آل پارٹیز کانفرنس اور مستقبل کا منظر نامہ

کیا نیا اپوزیشن اتحاد حکومت کیلئے خطرے کی گھنٹی بن سکے گا؟؟

حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال۔ فوٹو: ایکسپریس

20 ستمبر کو اپوزیشن جماعتوں کی ''آل پارٹیز کانفرنس'' منعقد ہوئی جس میں حکومت کے خلاف محاذ کھولا گیا اور مشترکہ جلسوں، ریلیوں، لانگ مارچ و دیگر حوالے سے لائحہ عمل طے کیا گیا۔ اس کانفرنس کے بعد سے ملکی سیاسی ماحول شدید گرم ہے اور دونوں جانب سے ہی تند و تیز بیانات سامنے آرہے ہیں۔

ان حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے ''اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس اور مستقبل کا لائحہ عمل'' کے موضوع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

عمر سرفراز چیمہ ( مرکزی نائب صدر پاکستان تحریک انصاف)

گزشتہ 5دہائیوں سے ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی قومی نرسری کے ذریعے اقتدار اقتدار کھیلتی رہی ہیں۔ انہوں نے ایک دوسرے کے خلاف کیسز بنائے، کرپشن کے الزامات لگائے، انتقامی کارروائیاں کی، سکیورٹی رسک قرار دیا اور عوام کا وقت و پیسہ ضائع کیا۔ان کے برعکس عمران خان نے قومی خدمت کے جذبے کے تحت اس کرپٹ نظام کے خلاف سیاسی میدان میں قدم رکھا۔ وہ اپنی 22 سالہ طویل جدوجہد کے نتیجے میں برسر اقتدار آئے اور عوام کو ان کرپٹ سیاستدانوں سے نجات دلوائی۔ ا ن 22 برسوں میں تحریک انصاف نے جمہوریت کیلئے جدوجہد کی اور فوجی و سول آمروں کے خلاف نہ صرف آواز اٹھائی بلکہ عملی طور پر میدان میں بھی اترے۔ ہمیں ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ الائنس میں جدوجہد کا موقع بھی ملا۔ اپنے اس سارے تجربے کی روشنی میں یہ کہنا درست ہے کہ اپوزیشن کی اے پی سی ان کی اپنی سیاست پر خود کش حملہ ہے، ان کی رہی سہی ساکھ بھی عوام میں ختم ہوگئی اور اب انہیں پسپائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ حکومت کو ان سے کوئی خطرہ نہیں، یہ بازو ہمارے آزمائے ہوئے ہیں۔ ان کی تاریخ تو یہ ہے کہ کارکن مار کھاتے ہیں مگر قیادت اندر بیٹھی ہوتی ہے اور ڈیل کر رہی ہوتی ہے۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ فرینڈلی اپوزیشن کرتی رہی ہیں۔ انہوں نے میثاق جمہوریت کے ذریعے ایک دوسرے کو لوٹ مار کی چھوٹ دی۔ بدقسمتی سے 2006 سے 2018تک ملکی تاریخ کی بدترین کرپشن کی گئی اور معیشت کو ڈبویا گیا۔ایسی جماعتیں جنہیں لوٹ مار اور فرینڈلی میچ کھیلنے کی عادت ہو وہ حقیقی اپوزیشن نہیں کرتی۔ اپوزیشن کو تو اب بھی اپنی غلطیوں کا احساس نہیں ہوا، اگر ہوگیا ہے تو پھر نیب، عدلیہ اور انتخابی اصلاحات کیلئے حکومت کا ساتھ دیں۔ انہوں نے پارلیمان کی بالادستی کیلئے کوئی کام نہیں کیا۔ گزشتہ دو برسوں میں اپنی قیادت کے خلاف کیسز کا رونا رونے کے علاوہ کوئی کام نہیں کیا۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنی پہلی تقریر میں واضح کردیا تھا کہ وہ انتقام نہیں احتساب کے قائل ہیں۔ اگر ان کے ساتھ بیٹھے افراد بھی کرپشن کریں تو ان کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔ یہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا کہ وفاقی و صوبائی سطح پر جب ہمارے وزراء کے خلاف کارروائی کی گئی تو انہیں عہدوں سے برطرف کر دیا گیا اور بعض کو تو جیل بھی ہوئی۔ ہماری حکومت عدلیہ و دیگر اداروں میں مداخلت پر یقین نہیں رکھتی، ہم عدلیہ، میڈیا سمیت تمام اداروں کی آزادی چاہتے ہیں۔ ہمار ی حکومت نے اپوزیشن لیڈر کے خلاف ایک بھی کیس نہیں بنایا، یہ تمام کیسز پرانے ہیں جن کی وہ سزا بھگت رہے ہیں۔ اسی طرح نواز شریف اور آصف زرداری کے خلاف بھی کوئی نیا کیس نہیں بنایا گیا۔ احتساب کے ادارے اپنا کام آزادی سے کر رہے ہیں۔ موجودہ حکومت کو بدترین حالت میں ملک ملا اور ہر چیز تباہ ہوچکی تھی۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ کینسر کا علاج ڈسپرین سے نہیں ہوسکتا،بڑی سرجری کرنا پڑتی ہے، یہی وجہ ہے کہ عوام کو پریشانی ہورہی ہے، ہم درست سمت میں کام کر رہے ہیں، جلد حالات بہتر ہوجائیں گے۔ موجودہ حکومت نورا کشتی اور مک مکا پر یقین نہیں رکھتی،کرپشن اور این آر او کے علاوہ اپوزیشن سے تمام معاملات پر بات کرنے کو تیار ہیں۔

خواجہ عمران نذیر (رکن پنجاب اسمبلی و رہنما پاکستان مسلم لیگ ،ن)


وہ ملک جس میں ڈالر کی قیمت مسلسل نیچے آرہی تھی، جی ڈی پی گروتھ 5.8سے اوپر جارہی تھی، معاشی ذخائر میں اضافہ ہورہا تھا، لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہوگیا تھا، سی پیک کی صورت میں ترقی ہورہی تھی، بھوک، افلاس، غربت کا خاتمہ ہورہا تھا اور مہنگائی کی شرح ہر گزرتے دن کے ساتھ کم ہورہی تھی، اُس پاکستان کو برا کہا گیا اور عوام کو بے وقوف بنایا گیا۔ موجودہ حکومت جو نئے پاکستان، تبدیلی، احتساب،غریب دوست ہونے کے دعووے اور نعرے لگاتی رہی ہے، اس کے دو سالہ دور میں عوام کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔ ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافہ، جی ڈی پی گروتھ منفی ، معاشی ذخائر میں کمی، لوڈ شیڈنگ میں اضافہ، سی پیک منصوبے میں رکاوٹیں، بھوک، افلاس، غربت اور مہنگائی میں ہوشربا اضافہ ہوچکا ہے اور عوام خودکشی پر مجبور ہوگئے ہیں۔افسوس ہے کہ اب تو عوام سے مفت علاج معالجے کی سہولت بھی چھین لی گئی ہے ۔گزشتہ دوبرسوں میں کسی کا علاج مفت نہیں ہوا۔ آج بھی پنجاب میں وہ ادویات استعمال ہورہی ہیں جو میں نے گزشتہ دور میں بطور وزیر خریدی تھی۔ سرکاری ہسپتالوں کو نئی ادویات ہی فراہم نہیں کی گئیں۔ انہوں نے ہمارے صحت کارڈ کا نام اور رنگ تبدیل کرکے دوبارہ لانچ کردیا اور عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی۔ انہوں نے سرکاری وسائل استعمال کرکے اپنی جماعت کی مشہوری کی۔ انہیں یہ اختیار کس نے دیا کہ سرکاری وسائل سے ہیلتھ کارڈ پر اپنا پارٹی پرچم پرنٹ کریں؟ بدقسمتی سے موجودہ حکومت نے تیزی سے ترقی کرتے ہوئے ملک کا رخ تنزلی کی جانب موڑ دیا اور اب ایسے حالات پیدا ہوچکے ہیں کہ یہ حکومت ملک کیلئے سکیورٹی رسک بن چکی ہے۔ اگر یہ کچھ اور وقت رہے تو ملک کو ناقابل تلافی نقصان ہوگا جسے پورا کرنا ناممکن ہوگا۔ عوام اس حکومت سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے اپوزیشن جماعتوں کی جانب دیکھ رہے ہیں، اگر اب بھی ہم خاموش رہے اور سڑکوں پر نہ نکلے تو عوام ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گے۔ ہم نے گزشتہ 2 برسوں میں اپوزیشن نہیں کی تاکہ حکومت کی نالائقی کو بے نقاب کیا جاسکے، آج یہ عوام کے سامنے بری طرح ایکسپوز ہوچکے ہیں ، اتنی جلدی کسی سیاسی جماعت پر برا وقت نہیں آیا جتنی جلدی ان پر آیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے تمام وعدے اور دعووے جھوٹے تھے اور صرف ہوا میں تھے۔ جب اقتدار میں آئے تو ان کے پاس عوام کو دینے کیلئے کچھ نہیں ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے جب دھرنا دیا تو اپوزیشن جماعتیں اس میں درست حصہ نہیں ڈال سکی۔ آج سب کو اپنی غلطی کا احساس ہے اور ہم نے مولانا سے معذرت بھی کی ہے،آج سب ان کے ساتھ ہیں اور ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے، ہماری جدوجہد اصل جمہوریت کی بحالی کیلئے ہے۔حکومت اس وقت اپوزیشن اور خصوصاََ میاں نواز شریف سے خائف ہے۔ ان کی تقاریر عوام کے جذبات کی ترجمانی کر رہی ہیں۔ حکومت کی بوکھلاہٹ صاف نظر آرہی ہے یہی وجہ ہے کہ ان کی تقریر نشر کرنے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ حکومت کو سمجھ لینا چاہیے کہ ایسے معاملات سے اپوزیشن کی تحریک کو روکا نہیں جاسکتا، عوام ہمارے ساتھ کھڑے ہیں۔

بیرسٹر عامر حسن (مرکزی رہنما پاکستان پیپلز پارٹی)

تحریک پاکستان میں قائد اعظمؒ نے مسلمانوں نے سیاسی اور معاشی حقوق کی بات کی تھی۔ دستور ساز اسمبلی سے تقریر میں بھی انہوں نے ان حقوق کی بات کی تھی کہ کس طرح پاکستانی عوام کو یہ حقوق دیے جائیں گے۔ بدقسمتی سے کئی برسوں تک آئین نہیں بنا جس کے باعث ملک کوبے شمار مسائل سامنا بھی کرنا پڑا۔ 1973ء میں اتفاق رائے سے آئین بنا جو آج بھی رائج ہے۔ اس آئین کے مطابق مقننہ، عدلیہ اور حکومت کا کام بالکل واضح ہے مگر اس کے مطابق کام نہیں ہورہا۔ پارلیمان اور سیاستدان آسان ہدف ہیں اور 73 سالہ ملکی تاریخ میں انہیں ہی ٹارگٹ کیا گیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ سیاستدانوں سے غلطیاں نہیں ہوئیں مگر انہوں نے اتنے جرم نہیں کیے جتنی انہیں سزا ملی ہے۔ سب کی ناکامیاں ان کے پلڑے میں ڈال دی گئیں اور ان کی قربانی دیکر داغ دھونے کی کوشش کی گئی لہٰذا اب تروتھ کمیشن بنایا جائے گا جس میں حقائق سامنے لائے جائیں گے۔ ماضی میں آمروں کے خلاف تحاریک چلائی گئی ہیں جن میں سب سے اہم جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف تحریک تھی۔ اس میں میثاق جمہوریت کیا گیا اور یہ اسی میثاق کا ثمر ہے کہ اس وقت مسلسل تیسری سیاسی حکومت موجود ہے۔ آزاد عدلیہ اور پارلیمان میں ہونے والے فیصلے اسی کا ثمر ہیں۔ یہ بھی درست ہے ہم اس میثاق سے صحیح معنوں میں فائدہ نہیں اٹھا سکے اور نظام میں خرابیاں رہیں۔ ملک اس وقت مشکل حالات سے گزر رہا ہے اور احتساب کے نام پر جو کچھ ہورہا ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے ۔ ملکی معیشت بھی بدحالی کا شکار ہے۔ میرے نزدیک سب کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام نہیں آسکتا۔ تحریک انصاف نے دھاندلی کا نعرہ لگایا اور انتخابی اصلاحات کی بات کی مگر آج انہیں برسراقتدار 2 برس بیت چکے ہیں مگر کوئی اصلاحات نہیں لائی گئیں۔ 2018ء کے انتخابات پر تمام جماعتوں کو تحفظات تھے اور دھاندلی کے الزامات لگائے گئے۔ حکومت نے اس پر کوئی تحقیقات نہیں کی۔ اس وقت مولانا فضل الرحمن کا موقف تھا کہ اسمبلیوں میں نہیں جانا چاہیے مگر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے انہیں راضی کیا کہ تحریک انصاف کو موقع دیکر آزمایا جائے۔ دو سال میں یہ قوم کے سامنے بے نقاب ہوگئے، پارلیمان بے توقیر ہوگئی، معیشت تباہ ہوگئی، لاکھوں افراد بے روزگار ہوگئے، مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے اور عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ کشمیر کے حوالے سے معاملات بھی سب کے سامنے ہیں۔ ملکی تاریخ میں کشمیر کے حوالے سے جو کام بھارت نہیں کرسکا وہ ان دو برسوں میں ہوگیا۔ خارجہ پالیسی کی بات کریں تو اس وقت کوئی ملک ہمارا دوست نہیں رہا۔ سی پیک منصوبہ جو بہت بڑی کامیابی تھا اس کی حالت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ قانون سازی کے معاملات ، سینیٹ میں اکثریت کی اقلیت میں تبدیلی و اس طرح کے دیگر حکومتی اقدامات بھی سب کے سامنے ہیں۔ اس میں ایک بات یہ بھی ہے کہ دو برس ہم نے ڈھیلی ڈھالی اپوزیشن کی جس سے حکومت کو یہ سب کرنے کا موقع ملا۔ اب بھی اگر اپوزیشن کی جانب سے خاموشی رہتی تو عوام کبھی ہمیں معاف نہ کرتے۔ یہ حکومت اپنی ناقص کارکردگی اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے ملک کیلئے رسک بن چکی ہے۔ اسی تناظر میں اپوزیشن جماعتیں متحد ہوئی ہیں اور آل پارٹیز کانفرنس بلائی گئی جس میں صرف باتیں ہی نہیں کی گئی بلکہ مستقبل کا لائحہ عمل بھی طے کیا گیا جو بڑی کامیابی ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے حکومت کو استعفے دینے کیلئے 10 دن کا الٹی میٹم دیا گیا تھا جو پورا ہوگیا۔ اب اس ماہ سے مشترکہ جلسے منعقد کیے جارہے ہیں جو حکومتی ایوانوں کو ہلا کر رکھ دیں گے۔ نومبر اور دسمبر میں یہ تحریک زور پکڑے گی اور جنوری میں فیصلہ کن لانگ مارچ ہوگا۔ ہمیں دھرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی بلکہ لانگ مارچ کے دوران ہی حکومت گھر چلی جائے گی۔ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں عدم اعتماد کی تحاریک بھی لائی جائیں گی جبکہ اپوزیشن کے استعفے آخری آپشن ہونگے۔ اے پی سی کے بعد سے حکومتی حلقوں کی بدحواسی نظر آرہی ہے، انہیں معلوم ہے کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ حکومت کو بہا لے جائے گی۔ہمیں عوام کی مکمل حمایت حاصل ہے اور حکومت یہ بخوبی جانتی ہے اسی لیے وزراء، مشیران اور حکومتی نمائندوں کی جانب سے بیان بازی کی جارہی ہے اور وہ عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ انہیں کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ میثاق جمہوریت کے بعد اب میثاق پاکستان بنایا جائے گا جس میں جمہوریت کی مضبوطی اور غیر جمہوری اقدامات کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔اپوزیشن اپنی جمہوری اور سیاسی جنگ، جمہور اور آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے لڑنے کیلئے بالکل تیار ہے۔

مولانا امجد خان (مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل جمعیت علماء اسلام ،ف)

عام انتخابات کے بعد پہلے دن سے ہی مولانا فضل الرحمن کایہ موقف تھا کہ اسمبلیوں سے حلف نہیں اٹھانا چاہیے اور اس پر دلائل بھی دیے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے ان دلائل کی تائید کی مگر یہ بھی کہا کہ اگر اس وقت ہم اسمبلیوں میں نہیں جاتے تو عوام میں اچھا تاثر نہیں جائے گا۔ ہمیں حلف اٹھا کر اپوزیشن کا کردار ادا کرنا چاہیے لہٰذا ان دونوں جماعتوں کے اسرار پر سب نے اسمبلیوں کا رخ کیا۔ اس کے بعد سپیکر، ڈپٹی سپیکر، صدر، وزیراعظم کے انتخاب ہوئے، مولانا فضل الرحمن ان میں بھی شامل ہونا نہیں چاہتے تھے مگر اپوزیشن کے کہنے پر انتخابات میں حصہ لیا گیا اور حکومت سازی کا عمل مکمل ہوا۔ آج دو برس گزرنے کے بعد اپوزیشن جماعتیں مولانا فضل الرحمن کے موقف کے ساتھ کھڑی ہیں اور خود نواز شریف نے بھی کہا ہے کہ مولانا درست تھے۔ میرے نزدیک اگر اس وقت سیاسی جماعتیں مولانا فضل الرحمن کا ساتھ دیتے ہوئے اسمبلیوں میں نہ جاتی تو آج ملک کے حالات مختلف ہوتے اور اتنا برا حال نہ ہوتا جو اس حکومت نے کر دیا ہے۔ بدقسمتی سے اس وقت ملک بدترین حالات سے گزر رہا ہے، مہنگائی کا سونامی ہے، بجلی، گیس، پٹرول، اشیائے خورونوش، ہر چیز کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں، بے روزگاری میں شدید اضافہ ہوا ہے، خارجی محاذ پر ناکامیوں کا سامنا ہے، کوئی ملک ہمارے ساتھ نہیں ہے، دوست ممالک بھی ناراض ہیں، سی پیک خطرے میں ہے، چین اور سعودی عرب ناراض ہیں جبکہ کشمیر بھی ہمارے ہاتھ سے نکل چکا ہے، ان حالات کو دیکھتے ہوئے موجودہ حکومت کا اقتدار میں رہنا ملکی مفاد میں نہیں۔ ترک صدر طیب اردوگان نے کشمیر کا موقف دوبارہ زندہ کیا ہے جو خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ ایک بات تو واضح ہوگئی ہے کہ تحریک انصاف گفتار کی غازی ہے۔ دھرنوں کے دوران انہوں نے عوام کو تقاریر سے بے وقوف بنایا، طرح طرح کی ویڈیوز دکھائی، سبز باغ دکھائے اور ایسا ثابت کرنے کی کوشش کی جیسے ان کے اقتدار میں آنے کے بعدیہاں دودھ شہد کی نہریں بہنے لگیں گی۔ حقیقت یہ ہے کہ نیا پاکستان تو کیا ان سے نیا پشاور نہیں بن سکا۔ انہوں نے تو پشاور کا بھی برا حال کر دیا ہے۔ عمران خان نے عوام سے جتنے بھی وعدے کیے وہ وفا نہیں ہوئے۔ عمران خان کہتے تھے کہ5 ہزار افراد ان کے خلاف نکلیں تو وہ استعفیٰ دے دیں گے، ہمارے لاکھوں کارکنوں نے دھرنا دیا مگر استعفیٰ نہیں آیا۔ احتساب کی جگہ انتقام ہورہا ہے۔ اب مولانا فضل الرحمن کے خلاف احتساب کی باتیں بھی شروع ہوگئی ہیں اور ان پر الزامات لگائے جارہے ہیں۔ یہ حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہوچکی ہے اور اب اس کا جانا لکھا جاچکا ہے۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا ڈھانچہ جلد سامنے آجائے گا، صوبوں اور اضلاع کی سطح پر تنظیم سازی کی جائے گی، تمام اپوزیشن جماعتیں میدان عمل میں ہوگی، ہم جمہوری اور سیاسی جنگ کو جمہوری اور سیاسی طریقے سے لڑیں گے۔ غلطی کا وقت اب گزر چکا، سب کو عملی طور پر میدان میں اترنا ہوگا، اس بار کوئی پیچھے نہیں ہٹے گا، مولانافضل الرحمن کے ایک طرف شہباز شریف اور دوسری طرف بلاول بھٹو ہوں گے۔
Load Next Story