آئی ٹی سیکٹر کی برآمدات 10 ارب تک لے جانے کی گنجائش موجود
اسٹیٹ بینک کی ریگولیٹری پالیسیاں آئی ٹی سیکٹر کی نمومیں سب سے بڑی رکاوٹ
پاکستان کے انفارمیشن ٹیکنالوجی سیکٹر میں برآمدات 10 ارب ڈالر کی سطح تک لے جانے کی گنجائش اور صلاحیت موجود ہے۔
پاکستان کے انفارمیشن ٹیکنالوجی سیکٹر میں برآمدات اگلے 3 سال کے دوران 10 ارب ڈالر کی سطح تک لے جانے کی گنجائش اور صلاحیت موجود ہے۔ اس سے نہ صرف زرمبادلہ میں اضافہ ہوگا بلکہ ہزاروں روزگار کے مواقع بھی میسر آسکتے ہیں۔ تاہم پالیسی اور ریگولیٹری کی رکاوٹیں آئی ٹی سیکٹر کی نمو میں حائل ہورہی ہیں۔ متعدد صورتوں میں اسٹیٹ بینک کی ریگولیٹری پالیسیاں آئی ٹی سیکٹر کی نمو کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہورہی ہیں۔
پہلے تو یہ کہ فری لانسرز کے لیے بینک اکاؤنٹ کھولنے کا مرحلہ بہت پیچیدہ ہے۔ دوسرا غیرملکی زرمبادلہ کو کنٹرول کرنے کا میکانزم آئی ٹی سیکٹر کی فرموں اور فری لانسرز کے لیے زرمبادلہ کی نقل و حرکت کی اجازت نہیں دیتا۔ اس وجہ سے بیشتر آئی ٹی فرمز اور فری لانسرز نے عرب امارات، سنگاپور اور امریکا میں اکاؤنٹ کھول رکھے ہیں۔ تیسرے یہ کہ اسٹیٹ بینک کیپیٹل فنڈز قائم کرنے کے سلسلے میں غیرملکی سرمایہ کاروں کو سہولتیں فراہم کرنے میں ناکام ہے۔ پھر پیمنٹ گیٹ وے قائم کرنے کی کوششیں بھی بارآور نہیں ہوسکیں۔ چناں چہ اسٹیٹ بینک آئی ٹی سیکٹر کے لیے غیرملکی زرمبادلہ کے آزادانہ بہاؤ کی اجازت دے۔
پاکستان کے بڑے شہروں جیسے کراچی، اسلام آباد، لاہور، پشاور وغیرہ میں رہائشی جگہوں کا بطور دفاتر استعمال ممنوع ہے۔ یعنی چند دوست ایک گھر میں بیٹھ کر سوفٹ ویئر بھی ڈیولپ نہیں کرسکتے۔ یہ قانون آئی ٹی سیکٹر کی نمو میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
علاوہ ازیں پاکستان میں آئی ٹی کی تعلیم کو جاب مارکیٹ سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت آئی ٹی گریجویٹس کو ملازمتوں کے حصول کا چیلنج درپیش ہے۔ اسی طرح آئی ٹی سیکٹر کے لیے لیبر اور ٹیکس قوانین پر بھی نظرثانی کی ضرورت ہے۔
یہ قوانین مینوفیکچررز اور روایتی ریٹیل انڈسٹری کے لیے بنائے گئے ہیں جو بعض اوقات آئی ٹی سیکٹر پر لاگو نہیں ہوتے، کیوں کہ اس سیکٹر میں کبھی کبھی پروڈکٹ اور سروسز میں تفریق کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔
پاکستان کے انفارمیشن ٹیکنالوجی سیکٹر میں برآمدات اگلے 3 سال کے دوران 10 ارب ڈالر کی سطح تک لے جانے کی گنجائش اور صلاحیت موجود ہے۔ اس سے نہ صرف زرمبادلہ میں اضافہ ہوگا بلکہ ہزاروں روزگار کے مواقع بھی میسر آسکتے ہیں۔ تاہم پالیسی اور ریگولیٹری کی رکاوٹیں آئی ٹی سیکٹر کی نمو میں حائل ہورہی ہیں۔ متعدد صورتوں میں اسٹیٹ بینک کی ریگولیٹری پالیسیاں آئی ٹی سیکٹر کی نمو کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہورہی ہیں۔
پہلے تو یہ کہ فری لانسرز کے لیے بینک اکاؤنٹ کھولنے کا مرحلہ بہت پیچیدہ ہے۔ دوسرا غیرملکی زرمبادلہ کو کنٹرول کرنے کا میکانزم آئی ٹی سیکٹر کی فرموں اور فری لانسرز کے لیے زرمبادلہ کی نقل و حرکت کی اجازت نہیں دیتا۔ اس وجہ سے بیشتر آئی ٹی فرمز اور فری لانسرز نے عرب امارات، سنگاپور اور امریکا میں اکاؤنٹ کھول رکھے ہیں۔ تیسرے یہ کہ اسٹیٹ بینک کیپیٹل فنڈز قائم کرنے کے سلسلے میں غیرملکی سرمایہ کاروں کو سہولتیں فراہم کرنے میں ناکام ہے۔ پھر پیمنٹ گیٹ وے قائم کرنے کی کوششیں بھی بارآور نہیں ہوسکیں۔ چناں چہ اسٹیٹ بینک آئی ٹی سیکٹر کے لیے غیرملکی زرمبادلہ کے آزادانہ بہاؤ کی اجازت دے۔
پاکستان کے بڑے شہروں جیسے کراچی، اسلام آباد، لاہور، پشاور وغیرہ میں رہائشی جگہوں کا بطور دفاتر استعمال ممنوع ہے۔ یعنی چند دوست ایک گھر میں بیٹھ کر سوفٹ ویئر بھی ڈیولپ نہیں کرسکتے۔ یہ قانون آئی ٹی سیکٹر کی نمو میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
علاوہ ازیں پاکستان میں آئی ٹی کی تعلیم کو جاب مارکیٹ سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت آئی ٹی گریجویٹس کو ملازمتوں کے حصول کا چیلنج درپیش ہے۔ اسی طرح آئی ٹی سیکٹر کے لیے لیبر اور ٹیکس قوانین پر بھی نظرثانی کی ضرورت ہے۔
یہ قوانین مینوفیکچررز اور روایتی ریٹیل انڈسٹری کے لیے بنائے گئے ہیں جو بعض اوقات آئی ٹی سیکٹر پر لاگو نہیں ہوتے، کیوں کہ اس سیکٹر میں کبھی کبھی پروڈکٹ اور سروسز میں تفریق کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔