بلٹ پروف گاڑی کا مطالبہ۔۔۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بھی بالآخر ریٹائر ہو ہی گئے۔ اب ان کے نام کے ساتھ ’’سابق‘‘ کا لاحقہ استعمال کیا جائے گا۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بھی بالآخر ریٹائر ہو ہی گئے۔ اب ان کے نام کے ساتھ ''سابق'' کا لاحقہ استعمال کیا جائے گا۔ایک سابق جرنیل اور صدر پاکستان کے سامنے ''ناں'' کر کے پلک جھپکتے میں ''ہیرو'' بھی بن گئے۔ اور مقبولیت کا تاج یوں پہنا کہ چوہدری اعتزاز احسن جیسی باوقار سنجیدہ اور ذمے دار شخصیت کو ان کا ڈرائیور بننا باعث افتخار و اعزاز لگا۔۔۔۔ لیکن اس تاریخی ''ناں۔۔۔'' کے پاس پتھر کے ساتھ ساتھ ان کے صاحبزادے کی ذات، مصروفیات، اخراجات، سیاحت اور مہنگی ترین شاپنگ کے بڑے بڑے پتھر بھی سنجیدہ حلقوں کی طرف سے لڑھکائے گئے۔۔۔۔ لیکن افسوس کہ مقبولیت، عزت، شہرت اور اختیار کی سب سے اونچی اور بلند سیڑھی پہ کھڑے ہونے والے چیف جسٹس کو اس حوالے سے جو دھچکا ان کی ذات کو پہنچا وہ ہمیشہ ایک الزام کی صورت میں ان کی ذات سے جڑا رہے گا۔
کسی عالم نے کہا ہے کہ ۔۔۔۔ ''جس طرح ماں باپ کے گناہوں کی سزا اولاد کو بھگتنی پڑتی ہے۔ اسی طرح اولاد کی غلط کاریوں کا خمیازہ والدین کو بھگتنا پڑتا ہے''۔۔۔۔۔ سابق چیف جسٹس کی لوگ اب بھی دل سے عزت کرتے ہیں۔ کیونکہ انھوں نے کھوئے ہوئے لوگوں کی جستجو کی۔ ایفی ڈرین اور حج کرپشن اسکینڈل کا نوٹس لیا۔۔۔۔ اور کسی حد تک مہنگائی کا بھی نوٹس لیا۔ ان کے کارنامے اظہر من الشمس ہیں۔ انھیں دہرانا نہیں چاہتی کیونکہ میں خود ان کا بے حد احترام کرتی ہوں۔ لیکن ان کی شخصیت کا جو بت میں نے تراش رکھا تھا وہ ایک خبر پڑھ کر لمحہ بھر میں پاش پاش ہو گیا۔ خبر یہ تھی کہ ریٹائرمنٹ کے بعد انھوں نے سیکیورٹی خدشات پر بلٹ پروف گاڑی مانگ لی ہے۔ ذرایع کے مطابق اسلام آباد پولیس کے سیکیورٹی ڈویژن کی جانب سے پہلے سے فراہم کردہ سیکیورٹی میں مزید 2 اسکواڈ شامل کر دیے گئے ہیں۔۔۔۔ لیکن افتخار چوہدری کا کہنا ہے کہ انھیں نامعلوم لوگوں کی طرف سے دھمکی آمیز فون کالز موصول ہو رہی ہیں۔
اس لیے انھیں حکومت کی طرف سے بلٹ پروف گاڑی دی جائے۔۔۔۔!!۔۔۔۔ بس اسی خبر نے میرا دل مسوس کے رکھ دیا۔۔۔۔۔ کاش! وہ یہ مطالبہ نہ کرتے۔۔۔۔!!۔۔۔۔ کیا چوہدری صاحب وہ وقت بھول گئے جب ہر جگہ ان پر پھولوں کی بارش ہوتی تھی۔ جس دن وہ کراچی آئے تھے۔ اگر ایک طرف ان کے تمام رکاوٹیں لگا کر دروازے بند کر دیے تھے تو دوسری طرف اہل کراچی ان کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کیے کھڑے تھے۔ وہ گمنام اور بے نام وکلا بھی انھیں یاد نہ آئے جن کی شرکت کے بغیر ان کا اپنے عہدے پہ بحال ہونا ناممکن نہ تھا۔۔۔۔!!۔۔۔۔ اس بلٹ پروف گاڑی کا مطالبہ کرتے ہوئے انھیں اس بدنصیب ملک کے وہ ہزاروں لوگ یاد نہ آئے جنھیں ہر روز بھتے کی پرچیاں اور دھمکیاں ملتی ہیں۔ نہ وہ لوگ یاد آئے جو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن رہے ہیں۔ عوام کی محبتوں سے بحال ہونے والے چیف جسٹس کو آخر کن لوگوں سے خطرہ ہے۔۔۔۔۔ یہ تو آپ نے بالکل سیاست دانوں والا رویہ اپنا لیا۔۔۔۔۔ جو سیکیورٹی کی شعبدہ بازیوں کی بدولت اپنی جھوٹی انا کے غباروں میں سائرن بجاتی گاڑیوں سے ہوا بھرتے ہیں۔ آپ کو ان جھوٹے سہاروں کی ضرورت نہیں تھی۔ آپ کے دوست اور عقیدت مندوں کو اس مطالبے سے بہت دکھ پہنچا ہے۔
افتخار چوہدری صاحب کے قریب ترین اور مخلص ساتھی ایک چینل پہ بڑے دل گرفتہ لہجے میں انٹرویو دے رہے تھے۔ میزبان نے جب ان سے پوچھا کہ انھوں نے چیف جسٹس کو پہلے ہی ان کے صاحبزادے کی سرگرمیوں سے کیوں نہ آگاہ کیا۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔ تب اعتزاز احسن نے تھکے ہوئے لہجے میں بتایا کہ چیف جسٹس کے بحال ہو جانے کے بعد انھوں نے خود جا کر تمام حالات اور نازک معاملات سے آگاہ کیا۔۔۔۔۔ لیکن اس کے بعد اعتزاز احسن افتخار چوہدری سے دور ہو گئے۔۔۔۔۔ لوگوں نے اعتزاز احسن سے کہا۔۔۔۔۔ یہ آپ نے کیا کیا۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔ اعتزاز احسن نے تو ایک مخلص دوست کی حیثیت سے انھیں آنے والے خطرات سے آگاہ کیا تھا۔۔۔۔۔ لیکن وہ یہ بھول گئے تھے کہ معاملہ ارسلان افتخار کا ہے۔۔۔۔۔ اپنی اولاد کے بارے میں افتخار چوہدری بھی یقینا خوش گمانیوں میں مبتلا تھے۔۔۔۔ ویسے بھی اولاد بگڑتی ہی اس لیے ہے کہ والدین ان کی غلطیوں کی نشان دہی کرنے والے مخلص لوگوں کو اپنا دشمن اور مخالف سمجھ لیتے ہیں۔
کچھ لوگوں کا یہ کہنا کہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے بعد ایک گروہ تیر و تفنگ لے کر میدان میں اترا ہوا ہے۔ یہ بالکل غلط ہے بلکہ سراسر الزام ہے۔ ہمارا قومی مزاج کچھ ایسا ہے کہ ذاتی تعلقات اور مفادات کے تحفظ کے لیے قصیدہ خوانی کرنا ایک عام بات ہے۔ افتخار چوہدری بھی انسان ہیں۔ فرشتہ نہیں جس میں غلطیاں کرنے کا خمیر ہی نہیں۔ اس لیے ان سے سوال پوچھنے کا حق سب کو ہے۔ کیونکہ وہ ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ کے سربراہ رہے ہیں۔۔۔۔۔ لیکن صرف بلٹ پروف گاڑی کے مطالبے کے حوالے سے مجھے اور بھی کچھ یاد آیا۔۔۔۔۔ کہ انھوں نے صدر اور وزیر اعظم کے ساتھ غیر ملکی سربراہان مملکت کا پروٹوکول حاصل کیا۔ ان کے پاس BMW کے علاوہ ایک مرسڈیز بھی تھی۔ ان کی حفاظت کے لیے رینجرز کا پورا دستہ بھی تھا اور پولیس اہل کار بھی۔ حتیٰ یہ کہ کمانڈوز بھی ان کی حفاظت کرتے تھے۔
ان کے لیے ٹریفک روک دیا جاتا تھا۔ ان کا خصوصی روٹ مقرر کیا جاتا تھا جہاں سے کوئی بھی عام آدمی گزر نہیں سکتا تھا۔ ان کی سواری پوری شاہانہ شان و شوکت کے ساتھ گزرا کرتی تھی۔ ان کا خاندان بزنس کلاس میں سفر کرتا تھا لیکن ہوائی ٹکٹ اکانومی کلاس کا لیتا تھا۔ وہ مغلیہ بادشاہوں کے کروفر کے ساتھ ہوائی جہاز میں سفر کیا کرتے تھے۔۔۔۔ اور بھی بہت کچھ ہے جو سب جانتے ہیں۔۔۔۔ لیکن صرف اتنا کہنا چاہیں گے کہ دودھ میں مکھی گر جائے تو سارا دودھ ضایع ہو جاتا ہے، سپریم کورٹ کا جج جب خود کو صدر پاکستان سمجھنے لگے تو پھر وہ اپنی نیک نامی برقرار نہیں رکھ سکتا۔ انصاف کرنے والا خود قانون کی پاسداری نہیں کرے گا تو اس کے بھیجے گئے نوٹسوں کا بھی وہی حشر ہو گا جو ٹشو پیپر کا ہوتا ہے۔
سنا ہے افتخار چوہدری سیاست میں آنے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو بہت اچھا ہے۔ انھیں ایسا ضرور کرنا چاہیے جس پروٹوکول کے وہ ماضی میں عادی ہو چکے ہیں وہ دوبارہ انھیں اسی وقت مل سکتا ہے جب وہ صدر یا وزیر اعظم بن جائیں۔ لیکن میں ذاتی طور پر ان کی سیاست میں آمد کو ایک نیک فال سمجھتی ہوں۔ اس سلسلے میں اگلے کالم میں بات ہو گی۔