جمہوریت کا راگ
چین کے صدر کا دورہ پاکستان جو انتہائی اہمیت کا حامل ہے اپوزیشن کی احتجاجی تحریک کی وجہ سے مزید ملتوی نہیں ہونا چاہیے
LONDON:
لفظ '' جمہوریت '' جس کا راگ ہمارے سیاستدان صبح سے شام تک الاپتے رہتے ہیں جس کا نام و نشان بھی خود ان کی اپنی سیاسی جماعتوں میں نظر نہیں آتا، انگریزی زبان کے لفظ ڈیموکریسی کا سلیس اردو ترجمہ ہے۔ انگریزی نے لفظ ڈیمو کریسی مشہور و معروف یونانی، فلسفی اور بابائے سیاست ارسطو کی ایجاد کردہ اصطلاح '' ڈیمو کریشیا'' Demokracia سے اخذ کیا ہے۔
ڈیموکریسی کے اجزائے ترکیبی میں شامل ہیں دیانتداری، میرٹ، قوم پرستی، جذبہ ایثار و قربانی کرپشن سے مبرا عوامی خدمات کی فراہمی کا صاف ستھرا نظام اور مفادِ عامہ۔ یہ تمام عناصر جمہوریت کے لیے لازم وملزوم قرار پائے ہیں۔ وطن عزیزمیں جس جمہوریت کے حُسن کے چرچے عام ہیں اگر اس کا دیانتداری سے تجزیہ کیا جائے تو وہ جمہوریت کے لبادے میں لپٹی ہوئی آمریت کے سوائے اور کچھ نہیں۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی حکومت جمہوریت کی کسوٹی پر پرکھنے کے بعد کھری ثابت نہیں ہوتی۔
جمہوریت کالیبل چسپاں کر کے جو جنس فروخت کی جاتی رہی ہے وہ درحقیقت شخصی آمریت ہے۔ بد قسمتی سے وطن عزیز میں یہ ناٹک وقفے وقفے سے دکھاکر عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش مدتِ دراز سے کی جا رہی ہے بھگت کبیر داس نے اس حوالے سے کیا خوب کہا ہے۔
بویا پیڑ ببول کا آم کہاں سے آئے
ہمارے اب تک کے حکمرانوں کا تعلق یا تو امراء کے طبقے سے رہا ہے یا طالع آزماؤں سے جن کے مزاج میں حکمرانی کا عنصر غالب ہے۔ ان کا خمیر حاکمیت کی سوچ سے اُٹھا ہے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ یہ دیگر تمام لوگوں سے برتر ہیں اور خدا تعالیٰ نے انھیں دوسروں پر حکمرانی کے لیے ہی پیدا کیا ہے۔
یہ انداز ِ فکران میں احساسِ برتری کو جنم دیتا ہے جو جمہوری طرز حکمرانی کے لیے زہر ِ قاتل سے بھی زیادہ مہلک اور خطرناک ہے۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ وطن عزیز میں جو سیاستدان جمہوریت کے چیمپئین اور دعویدار بن کر ابھرے اور برسرِ اقتدار آئے وہ غیر سول نرسری کے گملوں میں اُگے ہوئے شجر تھے لہٰذا ان سے جمہوری مزاج اور جمہوری نظام کے فروغ پانے کی توقع کرنا ہی غلط ہے۔کیا کسی سے گلہ کرے کوئی
جب توقع ہی اٹھ گئی غالب
کیا کسی سے گلہ کرے کوئی
بدقسمتی سے ہمارے وطن ِ عزیز میں ایک ایسا سیاسی کلچر فروغ پا گیا ہے جس میں ایک عام سڑک چھاپ شہری کے لیے مسند ِ اقتدار تو کجا کوچہ سیاست میں قدم رکھنا بھی محال ہے۔ ہمارے یہاں سیاست عوامی خدمت کا ذریعہ بننے کے بجائے ایک انتہائی منافع بخش کاروبار بن چکی ہے اور اس بہتی گنگا میں ہر کوئی ہاتھ دھو رہا ہے۔
اس کاروبار میں منافع کی شرح بھی سب سے زیادہ ہے اور جوکھم بھی کم سے کم ہے گویا کم خرچ بالانشیں۔ عزت و شہرت کا اضافی بونس شیئر اس کے علاوہ۔ بس پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں۔ ایک جھٹکے میں اتنی کمائی کہ سات پشتیں گھر بیٹھ کر مزے سے کھائیں۔ اسی لیے لیلیٰ سیاست کا ہر کوئی دیوانہ ہے۔ رہی بات بیچارے عوام کی تو وہ محض سیاست کی بھٹی میں استعمال ہونے والا ایندھن ہیں۔
ان کی حیثیت اس سیڑھی سے زیادہ نہیں جو مسندِ اقتدار تک رسائی حاصل کرنے کے لیے ناگزیر ہے۔ جس طرح صحافت کو عبادت کا درجہ دینے والے مولانا ظفر علی خان ؒ اور شورش کاشمیری ؒ جیسے نابغہ روز گار اس دنیائے سرائے فانی سے رفتہ رفتہ کوچ کر رہے ہیں اسی طرح سیاست کو عبادت کا درجہ دینے والے گنے چنے نواب زادہ نصراللہ خان اور میر حاصل بزنجو جیسے آبروئے سیاست بھی یکے بعد دیگر ِ یہ کہتے ہوئے اس دارِ فانی سے رخصت ہو رہے ہیں :
پاکستان کا میدان ِ سیاست آزمودہ کار، باکردار اور بے لوث وضع دار ، دیوقامت شہسواروں سے رفتہ رفتہ خالی ہو رہا ہے۔ نہ تجربہ کار بے کردار اور موقع شناس مفاد پرست پَستہ قد سیاسی برے ابوالہوس خلا ء کو پُرکر رہے ہیں۔ انجام اس کا ہم سب کے سامنے ہے اور پوری قوم فکر مند ہے کہ۔
ہر شاخ پہ اُلّو بیٹھا ہے انجام ِ گلستاں کیا ہوگا
مساوات جو جمہوریت کا اولین لازمی جزو ہے ہماری سیاسی روایت میں شروع سے ہی مفقود ہے۔ مساوات کا ذکر محض تکلف کے طور پر صرف اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ حصول اقتدار کے لیے عام انتخابات کے موقع پر عوام کی حمایت حاصل کی جاسکے۔ اس کی حیثیت روٹی ،کپڑا اورمکان کے پُرفریب نعرے سے زیادہ کچھ نہیں جس کا اصل اور واحد مقصد عوام کی زیادہ سے زیادہ حمایت حاصل کر کے راج سنگھاسن پر قبضہ حاصل کرنا ہے۔
وطن ِ عزیز کی ایک بڑی جماعت نے اس نعرے سے بھر پور فائدہ اُٹھایا ہے اور آیندہ بھی فائدہ اُٹھانے کا ارادہ رکھتی ہے۔افسوس کہ ہمارے بیشتر سیاستدان صرف اپنی بندوق چلانے کے لیے عوام کے کندھے استعمال کرتے ہیں۔ وطن عزیز میں جمہوریت کا تماشہ ملاحظہ فرمائیں کہ چند اہل ثروت عوام کے ووٹوں کے بل پر قومی اسمبلی اور سینیٹ کے لیے منتخب ہونے کے بعد عوام کو یکسر فرا موش کر دیتے ہیں اور عوام سے کیے گئے اپنے وعدے بھول جاتے ہیں۔ بقول قتیلؔ شفائی
لوگ اقرار وفاکرکے بھلا دیتے ہیں
یہ نہیں کوئی نئی بات چلو سوجائیں
ایک طرف ہمارے عوام کی غالب اکثریت خطِ افلاس سے بھی نیچے رہتے ہوئے زندگی کی سزا کاٹ رہی ہے اور دوسری جانب ہمارے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ممبران کے ٹھاٹ بھاٹ کا عالم یہ ہے کہ ایک صاحب کی کلائی پر 460 ملین روپے مالیت کی گھڑی سجی ہوئی ہے جب کہ دوسرے صاحب300کنال کی وسیع رہائش گاہ میں قیام پذیر ہیں۔ یہ ہے ہمارے ملک میں رائج جمہوری نظام کا حال۔ جب تک یہ نظام تبدیل نہیں ہوگا اس وقت تک یہاں ترقی اور خوشحالی نہیں آئیگی صرف چیزوںکی تبدیلی کا نام ''تبدیلی '' نہیں ہے۔
اب پرانے شکاری تبدیلی کے بہانے جنتِ گُم گشتہ کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے نئے جال لے کر آئے ہیں۔ وطن ِ عزیز کو سنگا پور کے لی کوان یو، ملائیشیا کے مہاتیر محمد اور چین کے دنگ شاؤ پنگ اور شی جن پنگ جیسے اہل، زیرک، بے لوث اور جراٗ ت مند قائد کی ضرورت ہے جو اس کی کایا پلٹ سکے۔
قوم کو عمران خان سے بڑی توقعات تھیں جو ابھی تک پوری نہیں ہوسکیں۔ اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ اول یہ کہ انھیں اچھی ٹیم میسر نہیں آسکی اور دوئم یہ کہ ان کی حکومت کو بیساکھیوں کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔ ملکی مفاد اور اسپورٹس مین اسپرٹ کا تقاضا یہ ہے کہ سابقہ حکومتوں کی طرح پاکستان تحریک انصاف کو اس کی مدتِ اقتدار پوری کرنے کا موقع فراہم کیا جائے اور جمہوریت کی گاڑی کو پٹڑی سے اتارنے کی کسی بھی کوشش کی حمایت کرنے سے گریز کیا جائے کیونکہ معروضی حالات اور وقت کا تقاضا بھی یہی ہے۔
چین کے صدر کا دورہ پاکستان جو انتہائی اہمیت کا حامل ہے اپوزیشن کی احتجاجی تحریک کی وجہ سے مزید ملتوی نہیں ہونا چاہیے جیسا کہ ماضی میں پی ٹی آئی کے دھرنے کی وجہ سے ممکن نہیں ہوسکا تھا۔
لفظ '' جمہوریت '' جس کا راگ ہمارے سیاستدان صبح سے شام تک الاپتے رہتے ہیں جس کا نام و نشان بھی خود ان کی اپنی سیاسی جماعتوں میں نظر نہیں آتا، انگریزی زبان کے لفظ ڈیموکریسی کا سلیس اردو ترجمہ ہے۔ انگریزی نے لفظ ڈیمو کریسی مشہور و معروف یونانی، فلسفی اور بابائے سیاست ارسطو کی ایجاد کردہ اصطلاح '' ڈیمو کریشیا'' Demokracia سے اخذ کیا ہے۔
ڈیموکریسی کے اجزائے ترکیبی میں شامل ہیں دیانتداری، میرٹ، قوم پرستی، جذبہ ایثار و قربانی کرپشن سے مبرا عوامی خدمات کی فراہمی کا صاف ستھرا نظام اور مفادِ عامہ۔ یہ تمام عناصر جمہوریت کے لیے لازم وملزوم قرار پائے ہیں۔ وطن عزیزمیں جس جمہوریت کے حُسن کے چرچے عام ہیں اگر اس کا دیانتداری سے تجزیہ کیا جائے تو وہ جمہوریت کے لبادے میں لپٹی ہوئی آمریت کے سوائے اور کچھ نہیں۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی حکومت جمہوریت کی کسوٹی پر پرکھنے کے بعد کھری ثابت نہیں ہوتی۔
جمہوریت کالیبل چسپاں کر کے جو جنس فروخت کی جاتی رہی ہے وہ درحقیقت شخصی آمریت ہے۔ بد قسمتی سے وطن عزیز میں یہ ناٹک وقفے وقفے سے دکھاکر عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش مدتِ دراز سے کی جا رہی ہے بھگت کبیر داس نے اس حوالے سے کیا خوب کہا ہے۔
بویا پیڑ ببول کا آم کہاں سے آئے
ہمارے اب تک کے حکمرانوں کا تعلق یا تو امراء کے طبقے سے رہا ہے یا طالع آزماؤں سے جن کے مزاج میں حکمرانی کا عنصر غالب ہے۔ ان کا خمیر حاکمیت کی سوچ سے اُٹھا ہے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ یہ دیگر تمام لوگوں سے برتر ہیں اور خدا تعالیٰ نے انھیں دوسروں پر حکمرانی کے لیے ہی پیدا کیا ہے۔
یہ انداز ِ فکران میں احساسِ برتری کو جنم دیتا ہے جو جمہوری طرز حکمرانی کے لیے زہر ِ قاتل سے بھی زیادہ مہلک اور خطرناک ہے۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ وطن عزیز میں جو سیاستدان جمہوریت کے چیمپئین اور دعویدار بن کر ابھرے اور برسرِ اقتدار آئے وہ غیر سول نرسری کے گملوں میں اُگے ہوئے شجر تھے لہٰذا ان سے جمہوری مزاج اور جمہوری نظام کے فروغ پانے کی توقع کرنا ہی غلط ہے۔کیا کسی سے گلہ کرے کوئی
جب توقع ہی اٹھ گئی غالب
کیا کسی سے گلہ کرے کوئی
بدقسمتی سے ہمارے وطن ِ عزیز میں ایک ایسا سیاسی کلچر فروغ پا گیا ہے جس میں ایک عام سڑک چھاپ شہری کے لیے مسند ِ اقتدار تو کجا کوچہ سیاست میں قدم رکھنا بھی محال ہے۔ ہمارے یہاں سیاست عوامی خدمت کا ذریعہ بننے کے بجائے ایک انتہائی منافع بخش کاروبار بن چکی ہے اور اس بہتی گنگا میں ہر کوئی ہاتھ دھو رہا ہے۔
اس کاروبار میں منافع کی شرح بھی سب سے زیادہ ہے اور جوکھم بھی کم سے کم ہے گویا کم خرچ بالانشیں۔ عزت و شہرت کا اضافی بونس شیئر اس کے علاوہ۔ بس پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں۔ ایک جھٹکے میں اتنی کمائی کہ سات پشتیں گھر بیٹھ کر مزے سے کھائیں۔ اسی لیے لیلیٰ سیاست کا ہر کوئی دیوانہ ہے۔ رہی بات بیچارے عوام کی تو وہ محض سیاست کی بھٹی میں استعمال ہونے والا ایندھن ہیں۔
ان کی حیثیت اس سیڑھی سے زیادہ نہیں جو مسندِ اقتدار تک رسائی حاصل کرنے کے لیے ناگزیر ہے۔ جس طرح صحافت کو عبادت کا درجہ دینے والے مولانا ظفر علی خان ؒ اور شورش کاشمیری ؒ جیسے نابغہ روز گار اس دنیائے سرائے فانی سے رفتہ رفتہ کوچ کر رہے ہیں اسی طرح سیاست کو عبادت کا درجہ دینے والے گنے چنے نواب زادہ نصراللہ خان اور میر حاصل بزنجو جیسے آبروئے سیاست بھی یکے بعد دیگر ِ یہ کہتے ہوئے اس دارِ فانی سے رخصت ہو رہے ہیں :
پاکستان کا میدان ِ سیاست آزمودہ کار، باکردار اور بے لوث وضع دار ، دیوقامت شہسواروں سے رفتہ رفتہ خالی ہو رہا ہے۔ نہ تجربہ کار بے کردار اور موقع شناس مفاد پرست پَستہ قد سیاسی برے ابوالہوس خلا ء کو پُرکر رہے ہیں۔ انجام اس کا ہم سب کے سامنے ہے اور پوری قوم فکر مند ہے کہ۔
ہر شاخ پہ اُلّو بیٹھا ہے انجام ِ گلستاں کیا ہوگا
مساوات جو جمہوریت کا اولین لازمی جزو ہے ہماری سیاسی روایت میں شروع سے ہی مفقود ہے۔ مساوات کا ذکر محض تکلف کے طور پر صرف اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ حصول اقتدار کے لیے عام انتخابات کے موقع پر عوام کی حمایت حاصل کی جاسکے۔ اس کی حیثیت روٹی ،کپڑا اورمکان کے پُرفریب نعرے سے زیادہ کچھ نہیں جس کا اصل اور واحد مقصد عوام کی زیادہ سے زیادہ حمایت حاصل کر کے راج سنگھاسن پر قبضہ حاصل کرنا ہے۔
وطن ِ عزیز کی ایک بڑی جماعت نے اس نعرے سے بھر پور فائدہ اُٹھایا ہے اور آیندہ بھی فائدہ اُٹھانے کا ارادہ رکھتی ہے۔افسوس کہ ہمارے بیشتر سیاستدان صرف اپنی بندوق چلانے کے لیے عوام کے کندھے استعمال کرتے ہیں۔ وطن عزیز میں جمہوریت کا تماشہ ملاحظہ فرمائیں کہ چند اہل ثروت عوام کے ووٹوں کے بل پر قومی اسمبلی اور سینیٹ کے لیے منتخب ہونے کے بعد عوام کو یکسر فرا موش کر دیتے ہیں اور عوام سے کیے گئے اپنے وعدے بھول جاتے ہیں۔ بقول قتیلؔ شفائی
لوگ اقرار وفاکرکے بھلا دیتے ہیں
یہ نہیں کوئی نئی بات چلو سوجائیں
ایک طرف ہمارے عوام کی غالب اکثریت خطِ افلاس سے بھی نیچے رہتے ہوئے زندگی کی سزا کاٹ رہی ہے اور دوسری جانب ہمارے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ممبران کے ٹھاٹ بھاٹ کا عالم یہ ہے کہ ایک صاحب کی کلائی پر 460 ملین روپے مالیت کی گھڑی سجی ہوئی ہے جب کہ دوسرے صاحب300کنال کی وسیع رہائش گاہ میں قیام پذیر ہیں۔ یہ ہے ہمارے ملک میں رائج جمہوری نظام کا حال۔ جب تک یہ نظام تبدیل نہیں ہوگا اس وقت تک یہاں ترقی اور خوشحالی نہیں آئیگی صرف چیزوںکی تبدیلی کا نام ''تبدیلی '' نہیں ہے۔
اب پرانے شکاری تبدیلی کے بہانے جنتِ گُم گشتہ کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے نئے جال لے کر آئے ہیں۔ وطن ِ عزیز کو سنگا پور کے لی کوان یو، ملائیشیا کے مہاتیر محمد اور چین کے دنگ شاؤ پنگ اور شی جن پنگ جیسے اہل، زیرک، بے لوث اور جراٗ ت مند قائد کی ضرورت ہے جو اس کی کایا پلٹ سکے۔
قوم کو عمران خان سے بڑی توقعات تھیں جو ابھی تک پوری نہیں ہوسکیں۔ اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ اول یہ کہ انھیں اچھی ٹیم میسر نہیں آسکی اور دوئم یہ کہ ان کی حکومت کو بیساکھیوں کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔ ملکی مفاد اور اسپورٹس مین اسپرٹ کا تقاضا یہ ہے کہ سابقہ حکومتوں کی طرح پاکستان تحریک انصاف کو اس کی مدتِ اقتدار پوری کرنے کا موقع فراہم کیا جائے اور جمہوریت کی گاڑی کو پٹڑی سے اتارنے کی کسی بھی کوشش کی حمایت کرنے سے گریز کیا جائے کیونکہ معروضی حالات اور وقت کا تقاضا بھی یہی ہے۔
چین کے صدر کا دورہ پاکستان جو انتہائی اہمیت کا حامل ہے اپوزیشن کی احتجاجی تحریک کی وجہ سے مزید ملتوی نہیں ہونا چاہیے جیسا کہ ماضی میں پی ٹی آئی کے دھرنے کی وجہ سے ممکن نہیں ہوسکا تھا۔