مہنگائی حقائق و تاثرات

یہ آج کا پاکستان ہے، غربت اور امارت کے اتنے قصے ہیں جتنے کھانوں کی ڈشیں ہیں۔

یہ آج کا پاکستان ہے، غربت اور امارت کے اتنے قصے ہیں جتنے کھانوں کی ڈشیں ہیں۔ فوٹو : فائل

ایک عام تاثر ہے کہ ملکی سیاست میں جمہوری ثمرات کی عوام تک رسائی کی راہ میں مہنگائی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

عوام مہنگائی سے براہ راست متاثر ہوتے ہیں، انھیں زندگی کی بہت ساری تلخ حقیقتوں کے ادراک اور حکومتی اقدامات کے یقینی ہونے پر شکوک کے بگولے گھیر لیتے ہیں مگر کوئی سماج بھوک، غربت، مہنگائی پر سمجھوتہ نہیں کرسکتا، کیونکہ جمہوریت کے نعروں سے بہرحال آدمی کا پیٹ نہیں بھرتا، غریب سے غریب تر شہری اور گداگر کو بھی روٹی کے چند ٹکڑے اور بچا کچھا سالن بھی تسکین دے دیتا ہے، یوں جمہوری نظام کی بنیاد اس عوامی رائے پر استوار ہوتی ہے کہ عوام کو آسودہ رکھنا حکومت کی اولین ترجیح ہونا شرط ہے۔ آج حکومت کو دو سال ہوگئے ہیں اور مہنگائی اس کے ایجنڈا پر سب سے اوپر ہے۔

ایک انگریزی معاصر روزنامہ کی رپورٹ کے مطابق جولائی میں نئے مالی سال کا آغاز 9.3 کی افراط زر کی شرح کے ساتھ ہوا تھا جس میں 8.2 فیصد کے ساتھ اگست کے مہینے میں کمی دیکھی گئی البتہ کھانے پینے کی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے سبب ستمبر میں یہ دوبارہ بڑھ گئی۔

دوسری جانب محکمہ شماریات کے اشیائے خورونوش کے قیمتوں کے بارے میں اعداد وشمار ہیں، جس کے مطابق جولائی اور ستمبر کے درمیان اوسطاً کنزیومر پرائس انڈیکس گزشتہ سال کی 10.08فیصد سے کم ہو کر اس سال 8.84 فیصد ہو گئی تھی لیکن مالی سال 2020 میں اوسط کنزیومر پرائس انڈیکس 6.8 فیصد سے بڑھ کر 10.74فیصد ہو گئی جو 12-2011 کے بعد سب سے زیادہ سطح ہے جب مذکورہ دورانیے میں کنزیومر پرائس انڈیکس 11.01 فیصد رہا تھا۔

گزرے مہینوں میں اضافے کے بعد خوراک کی افراط زر ابھی تک دوہرے ہندسوں میں ہے، شہری علاقوں میں ستمبر میں سالانہ بنیادوں پر اس میں 12.4فیصد اضافہ ہوا ہے اور ماہانہ بنیادوں پر 3 فیصد کا اضافہ ہوا جب کہ دیہی علاقوں میں قیمتوں میں متعلقہ شرح نمو سالانہ بنیاد پر 15.8فیصد اور ماہانہ بنیادوں پر 3.8 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا۔

شہری علاقوں میں اس ماہ جن اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ان میں ٹماٹر (اگست سے اب تک 44.07 فیصد اضافہ)، سبزیاں (30.33 فیصد)، مرغی (18.31 فیصد)، پیاز (14.51فیصد)، آلو (6.18 فیصد)، انڈے (5.2 فیصد)، دال چنا (4.51 فیصد)، دال مونگ (3.46 فیصد)، مصالحے (3 فیصد)، دال ماش (2.76 فیصد)، دال مسور (1.59 فیصد) اور تازہ دودھ (1.16 فیصد) شامل ہیں، جن اشیا کی قیمتوں میں شہری علاقوں میں کمی واقع ہوئی ان میں تازہ پھل (6.19 فیصد)، چینی (1.82 فیصد) اور گرم مصالحہ (0.48 فیصد) شامل ہیں۔ دیہی علاقوں میں سبزیوں کی قیمتوں میں 45.18 فیصد اضافہ دیکھا گیا جس کے تحت ٹماٹر (30.33 فیصد)، پیاز (15.17 فیصد)، چکن (9.47 فیصد)، دال مونگ (7.79 فیصد)، مصالحہ (5.63 فیصد)، گندم (5.03 فیصد)، دال چنا (64.64 فیصد)، گْڑ (7.77 فیصد)، دال ماش (9.96 فیصد)، آلو (3.36 فیصد)، گندم کا آٹا (3.14 فیصد)، انڈے (5.2 فیصد)، چاول (2.2 فیصد) اور تازہ دودھ (1.16فیصد) شامل ہیں۔ دوسری طرف پھلوں کی قیمتوں میں (10.44فیصد)، چینی (0.63 فیصد)، سبزی کا گھی (0.35 فیصد) اور دال مسور (0.22 فیصد) کی کمی ریکارڈ کی گئی۔


دریں اثنا شہری مراکز میں غیر غذائی افراط زر کی شرح سالانہ بنیادوں پر 5 فیصد اور ماہانہ 0.2 فیصد ریکارڈ کی گئی جب کہ دیہی علاقوں میں اس میں بالترتیب 7.2 فیصد اور 0.3 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ شہری صارفین کا یہ کنزیومر انڈیکس 35 شہروں اور 356 اشیاء پر محیط ہے جب کہ دیہی علاقوں میں 27 مراکز اور 244 مصنوعات کا پتہ لگاتا ہے، اس سے قبل ستمبر میں سال بہ سال 7.7 فیصد اضافہ ہوا جب کہ مؤخر الذکر 11.1 فیصد بڑھ گیا۔ شہری علاقوں میں بنیادی افراط زر ستمبر میں 5.5 فیصد تھا جب کہ پچھلے مہینے 5.6 فیصد تھا، دیہی علاقوں میں اسی شرح میں 7.8 فیصد اضافہ ہوا۔

قطع نظر اعداد وشمار کے اس گورکھ دھندہ کی ایک حقیقت تو واضح ہے کہ ہر شخص اپنے گھر کا بجٹ اس خیال سے بناتا ہے جو اس کی استطاعت کے مطابق ہو، امیر اور اشرافیہ کے روز وشب عام پاکستانی گھرانے سے بہت مختلف ہیں، انھیں بچوں کی فیس، اسکول کالج میں داخلے، گھر کے راشن اور بچوں کے امتحانات کے اخراجات کے جھمیلوں سے کوئی سروکار نہیں ہوتا لیکن مہنگائی ہر متوسط طبقہ کے دن رات کا مسئلہ ہے، آٹا، چاول، چینی، گھی، خوردنی تیل، دالیں، مصالحوں میں ادرک، لہسن، پیاز، دار چینی، زیرہ، گرم مصالحہ، سبزیوں میں بھنڈی، کدو، آلو، بینگن، کریلا، لوکی، پالک، گوبھی، ٹماٹر، پولٹری اور ڈیری میں چکن، دودھ، دہی، مکھن، سمندری حیات میں مچھلی، مچھلی کے انڈے، جھینگے انسانی خوراک میں بنیادی اہمیت کے حامل ہیں اور انھی اشیا کی گراں قیمتیں مارکیٹ فورسز کے اندر مہنگائی کے جن کو بوتل سے باہر نکالتی ہیں۔

ایک بزرگ شہری کا کہنا تھا کہ مچھلی چاہے وہ سمندر کی فراہم کردہ ہو یا پاکستان کی دریائی مچھلیوں کی مختلف اقسام سے ان کا تعلق ہو وہ ملکی آبی حیات سے متعلق اہل وطن کا کھاجا ہیں ان کی قیمتیں اس لیے کم ہونی چاہئیں کہ مچھلی جھینگے ملک کے اندر سمندر، دریاؤں اور جھیلوں سے شکار کی جاتی ہیں، ایک مچھلی400 سو یا600 سو روپے کلو بکتی ہو تو ایک غریب گھرانا ایسی مچھلی کس طرح افورڈ کرسکتا ہے، لیکن ایسا ہورہا ہے، خط غربت سے نیچے جو لوگ زندگی گزارتے ہیں وہ قریبی گلی یا مارکیٹ سے سو، دو سو روپے کی مچھلی خریدتے ہیں یا چھوٹے سے جھینگے خرید کر جھینگا چاول تیار کرکے کام چلاتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ مارکیٹ اوپن ہے، سبزی منڈی دور ہے، وہاں سے تاجر، دکاندار، پتھارے دار، ہوٹل اور ریسٹورینٹس والے اپنے اسٹاک بک کرا لیتے ہیں، عام آدمی کو جو سبزی، گوشت، دودھ یا پھل ملتے ہیں وہ مہنگے ہیں، وجہ یہ ہے کہ سبزی منڈی سے شہر یا علاقوں میں سپلائی کی جانے والی غذائی اشیاء لاجسٹک لاگت میں اضافہ کے باعث مہنگی دستیاب ہیں، جو سبزیاں اور فروٹس سوزوکیوں، منی ٹرکس اور بڑی گاڑیوں میں سپلائی کی جاتی ہیں ان کے ریٹس آڑھتی اور سبزی و پھل فروش شہریوں سے دگنے تگنے وصول کرتے ہیں، کسی چیز پر سرکاری چیک اینڈ بیلنس نہیں، ہر چیز کو پر لگ جاتے ہیں، ایک چیز آج دس روپے کی دکان سے مل رہی ہے دوسرے دن دس پندرہ روپے میں فروخت ہو جاتی ہے، ایک دودھ کا فلیور تیس چالیس روپے میں لوگوں کو پسند کیا آیا اس کی قیمت ایک دو ہفتے میں 50 روپے ہو جاتی ہے۔

ایک زمانہ تھا کہ دھنیا، پودینہ اور چھوٹی مرچ سبزی فروش دیگر اشیاء خریدنے پر ایک دو گڈیاں مفت دیا کرتے، یہ کلچر تھا روزمرہ خریداری کا، ایک مروت تھی دکاندار اور خریدار کے مابین۔ اکثر لوگ مہنگائی اور غربت کے تصور پر خندہ زن ہوتے ہیں، کہتے ہیں کہ کہاں کی غربت اور کہاں کی مہنگائی؟ بازار، ہوٹلز، ریسٹورنٹس اور فوڈ اسٹریٹس پرتو رش لگا ہوا ہے۔ جن کی 80 فی صد آمدن گھر کے راشن کی خریداری میں خرچ ہوتی ہو وہی مہنگائی کا شور مچاتے ہیں، مگر جنھیں اللہ نے ہنر، محنت، تعلیم، وسائل اور مواقعوں کی مناسبت سے مال و زر عطا کیا ہے وہ ہر رات کھانے کی محفل باہر گھر سے نکل کر سجاتے ہیں۔

یہ آج کا پاکستان ہے، غربت اور امارت کے اتنے قصے ہیں جتنے کھانوں کی ڈشیں ہیں۔ یہ قسمت کی بات ہے کہ کسی گھر میں رات کا کھانا نہیں ہوتا اور کہیں ناشتے کے لیے نوجوان صرف چار بسکٹ چائے میں ڈبو کر ڈیوٹی پر روانہ ہو جاتے ہیں، کئی گھرانے غربت اور تنگ دستی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں، ان کے چہروں سے غربت جھلکتی ہے اور اداسی گھر کی دیواروں پر بال کھولے سو رہی ہوتی ہے، ایک جہاں دیدہ جمہوری حکومت اور ماں جیسی ریاست کو ایسے تمام غریب شہریوں کی دستگیری کرنے کی ضرورت ہے، ایسے سسٹم کا ہونا ناگزیر ہے جو اقتصادی نظام کو عوام کی دہلیز تک لے جائے اور کوئی بھوکا نہ سوئے۔ معاشی حقیقت کی تلخیاں اظہر من الشمس ہیں، کورونا نے سب کچھ بے نقاب کر دیا ہے، کسی نے طنزاً کہا کہ ماسک نے دنیا کے شہریوں کو بے چہرہ کر دیا ہے، مجرم ماسک کی آڑ میں زیادتی کے مجرم ''عابد'' بن کر پولیس کو چکمہ دے دیتے ہیں۔

ضرورت مہنگائی کو کنٹرول کرنے کی ہے، لوگ علاج سے محروم ہیں، اسپتالوں میں سہولتیں نہیں، غریب مریض جاتا ہے تو جواب ملتا ہے ڈائیلائسز اور ایم آئی آر کی مشین خراب ہے، دواؤں کے دام آسمان سے باتیں کرتے ہیں، چینی، آٹا، دالیں، دودھ، دہی، انڈے، چکن، صابن مہنگے ہوگئے، یوٹیلیٹی اسٹورز پر اشیائے ضروریہ کے دام بڑھ گئے، ان اسٹورز پر ناقص سامان اور من پسندوں کو اشیاء کی فراہمی کی شکایات عام ہیں، کورونا کے بعد جمعہ اور اتوار بازار بھی بند ہوگئے۔ گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں مہنگائی میں کمی کے امکانات ہیں، جب کہ مالی وسائل اتنے ہیں کہ آگے کی ضروریات پوری کرلیں گے، خدا کرے ان کی بات سچی ثابت ہو۔
Load Next Story