے جبکہ متعلقہ دورانیے کا 12.9 فیصد اضافہ بنتا ہے۔ چین نے گوگل کے مقابلے میں اپنا سرچ انجن بیدو بنایا۔ اس کمپنی نے 2019 میں 15 ہزار ملین ڈالر سے زائد کا ریونیو کمایا تھا۔ علی بابا نے 2019 میں 23 ہزار ملین ڈالر جبکہ ہواوے نے 121 ارب ڈالر سے زائد کمائے تھے۔
دوسری جانب ہماری حالت دیکھیے۔ ہم ابھی خواب سے جاگے ہیں، اب ہم انگڑائی لیں گے اور پھر دوڑ میں حصہ لیں گے۔ جبکہ دنیا اس دوڑ میں ہمیں کافی پیچھے چھوڑ چکی ہوگی۔ پاکستان جس اسپیس پروگرام پر اب کام شروع کررہا ہے، دنیا اس سے اگلی ٹیکنالوجی پر کام شروع کرچکی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ہم دنیا سے 50 سے 70 سال پیچھے چل رہے ہیں جبکہ ہمارے ہمسائے تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔
پاکستانی معیشت کی کل مالیت تقریباً 284 ارب ڈالر ہے۔ 2017 تا 2018 میں ہماری شرح 5.5 فیصد تھی، جو کم ہوکر 2018 تا 2019 میں 1.9 فیصد ہوئی اور اس سال منفی میں ہوگی، جس کا اندازہ منفی 2.6 فیصد ہے۔ پاکستان نے 2018 تا 2019 میں صرف 540 ملین ڈالر کا آئی ٹی کا کام کیا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ہم صلاحیت ہونے کے باوجود بھی اتنا پیچھے ہیں؟ یہ سالانہ صرف 3.8 فیصد کی بڑھوتری ہے، جسے کم از کم 16 فیصد تک ہونا چاہیے تھا۔ کیوں ہماری سافٹ ویئر ایکسپورٹ صرف ایک ارب ڈالر تک ہے جبکہ ہم میں صلاحیت 6 ارب ڈالر کی ہے؟ کیا وجہ ہے کہ حکومت سمیت وہ سب ادارے جو کچھ کرسکتے ہیں، وہ یہاں توجہ ہی نہیں دے رہے۔ جس کے نتیجے میں پاکستانی ذہین دماغ باہر چلا جاتا ہے۔ ہمارے ادائیگیوں کے سسٹمز ہی نہیں بنے ہوئے جس کے نتیجے میں ایشیا کا سارا آئی ٹی اور سافٹ ویئر کا کام چین، بھارت سمیت دیگر ممالک کے پاس چلا جاتا ہے اور ہم بیٹھ کر صرف آہیں بھرتے ہیں۔
دنیا کا مستقبل آرٹیفیشل انٹیلی جنس، بلاک چین اور نیٹ ورکنگ کے ساتھ ہے۔ دنیا کا مستقبل ڈیجیٹل ہے۔ جو بھی ممالک آج ان شعبوں میں کام کررہے ہیں، وہ کل کو راج کریں گے، اُن کی دنیا پر حکومت ہوگی۔ اگر ہم نے آج اس حقیقت کو نہ پہچانا تو کل بھی ہم یہی کہہ رہے ہوں گے ''جو کروا رہا ہے، امریکا کروا رہا ہے'' یا ''یہ سب یہود و نصاریٰ کی سازش ہے تاکہ مسلمان غلام بن کر رہ سکیں''۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
دنیا گزشتہ دہائی میں بہت تیزی سے آئی ٹی کے بزنس کی جانب جاچکی ہے۔ لیپ ٹاپ اور موبائل فون کسی وقت میں لگژری سمجھا جاتا تھا، یہ آج ضرورت ہے۔ ان کے بغیر زندگی گزارنا ایک مشکل کام ہے اور جیسے جیسے دنیا ڈیجیٹل اور اسمارٹ ہوتی جارہی ہے، ویسے ویسے اِن کی اہمیت ہماری زندگی میں بڑھتی جارہی ہے۔ فیس بک اور ٹویٹر آپ کے قومی شناختی کارڈ کے بعد دوسری شناخت ہیں۔ پاکستان میں ایسی کئی کمپنیاں موجود ہیں جنہوں نے گوگل اور فیس بک کا درست استعمال کیا اور آج وہ کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے کا کاروبار کررہی ہیں۔
دنیا میں ایسی کمپنیاں بھی موجود ہیں جنہوں نے مارکیٹ کے بدلتے ہوئے ٹرینڈز کا صحیح اندازہ نہیں کیا اور پھر وہ ختم ہوگئیں یا بزنس میں بہت پیچھے چلی گئیں۔ میری خواہش ہے کہ پاکستان بھر کے بزنس اسکولز میں یاہو، ایچ ٹی سی، بلیک بیری، نوکیا، گوگل پلس، گوگل آرکٹ، مائی اسپیس کو بطور کیس اسٹڈی پڑھایا جائے اور دوسری جانب ٹویٹر، فیس بک، ایمازون، بیدو وغیرہ کو بھی بطور کیس اسٹڈی پڑھایا جائے۔
سافٹ ویئر اور آئی ٹی کے کاروبار کا مستقبل کیا ہے۔ اس بات کا اندازہ اس سے لگائیے کہ ہمارے دونوں ہمسائے جس شعبے پر سب سے زیادہ توجہ دے رہے ہیں وہ آئی ٹی ہے۔ ڈیجیٹل انڈیا کی مہم تو ابھی چند سال قبل کی بات ہے۔ 2019 میں بھارت کا آئی ٹی سیکٹر سے ریونیو 130 ارب ڈالر تھا۔ دنیا جہاں کی آئی ٹی کمپنیاں بھارت میں موجود ہیں۔ دنیا بھر کے ٹاپ سی ای اوز بھارتی نژاد ہیں۔ نامور اسٹور وال مارٹ نے فلپ کارٹ کے ساتھ بھارت سے 2019 میں 6 ارب ڈالر سے زائد کمائے تھے۔ یہ اتنی رقم ہے جتنی پاکستان کو 2018 میں آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ کی مد میں چاہیے تھی۔ بھارت میں ہی ریل گاڑی کی ٹکٹ بکنگ سروس کی ویب سائٹ نے 2019 میں 38 ملین ڈالر سے زائد کا ریونیو کمایا تھا۔
چین کی جانب دیکھیے۔ 2018 میں چین کا آئی ٹی سے ریونیو 118 ارب ڈالر تھا۔ 2020 کی پہلی ششماہی میں چین کی سافٹ ویئر انڈسٹری 3.56 ٹریلین یوان یعنی 508 ارب ڈالر تک جاپہنچی ہے۔ یہ گزشتہ سال کی نسبت 6.7 فیصد کا اضافہ ہے جبکہ متعلقہ دورانیے کا 12.9 فیصد اضافہ بنتا ہے۔ چین نے گوگل کے مقابلے میں اپنا سرچ انجن بیدو بنایا۔ اس کمپنی نے 2019 میں 15 ہزار ملین ڈالر سے زائد کا ریونیو کمایا تھا۔ علی بابا نے 2019 میں 23 ہزار ملین ڈالر جبکہ ہواوے نے 121 ارب ڈالر سے زائد کمائے تھے۔
دوسری جانب ہماری حالت دیکھیے۔ ہم ابھی خواب سے جاگے ہیں، اب ہم انگڑائی لیں گے اور پھر دوڑ میں حصہ لیں گے۔ جبکہ دنیا اس دوڑ میں ہمیں کافی پیچھے چھوڑ چکی ہوگی۔ پاکستان جس اسپیس پروگرام پر اب کام شروع کررہا ہے، دنیا اس سے اگلی ٹیکنالوجی پر کام شروع کرچکی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ہم دنیا سے 50 سے 70 سال پیچھے چل رہے ہیں جبکہ ہمارے ہمسائے تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔
پاکستانی معیشت کی کل مالیت تقریباً 284 ارب ڈالر ہے۔ 2017 تا 2018 میں ہماری شرح 5.5 فیصد تھی، جو کم ہوکر 2018 تا 2019 میں 1.9 فیصد ہوئی اور اس سال منفی میں ہوگی، جس کا اندازہ منفی 2.6 فیصد ہے۔ پاکستان نے 2018 تا 2019 میں صرف 540 ملین ڈالر کا آئی ٹی کا کام کیا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ہم صلاحیت ہونے کے باوجود بھی اتنا پیچھے ہیں؟ یہ سالانہ صرف 3.8 فیصد کی بڑھوتری ہے، جسے کم از کم 16 فیصد تک ہونا چاہیے تھا۔ کیوں ہماری سافٹ ویئر ایکسپورٹ صرف ایک ارب ڈالر تک ہے جبکہ ہم میں صلاحیت 6 ارب ڈالر کی ہے؟ کیا وجہ ہے کہ حکومت سمیت وہ سب ادارے جو کچھ کرسکتے ہیں، وہ یہاں توجہ ہی نہیں دے رہے۔ جس کے نتیجے میں پاکستانی ذہین دماغ باہر چلا جاتا ہے۔ ہمارے ادائیگیوں کے سسٹمز ہی نہیں بنے ہوئے جس کے نتیجے میں ایشیا کا سارا آئی ٹی اور سافٹ ویئر کا کام چین، بھارت سمیت دیگر ممالک کے پاس چلا جاتا ہے اور ہم بیٹھ کر صرف آہیں بھرتے ہیں۔
دنیا کا مستقبل آرٹیفیشل انٹیلی جنس، بلاک چین اور نیٹ ورکنگ کے ساتھ ہے۔ دنیا کا مستقبل ڈیجیٹل ہے۔ جو بھی ممالک آج ان شعبوں میں کام کررہے ہیں، وہ کل کو راج کریں گے، اُن کی دنیا پر حکومت ہوگی۔ اگر ہم نے آج اس حقیقت کو نہ پہچانا تو کل بھی ہم یہی کہہ رہے ہوں گے ''جو کروا رہا ہے، امریکا کروا رہا ہے'' یا ''یہ سب یہود و نصاریٰ کی سازش ہے تاکہ مسلمان غلام بن کر رہ سکیں''۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔