بھارت میں انصاف کا خون

بابری مسجد کیس کا فیصلہ کسی طور بھی انصاف پر مبنی نہیں کہا جاسکتا

تاریخی بابری مسجد کو بڑے منظم انداز میں شہید کیا گیا تھا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

RAWALPINDI:
تاریخی بابری مسجد کے مقدمے کا فیصلہ بھی مسلمانوں کے خلاف آیا۔ اس کیس کا فیصلہ 30 ستمبر 2020 جمعہ کو ہوا، جس میں لکھنو کی عدالت کے جج سریندر کمار یادیو نے فیصلہ سناتے ہوئے بابری مسجد کو شہید کرنے والے 32مرکزی ملزمان کو بری کردیا ہے۔

اس کیس میں کئی بھارتی بیوروکریٹ اور سابق نائب بھارتی وزیراعظم لال کرشن ایڈوانی سمیت 49 لوگوں کو بھارتی سی بی آئی نے ملزم ٹھہرایا تھا۔ کیس کے طویل مدت دورانیے میں 17 ملزمان اب اس دنیا سے جاچکے ہیں لیکن اس تاریخی فیصلے کے موقع پر جو نامزد ملزمان زندہ تھے انہیں عدالت نے کارروائی کے دوران موجود رہنے کا حکم دیا تھا۔ بھارتی ریاست اترپردیش کے علاقے ایودھیا کے مقام پر مسلمانوں کی تاریخی عبادت گاہ بابری مسجد کو 6 دسمبر 1992 کو ہندو انتہاپسندوں نے شہید کردیا تھا اور ان مناظر کی تصاویر اور ویڈیوز انٹرنیٹ پر دنیا کے سامنے موجود ہیں، جسے شک ہو وہ ان مناظر کو دیکھ سکتا ہے۔

ہندو انتہا پسندوں اور ان کے شرپسند سرکرداؤں نے 28 برس پہلے سازش رچی اور مسلمانوں کی قدیم و تاریخی بابری مسجد کو بڑے منظم انداز میں شہید کیا۔ بعدازاں سرکاری سرپرستی میں ہندو مسلم فسادات کی آگ بھڑکائی گئی جس میں دو ہزار مسلمان شہید اور درجنوں زخمی ہوئے۔ بابری مسجد کی شہادت کا کیس پچھلی تین دہائیوں سے بھارتی عدالتوں میں زیر سماعت تھا اور اس میں تین بڑے مقدمات سمیت 5 درجن کے قریب ذیلی مقدمات کی سنوائی ہوتی رہی۔ اب اس کے ڈرامائی اختتام کو کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ کہا جائے تو برا نہیں ہوگا۔ کیوں کہ جس طرح سے ٹھوس اور واضح ثبوت کے باوجود اس مقدمے کے تمام مرکزی ملزمان کو چھوڑا گیا ہے، اس سے مذہبی فرقہ واریت، مسلکی عناد، اقلیتی غم و غصہ کو ہوا ملے گی۔

بھارت کی سابقہ حکومتوں میں بابری مسجد کے کیس میں پیش رفت کا نہ ہونا بھارت کے قومی مفاد میں تھا، جس کی وجہ سے کشمیر سمیت اہم امور میں ہمیں سختی کا پہلو نظر نہیں آتا۔ سابقہ حکومتوں کو جو قیادتیں ملی تھیں ان میں ایسے اذہان موجود تھے جو عالمی ذہن سازی کے حامل، دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ اور کسی طور ملک کو کسی بھی نفرت انگیز رجحان سے بچاتے رہنے میں مصروف عمل رہے۔ دونوں ممالک کے درمیان اہم امور میں کوئی قابل قدر اضافہ نہیں ہوا۔ ایسے اہم بین الاقوامی امور کے ایشوز میں ہر حکومت نے ٹال مٹول کی پالیسی اپنائی اور یہ معاملات اس صفحے سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ لیکن کسی نے بھی اس حد تک جنونیت کا مظاہرہ نہیں کیا تھا جتنا مودی سرکار کررہی ہے۔ بے جی پی کا معاملہ سیاسی کم اور غاصبانہ، متعصبانہ زیادہ لگتا ہے۔ بی جے پی کے پہلے دور حکومت اور پھر دوسرے دور حکومت میں مودی سرکار نے اقلیتوں کے ساتھ عموماً اور مسلمانوں کے ساتھ خصوصاً ظالمانہ رویہ اختیار کیا اور انصاف کی خوب دھجیاں اڑائیں۔ اب وقت ہے کہ دنیا اس طرف توجہ دے اور بھارت میں موجود لاکھوں اقلیتوں کی بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس کے غنڈوں سے جان خلاصی کروائے۔


بھارتی عدالت کے اس یک طرفہ فیصلے اور جانب دارانہ اقدام سے تاریخی حوالوں کو بھی روندا گیا اور بابری مسجد اراضی کو ہندوؤں کے ''رام'' کی جنم استھان سے منسوب کرکے مسلمانوں کی ملکیت کو یکسر مسترد کردیا گیا۔ اس اقدام کو انصاف کے مسیحاؤں کی کھلی ہٹ دھرمی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ بھارتی عدالت نے اسی سال بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کا حکم نامہ جاری کیا تھا، جس کا سنگ بنیاد نریندر مودی نے رکھا تھا۔ مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کی فرقہ پرست ذہنیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام بھی اسی مودی کے ایما اور خواہش پر ہوا تھا۔ لیکن اب جب سے مودی نے مرکز میں زمام اقتدار سنبھالی ہے، اسی وقت سے بابری مسجد کی طرف ان کی میلی آنکھیں جم سی گئیں تھیں۔

مودی نے اپنی دوسری باری میں انتخابی مہمات کے دوران عوام سے کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ بنانے کا وعدہ کیا تھا، جسے گزشتہ سال اگست میں کشمیر کی قانونی حیثیت ختم کرکے پورا کردیا تھا۔ اس غیر قانونی عمل سے لاکھوں کشمیریوں کی آزادی کو جبری قید میں بدل دیا گیا۔ آرٹیکل 370 اور 35 A کے خاتمے کے بعد کشمیریوں کو تیرہ چودہ ماہ سے لاک ڈاؤن اور محصورین جیسی زندگی گزارنے پر مجبور کر رکھا ہے۔ بھارت کشمیر میں من مانیاں کررہا ہے اور نہتے کشمیری مسلمانوں پر ظلم و ستم کرکے مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق کی دھجیاں اڑا رہا ہے۔ بھارت کی اسی انسانی حقوق کی پامالی کو مدنظر رکھتے ہوئے ''ایمنسٹی انٹرنیشنل'' نے بھارت میں اپنے دفاتر بند کرنے اور کام روکنے کا اعلان کردیا ہے۔ یہ تمام قرائین بھارت کے حقیقی انتہاپسندانہ سوچ کی نفی نہیں کرسکتے۔

مسلمانوں کی قدیم اراضی اور مذہبی عبادت گاہ کو دن کی روشنی میں مسمار کردینا، مذہبی تشدد کو بھڑکانے کے زمرے میں آتا ہے۔ اور اس کام میں آر ایس ایس کے غنڈوں کی تربیت یافتہ ٹیمیں موجود ہوتی ہیں۔ اس فیصلے سے مودی نے سیاسی قد تو اونچا کیا ہی ہے، ساتھ ہی مستقبل میں اقلیتوں کے حقوق پر بھی سوالیہ نشان لگادیا ہے۔ مودی کا انتخابی مہم میں یہ بھی وعدہ تھا کہ وہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرے گا۔ یہ وہ تعصبانہ مذہبی کارڈ ہے جسے خالصتاً مذہبی لبادہ پہنا کر سیاسی مقاصد حاصل کیے گئے۔ مودی نے بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کو قانونی حیثیت دلوانے، سنگ بنیاد رکھنے کے بعد بابری مسجد کو شہید کرانے اور کرنے والے مرکزی ملزمان کو آزاد کروا کر اپنے انتخاب کا ایک اور وعدہ پورا کردیا۔ جس سے وہ اپنی پارٹی کو ملک کی طاقت ور سیاسی جماعت کا روپ دینے میں مصروف عمل ہے تاکہ بھارت میں ہندوازم کا راستہ ہموار ہوسکے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بھارتی جنتا پارٹی مودی کی قیادت میں کس تیزی سے بھارتی عوام کو ''نیشنلزم'' سے ''ہندوازم'' کی طرف لے جارہی ہے۔

بابری مسجد کیس کا فیصلہ کسی طور بھی انصاف پر مبنی نہیں کہا جاسکتا۔ یہ انصاف کا خون ہے، جس سے بھارت کے چہرے سے اقلیتوں سے غیرمساوی انصاف کا پردہ چاک ہوجاتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story