سانحہ بلدیہ ٹاؤن ۔۔۔ جب جہنم زمیں پر اتر آئی

2012 میں کراچی میں جنم لینے والے المیے کے مختلف پہلوؤں کا تذکرہ

2012 میں کراچی میں جنم لینے والے المیے کے مختلف پہلوؤں کا تذکرہ۔ فوٹو : فائل

یہ 11 ستمبر 2012 کی صبح تھی، جب بے کس و لاچار انسان (جنہیں زر کے زرخرید ایجنٹوں کی طرف سے اپنی تقدیر پر شاکر رہنے کا درس دیتے ہوئے صابر رہنے کی تلقین کی جاتی ہے) زر کے پجاری سرمایہ داروں کی سرمایہ ساز مشینوں کا ایندھن بننے کے لیے رواں تھے۔

یہ مدقوق ڈھانچے جو انسان ہونے کی تہمت لیے ہوئے تھے، اس بات سے بے خبر تھے کہ آج کا ڈوبتا سورج ان کی زندگی کے تہمت زدہ فریب کو بھی لے ڈوبے گا۔ وہ سادہ لوح انسان جنہیں ہمیشہ اچھے دنوں کی نوید سنائی جاتی رہی ہے، اور وہ سراپا انتظار ہمیشہ ہی سے ''کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ'' جیسے سوالات اٹھاتے رہے ہیں۔

یہ مظلوم اپنی آنکھوں میں اچھے دنوں کا خواب سجائے (جنہیں دیکھنا دنیا کے ہر انسان کا حق ہے) اور انہیں تعبیر کرنے کے لیے بلدیہ ٹاؤن کی جانب رواں دواں تھے۔ مزدور جنہیں انسان ہی شمار نہیں کیا جاتا تو پھر انسانی حقوق کے وہ کہاں حق دار تھے۔ کیا یہ کہنا غلط ہوگا کہ ''وہ آسمانوں سے پکارے جائیں گے'' کے انتظار میں یہ نہیں جانتے تھے کہ '' ہم اسی دھوکے میں مارے جائیں گے'' اور افسوس کہ ایسا ہی ہوا جو ہمیشہ مزدوروں کا نصیبا رہا ہے۔

آٹھ سال بعد اس سانحے کے مقدمے کا فیصلہ سنا دیا گیا۔ انسدادِدہشت گردی کی عدالت نے بلدیہ فیکٹری میں آتشزدگی کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کیس میں نام زد مرکزی ملزمان زبیر چریا اور عبدالرحمان عرف بھولا کو سزائے موت جب کہ چار دیگر سہولت کاروں کو عمر قید کی سزا سنائی ہے۔ اس کیس میں نامزد چار دیگر ملزمان رؤف صدیقی، اقبال ادیب خانم، عمر حسن قادری، عبدالستار کو عدم شواہد کی بنا پر بری کر دیا ہے۔ جن ملزمان کو عمر قید کی سزا سُنائی گئی ہے ان میں شاہ رخ، فضل احمد، ارشد محمود اور علی محمد شامل ہیں۔ سزا پانے والوں اور دیگر تمام ملزمان کا تعلق متحدہ قومی موومنٹ سے ہے۔

بلدیہ ٹاؤن کراچی میں واقع علی انٹرپرائزز گارمنٹس فیکٹری میں لگنے والی آگ میں258 سے زاید مزدور جل کر ہلاک ہوگئے تھے۔ سرمایہ داروں کے حقوق کے نگہبان سیاسی راہ نما اور فیکٹری انتظامیہ اس سلسلے میں بار بار اپنے بیان بدلتے رہے، جب کہ بچ جانے والے مزدوروں کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی اصل تعداد کہیں زیادہ تھی۔

فیکٹری میں کام کرنے والے مزدور پورے ملک کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھتے تھے۔ اپنے خون کو فیکٹری کی بھٹی میں جلانے والے اور ہڈیوں کو پگھلانے والے ہر مزدور سے اوسطاً14گھنٹے کام لیا جاتا اور انہیں حقیر اور شرم ناک اجرت 7000روپے ماہانہ دی جاتی تھی۔

علی انٹرپرائز میں لگنے والی آگ پر مختلف قیاس آرائیوں نے اس وقت نیا موڑ لیا جب رینجرز کی جانب سے اسے بھّتا نہ دینے پر نذر آتش کرنے کے بارے میں سندھ ہائی کورٹ میں ایک رپورٹ جمع کرائی گئی۔ اس رپورٹ سے پہلے اسے ایک حادثہ قرار دیا جاتا رہا تھا۔ رینجرز کی جانب سے سامنے آنے والی ایک رپورٹ میں متحدہ قومی موومنٹ کو اس واقعے میں ملوث قرار دے دیا گیا۔ یہ رپورٹ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے مرتب کی تھی جسے ایک ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ میں اسسٹنٹ جج ایڈووکیٹ جنرل آف رینجرز میجر اشفاق احمد کے بیان کے ساتھ جمع کرایا گیا۔

اس میں بتایا گیا تھا کہ ایم کیو ایم کے مبینہ کارکن اور مشتبہ ملزم محمد رضوان قریشی نے یہ انکشاف بائیس جون 2013 کو سانحہ بلدیہ ٹاؤن کی مشترکہ تحقیقات کے دوران کیا۔ جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق ایم کیو ایم کے کارکن نے مزید انکشاف کیا ہے کہ پارٹی کے ایک معروف اعلٰی عہدے دار نے اگست 2012 کو اپنے فرنٹ مین کے ذریعے آتش زدگی کا نشانہ بننے والی فیکٹری علی انٹرپرائزز کے مالک سے بیس کروڑ روپے بھتّے کا مطالبہ کیا تھا۔ مشتبہ شخص نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ بھتّے کے مطالبے کے بعد فیکٹری کے مالکان میں سے ایک فرد نے بلدیہ ٹاؤن کے سیکٹر انچارج اصغر بیگ سے ملاقات کی اور اسے صورت حال سے آگاہ کیا۔

محمد رضوان کے مطابق سیکٹر انچارج اور اس کا بھائی ماجد فیکٹری کے مالک کو ایم کیو ایم کے ہیڈکوارٹرز نائن زیرو لے گیا اور وہ یہ معاملہ کراچی تنظیمی کمیٹی کے انچارج حماد صدیقی اور فاروق سلیم کے علم میں لائے۔ ملزم نے بتایا کہ اصغر بیگ نے کراچی تنظیمی کمیٹی کے اراکین کو بتایا کہ فیکٹری کے مالکان پارٹی کے حامی ہیں اور پھر بھی ان سے بھتّے کی رقم ادا کرنے کا کہا جارہا ہے۔ جے آئی ٹی رپورٹ میں ملزم کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ سیکٹر انچارج اور اس کے بھائی نے اس معاملے پر حماد صدیقی اور فاروق سلیم سے سخت جملوں کا تبادلہ بھی کیا۔

اس نے بتایا کہ اس کے بعد حماد صدیقی نے بلدیہ ٹاؤن کے سیکٹر انچارج کو معطل کرتے ہوئے رحمان بھولا کو جوائنٹ سیکٹر انچارج بنا دیا۔ ملزم کا مزید کہنا تھا کہ تنظیمی کمیٹی نے رحمان بھولا کو فیکٹری مالکان سے بیس کروڑ روپے لینے کے احکامات دیے اور جب فیکٹری مالکان نے رقم دینے سے انکار کردیا تو سیکٹر انچارج اور اس کے ساتھیوں نے فیکٹری کو کیمیائی مادہ چھڑک کر نذر آتش کردیا۔

سی آئی ڈی نے گھر پر چھاپا مار کر معطل سیکٹر انچارج اور اس کے بھائی ماجد کو حراست میں لے لیا تھا، جنہیں بعد میں اس وقت رہا کردیا گیا جب ایم کیو ایم کی جانب سے فیکٹری مالکان پر دبا ڈال کر یہ بیان دلوایا گیا کہ وہ اس سانحے میں ملوث نہیں ہیں۔ ملزم کے مطابق ایم کیو ایم کے ایک سابق وزیر نے فیکٹری مالکان کی ضمانت قبل از گرفتاری منسوخ کرادی تھی اور پارٹی کے اعلٰی عہدے دار کے فرنٹ مین نے اس کیس کو ختم کرانے کے لیے فیکٹری مالکان سے پندرہ کروڑ روپے لیے۔ ملزم نے دعویٰ کیا کہ اسے یہ تمام معلومات بلدیہ ٹاؤن کے سابق سیکٹر انچارج سے حاصل ہوئی۔ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ مقبول باقر کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے جے آئی ٹی رپورٹ کو ریکارڈ کا حصہ بنالیا تھا۔

اس کے بعد بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری میں آگ لگنے کے واقعے کی دوبارہ تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ منظر عام پر آئی جس میں کہا گیا تھا کہ واقعہ حادثاتی نہیں بل کہ دہشت گردی اور تخریب کاری کا منصوبہ تھا۔

فارنزک لیب نے بھی فیکٹری میں لگنے والی آگ آتش گیر مادہ سے لگنے کی تصدیق کردی تھی، جب کہ دیگر شواہد اور ماہرین کی رائے کے بعد نئی تحقیقاتی ٹیم اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ فیکٹری میں آگ حادثاتی طور پر نہیں لگی، بل کہ دہشت گردی کی مُنظّم منصوبہ بندی کے تحت لگائی گئی۔ اس رپورٹ میں متحدہ قومی موومنٹ کے رحمٰن بھولا اور حماد صدیقی کا نام لیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ دونوں مبینہ دہشت گردوں نے 20 کروڑ روپے بھتّا اور فیکٹری کے منافع میں حصہ نہ دینے پر اس منظم دہشت گردی کا منصوبہ بنایا۔

پولیس کے تفتیشی افسر کی جانب سے حتمی چالان میں فیکٹری مالکان اور متعلقہ سرکاری اداروں کے اعلٰی افسران کو بَری الذّمہ قرار دے دیا گیا تھا جب کہ ایف آئی اے نے اپنی تحقیقات میں مالکان اور سرکاری اداروں کو ہلاکتوں کا ذمے دار قرار دیا تھا۔ پولیس کی تمام تر توجہ مالکان اور متعلقہ سرکاری افسران کو مقدمے سے خارج کرنے پر مرکوز رہی جب کہ آتش زدگی کی وجوہات اور اس کے ذمے داروں کے تعین کے معاملے کو پس پشت ڈال دیا گیا۔ متاثرہ خاندانوں، سول سوسائٹی اور ذرائع ابلاغ کی جانب سے اس معاملے کی شفاف تحقیقات اور ذمے داروں کو عبرت ناک سزا دینے کا مطالبہ اتنی شدّت سے کیا گیا کہ اس وقت کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اس سلسلے میں متعدد تحقیقاتی ٹیموں کے قیام کا اعلان کیا، جب کہ ایک سابق جج کی سربراہی میں عدالتی ٹریبونل بھی بنایا گیا۔

صوبائی حکومت کی جانب سے پولیس کے اعلٰی افسران کی سربراہی میں تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی جس کے سربراہ ڈی آئی جی انویسٹی گیشن (سی آئی اے) منظور مغل تھے۔ اس وقت کی وفاقی حکومت کی جانب سے اس وقت ایف آئی اے میں تعینات سینیر افسر آزاد خان کو تحقیقاتی ٹیم کا سربراہ بنایا گیا تھا۔ عدالتی ٹریبونل اور پولیس کی تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ تو تاحال منظر عام پر نہیں آسکی تاہم ایف آئی اے نے ایک ماہ بعد اپنی تحقیقاتی رپورٹ وفاقی حکومت کو پیش کردی تھی جس میں واضح طور پر فیکٹری مالکان، جنرل منیجر، بلڈنگ پلان کی منظوری، ہنگامی صورت حال میں بچاؤ کی تربیّت اور مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے ذمے دار اداروں کو حادثے اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کا ذمے دار قرار دیا تھا۔


ایف آئی اے نے اپنی رپورٹ میں وضاحت کی تھی کہ فیکٹری کی عمارت کی مجموعی طور پر پانچ منزلیں تھیں جن میں تہہ خانہ، گراؤنڈ فلور، میزنائن فلور، فرسٹ اور سیکنڈ فلور شامل تھے۔ سائٹ لمیٹڈ کی جانب سے منظور شدہ نقشے میں عمارت کی دوسری منزل موجود ہی نہیں تھی، اس کے علاوہ نقشے کے مطابق میزنائن فلور کا اسٹرکچر کنکریٹ کا تھا جب کہ فیکٹری مالکان نے نقشے کے برعکس میزنائن فلور لکڑی سے تعمیر کیا تھا اور لکڑی کے اسٹرکچر کی وجہ سے ہی آگ اتنی تیزی سے پھیلی کہ فیکٹری میں موجود سیکڑوں مزدور اپنی جان بچانے میں کام یاب نہیں ہوسکے۔

ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ نے یہ انکشاف بھی کیا کہ محکمہ شہری دفاع اور فیکٹری انتظامیہ کی جانب سے ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے فیکٹری میں کوئی مشق نہیں کرائی گئی جس کی وجہ سے آگ بجھانے کے آلات اور واٹر ہائیڈرنٹ موجود ہونے کے باوجود ان کا استعمال نہیں کیا گیا۔ محکمہ محنت حکومت سندھ کے ریکارڈ میں علی انٹرپرائزز رجسٹرڈ ہی نہیں تھی جسے ایک مجرمانہ فعل قرار دیا گیا جب کہ سیسی اور ای او بی آئی کی جانب سے صرف چند سو ملازمین کو رجسٹرڈ کیا گیا، جب کہ فیکٹری میں کام کرنے والے محنت کشوں کی تعداد 1500 سے زاید تھی۔

فیکٹری مالکان نے اپنی مصنوعات کی چوری کو روکنے کے لیے غیرقانونی طور پر تعمیر کی گئی دوسری منزل پر واقع ہنگامی راستے کو مستقل بند کررکھا تھا اور کھڑکیوں پر لوہے کی سلاخیں نصب تھیں جس کے سبب محنت کش اپنی جانیں نہیں بچاسکے۔ پولیس کی جانب سے تعینات کردہ تحقیقاتی افسر جہاں زیب نے ضمنی حتمی چالان میں ایک مرتبہ پھر فیکٹری مالکان پر لگائی گئی قتل کی دفعہ302 کو خارج کردیا اور عدالت کی جانب سے ملزمان قرار دیے گئے ایم ڈی سائٹ رشید احمد سولنگی، الیکٹرک انسپکٹر امجد علی، محکمہ محنت کے ڈائریکٹر زاہد گل زار شیخ اور ایڈیشنل کنٹرولر سول ڈیفنس غلام اکبر کو ایک مرتبہ پھر بے گناہ قرار دیا ہے۔ تفتیشی افسر کی جانب سے اس سے پہلے بھی مقدمے میں شامل دفعات خارج کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔

وہ سارے حقائق اپنی جگہ جس کی وجہ سے فیکٹری میں آگ لگی، کیا یہ بھی حقیقت نہیں ہے کہ اگر فیکٹری میں لیبر قوانین پر عمل درآمد ہوتا تو اس سانحے کا تدارک ہوسکتا تھا۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ فیکٹری کا ماحول کسی جیل سے مختلف نہیں تھا۔ شفٹ شروع ہونے کے بعد فیکٹری کے مختلف کمروں کو جہاں مزدور کام کر رہے ہوتے تھے، تالے لگا دیے جاتے تھے جب کہ کھڑکیوں پر سلاخیں لگی ہوئی تھیں۔ بجلی کی تاروں کا نظام انتہائی بوسیدہ اور غیر معیاری تھا۔ ان حالات میں جب فیکٹری میں آگ لگائی گئی تو بہت سے مزدوروں کے لیے جل کر ہلاک ہونے سے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔

آگ لگنے کے بعد فیکٹری انتظامیہ تیار شدہ مال بچانے میں مصروف ہوگئی تھی کہ وہ تو انسانوں سے زیادہ قیمتی تھا، اور سیکڑوں مزدور مدد کے لیے چیختے چلاتے اور کھڑکیوں کی سلاخیں توڑنے کی ناکام کوشش کرتے رہے اور سرمایہ داروں اور سفاک دہشت گردوں کی دہکائی ہوئی آگ میں جلتے رہے۔ چوں کہ فیکٹری میں کام کرنے والے مزدوروں کی باقاعدہ رجسٹریشن اور ریکارڈ رکھنے کا کوئی انتظام نہیں تھا لہذا انتظامیہ کے لیے مرنے والوں کی اصل تعداد کو چھپانا نہایت آسان تھا۔ اس منظم جرم جسے حادثہ کہا جاتا رہا کا اصل محرک ایک ایم کیو ایم تھی جس نے بھتا نہ دینے پر فیکٹری کو نذر آتش کردیا۔

شرم ناک صورت حال اس وقت سامنے آئی تھی جب سرمایہ داروں کے حقوق کی محافظ گارمنٹس فیکٹری مالکان کی تنظیم پاکستان ریڈی میڈ گارمنٹس مینو فیکچرر اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے نمائندے شہزاد سلیم نے انتہائی ڈھٹائی سے کام لیتے ہوئے کہا تھا کہ گارمنٹس فیکٹری مالکان پر تنقید ناجائز ہے، ان کے مطابق بنگلادیش میں تو مزدوروں کو اس سے بھی آدھی اجرت ملتی ہے۔ ان ظالم سرمایہ داروں کے مطابق فیکٹری مالکان مزدوروں کے قتل کے ذمے دار نہیں تھے۔

علی انٹرپرائزز جرمنی میں واقع ایک ریٹیل کمپنی Kikکے لیے جینز تیار کرتی تھی جو کہ Okay برانڈ کے نام سے فروخت ہوتی تھی۔ جرمن کمپنی نے علی انٹرپرائزز سے اپنے تعلق کا اعتراف صرف تب کیا تھا جب کچھ مزدور تنظیموں نے اس سلسلے میں ٹھوس اور ناقابلِ تردید شواہد فراہم کیے تھے۔

علی گارمنٹس فیکٹری میں ایک دن کی اجرت 150سے 200 روپے دی جاتی تھی۔ Kik جب دنیا بھر میں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تو اس کے ایگزیکٹیو مائیکل اریٹز نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ Kikہلاک ہونے والے مزدوروں کے خاندانوں کے لیے 1930یورو فی کس دینے کا ارادہ رکھتی ہے جواس وقت تقریباً دو لاکھ چالیس ہزار روپے بنتے تھے۔ اس سے قبل حکومتِ پاکستان اور حکومت سندھ نے بھی متاثرہ خاندانوں کے لیے 7 لاکھ روپے فی خاندان امداد دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن جن خاندانوں کو یہ چیک دیے گئے تھے، ان کے مطابق بنک نے انہیں تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔

پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپین کی ملک گیر احتجاج میں آئے ہوئے تمام مزدور راہ نماؤں نے فیکٹری مالکان اور حکومتی اہل کاروں کو اس بھیانک قتل کا ذمے دار ٹھہرایا تھا اور انہیں سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا تھا، یہ مطالبہ وہ اب تک وہ کرتے چلے آرہے ہیں۔

کیا اس بات سے انکار ممکن ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں پیداوار اور منافع میں اضافے کی بنیاد محنت کش طبقے کا بدترین استحصال ہے۔ رہے قانون بنانے اور ان پر عمل درآمد کرانے والے، وہ بھی تو سرمایہ دار طبقے کے ہی مفادات کا تحفظ کرتے رہے اور اس کا اجر زرکثیر کی شکل میں پاتے رہے ہیں۔ ایسے میں محنت کشوں کو ذلت آمیز زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا گیا ہے جہاں اس کی زندگی صرف سرمایہ داروں کے منافع کے لیے خام مال کی حیثیت اختیار کرگئی ہے۔حالات اب بھی نہیں بدلے۔ پاکستان میں تیزی سے مزدور دشمن قوانین بنائے جا رہے ہیں اور سرمایہ داروں کو ہر ممکن تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔

رہے مزدور و محنت کش تو کب آسودہ رہے ہیں، اگر ان کے حقوق کے لیے کچھ قوانین بنائے بھی گئے ہیں تو وہ لیبر قوانین پر عمل درآمد کرانے والے اداروں کے افسران کا پیٹ بھرنے میں مدد گار ہیں اس لیے کہ وہ ان قوانین پر عمل درآمد کرانے کی بجائے وہ سرمایہ داروں سے اس کا اجر پاتے ہیں۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ سرمایہ دار کسی قانون کو خاطر میں نہیں لاتے اور اپنے سرمائے میں ٖاضافے کے لیے حکومتی ادارے کے افسران کو خرید لیتے ہیں۔

زرتلافی چاہے کتنی بھی ہو کسی بھی انسان کی زندگی کا بدل نہیں ہوسکتی لیکن کیا یہ اس سے زیادہ شرم ناک بات نہیں کہ انسانی جان کے بدلے دی جانے والی رقم کو بھی غبن کرلیا جائے یا اسے ادا کرنے میں ٹال مٹول جیسے حربے استعمال کیے جائیں اور کیا یہ اس سے بھی زیادہ شرم ناک بات نہیں کہ حکومت وقت بھی زرتلافی ادا کرنے میں ناکام رہ جائے۔ جی آج بھی ان محنت کشوں کے وارث اپنے پیاروں کا معاوضہ پانے کی آس لگائے اس کے حصول کی جدوجہد کر رہے ہیں اور تمام حکومتی ادارے حسب معمول لمبی تان کے سو رہے ہیں۔

آگ کوئی حادثہ نہیں دہشت گردی کا سنگین واقعہ تھا

علی انٹر پرائزز سے مصنوعات درآمد کرنے والی جرمنی کی کمپنی ''کک ٹیکسٹائل'' نے متاثرین کے لیے 10 لاکھ امریکی ڈالر کی امدادی رقم ادا کرنے کی حامی بھری تھی۔ تاہم مذکورہ کمپنی کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے تحت سانحے میں جاں بہ حق ہونے والے 259 افراد کے اہل خانہ میں فی کس 13 ہزار امریکی ڈالر تقسیم کیے جانے تھے۔

لیکن اس ضمن میں رقم کی تقسیم ایک معمہ بن کر رہ گئی ہے۔ملک کی 60 فی صد سے زاید صنعت سندھ کے شہر کراچی میں واقع ہے لیکن یہاں 90 فی صد سے زاید کارخانے فیکٹری ایکٹ کے تحت نہ تو رجسٹرڈ ہیں اور نہ ہی لیبر ڈپارٹمنٹ اس سلسلے میں کوئی سرگرمی دکھارہا ہے، جب کہ فیکٹریوں میں کام کرنے والے محنت کش کارخانوں میں ہیلتھ اور سیفٹی کے ناقص انتظامات کی بنا پر موت کے منہ میں بیٹھ کر کام کرنے پر مجبور ہیں۔

حکومت مزدوروں سے متعلق کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے۔تاہم اب دیکھنا یہ ہے کہ اس واقعے میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے والے مزدوروں کے لواحقین کو ان کا حق کب مل سکے گا۔
Load Next Story