ترکی میں پولیس کے اعلیٰ افسران کو وزرا کے بیٹوں کے خلاف کارروائی پر نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑا

عدلیہ کے ہر فیصلے کو قبول کیا جائے گا تاہم ملک میں سیاسی سازش کی اجازت نہیں دی جائے گی، ترک نائب وزیر اعظم


ویب ڈیسک December 19, 2013
استنبول اور انقرہ پولیس، اسمگلنگ یونٹ، انسداد دہشت گردی یونٹ اور پبلک سیفٹی برانچ کے سربراہوں کو برطرف کیا گیا، فوٹو: رائٹرز

کہیں زیادہ کہیں کم، دنیا کا کوئی ایسا ملک نہیں جہاں رشوت ستانی نہ ہو، کئی ملکوں میں اس کے خلاف کارروائی ہوتی ہے لیکن پاکستان جیسے کئی ملکوں میں رشوت لینے والوں کے خلاف اقدمات کی سزا الٹا ان ہی افسران کو بھگتنا پڑتی ہے جو اس ناسور کے خلاف جہاد کرتے ہیں، ترکی بھی ایسے ہی ممالک میں شامل ہے جہاں وزیروں کے بیٹوں پر ہاتھ ڈالنے کا خمیازہ پولیس کے سربراہوں اور دیگر حکام کو برطرفی کی صورت میں ادا کرنا پڑا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ترکی کی پولیس نے دو روز قبل ایک سرکاری ٹھیکے کے اجرا کے لئے رشوت لینے پر 52 اعلیٰ سرکاری اہلکاروں کو حراست میں لیا تھا جن میں 3 وزرا کے بیٹے بھی شامل تھے، واقعے کے بعد حکومت نے استنبول اور انقرہ پولیس، اسمگلنگ یونٹ، انسدادِ دہشت گردی یونٹ اور پبلک سیفٹی برانچ کے سربراہوں کو برطرف کرکے ان کی جگہ نئے افراد کو مقرر کردیا گیا ہے۔

ترک وزیراعظم رجب طیب اردگان نے اس کارروائی کو''غلیظ'' قرار دیتے ہوئے اسے حکومت کے خلاف سازش قرار دیا جب کہ نائب وزیر اعوظم بلند ارنج نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ان کی حکومت وزرا کے بیٹوں اور دیگر سرکاری حکام کے خلاف رشوت ستانی کی کسی کارروائی میں رکاوٹ نہیں بنے گی اور عدلیہ کے ہر فیصلے کو قبول کیا جائے گا تاہم ملک میں سیاسی سازش کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

دوسری جانب رشوت ستانی کے الزامات پر 4 وزرا مستعفی ہوگئے ہیں جبکہ مختلف شہروں میں حکومت کے خلاف مطاہرے شروع ہوگئے ہیں جن میں شرکا کا مطالبہ ہے کہ وزرا کی کرپشن کے انکشاف کے بعد رجب طیب اردگان فوری طور پر وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہوجائیں۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔