پاکستان میں ’’می ٹو‘‘ مہم
اب وہ گناہ جو وائٹ کالرز کی آڑ میں نہایت بے فکری سے کیے جاتے تھے، ان کا نامہء اعمال کھلنے کو ہے۔
یہ کوئی راز کی بات ہے نہ کوئی انکشاف، بلکہ ہر تحصیل، ضلع اور شہر میں اندھے بھی دیکھ رہے، بہرے بھی سن رہے اور گونگے بھی بول رہے ہیں کہ اس ملک میں نظامِ انصاف کی مکمل ''اوور ہالنگ'' کی ضرورت ہے۔کیونکہ یہاں کچھ اور نہیں صرف پیسہ اور طاقت چلتی ہے، اورجہاں یہ سب چلتا ہو وہاں مظلوم کی آہیں اور سسکیاں نکلتی ہیں جو عرش تک جاتی ہیں۔ پھر یہی آہیں اُس معاشرے کا مقدر بھی بن جاتی ہیں۔
قارئین کو علی ظفر اور میشا شفیع کا مشہور زمانہ کیس تو یاد ہے، اس میں جتنی میڈیا کو دلچسپی رہی اور اب بھی ہے، اُس سے کہیں زیادہ شاید مجھے ہے، کیوں کہ میں دیکھنا یہ چاہ رہا ہوں کہ اس ''کھیل'' میں جیت کس کی ہو گی؟ اب تازہ خبر یہ ہے کہ ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ نے گائیک اور اداکار علی ظفر کے خلاف مذموم مہم میں مبینہ طور پر ملوث ہونے پر گلوکارہ میشا شفیع اور دیگر 8 افراد کے خلاف مقدمہ درج کرلیاہے۔
ان میں اداکارہ و میزبان عفت عمر، لینیٰ غنی، فریحہ ایوب، ماہم جاوید، علی گل، حزیم الزمان خان، حمنہ رضا اور سید فیضان رضا شامل ہیں۔ علی ظفر نے یہ شکایت نومبر 2018 میں درج کرائی تھی جس میں انھوں نے الزام لگایا تھا کہ کئی سوشل میڈیا اکاؤنٹس ان کے خلاف ''توہین آمیز اور دھمکی آمیز مواد'' پوسٹ کررہے ہیں۔ جن پر مقدمہ درج ہوا ہے، وہ علی ظفر کے خلاف چل رہے مقدمے میں گواہی دینے والے تھے۔
خیر اس مقدمہ میں سے کیا نکلتا ہے کیا نہیں؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن مشاہدہ تو یہی کہتا ہے کہ ایف آئی اے (سائبر کرائم)میں مقدمہ درج کرانے کے لیے سائلین کے جوتے گھس جاتے ہیں، تب بھی کامیابی نہیں ہوتی۔ علی ظفر خوش قسمت رہے کہ ان کی اتنی جلدی شنوائی ہوگئی، اس کی کچھ تو وجہ ہوگی۔
ایک تازہ خبر ہے کہ لاہور میں ہراساں کرنے والے ملزمان کے خلاف کارروائی نہ ہونے پر لڑکی نے خودکشی کرلی ہے، لڑکی نے ملزم کے خلاف 23جولائی کو مقدمہ درج کرایا تھا۔ لیکن ملزم کے ساتھیوں نے اسے بلیک میل کرنا بند نہیں کیا، جس کے بعد لڑکی نے مایوس ہو کر زندگی کا خاتمہ کرلیا۔اب اس پر کسی کو جواب آئے نہ آئے مگر مظلوم کی آہ اس دھرتی پر رہتی دنیا تک ضرور سنی جائے گی!
خیر میں خود علی ظفر کا مداح ہوں،ان کے کیس کا کیا بنتاہے، اس پر تو میںکچھ نہیں کہہ سکتا لیکن میرے خیال میں عورت کی عزت سب سے مقدم ہے۔ دنیا میں ''ہیش می ٹو'' خواتین کو بولنے کا پورا حق دے رہی ہے لیکن مجھے سمجھ نہیں آتی کہ پاکستان میں بعض طبقے اس کی مخالفت کیوں کرتے ہیں؟ میں سمجھتا ہوں کہ ''می ٹو'' جنسی ہراسانی کے خلاف توانا آواز ہے، جسے ایک ہالی ووڈ اداکارہ نے شروع کیا۔ اس کا کہنا تھا، کیریئر کے ابتدائی دور میں اسے فلمی دنیا کے ایک طاقت ور شخص نے جنسی ہراسانی کا نشانہ بنایا، چونکہ اس وقت اس کی پوزیشن کم زور تھی وہ خاموش رہی، مگر اب وہ چپ نہیں رہے گی۔
اس کے می ٹو کے جواب میں دنیا کے مختلف حصوں سے می ٹو، می ٹو کی آوازیں اس تیزی سے ابھریں کہ یہ می ٹو ایک تحریک کی شکل اختیار کرگیا۔ جس کے تحت ہمارے تھرڈ ورلڈ معاشرے جہاں،گناہ کو چھپانے، اسے زبان پر نہ لانے کی روایت ہماری تہذیبی اقدار کا (خود ساختہ) لازمی حصہ سمجھی جاتی ہیں، کوئی عورت ہو یا لڑکی، اس موضوع پر زبان کھولنے کے بجائے مر جانا پسند کرتی ہے، ان کے زخموں کے ٹانکے بھی جیسے کھلنے لگے۔
یہاں بھی می ٹو نے، صدیوں پرانی چپ توڑنے اور خود ساختہ بھرم کی جھلی اتار کر، دوغلے معاشرے کو اس کا اصلی چہرہ دکھانے کی کوشش شروع کر دی ہے۔ اس ضمن میں یہاں وہاں سے اکا دکا آوازیں ابھرنے لگی ہیں۔ یہاں وہاں، ہونٹوں پر لگی مہر تڑخنے لگی ہے۔ پرانی چپ، جو عورتوں کو اس جبر کے خلاف احتجاج سے روکے ہوئے تھی۔ اب ٹوٹنے کو تیار ہے۔ یعنی، دیواروں کے کونوں، دروازوں کے پیچھے، بند کمروں،اندھیرے دالانوں، کوٹھوں، چوباروں، سنسان گلیوں کی نکڑوں، سیلے ہوئے نیم اندھیرے غسل خانوں، تاریک سیڑھیوں، تنگ کوٹھڑیوں، کھولیوں اور دیگر ایسی ہی چھپی ہوئی جگہوں پر کیے جانے والے گناہوں کو زبان ملنے لگی ہے۔
المختصر سچائی یہ ہے کہ ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں، وہاں عورت کا بولنا ہی جرم ٹھہرتا ہے، بلکہ یہ بھی ممکنات میں سے ہوتا ہے کہ جس پر الزام لگا ہے، صرف عورت کو نیچا دکھانے کے لیے اُسے اعلیٰ مسند پر بٹھا دیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں جس پر بھی ''می ٹو ''مہم میں الزامات لگے، اُس نے یا تو معافی مانگی، یا سزا بھگتی یا پھر اُس سے تمام اعزازات چھین لیے گئے۔
بھارت میں معروف گائیک کمار سانو پر بھی جنسی ہراسگی کا الزام لگا، الزام لگنے کی دیر تھی، اُن کے تمام کمپنیوں حتیٰ کہ جس چینل پر وہ مشہور پروگرام میں جج کے فرائض انجام دے رہے تھے، انھیں وہاں سے بھی ہٹا دیا گیا۔ علی ظفر کو سرکاری ایوارڈ مل چکا ہے۔ان کا مقدمہ ابھی چل رہا ہے، اﷲ خیر کرے، کوئی بد شگونی نہ ہوجائے۔
ہیش می ٹو نے دنیا کو راستہ دکھایا ہے کہ اگر آپ زندگی میں کسی موقع پر بھی غلط رہے ہیں یا تو اُس کا اعتراف کریں یا اپنے آپ کو بے گناہ یا درست ثابت کرکے واپس اُسی فیلڈ میں اپنی حیثیت کو بحال کرائیں۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ پاکستان میں تو زبردستی عزت لٹنے کے بعد بھی عورت ہی سے سوال کیا جاتا ہے کہ ''بی بی آپ رات کو باہر نکلی کیوں؟ پھر اگر نکلی تو اکیلی کیوں؟ '' ۔ تو ایسی صورتحال میں انصاف کی کیسے توقع کی جاسکتی ہے؟
قارئین ! تاریخ کا سچ تو یہ ہے کہ جن معاشروں میں قانون اور انصاف کی گنگا اُلٹی بہنا شروع ہو جائے وہاں انقلاب آتے ہیں، میرے خیال میں ایسا ہی ایک انقلاب ہمارے سروں پر بھی کھڑا ہے کیوں کہ عورت کی چپ ٹوٹنے کو ہے۔ اب عورت ایک بے زبان گائے نہیں رہی ہے ۔
اب وہ گناہ جو وائٹ کالرز کی آڑ میں نہایت بے فکری سے کیے جاتے تھے، ان کا نامہء اعمال کھلنے کو ہے۔ ہاتھ، پاؤں، اور وہ سارے اعضاء جو ظلم سہ کر خاموش رہتے تھے، ان کی جانب سے گواہی اٹھنے ہی والی ہے۔ جس کے بعد چاہے قیامت آئے نہ آئے، مگر عورت ظلم، ناانصافی اور جبر کے سامنے کھڑے ہونے کا سلیقہ ضرور سیکھ جائے گی، اگرچہ اسٹیٹس کو، اس کے آڑے آئے گا۔لیکن اُمید ہے کہ کچھ ہونے کو ہے اور کچھ بہتر ہی ہونے کو ہے!!!
قارئین کو علی ظفر اور میشا شفیع کا مشہور زمانہ کیس تو یاد ہے، اس میں جتنی میڈیا کو دلچسپی رہی اور اب بھی ہے، اُس سے کہیں زیادہ شاید مجھے ہے، کیوں کہ میں دیکھنا یہ چاہ رہا ہوں کہ اس ''کھیل'' میں جیت کس کی ہو گی؟ اب تازہ خبر یہ ہے کہ ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ نے گائیک اور اداکار علی ظفر کے خلاف مذموم مہم میں مبینہ طور پر ملوث ہونے پر گلوکارہ میشا شفیع اور دیگر 8 افراد کے خلاف مقدمہ درج کرلیاہے۔
ان میں اداکارہ و میزبان عفت عمر، لینیٰ غنی، فریحہ ایوب، ماہم جاوید، علی گل، حزیم الزمان خان، حمنہ رضا اور سید فیضان رضا شامل ہیں۔ علی ظفر نے یہ شکایت نومبر 2018 میں درج کرائی تھی جس میں انھوں نے الزام لگایا تھا کہ کئی سوشل میڈیا اکاؤنٹس ان کے خلاف ''توہین آمیز اور دھمکی آمیز مواد'' پوسٹ کررہے ہیں۔ جن پر مقدمہ درج ہوا ہے، وہ علی ظفر کے خلاف چل رہے مقدمے میں گواہی دینے والے تھے۔
خیر اس مقدمہ میں سے کیا نکلتا ہے کیا نہیں؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن مشاہدہ تو یہی کہتا ہے کہ ایف آئی اے (سائبر کرائم)میں مقدمہ درج کرانے کے لیے سائلین کے جوتے گھس جاتے ہیں، تب بھی کامیابی نہیں ہوتی۔ علی ظفر خوش قسمت رہے کہ ان کی اتنی جلدی شنوائی ہوگئی، اس کی کچھ تو وجہ ہوگی۔
ایک تازہ خبر ہے کہ لاہور میں ہراساں کرنے والے ملزمان کے خلاف کارروائی نہ ہونے پر لڑکی نے خودکشی کرلی ہے، لڑکی نے ملزم کے خلاف 23جولائی کو مقدمہ درج کرایا تھا۔ لیکن ملزم کے ساتھیوں نے اسے بلیک میل کرنا بند نہیں کیا، جس کے بعد لڑکی نے مایوس ہو کر زندگی کا خاتمہ کرلیا۔اب اس پر کسی کو جواب آئے نہ آئے مگر مظلوم کی آہ اس دھرتی پر رہتی دنیا تک ضرور سنی جائے گی!
خیر میں خود علی ظفر کا مداح ہوں،ان کے کیس کا کیا بنتاہے، اس پر تو میںکچھ نہیں کہہ سکتا لیکن میرے خیال میں عورت کی عزت سب سے مقدم ہے۔ دنیا میں ''ہیش می ٹو'' خواتین کو بولنے کا پورا حق دے رہی ہے لیکن مجھے سمجھ نہیں آتی کہ پاکستان میں بعض طبقے اس کی مخالفت کیوں کرتے ہیں؟ میں سمجھتا ہوں کہ ''می ٹو'' جنسی ہراسانی کے خلاف توانا آواز ہے، جسے ایک ہالی ووڈ اداکارہ نے شروع کیا۔ اس کا کہنا تھا، کیریئر کے ابتدائی دور میں اسے فلمی دنیا کے ایک طاقت ور شخص نے جنسی ہراسانی کا نشانہ بنایا، چونکہ اس وقت اس کی پوزیشن کم زور تھی وہ خاموش رہی، مگر اب وہ چپ نہیں رہے گی۔
اس کے می ٹو کے جواب میں دنیا کے مختلف حصوں سے می ٹو، می ٹو کی آوازیں اس تیزی سے ابھریں کہ یہ می ٹو ایک تحریک کی شکل اختیار کرگیا۔ جس کے تحت ہمارے تھرڈ ورلڈ معاشرے جہاں،گناہ کو چھپانے، اسے زبان پر نہ لانے کی روایت ہماری تہذیبی اقدار کا (خود ساختہ) لازمی حصہ سمجھی جاتی ہیں، کوئی عورت ہو یا لڑکی، اس موضوع پر زبان کھولنے کے بجائے مر جانا پسند کرتی ہے، ان کے زخموں کے ٹانکے بھی جیسے کھلنے لگے۔
یہاں بھی می ٹو نے، صدیوں پرانی چپ توڑنے اور خود ساختہ بھرم کی جھلی اتار کر، دوغلے معاشرے کو اس کا اصلی چہرہ دکھانے کی کوشش شروع کر دی ہے۔ اس ضمن میں یہاں وہاں سے اکا دکا آوازیں ابھرنے لگی ہیں۔ یہاں وہاں، ہونٹوں پر لگی مہر تڑخنے لگی ہے۔ پرانی چپ، جو عورتوں کو اس جبر کے خلاف احتجاج سے روکے ہوئے تھی۔ اب ٹوٹنے کو تیار ہے۔ یعنی، دیواروں کے کونوں، دروازوں کے پیچھے، بند کمروں،اندھیرے دالانوں، کوٹھوں، چوباروں، سنسان گلیوں کی نکڑوں، سیلے ہوئے نیم اندھیرے غسل خانوں، تاریک سیڑھیوں، تنگ کوٹھڑیوں، کھولیوں اور دیگر ایسی ہی چھپی ہوئی جگہوں پر کیے جانے والے گناہوں کو زبان ملنے لگی ہے۔
المختصر سچائی یہ ہے کہ ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں، وہاں عورت کا بولنا ہی جرم ٹھہرتا ہے، بلکہ یہ بھی ممکنات میں سے ہوتا ہے کہ جس پر الزام لگا ہے، صرف عورت کو نیچا دکھانے کے لیے اُسے اعلیٰ مسند پر بٹھا دیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں جس پر بھی ''می ٹو ''مہم میں الزامات لگے، اُس نے یا تو معافی مانگی، یا سزا بھگتی یا پھر اُس سے تمام اعزازات چھین لیے گئے۔
بھارت میں معروف گائیک کمار سانو پر بھی جنسی ہراسگی کا الزام لگا، الزام لگنے کی دیر تھی، اُن کے تمام کمپنیوں حتیٰ کہ جس چینل پر وہ مشہور پروگرام میں جج کے فرائض انجام دے رہے تھے، انھیں وہاں سے بھی ہٹا دیا گیا۔ علی ظفر کو سرکاری ایوارڈ مل چکا ہے۔ان کا مقدمہ ابھی چل رہا ہے، اﷲ خیر کرے، کوئی بد شگونی نہ ہوجائے۔
ہیش می ٹو نے دنیا کو راستہ دکھایا ہے کہ اگر آپ زندگی میں کسی موقع پر بھی غلط رہے ہیں یا تو اُس کا اعتراف کریں یا اپنے آپ کو بے گناہ یا درست ثابت کرکے واپس اُسی فیلڈ میں اپنی حیثیت کو بحال کرائیں۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ پاکستان میں تو زبردستی عزت لٹنے کے بعد بھی عورت ہی سے سوال کیا جاتا ہے کہ ''بی بی آپ رات کو باہر نکلی کیوں؟ پھر اگر نکلی تو اکیلی کیوں؟ '' ۔ تو ایسی صورتحال میں انصاف کی کیسے توقع کی جاسکتی ہے؟
قارئین ! تاریخ کا سچ تو یہ ہے کہ جن معاشروں میں قانون اور انصاف کی گنگا اُلٹی بہنا شروع ہو جائے وہاں انقلاب آتے ہیں، میرے خیال میں ایسا ہی ایک انقلاب ہمارے سروں پر بھی کھڑا ہے کیوں کہ عورت کی چپ ٹوٹنے کو ہے۔ اب عورت ایک بے زبان گائے نہیں رہی ہے ۔
اب وہ گناہ جو وائٹ کالرز کی آڑ میں نہایت بے فکری سے کیے جاتے تھے، ان کا نامہء اعمال کھلنے کو ہے۔ ہاتھ، پاؤں، اور وہ سارے اعضاء جو ظلم سہ کر خاموش رہتے تھے، ان کی جانب سے گواہی اٹھنے ہی والی ہے۔ جس کے بعد چاہے قیامت آئے نہ آئے، مگر عورت ظلم، ناانصافی اور جبر کے سامنے کھڑے ہونے کا سلیقہ ضرور سیکھ جائے گی، اگرچہ اسٹیٹس کو، اس کے آڑے آئے گا۔لیکن اُمید ہے کہ کچھ ہونے کو ہے اور کچھ بہتر ہی ہونے کو ہے!!!