تحریک انصاف کے کارکن
مہنگائی چونکہ عوام کا روزمرہ کا مسئلہ ہے لہٰذا ترجیحاً اس کا حل نکالا جائے۔
عوام کو مسائل کی دلدل میں اس طرح دھکیل دیا گیا ہے کہ وہ اس دلدل سے نکلنے کی جس قدر کوشش کرتے ہیں وہ اس دلدل میں اتنا ہی زیادہ دھنستے جاتے ہیں۔ اس کام میں کسی فرد یا افراد کی اعانت کی ضرورت نہیں ہوتی یہ کام خودکار طریقے سے اس طرح ہوتا رہتا ہے کہ عوام اس کے میکنزم سے لاعلم رہتے ہیں۔
مہنگائی عوامی مسائل میں ایک اہم مسئلہ ہے مہنگائی کا میکنزم اس قدر دلچسپ اور شرمناک ہے کہ اس کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے مثال کے طور پر انڈے اور مرغی کو لے لیجیے شام میں انڈے سو روپے درجن تھے تو صبح ڈیڑھ سو روپے فروخت ہونے لگتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا راتوں رات مرغیوں نے انڈے دینے کم کردیے؟ یہی حال مرغی یعنی چکن کا ہے رات مرغی کی فروخت دو سو روپے کلو ہوتی ہے تو دوسرے دن صبح تین سو روپے کلو فروخت ہونے لگتی ہے بے چارے عوام اس جادو پر حیران رہ جاتے ہیں کہ بارہ گھنٹوں کے دوران انڈے کیوں اور کس طرح مہنگے ہوگئے۔ مرغی دو سو سے بڑھ کر تین سو روپے کلو کیسے ہوگئی۔
بارہ گھنٹوں کے دوران نہ انڈوں کی پیدائش میں کوئی کمی ہوسکتی ہے نہ مرغی کی پیدائش میں اتنا بڑا فرق پیدا ہوسکتا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ انڈہ اور مرغی کے ٹھیکیدار یعنی فارم ہاؤس کے بڑے مالکان بیٹھ کر طے کرتے ہیں کہ انڈے اور مرغی کے دام صبح سے پچاس فیصد بڑھا دیے جائیں۔ بس ہو گیا فیصلہ۔ نہ انڈے کی پیدائش میں کمی ہوئی نہ مرغی کی بس فارم ہاؤس کے مالکان کی زبان سے قیمتوں میں اضافہ ہوا اور ہمارے بیل نما انسان کان دبا کر نئی قیمتوں پر انڈے اور مرغی خریدتے رہے کسی زبان سے یہ نہیں نکلتا کہ بھائی قصائی رات مرغی دو سو روپے کلو تھی اور اب تین سو روپے کلو ہوگئی اس کی وجہ کیا ہے؟ پرائس کنٹرول کے محکمے والوں کو بھتہ مل جاتا ہے وہ نیند کی گولیاں کھا کر سو جاتے ہیں۔
ہم نے یہاں صرف انڈے اور مرغی کا ذکر کیا ہے ورنہ ساری اشیائے صرف کا یہی حال ہے۔ ہمارے حکمران طبقے کی غذا میں انڈے، مرغی لازماً شامل ہوتے ہیں لیکن ان کے پاس ان اشیا کی قیمتیں جاننے کا وقت نہیں ہوتا۔ اس حوالے سے اس حقیقت کی وضاحت ضروری ہے کہ عرصہ دراز سے انڈے اور مرغی عام غریب آدمی کے مینو میں شامل نہ تھے یہ فارم ہاؤس کے مالکان کا کرم ہے کہ اب انڈے اور مرغی غریب کے کچن تک پہنچ گئی ہے ورنہ کہاں مرغی کہاں انڈے؟
آج انڈے اور مرغی کی بات ہم نے یوں کی کہ ہر موسم گرما میں انڈے عام طور پر بہت سستے ہوتے ہیں یعنی60 روپے سے70 روپے درجن تک فروخت ہوتے ہیں لیکن خدا معلوم اس موسم گرما میں انڈہ ڈیڑھ سو روپے درجن تک فروخت ہو رہا ہے ہمارا محکمہ پرائس کنٹرول دنیا کا سب سے زیادہ کرپٹ محکمہ کہلاتا ہے بھتہ دو اشیا جس قیمت پر چاہو فروخت کرلو۔ کوئی نہیں پوچھے گا جس ملک کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے والے اداروں کا یہ حال ہو اس ملک میں مہنگائی کا عالم کیا ہوگا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ عوام کو کم ازکم یہ تو معلوم ہونا چاہیے کہ انڈوں کی قیمت میں اضافہ ہو رہا ہے تو اس کی وجہ کیا ہے سبزی کی قیمتوں کو آگ لگی ہے تو اس کی وجہ کیا ہے اور حکومت نے ان اشیا کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں؟
اس میں شک نہیں کہ مہنگائی ہمارے سرمایہ دارانہ نظام کا عطیہ ہے لیکن یہ وبا ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے اور ہر ملک اپنے اپنے طریقوں سے اسے کنٹرول کرکے عوام کو اس مصیبت سے بچا رہا ہے۔ یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ آخر اس مصنوعی مہنگائی کو کنٹرول کیوں نہیں کیا جاتا؟ یہ بات بھی درست ہے کہ اس قسم کے معاملات میں مخالفین جماعتوں کا ہاتھ بھی ہوتا ہے۔
مہنگائی چونکہ عوام کا روزمرہ کا مسئلہ ہے لہٰذا ترجیحاً اس کا حل نکالا جائے اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ خوردہ فروش سبزی منڈی سے سبزیاں جس نرخ پر خریدتے ہیں بازار اور محلوں میں ان سبزیوں کو دو گنی قیمت پر بیچتے ہیں اور یہ سب پرائس کنٹرول اتھارٹی کی نظروں کے سامنے ہوتا ہے۔ سبزیاں مہنگی ہوتی ہیں تو عوام دالوں کی طرف آتے ہیں لیکن اب دالوں کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ غریب عوام جائیں تو جائیں کہاں۔ بحیثیت وزیر اعظم عمران خان کی یہ ذمے داری ہے کہ عوامی استعمال کی ان ضروری اشیا کی قیمتوں پر سختی سے کنٹرول کیا جائے تاکہ عوام مہنگائی کے اس عذاب سے نجات حاصل کرسکیں۔
سبزی اور دالیں عوام کی روزمرہ کے استعمال کی اشیا ہیں مہنگائی کو چیک کرنے کا واحد ادارہ پرائس کنٹرول کا ادارہ ہے جس کی کارکردگی کا ذکر ہم نے کردیا ہے۔ عمران خان اگر ہر علاقے میں مقامی لوگوں کے ساتھ تحریک انصاف کے کارکنوں کو قیمتیں چیک کرنے کی ذمے داری سونپیں تو اس کے دو بڑے فائدے ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ پرائس کنٹرول کا کام ایمانداری سے ہو سکتا ہے دوسرا تحریک انصاف عوام میں متعارف ہو سکتی ہے۔