فرقہ واریت
دنیا میں دو مسئلے ایسے ہیں جن کا کوئی آج تک حل نہیں نکل سکا
دنیا میں دو مسئلے ایسے ہیں جن کا کوئی آج تک حل نہیں نکل سکا۔ دنیا میں فلسفی ہیں ،اہل علم ہیں، اہل دانش ہیں، ادیب ہیں شاعر ہیں یہ سب حساس لوگ ہیں دنیا میں ہونے والے مظالم نفرتوں جنگوں سے حساس انسان دکھی ہو جاتے ہیں، کڑھتے ہیں، غم زدہ رہتے ہیں لیکن اس حوالے سے وہ کچھ کر نہیں سکتے کیونکہ مختلف حوالوں سے انسان کی تقسیم اس قدر گہری ہے کہ اس کو ختم کرنا تو دور کی بات ہے اسے کم بھی نہیں کیا جاسکتا لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ انسان مایوس ہوکر بیٹھا رہے۔ میرے کالموں کا عمومی موضوع مذہبی رواداری، طبقاتی تقسیم کا خاتمہ ہوتا ہے۔ انسان مایوسیوں کا مجموعہ ہے وہ قدم قدم پر دل برداشتہ ہو جاتا ہے مایوس ہوتا ہے۔
خدا، بھگوان، گاڈ، پرماتما جیسے بے شمار نام ہیں جو مایوس انسان کو حوصلہ، پریشان انسان کو سکون فراہم کرتے ہیں لیکن یہ انسان کی کیسی بدقسمتی ہے کہ جن سے اسے حوصلہ ملتا ہے جن سے وہ مایوسیوں سے نکل آتا ہے انھی کے نام پر ایک دوسرے سے نفرت کرتا ہے، ایک دوسرے سے دشمنی کرتا ہے، ایک دوسرے کے گھروں کو جلاتا ہے، ایک دوسرے کی عبادت گاہوں کو آگ لگاتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کا نام لے کر اپنی مشکلات اپنی مایوسیوں، اپنی بے بسیوں سے نجات حاصل کرنے والا انسان مذہبی تفریق سے شیطان کیوں بن جاتا ہے؟ یہی وہ مسئلہ ہے یہی وہ تضاد ہے جس نے انسان کو شیطان بنا دیا ہے۔
ایسا ہرگز نہیں ہے کہ یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ یہ مسئلہ یہ تضاد حل ہو سکتا ہے انسانوں کے درمیان نفرت کی جگہ محبت لے سکتی ہے مذاہب کے حوالے سے ایک دوسرے سے دور رہنے والا انسان ایک دوسرے کے قریب آ سکتا ہے۔
ایسا اس لیے نہیں ہو سکا کہ وہ لوگ جو اس قسم کے مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ اس خطرناک مسئلے سے خوفزدہ رہتے ہیں ورنہ انسان ہونے کے ناتے کس کی یہ خواہش نہیں ہوسکتی کہ وہ ایک دوسرے سے دشمنی ایک دوسرے سے نفرت کے بجائے ایک دوسرے سے دوستی ایک دوسرے سے محبت کرے۔ اس حوالے سے اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو اس حوالے سے مثبت کردار ادا کرسکتے ہیں وہ بوجوہ یہ بڑا کام نہیں کرتے حالانکہ یہ لوگ ان خرابیوں اور ان بیگانگیوں کو اور ان کی وجوہات کو جانتے ہیں لیکن وہ ممکنہ وحشت ناک ردعمل کے خوف سے اس مسئلے کو حل کرنے کے بجائے اس سے اغماز برتتے ہیں کہ جان ہر بندہ بشر کو پیاری ہوتی ہے اور مذہب کے نام پر انسان شیطان بن جاتا ہے۔
سیمنٹ، ریتی، بجری سے سو سو منزلہ عمارتیں بنتی ہیں کوئی ان سے نفرت نہیں کرتا کوئی انھیں جلانے کی کوشش نہیں کرتا جب کہ یہ عمارتیں عام طور پر کاروباری ہوتی ہیں جن کا دین دھرم سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ اسی سیمنٹ، بجری اور لوہے سے سبھی مندر، گرجا سمیت ہر مذہب کے ماننے والے کی عبادت گاہ بنتی ہے لیکن یہ کیسا ظلم کیسا انیائے کیسی ذہنیت ہے کہ ہر انسان ان عبادت گاہوں سے نفرت کرتا ہے۔ انھیں نذر آتش کردیتا ہے۔ ایسا کیوں؟ اس حوالے سے سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ یہ کام وہ غریب لوگ انجام دیتے ہیں جنھیں سب سے زیادہ ضرورت ان عبادت گاہوں کی ہوتی ہے۔
بھولا بھالا ناسمجھ غریب ہی ان تخریبی کاموں میں حصہ لیتا ہے دولت مند خواہ اس کا کسی مذہب کسی فرقے سے تعلق ہو جہل اور تخریب کے ان کاموں میں حصہ نہیں لیتا اور اس وقت بھی غیر جانبدار رہتا ہے جب غریب لوگ مذہب کے نام پر ایک دوسرے کا گلا کاٹتے ہیں ایک دوسرے کے گھروں کو جلاتے ہیں۔ یہ بات انتہائی وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ جب بھی جہاں بھی فرقہ وارانہ فسادات ہوتے ہیں اس کا ایندھن بننے والے غریب طبقات ہی ہوتے ہیں امیر طبقات اس قسم کے جہل میں حصہ نہیں لیتے اس لیے وہ محفوظ رہتے ہیں۔
فرقہ وارانہ فسادات کا 1947 کا المیہ ہم نہیں بھولے۔ ان فسادات میں لاکھوں غریب قتل کردیے گئے، غریبوں کے بے شمار گھر جلا دیے گئے، ان کارناموں سے انسانیت کا سرنگوں ہو گیا، وحشت اور پاگل پن کا عالم یہ تھا کہ وحشی درندوں نے حاملہ عورتوں کے پیٹ چیر کر ماں کے پیٹوں سے نیم پختہ بچوں کو نکال کر اس انتہائی بے دردی سے قتل کردیا، وحشیوں کے مسلح گروہ ہتھیار نچاتے ہوئے آبادیوں میں دندناتے پھرتے تھے اور قتل و غارت کا بازار گرم کرتے تھے۔ علما اور پنڈتوں میں اچھے لوگ بھی ہیں جو مذہبی بھائی چارے کی تلقین کرتے ہیں اور برے لوگ بھی ہیں جو انسانوں کے درمیان مذاہب کے حوالے سے نفرتیں پھیلاتے ہیں۔
ماضی کے تلخ اور بدترین واقعات سے سبق حاصل کرتے ہوئے عوام کی ذمے داری ہے کہ وہ مذہبی انتہا پسندی سے دور رہیں اور مذہبی رواداری کی منظم تحریک چلائیں تاکہ فرقہ وارانہ فسادات میں غریب انسان جانی اور مالی نقصانات سے بچ سکیں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ضرورت اس لیے بھی پڑ رہی ہے کہ بھارت میں مذہبی جماعت جو برسر اقتدار بھی ہے نے ہندوتوا کے نام سے مذہبی شیطانیت کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے افسوس اس بات کا ہے کہ لبرل اور ترقی پسند ہندو آگے بڑھ کر ہندوتوا کو دنیا کے سامنے ایکسپوز کریں اور مذہبی رواداری کی حامی طاقتوں کی ہر حوالے سے حمایت کریں۔
خدا، بھگوان، گاڈ، پرماتما جیسے بے شمار نام ہیں جو مایوس انسان کو حوصلہ، پریشان انسان کو سکون فراہم کرتے ہیں لیکن یہ انسان کی کیسی بدقسمتی ہے کہ جن سے اسے حوصلہ ملتا ہے جن سے وہ مایوسیوں سے نکل آتا ہے انھی کے نام پر ایک دوسرے سے نفرت کرتا ہے، ایک دوسرے سے دشمنی کرتا ہے، ایک دوسرے کے گھروں کو جلاتا ہے، ایک دوسرے کی عبادت گاہوں کو آگ لگاتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کا نام لے کر اپنی مشکلات اپنی مایوسیوں، اپنی بے بسیوں سے نجات حاصل کرنے والا انسان مذہبی تفریق سے شیطان کیوں بن جاتا ہے؟ یہی وہ مسئلہ ہے یہی وہ تضاد ہے جس نے انسان کو شیطان بنا دیا ہے۔
ایسا ہرگز نہیں ہے کہ یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ یہ مسئلہ یہ تضاد حل ہو سکتا ہے انسانوں کے درمیان نفرت کی جگہ محبت لے سکتی ہے مذاہب کے حوالے سے ایک دوسرے سے دور رہنے والا انسان ایک دوسرے کے قریب آ سکتا ہے۔
ایسا اس لیے نہیں ہو سکا کہ وہ لوگ جو اس قسم کے مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ اس خطرناک مسئلے سے خوفزدہ رہتے ہیں ورنہ انسان ہونے کے ناتے کس کی یہ خواہش نہیں ہوسکتی کہ وہ ایک دوسرے سے دشمنی ایک دوسرے سے نفرت کے بجائے ایک دوسرے سے دوستی ایک دوسرے سے محبت کرے۔ اس حوالے سے اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو اس حوالے سے مثبت کردار ادا کرسکتے ہیں وہ بوجوہ یہ بڑا کام نہیں کرتے حالانکہ یہ لوگ ان خرابیوں اور ان بیگانگیوں کو اور ان کی وجوہات کو جانتے ہیں لیکن وہ ممکنہ وحشت ناک ردعمل کے خوف سے اس مسئلے کو حل کرنے کے بجائے اس سے اغماز برتتے ہیں کہ جان ہر بندہ بشر کو پیاری ہوتی ہے اور مذہب کے نام پر انسان شیطان بن جاتا ہے۔
سیمنٹ، ریتی، بجری سے سو سو منزلہ عمارتیں بنتی ہیں کوئی ان سے نفرت نہیں کرتا کوئی انھیں جلانے کی کوشش نہیں کرتا جب کہ یہ عمارتیں عام طور پر کاروباری ہوتی ہیں جن کا دین دھرم سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ اسی سیمنٹ، بجری اور لوہے سے سبھی مندر، گرجا سمیت ہر مذہب کے ماننے والے کی عبادت گاہ بنتی ہے لیکن یہ کیسا ظلم کیسا انیائے کیسی ذہنیت ہے کہ ہر انسان ان عبادت گاہوں سے نفرت کرتا ہے۔ انھیں نذر آتش کردیتا ہے۔ ایسا کیوں؟ اس حوالے سے سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ یہ کام وہ غریب لوگ انجام دیتے ہیں جنھیں سب سے زیادہ ضرورت ان عبادت گاہوں کی ہوتی ہے۔
بھولا بھالا ناسمجھ غریب ہی ان تخریبی کاموں میں حصہ لیتا ہے دولت مند خواہ اس کا کسی مذہب کسی فرقے سے تعلق ہو جہل اور تخریب کے ان کاموں میں حصہ نہیں لیتا اور اس وقت بھی غیر جانبدار رہتا ہے جب غریب لوگ مذہب کے نام پر ایک دوسرے کا گلا کاٹتے ہیں ایک دوسرے کے گھروں کو جلاتے ہیں۔ یہ بات انتہائی وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ جب بھی جہاں بھی فرقہ وارانہ فسادات ہوتے ہیں اس کا ایندھن بننے والے غریب طبقات ہی ہوتے ہیں امیر طبقات اس قسم کے جہل میں حصہ نہیں لیتے اس لیے وہ محفوظ رہتے ہیں۔
فرقہ وارانہ فسادات کا 1947 کا المیہ ہم نہیں بھولے۔ ان فسادات میں لاکھوں غریب قتل کردیے گئے، غریبوں کے بے شمار گھر جلا دیے گئے، ان کارناموں سے انسانیت کا سرنگوں ہو گیا، وحشت اور پاگل پن کا عالم یہ تھا کہ وحشی درندوں نے حاملہ عورتوں کے پیٹ چیر کر ماں کے پیٹوں سے نیم پختہ بچوں کو نکال کر اس انتہائی بے دردی سے قتل کردیا، وحشیوں کے مسلح گروہ ہتھیار نچاتے ہوئے آبادیوں میں دندناتے پھرتے تھے اور قتل و غارت کا بازار گرم کرتے تھے۔ علما اور پنڈتوں میں اچھے لوگ بھی ہیں جو مذہبی بھائی چارے کی تلقین کرتے ہیں اور برے لوگ بھی ہیں جو انسانوں کے درمیان مذاہب کے حوالے سے نفرتیں پھیلاتے ہیں۔
ماضی کے تلخ اور بدترین واقعات سے سبق حاصل کرتے ہوئے عوام کی ذمے داری ہے کہ وہ مذہبی انتہا پسندی سے دور رہیں اور مذہبی رواداری کی منظم تحریک چلائیں تاکہ فرقہ وارانہ فسادات میں غریب انسان جانی اور مالی نقصانات سے بچ سکیں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ضرورت اس لیے بھی پڑ رہی ہے کہ بھارت میں مذہبی جماعت جو برسر اقتدار بھی ہے نے ہندوتوا کے نام سے مذہبی شیطانیت کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے افسوس اس بات کا ہے کہ لبرل اور ترقی پسند ہندو آگے بڑھ کر ہندوتوا کو دنیا کے سامنے ایکسپوز کریں اور مذہبی رواداری کی حامی طاقتوں کی ہر حوالے سے حمایت کریں۔