کراچی میں بجلی کا نظام ٹھیک کرنے کیلیے 9 ارب درکار ہیں شہباز رانا
گردشی قرضے کم کرنے کیلیے حکومت لائن لاسز کم کرے، خاقان حسن نجیب
تجزیہ کار شہباز رانا نے کہا ہے کہ کے الیکٹرک چلانے والی کمپنی ابراج گروپ، چینی کمپنی شنگھائی الیکٹرک کو اپنے حصص فروخت کرنا چاہتا ہے مگر پچھلے چار سال یہ معاہدہ طے نہیں پا رہا ہے کیونکہ شنگھائی الیکٹرک کے الیکٹرک کے ذمے کچھ ادائیگیوں کو اپنے ذمے نہیں لینا چاہتی، ابراج گروپ خود بھی ایک بڑی قانونی جنگ لڑ رہا ہے۔ اس سارے تناظر میں حکومت چاہتی ہے کہ کے الیکٹرک اور شنگھائی الیکٹرک کا معاہدہ ہو جائے۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام دی ریویو میں کامران یوسف سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ کراچی میں صورتحال ابتر ہے،بجلی کا نظام ٹھیک کرنے کیلیے 9 ارب روپے درکار ہیں،کہا جاتا ہے کہ اگر یہ معاہدہ ہو گیا تو کراچی میں بجلی کی صورتحال بہتر ہو جائے گی، کے الیکٹرک حکومت سے خریدی گئی گیس اور بجلی کی اصل قیمت دینے کو تیار ہیں مگر وہ اس پر عائد سرچارج نہیں دینا چاہتی،کراچی کی مقامی حکومت نے بھی کے الیکٹرک کے پیسے دینے ہیں۔
اس پس منظر میں تابش گوہر کی بطور معاون خصوصی توانائی تقرری ہوئی ہے، یہ اتفاق بھی ہو سکتا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وزیرا عظم اس معاملے کو بہتر طور پر حل کرنا چاہتے ہوں، ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت کے آنے کے بعد سے اب تک بجلی کی قیمت میں5بار اضافہ کیا گیا ہے۔
4بار اضافہ پچھلے سال اور ایک بار اضافہ گزشتہ ماہ ستمبر میں کیا گیا،حکومت کا کہنا ہے کہ گردشی قرضہ بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے بجلی کی قیمت بڑھائی گئی ہے تاکہ یہ قرضہ کم ہو سکے مگر حقیقت یہ ہے کہ قیمتیںبڑھانے کے باوجود گردشی قرضہ کم نہیں ہوا ہے۔
پروگرام میں شریک سابق مشیر خزانہ ڈاکٹر خاقان حسن نجیب نے بتایا کہ ہمارے پاس بجلی بنانے کی 36ہزار کی نیم پلیٹ صلاحیت ہے، اوسطاً پچیس سے ستائیس ہزار میگاواٹ بجلی بنا سکتے ہیں، بجلی کی کھپت اس وقت انیس ہزار میگاواٹ ہے، سسٹم میں پانچ سے چھ ہزار فاضل بجلی موجود ہے مگر بیچی نہیں جا رہی ہے جس سے لاگت بڑھ رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گردشی قرضے کم کرنے کے لیے حکومت لائن لاسز کم کرے اور بجلی کے بلوں کی وصولی بہتر بنائے۔
کامران یوسف نے افغان قومی اعلیٰ مفاہمتی کونسل کے سربراہ عبداللا عبداللہ کے دورہ پاکستان پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ بارہ سال میں عبداللہ عبداللہ کا پہلا دورہ پاکستان تھا، پاکستان اور افغانستان کے درمیان برف پگھلی ہے۔ کافی عرصے سے خاموش سفارتکاری بھی ہو رہی ہے،دونوں ممالک ایک دوطرفہ طریقہ کار اور بہتر سے دوسرے طریقوں کے ذریعے بھی قریب آنے کی کوشش کر رہے ہیں، عبداللہ عبداللہ کا دورہ اسی سفارت کاری کا نتیجہ ہے، اطلاعات کے مطابق آنے والے دنوں میں افغانستان کی جانب سے بہت سے اہم دورے ہو سکتے ہیں۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام دی ریویو میں کامران یوسف سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ کراچی میں صورتحال ابتر ہے،بجلی کا نظام ٹھیک کرنے کیلیے 9 ارب روپے درکار ہیں،کہا جاتا ہے کہ اگر یہ معاہدہ ہو گیا تو کراچی میں بجلی کی صورتحال بہتر ہو جائے گی، کے الیکٹرک حکومت سے خریدی گئی گیس اور بجلی کی اصل قیمت دینے کو تیار ہیں مگر وہ اس پر عائد سرچارج نہیں دینا چاہتی،کراچی کی مقامی حکومت نے بھی کے الیکٹرک کے پیسے دینے ہیں۔
اس پس منظر میں تابش گوہر کی بطور معاون خصوصی توانائی تقرری ہوئی ہے، یہ اتفاق بھی ہو سکتا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وزیرا عظم اس معاملے کو بہتر طور پر حل کرنا چاہتے ہوں، ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت کے آنے کے بعد سے اب تک بجلی کی قیمت میں5بار اضافہ کیا گیا ہے۔
4بار اضافہ پچھلے سال اور ایک بار اضافہ گزشتہ ماہ ستمبر میں کیا گیا،حکومت کا کہنا ہے کہ گردشی قرضہ بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے بجلی کی قیمت بڑھائی گئی ہے تاکہ یہ قرضہ کم ہو سکے مگر حقیقت یہ ہے کہ قیمتیںبڑھانے کے باوجود گردشی قرضہ کم نہیں ہوا ہے۔
پروگرام میں شریک سابق مشیر خزانہ ڈاکٹر خاقان حسن نجیب نے بتایا کہ ہمارے پاس بجلی بنانے کی 36ہزار کی نیم پلیٹ صلاحیت ہے، اوسطاً پچیس سے ستائیس ہزار میگاواٹ بجلی بنا سکتے ہیں، بجلی کی کھپت اس وقت انیس ہزار میگاواٹ ہے، سسٹم میں پانچ سے چھ ہزار فاضل بجلی موجود ہے مگر بیچی نہیں جا رہی ہے جس سے لاگت بڑھ رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گردشی قرضے کم کرنے کے لیے حکومت لائن لاسز کم کرے اور بجلی کے بلوں کی وصولی بہتر بنائے۔
کامران یوسف نے افغان قومی اعلیٰ مفاہمتی کونسل کے سربراہ عبداللا عبداللہ کے دورہ پاکستان پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ بارہ سال میں عبداللہ عبداللہ کا پہلا دورہ پاکستان تھا، پاکستان اور افغانستان کے درمیان برف پگھلی ہے۔ کافی عرصے سے خاموش سفارتکاری بھی ہو رہی ہے،دونوں ممالک ایک دوطرفہ طریقہ کار اور بہتر سے دوسرے طریقوں کے ذریعے بھی قریب آنے کی کوشش کر رہے ہیں، عبداللہ عبداللہ کا دورہ اسی سفارت کاری کا نتیجہ ہے، اطلاعات کے مطابق آنے والے دنوں میں افغانستان کی جانب سے بہت سے اہم دورے ہو سکتے ہیں۔