وہ خوشبو پیار وہ احساس کہاں گئے
ہمارے اجدادکی روشن،پیارومحبت بھری روایات سب بھلادی گئیں کہ جب عزیز،رشتے دار،ایک دوسرے کے غم اورخوشی میں شریک ہوتے تھے۔
احسن لطیفی، ساحر لدھیانوی کے دوستوں میں سے تھے۔ بٹوارے کے بعد لائل پور (موجودہ فیصل آباد) کو ٹھکانا بنایا۔ لطیفی کا ایک شعر ہی انھیں اردو ادب میں زندہ رکھے گا۔
وابستہ میری یاد سے کچھ تلخیاں بھی ہیں
اچھا کیا کہ تم نے فراموش کر دیا
پچاس کی دہائی میں لائل پور ادب کا بڑا گڑھ تھا۔ معروف ترقی پسند شاعر احمد ریاض، لائل پور سے شایع ہونے والے اخبار ''غریب'' کے ایڈیٹر تھے۔ چک جھمرہ میں رہائش تھی۔ احمد ریاض روز چک جھمرہ سے لائل پور آتے اور شام ڈھلے واپس بیوی بچوں کے پاس لوٹ جاتے۔ احمد ریاض تپ دق کا شکار ہوئے، اس زمانے میں اس موذی مرض کا علاج نہیں تھا، جسے دق لگ جاتی موت ہی اس کا انجام ہوتا تھا۔
احمد ریاض کے انتقال پر ساحر لدھیانوی نے ہندوستان سے ایک پاکستانی فلم کا گیت لکھ کر بھیجا اورکہا کہ اس کا معاوضہ احمد ریاض کی بیوی کو دے دیا جائے۔ اس زمانے میں ایک گیت کا معاوضہ سو روپے ہوتا تھا۔ ساحر لدھیانوی نے گیت کا معاوضہ دو ہزار طلب کیا، جو فلم ساز نے احمد ریاض کی بیوی کو ادا کیا۔ مجھے فلم کا نام یاد نہیں۔ فلم ساز وہدایت کار میری یاد داشت کے مطابق انور کمال پاشا تھے۔ فلم کا نام اور فلم سازکون تھا، یہ معلومات اپنی جگہ مگر اصل بات قابل ذکر یہ ہے کہ ساحر لدھیانوی نے اپنے دوست کو یاد رکھا اور اس انداز میں یاد رکھا۔
اس زمانے کا لائل پور بڑا بھرپور شہر ہوتا تھا۔ لاہور سے فیض، احمد ندیم قاسمی، استاد دامن، منٹمگری (موجودہ ساہیوال) سے مجید امجد، منیر نیازی، جھنگ سے نوجوان شاعر محمود شام، صحافی نذیر ناجی، حمید اختر، سینئر شاعر شیر افضل جعفری اور بھی بہت سے۔ ان تمام شاعروں ادیبوں کی آؤ بھگت بھائی فتح محمد کیا کرتے، لائل پور میں بھائی فتح محمد کی شاہی مرغ پلاؤ کی بڑی مشہور دکان تھی۔ بھائی فتح محمد شاعروں، ادیبوں کی مرغ پلاؤ سے تواضع کیا کرتے تھے۔ بھائی فتح محمد لدھیانہ کے رہنے والے تھے۔
ساحر سے ان کی بڑی دوستی تھی۔ بھائی فتح محمد کی ساحرکے ساتھ رہنے کی وجہ سے مارکسزم کے بارے میں خاصا علم رکھتے تھے۔ پھر یہ بھی ہوا کہ سہگلوں نے لائل پور میں کوہ نور ٹیکسٹائل ملز بنا لی۔ جہاں ہر سال پاک و ہند مشاعرے ہونے لگے۔ ایسے ہی ایک مشاعرے میں سہگلوں نے حبیب جالب کو سن کر انھیں اپنی مل میں ملازم رکھ لیا اور رہنے کو ایک کمرے کا کوارٹر دے دیا۔ جالب صاحب کو مل میں کرنا کرانا کچھ بھی نہ تھا۔ بس ہر ماہ تنخواہ لو اورگھومو پھرو۔ دن گزر رہے تھے کہ جالب صاحب نے ایک شعری نشست میں یہ شعر پڑھ دیے:
شعر ہوتا ہے اب مہینوں میں
زندگی ڈھل گئی مشینوں میں
پیارکی روشنی نہیں ملتی
ان مکانوں میں، ان مکینوں میں
اگلے دن جالب صاحب پھر فٹ پاتھ پر تھے۔ اس وقت تو کیا زندگی مشینوں میں ڈھلی ہوگی! آج زندگی واقعی مشینوں میں ڈھل چکی ہے۔ ایک چھوٹے سے موبائل فون نے انسان کو حیوان بنا دیا ہے۔ تہذیب، اخلاق، سب کچھ چھین لیا ہے۔ ماں باپ بات کرنا چاہ رہے ہیں اور بچے موبائل میں گم ہیں۔ رہی سہی کسر ٹیلی وژن نے پوری کردی ہے۔ گھر آیا مہمان شرمندہ ہو رہا ہے اور گھر والے ڈرامہ دیکھ رہے ہیں۔ وہ پیار، وہ پیار کی روشنی کہاں، اب تو مکان بھی بے رونق اور مکین بھی بے روح۔ ہماری اماں غربت ہوتے ہوئے بھی اتنی روٹیاں پکاتی تھیں کہ سب گھر والے کھا چکیں تو بھی چار روٹیاں چنگیر میں باقی رہیں، اماں کا کہنا تھا کہ ''مہمان کسی بھی وقت آ سکتا ہے۔''
آج روپیہ پیسہ بہت ہے، کوٹھیاں، بنگلے، کاریں سب کچھ ہے، مگر پیار نہیں ہے۔ مہمان آجائے تو ایسے جیسے مصیبت آگئی ہو، غیر تو غیر آج اپنوں، سگوں کے لیے ملنے ملانے کا وقت نہیں ہے۔ کوئی کسی کو نگاہ بھر کر نہیں دیکھتا۔ سب اندھا دھن چلے جا رہے ہیں، دوڑ رہے ہیں، بھاگ رہے ہیں، کوئی لمحہ بھر کو رک کر کسی سے نہیں مل رہا، حال احوال نہیں پوچھ رہا۔ بڑے شہروں کا تو حال بہت ہی خراب ہے۔ میں نے اپنے سبزی والے سے پوچھا ''اقبال صاحب نظر نہیں آرہے'' سبزی والے نے کہا ''اقبال صاحب کا انتقال ہو گیا'' میں نے پوچھا کب؟ وہ بولا ''ان کو تو مہینہ ہو گیا''۔ ایک محلے میں رہتے ہوئے اب یہ حال ہو گیا ہے۔
بڑے شہروں میں یہ ہوتا ہے کہ انتقال ہوا، گھر والوں نے بس منگوائی، جنازہ اس میں رکھا اور قبرستان روانہ ہوگئے۔ تدفین ہوئی اورکہانی ختم۔ دیوار سے دیوار ملے گھر والے تو شریک ہوگئے، ساتھ والی گلی میں کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی۔ عجیب دور آگیا ہے۔ آگے اور کیا ہوگا یہ سوچ کر ہی ہول سا اٹھتا ہے۔ اب تو ہمارے پاس تعزیت کے لیے بھی وقت نہیں ہے۔ ایک مصنوعی، بے رونق، بے روح، بے چین زندگی گزاری جا رہی ہے۔
ہمارے اجداد کی روشن، پیار ومحبت بھری روایات سب بھلا دی گئیں کہ جب عزیز، رشتے دار، ایک دوسرے کے غم اور خوشی میں شریک ہوتے تھے۔ انتقال ہوگیا تو دسواں کرکے رشتے دار رخصت ہوتے تھے۔ شادی بیاہ میں دس دن پہلے ہی ڈھولک رکھ دی جاتی تھی۔ شادی بیاہ کی خوشی میں مگن مہمان جیسے تیسے گزارا کرلیتے تھے جہاں جگہ ملی سو گئے۔ گھر میں بیٹی بہوئیں، خوشی خوشی ناشتے کے لیے پراٹھے بنا رہی ہیں، آلو کی بھجیا بن رہی ہے، انڈے پیازکا آملیٹ بنایا جا رہا ہے اور کسی بہو بیٹی کے ماتھے پر شکن تک نہیں آ رہی۔ وہ سچے زمانے تھے، لوگ بھی سچے تھے۔ اب ہم الیکٹرانک دور میں پہنچ گئے ہیں، جہاں جھوٹ ہے، فریب ہے، دھوکا ہے، نتیجہ تباہی ہے، بربادی ہے، خودکشیاں ہیں، کتے بلیوں کی طرح انسان، انسان سے سلوک کر رہا ہے۔ اے اللہ! یہ کیسی ترقی ہے، یہ کیسی خوشحالی ہے، یہ کیسی بلندی ہے!
وابستہ میری یاد سے کچھ تلخیاں بھی ہیں
اچھا کیا کہ تم نے فراموش کر دیا
پچاس کی دہائی میں لائل پور ادب کا بڑا گڑھ تھا۔ معروف ترقی پسند شاعر احمد ریاض، لائل پور سے شایع ہونے والے اخبار ''غریب'' کے ایڈیٹر تھے۔ چک جھمرہ میں رہائش تھی۔ احمد ریاض روز چک جھمرہ سے لائل پور آتے اور شام ڈھلے واپس بیوی بچوں کے پاس لوٹ جاتے۔ احمد ریاض تپ دق کا شکار ہوئے، اس زمانے میں اس موذی مرض کا علاج نہیں تھا، جسے دق لگ جاتی موت ہی اس کا انجام ہوتا تھا۔
احمد ریاض کے انتقال پر ساحر لدھیانوی نے ہندوستان سے ایک پاکستانی فلم کا گیت لکھ کر بھیجا اورکہا کہ اس کا معاوضہ احمد ریاض کی بیوی کو دے دیا جائے۔ اس زمانے میں ایک گیت کا معاوضہ سو روپے ہوتا تھا۔ ساحر لدھیانوی نے گیت کا معاوضہ دو ہزار طلب کیا، جو فلم ساز نے احمد ریاض کی بیوی کو ادا کیا۔ مجھے فلم کا نام یاد نہیں۔ فلم ساز وہدایت کار میری یاد داشت کے مطابق انور کمال پاشا تھے۔ فلم کا نام اور فلم سازکون تھا، یہ معلومات اپنی جگہ مگر اصل بات قابل ذکر یہ ہے کہ ساحر لدھیانوی نے اپنے دوست کو یاد رکھا اور اس انداز میں یاد رکھا۔
اس زمانے کا لائل پور بڑا بھرپور شہر ہوتا تھا۔ لاہور سے فیض، احمد ندیم قاسمی، استاد دامن، منٹمگری (موجودہ ساہیوال) سے مجید امجد، منیر نیازی، جھنگ سے نوجوان شاعر محمود شام، صحافی نذیر ناجی، حمید اختر، سینئر شاعر شیر افضل جعفری اور بھی بہت سے۔ ان تمام شاعروں ادیبوں کی آؤ بھگت بھائی فتح محمد کیا کرتے، لائل پور میں بھائی فتح محمد کی شاہی مرغ پلاؤ کی بڑی مشہور دکان تھی۔ بھائی فتح محمد شاعروں، ادیبوں کی مرغ پلاؤ سے تواضع کیا کرتے تھے۔ بھائی فتح محمد لدھیانہ کے رہنے والے تھے۔
ساحر سے ان کی بڑی دوستی تھی۔ بھائی فتح محمد کی ساحرکے ساتھ رہنے کی وجہ سے مارکسزم کے بارے میں خاصا علم رکھتے تھے۔ پھر یہ بھی ہوا کہ سہگلوں نے لائل پور میں کوہ نور ٹیکسٹائل ملز بنا لی۔ جہاں ہر سال پاک و ہند مشاعرے ہونے لگے۔ ایسے ہی ایک مشاعرے میں سہگلوں نے حبیب جالب کو سن کر انھیں اپنی مل میں ملازم رکھ لیا اور رہنے کو ایک کمرے کا کوارٹر دے دیا۔ جالب صاحب کو مل میں کرنا کرانا کچھ بھی نہ تھا۔ بس ہر ماہ تنخواہ لو اورگھومو پھرو۔ دن گزر رہے تھے کہ جالب صاحب نے ایک شعری نشست میں یہ شعر پڑھ دیے:
شعر ہوتا ہے اب مہینوں میں
زندگی ڈھل گئی مشینوں میں
پیارکی روشنی نہیں ملتی
ان مکانوں میں، ان مکینوں میں
اگلے دن جالب صاحب پھر فٹ پاتھ پر تھے۔ اس وقت تو کیا زندگی مشینوں میں ڈھلی ہوگی! آج زندگی واقعی مشینوں میں ڈھل چکی ہے۔ ایک چھوٹے سے موبائل فون نے انسان کو حیوان بنا دیا ہے۔ تہذیب، اخلاق، سب کچھ چھین لیا ہے۔ ماں باپ بات کرنا چاہ رہے ہیں اور بچے موبائل میں گم ہیں۔ رہی سہی کسر ٹیلی وژن نے پوری کردی ہے۔ گھر آیا مہمان شرمندہ ہو رہا ہے اور گھر والے ڈرامہ دیکھ رہے ہیں۔ وہ پیار، وہ پیار کی روشنی کہاں، اب تو مکان بھی بے رونق اور مکین بھی بے روح۔ ہماری اماں غربت ہوتے ہوئے بھی اتنی روٹیاں پکاتی تھیں کہ سب گھر والے کھا چکیں تو بھی چار روٹیاں چنگیر میں باقی رہیں، اماں کا کہنا تھا کہ ''مہمان کسی بھی وقت آ سکتا ہے۔''
آج روپیہ پیسہ بہت ہے، کوٹھیاں، بنگلے، کاریں سب کچھ ہے، مگر پیار نہیں ہے۔ مہمان آجائے تو ایسے جیسے مصیبت آگئی ہو، غیر تو غیر آج اپنوں، سگوں کے لیے ملنے ملانے کا وقت نہیں ہے۔ کوئی کسی کو نگاہ بھر کر نہیں دیکھتا۔ سب اندھا دھن چلے جا رہے ہیں، دوڑ رہے ہیں، بھاگ رہے ہیں، کوئی لمحہ بھر کو رک کر کسی سے نہیں مل رہا، حال احوال نہیں پوچھ رہا۔ بڑے شہروں کا تو حال بہت ہی خراب ہے۔ میں نے اپنے سبزی والے سے پوچھا ''اقبال صاحب نظر نہیں آرہے'' سبزی والے نے کہا ''اقبال صاحب کا انتقال ہو گیا'' میں نے پوچھا کب؟ وہ بولا ''ان کو تو مہینہ ہو گیا''۔ ایک محلے میں رہتے ہوئے اب یہ حال ہو گیا ہے۔
بڑے شہروں میں یہ ہوتا ہے کہ انتقال ہوا، گھر والوں نے بس منگوائی، جنازہ اس میں رکھا اور قبرستان روانہ ہوگئے۔ تدفین ہوئی اورکہانی ختم۔ دیوار سے دیوار ملے گھر والے تو شریک ہوگئے، ساتھ والی گلی میں کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی۔ عجیب دور آگیا ہے۔ آگے اور کیا ہوگا یہ سوچ کر ہی ہول سا اٹھتا ہے۔ اب تو ہمارے پاس تعزیت کے لیے بھی وقت نہیں ہے۔ ایک مصنوعی، بے رونق، بے روح، بے چین زندگی گزاری جا رہی ہے۔
ہمارے اجداد کی روشن، پیار ومحبت بھری روایات سب بھلا دی گئیں کہ جب عزیز، رشتے دار، ایک دوسرے کے غم اور خوشی میں شریک ہوتے تھے۔ انتقال ہوگیا تو دسواں کرکے رشتے دار رخصت ہوتے تھے۔ شادی بیاہ میں دس دن پہلے ہی ڈھولک رکھ دی جاتی تھی۔ شادی بیاہ کی خوشی میں مگن مہمان جیسے تیسے گزارا کرلیتے تھے جہاں جگہ ملی سو گئے۔ گھر میں بیٹی بہوئیں، خوشی خوشی ناشتے کے لیے پراٹھے بنا رہی ہیں، آلو کی بھجیا بن رہی ہے، انڈے پیازکا آملیٹ بنایا جا رہا ہے اور کسی بہو بیٹی کے ماتھے پر شکن تک نہیں آ رہی۔ وہ سچے زمانے تھے، لوگ بھی سچے تھے۔ اب ہم الیکٹرانک دور میں پہنچ گئے ہیں، جہاں جھوٹ ہے، فریب ہے، دھوکا ہے، نتیجہ تباہی ہے، بربادی ہے، خودکشیاں ہیں، کتے بلیوں کی طرح انسان، انسان سے سلوک کر رہا ہے۔ اے اللہ! یہ کیسی ترقی ہے، یہ کیسی خوشحالی ہے، یہ کیسی بلندی ہے!