محبت میں اندھے نے اپنے جڑواں بھائی کو ہی قتل کر ڈالا
ایک ہی محبوبہ کے باعث قتل ہوا، متضاد بیانات پر ملزم دھرا گیا
ہمارے ہاں ایک عمومی محاورہ ہے کہ ''محبت اور جنگ میں سب جائز ہے'' اور کچھ بے وقوف اسی محاورے کو بنیاد پر ایسا گھناؤنا فعل کر جاتے ہیں جو نہ صرف ان کے لئے بلکہ ان کے خاندان کے لئے بھی ساری عمر کا روگ بن جاتا ہے۔
محبت میں اندھے افراد نے ماضی میں بھی رشتوں کو روندا اور اپنی خواہشات کی تسکین کے لئے اپنے پیاروں تک کو قربانی کا بکرا بنا دیا اور آج بھی یہی سلسلہ چل رہا ہے۔ سرگودہا میں کچھ ایسا ہی واقعہ پیش آیا، جہاں دو جڑواں بھائیوں کو ایک ہی لڑکی سے پیار ہوا اور محبت میں اندھے ایک بھائی نے اپنے ہی حقیقی جڑواں بھائی کی جان لے لی۔
اس واقعہ کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ موضع یارے والا کا رہائشی عبدالرحمن اور محمد رمضان دو جڑواں بھائی تھے۔ دونوں کا بچپن لڑکپن اکٹھے گزرا اور زندگی کی کئی بہاریں دیکھتے دیکھتے دونوں بھائیوں نے جوانی میں قدم رکھ لیا۔ زندگی بڑی ہنسی خوشی گزر رہی تھی کہ اسی دوران ایک بھائی کو علاقہ کی ایک لڑکی سے پیا ر ہو گیا۔
اس نے اپنی محبت کو خفیہ رکھا اور اپنے محبوب سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ دونوں بھائی جڑوان تھے اور چہرے کی مماثلت کے باعث دونوں کو پہچاننا بھی مشکل تھا۔ بدقسمتی سے دوسرے جڑواں بھائی کو بھی اسی لڑکی سے پیار ہو گیا، جسے اس کا بھائی کرتا تھا۔ دوسری طرف دونوں بھائیوں کی شکل ایک جیسی ہونے کے باعث محبوبہ دونوں کی اصلیت سے بے خبر رہی اور دونوں بھائیوں نے بھی اپنی محبت کا اظہار کسی سے نہیں کیا۔
بدقسمتی سے ایک روز ایک بھائی اپنی محبوبہ کو ملنے گیا تو دوسرے کو وہاں سے آتا دیکھا۔ راز فاش ہونے پر سینے میں محبت کی آگ کو پالنے والا دل ہی دل میں منصوبے تیار کرنے لگا جبکہ دوسرا بھائی اس ساری صورت حال سے بے خبر اپنی زندگی میں مصروف رہا۔ ایک روز عبدالرحمن اپنے مویشیوں والی حویلی میں سویا ہوا تھا کہ نا معلوم افراد نے اسے فائرنگ کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ قتل کی اطلاع سن کر تھانہ جھال چکیاں پولیس موقع پر پہنچ گئی اور مقتول کے بڑے بھائی کی مدعیت میں مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی۔
مذکورہ خاندان کی کسی سے دشمنی تھی نہ ہی کوئی خاندانی جھگڑا تھا۔ یوں یہ قتل پولیس کے لئے ایک بڑا چیلنج بنا ہوا تھا۔ پولیس کی طرف سے تمام جدید طریقہ بھی اختیار کئے گئے تاہم کوئی سراغ نہ ملا۔ پھر مقدمہ کے تفتیشی ظہیر احمد نے غیر روایتی طریقہ تفتیش کو اپناتے ہوئے ارد گرد سے شواہد اکھٹے کئے تو ساری کڑیاں مقتول کے جڑواں بھائی رمضان کی طرف اشارہ کرنے لگیں۔ بھائی کے قتل کے بعد اس کے جڑوان بھائی رمضان نے اپنا حلیہ تبدیل کر لیا، اس کے علاوہ بھی مختلف سرگرمیوں اور متضاد بیانات کی وجہ سے وہ مشکوک ہوتا گیا۔
کوئی ثبوت نہ ہونے کے باعث پولیس کی طرف سے تفتیش کا دائرہ مزید وسیع کر دیا گیا۔ شبہ پر پولیس نے جب مقتول کے جڑواں بھائی رمضان کو ہراست میں لیا تو پہلے تو اس نے واردات سے انکار کر دیا تاہم جب پولیس کی طرف سے روایتی طریقہ تفتیش اپنایا گیا تو ملزم نے اپنے جڑواں بھائی کے قتل کا اقرار کر لیا۔ مقدمہ کے تفتیشی آفیسر ظہیر احمد نے اس سلسلہ میں بتایا کہ ملزم نے بڑی چالاکی سے قتل کرنے کے بعد خود ہی مقدمہ کی پیروی بھی کی۔ اس دوران اسے جب دائرہ تفتیش میں لیا گیا تو اس نے اپنے متعدد بیان بدلے اور اس کے ساتھ ساتھ مختلف ہرکات و سکنات کی وجہ سے مشکوک پایا گیا۔ یوں جب ملزم کو تفتیش کے لئے حراست میں لیا گیا تو تھوڑی مزاحمت کے بعد ہی اس نے اپنا جرم قبول کرکے حقائق سے پردہ اٹھا دیا۔
محبت کی آگ میں جلنے والے بھائی نے اپنے جڑوان بھائی کو قتل تو کر دیا لیکن اسے مارنے سے پہلے اس کا جرم تک نہیں بتایا۔ دوسری طرف وہ خود بھی سکھی نہیں رہے گا، وہ اب ساری زندگی نہ صرف اپنے ضمیر کی سزا بھگتے گا بلکہ جیل کی سلاخیں بھی اس کا مقدر بنیں گی جبکہ اصلیت سامنے آنے پر اس کی محبوبہ تو پہلے ہی اس سے کوسوں دور جا چکی ہو گی۔
محبت میں اندھے افراد نے ماضی میں بھی رشتوں کو روندا اور اپنی خواہشات کی تسکین کے لئے اپنے پیاروں تک کو قربانی کا بکرا بنا دیا اور آج بھی یہی سلسلہ چل رہا ہے۔ سرگودہا میں کچھ ایسا ہی واقعہ پیش آیا، جہاں دو جڑواں بھائیوں کو ایک ہی لڑکی سے پیار ہوا اور محبت میں اندھے ایک بھائی نے اپنے ہی حقیقی جڑواں بھائی کی جان لے لی۔
اس واقعہ کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ موضع یارے والا کا رہائشی عبدالرحمن اور محمد رمضان دو جڑواں بھائی تھے۔ دونوں کا بچپن لڑکپن اکٹھے گزرا اور زندگی کی کئی بہاریں دیکھتے دیکھتے دونوں بھائیوں نے جوانی میں قدم رکھ لیا۔ زندگی بڑی ہنسی خوشی گزر رہی تھی کہ اسی دوران ایک بھائی کو علاقہ کی ایک لڑکی سے پیا ر ہو گیا۔
اس نے اپنی محبت کو خفیہ رکھا اور اپنے محبوب سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ دونوں بھائی جڑوان تھے اور چہرے کی مماثلت کے باعث دونوں کو پہچاننا بھی مشکل تھا۔ بدقسمتی سے دوسرے جڑواں بھائی کو بھی اسی لڑکی سے پیار ہو گیا، جسے اس کا بھائی کرتا تھا۔ دوسری طرف دونوں بھائیوں کی شکل ایک جیسی ہونے کے باعث محبوبہ دونوں کی اصلیت سے بے خبر رہی اور دونوں بھائیوں نے بھی اپنی محبت کا اظہار کسی سے نہیں کیا۔
بدقسمتی سے ایک روز ایک بھائی اپنی محبوبہ کو ملنے گیا تو دوسرے کو وہاں سے آتا دیکھا۔ راز فاش ہونے پر سینے میں محبت کی آگ کو پالنے والا دل ہی دل میں منصوبے تیار کرنے لگا جبکہ دوسرا بھائی اس ساری صورت حال سے بے خبر اپنی زندگی میں مصروف رہا۔ ایک روز عبدالرحمن اپنے مویشیوں والی حویلی میں سویا ہوا تھا کہ نا معلوم افراد نے اسے فائرنگ کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ قتل کی اطلاع سن کر تھانہ جھال چکیاں پولیس موقع پر پہنچ گئی اور مقتول کے بڑے بھائی کی مدعیت میں مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی۔
مذکورہ خاندان کی کسی سے دشمنی تھی نہ ہی کوئی خاندانی جھگڑا تھا۔ یوں یہ قتل پولیس کے لئے ایک بڑا چیلنج بنا ہوا تھا۔ پولیس کی طرف سے تمام جدید طریقہ بھی اختیار کئے گئے تاہم کوئی سراغ نہ ملا۔ پھر مقدمہ کے تفتیشی ظہیر احمد نے غیر روایتی طریقہ تفتیش کو اپناتے ہوئے ارد گرد سے شواہد اکھٹے کئے تو ساری کڑیاں مقتول کے جڑواں بھائی رمضان کی طرف اشارہ کرنے لگیں۔ بھائی کے قتل کے بعد اس کے جڑوان بھائی رمضان نے اپنا حلیہ تبدیل کر لیا، اس کے علاوہ بھی مختلف سرگرمیوں اور متضاد بیانات کی وجہ سے وہ مشکوک ہوتا گیا۔
کوئی ثبوت نہ ہونے کے باعث پولیس کی طرف سے تفتیش کا دائرہ مزید وسیع کر دیا گیا۔ شبہ پر پولیس نے جب مقتول کے جڑواں بھائی رمضان کو ہراست میں لیا تو پہلے تو اس نے واردات سے انکار کر دیا تاہم جب پولیس کی طرف سے روایتی طریقہ تفتیش اپنایا گیا تو ملزم نے اپنے جڑواں بھائی کے قتل کا اقرار کر لیا۔ مقدمہ کے تفتیشی آفیسر ظہیر احمد نے اس سلسلہ میں بتایا کہ ملزم نے بڑی چالاکی سے قتل کرنے کے بعد خود ہی مقدمہ کی پیروی بھی کی۔ اس دوران اسے جب دائرہ تفتیش میں لیا گیا تو اس نے اپنے متعدد بیان بدلے اور اس کے ساتھ ساتھ مختلف ہرکات و سکنات کی وجہ سے مشکوک پایا گیا۔ یوں جب ملزم کو تفتیش کے لئے حراست میں لیا گیا تو تھوڑی مزاحمت کے بعد ہی اس نے اپنا جرم قبول کرکے حقائق سے پردہ اٹھا دیا۔
محبت کی آگ میں جلنے والے بھائی نے اپنے جڑوان بھائی کو قتل تو کر دیا لیکن اسے مارنے سے پہلے اس کا جرم تک نہیں بتایا۔ دوسری طرف وہ خود بھی سکھی نہیں رہے گا، وہ اب ساری زندگی نہ صرف اپنے ضمیر کی سزا بھگتے گا بلکہ جیل کی سلاخیں بھی اس کا مقدر بنیں گی جبکہ اصلیت سامنے آنے پر اس کی محبوبہ تو پہلے ہی اس سے کوسوں دور جا چکی ہو گی۔