حکومت اور اپوزیشن میں سیاسی کشیدگی کیا رنگ لائے گی
حکومت نے سارا بوجھ اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر ڈال دیا ہے کہ خود کو بھی بچاو اور حکومت کو بھی بچاو۔
ملک میں ایک بار پھر سے غداریوں کا موسم پورے جوبن پر ہے اور ملک کے دو سابق منتخب وزراء اعظم میاں نوازشریف و شاہد خاقان عباسی اورآزاد جموں و کشمیر کے منتخب وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر کے ساتھ ساتھ چار سابق فوجی جرنیلوں سمیت چالیس کے لگ بھگ سیاسی رہنماوں کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے اور ایف آئی آر کے مطابق نواز شریف نے اشتعال انگیز تقاریر کیں، ملک کے مقتدر اداروں کو بدنام کیا، بھارت کی پالیسیوں کی تائید کی تاکہ پاکستان کا نام ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ہی رہے۔
ملک کے تین مرتبہ کے منتخب سابق وزیراعظم نوازشریف جنکے بارے میں پیمرا سے تقاریر پر پابندی لگنے کے بعد سے خاموشی اختیار کرنے کا تاثر ابھر رہا تھا، اس مقدمے کے بعد انکا ردعمل سامنے آنے پر یہ تاثر بھی ختم ہوگیا۔ نواز شریف نے اپنے ردعمل میں قومی کمیشن بنانے کے اپنے مطالبے کو پھر سے دہراتے ہوئے جرنیلوں کا نام لئے بغیر کہا کہ وہ بھی اس کمیشن کے سامنے پیش ہوں اور میں (نوازشریف) بھی پیش ہونگا، کمیشن اپنی تحقیقات کر کے رپورٹ پیش کرے اور جو بھی غدار ثابت ہو اسے سرعام پھانسی دی جائے۔
نوازشریف کے بعد اپوزیشن کے دوسرے حلقوں سے بھی کمیشن کے قیام کی آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی ہیں اور بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں اس بارے میں مزید شور ہوگا۔ دوسری جانب سیاستدانوں کے خلاف بغاوت پر اکسانے کے مقدمات بارے ملک کے وزیراعظم عمران خان تمام اہم واقعات سے لاعلمی کی ماضی کی روایت برقرار رکھتے ہوئے اس بار بھی نہ صرف لاعلم ہی رہے ہیں بلکہ بقول وفاقی وزیر فواد چوہدری کے وزیراعظم نے نوازشریف کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کرنے پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔
وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نوازشریف کے خلاف اشتعال انگیز تقریر پر بغاوت کا مقدمہ درج کرنے کے حوالے سے لاعلم تھے اور جب میں نے انہیں یہ بتایا تو انہوں نے اس پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا، اب اسے وزیراعظم کی سادگی کہیں یا حکومتی معاملات پرکمزور گرفت سے تعبیر کیا جائے کہ جب سے وہ اقتدار میں آئے ہیں متعدد مرتبہ اہم نوعیت کے معاملات سے وہ لاعلمی کا اظہار کرتے دکھائی دیئے ہیں اور بعض معاملات کا تو انہوں نے خود اعتراف کیا کہ انہیں ٹی وی سے معلوم ہوا لیکن دوسری جانب سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس بار معاملہ کچھ اور معلوم ہوتا ہے یہ سب جان بوجھ کر کیا گیا لیکن مقتدر قوتوں کی جانب سے ناپسندیدگی کا اظہار کرنے پر لاتعلقی ظاہر کی جا رہی ہے یا پھر مقتدر قوتوں کی جانب سے حکومت کو عضومعطل سمجھتے ہوئے کام دکھایا گیا لیکن کچھ بھی ہو اسکے نتائج کوئی اچھے سامنے آتے دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔
اس مقدمے کے سامنے آنے پر اپوزیشن کا تو سخت ردعمل سامنے آنا فطری تقاضا تھا خود حکومت اور اسکی پوری مشینری بھی صفائیاں دینے میں لگی ہوئی ہے، جب سے حکومت اقتدار میں آئی ہے اس وقت سے کارکردگی کی بجائے انڈیا کارڈ کھیل کر اپنا وقت گزار رہی ہے جب بھی کسی کارنر سے حکومت کی کارکردگی پر سوال اٹھایاجاتا ہے تو جواب میں کارکردگی پیش کرنے کی بجائے مخالف پر انڈیا کو خوش کرنے کے الزامات کی بوچھاڑ کردی جاتی ہے اور اب بھی جب سے متحدہ اپوزیشن نے نیا اتحاد قائم کر کے حکومت کے خلاف سیاسی میدان میں طبل جنگ بجایا ہے۔
اس وقت سے حکومتی حلقوں میں بے چینی پھیلی ہوئی ہے اور مولانا فضل الرحمن کے اس نئے الائنس کے سربراہ بننے کے بعد سے حکومت کی ہوائیاں زیادہ اڑی ہوئی ہیں اسکی شائد ایک وجہ اس سے قبل مولانا فضل الرحمن کے والد مفتی محمود کی سربراہی میں بننے والے اتحاد کی مثال ہے اور اب کی بار بھی مولانا فضل الرحمن مذہبی کارڈ کھیلتے دکھائی دے رہے ہیں جس کے جواب میں حکومت نے بھی مولانا طاہر اشرفی کی صورت اپنے پیادے میدان میں اتاردیئے ہیں لیکن حکومتی حلقوں میں اوپر سے لے کر نیچے تک سب کی لائن اور بیانیہ ایک ہی ہے اور سب آپسی سیاسی لڑائی میں انڈیا کو ڈھال بنا رہے ہیں اور انڈین ایجنٹ و غداری کے سرٹیفکیٹس تقسیم کئے جا رہے ہیں اور جس بڑی تعداد میں غداری کے سرٹیفکیٹ تقسیم کئے جا رہے ہیں لگتا اس بار غداری کا یہ بیانیہ بھی بیک فائر ہوجائے گا۔
بعض حلقوں کا خیال ہے کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بھی فاصلے بڑھنا شروع ہوگئے ہیں اور پچھلے کچھ عرصے کے دوران پیدا ہونیوالی صورتحال میں حکومتی حلقوں کے کردار بارے اسٹیبلشمنٹ نالاں ہے اور ان حلقوں کا خیال ہے کہ اپوزیشن کی جانب سے جب مقتدر حلقوں پر تنقید کی گئی تو حکومتی رہنما خاموش رہے اور جب وزیراعظم اور ان کی ٹیم پر تنقید ہوئی تو وزراء کی فوج دفاع کیلئے سامنے آگئی جس پر ناراضگی تو بنتی ہے اور کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ اب جو صورتحال پیدا ہوئی ہے۔
اس میں بھی حکومت نے سارا بوجھ اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر ڈال دیا ہے کہ خود کو بھی بچاو اور حکومت کو بھی بچاو۔ ان حلقوں کا خیال ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اب شائد حکومت سے ہاتھ کھینچتی دکھا ئی دے رہی ہے اور شائد طوطا فال نکالنے والے سیاسی رہنما شیخ رشید نے بھی عمران خان کے اسمبلیاں توڑنے سے متعلق بیان اسی تناظر میں دیا ہے کہ عمران خان اسمبلیاں توڑ دیں گے لیکن کسی کو این آر او نہیں دیں گے۔ اس سے سوال اٹھتا ہے کہ کیا کسی طرف سے وزیراعظم عمران خان پر این آر او دینے کیلئے دباو ہے جو شیخ رشیدکو یہ بیان دینا پڑا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جب سے اپوزیشن کی جانب سے حکومت کے خلاف تحریک اور جلسوں و ریلیوں کے شیڈول کا اعلان سامنے آیا ہے اس وقت سے حکومتی حلقوں میں زیادہ بوکھلاہٹ ہے اور حکومت نے اپوزیشن کے مقابلے میں اپنا پلان دیدیا ہے جس دن اپوزیشن جلسے جلوس کرے گی حکومتی وزراء
اپنی اپنی کارکردگی پیش کیا کریں گے، اس سب کا مقصد اپوزیشن کو میڈیا سے دور رکھنا ہے اب اس میں کتنا کامیاب ہو پائے گا یہ وقت بتائے گا۔ مگر ابھی ملک میں ہر طرف غدار ، غدار کا شور مچا ہوا ہے اور سب کے پاس ریاست سے غداری کا اپنا اپنا پیمانہ ہے لیکن سب کو دوسروں کی غداری کا بخار اسی وقت چڑھتا ہے جب اپنے مفادات یا اپنی انا کو خطرہ محسوس ہو یا پھر کسی اہم معاملے سے عوام کی توجہ ہٹانا ہو۔
ابھی مہنگائی نے عوام کا جینا محال کر دیا ہے اور غریب عوام کی چیخیں غداری غداری کے شور میں کہیں دب کر رہ گئی ہے اور کہیں غریب کی کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی ہے۔ ابھی رواں مالی سال کے پہلے تین ماہ کے اقتصادی اعشارئے سامنے آئے ہیں جس میں مہنگائی بڑھی ہے اور تجارتی خسارہ پانچ ارب ڈالر سے تجاوز کرگیا ہے اور ابھی آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کی بھی تیاریاں ہو رہی ہیں جس سے بجلی،گیس مزید مہنگی ہونے کو ہے اور اس سے مہنگائی کا نیا طوفان آنے کو ہے اور حکومت مسلسل کنفیوژن کا شکار دکھائی دے رہی ہے۔ اب اپنی اقتصادی ٹیم میں ڈاکٹر وقار مسعود کی صورت میں کپتان نے نئے ٹیم ممبر کا اضافہ کیا ہے اور انہیں مشیر برائے ریونیو کا قلمدان دے کر وزیر مملکت کے برابر عہدہ دیا گیا ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ڈاکٹر وقار مسعود کی ٹیم میں شمولیت بڑی مثبت پیشرفت ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کے ہوتے ہوئے کیا وہ کچھ کر پائیں گے کیونکہ اس سے پہلے حماد اظہر کو بھی ریونیو کا قلمدان دیا گیا تھا اوروفاقی وزیر بنایا گیا تھا پھر جلد ہی قلمدان واپس لے لیا گیا اور انہیں وزیر صنعت و پیداوار بنادیا گیا۔ اگرچہ بعض حلقوں کی طرف سے کپتان کی کابینہ میں پھر سے تبدیلی کی باتیں بھی ہو رہی ہیں اب کیا حفیظ شیخ اور ان کی ٹیم کے جانے کا وقت ہوگیا ہے یہ تو وقت بتائے گا لیکن یہ آئے روز کی تبدیلیاں اس تبدیلی سرکار کیلئے کوئی نیک شگون نہیں ہے۔
ملک کے تین مرتبہ کے منتخب سابق وزیراعظم نوازشریف جنکے بارے میں پیمرا سے تقاریر پر پابندی لگنے کے بعد سے خاموشی اختیار کرنے کا تاثر ابھر رہا تھا، اس مقدمے کے بعد انکا ردعمل سامنے آنے پر یہ تاثر بھی ختم ہوگیا۔ نواز شریف نے اپنے ردعمل میں قومی کمیشن بنانے کے اپنے مطالبے کو پھر سے دہراتے ہوئے جرنیلوں کا نام لئے بغیر کہا کہ وہ بھی اس کمیشن کے سامنے پیش ہوں اور میں (نوازشریف) بھی پیش ہونگا، کمیشن اپنی تحقیقات کر کے رپورٹ پیش کرے اور جو بھی غدار ثابت ہو اسے سرعام پھانسی دی جائے۔
نوازشریف کے بعد اپوزیشن کے دوسرے حلقوں سے بھی کمیشن کے قیام کی آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی ہیں اور بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں اس بارے میں مزید شور ہوگا۔ دوسری جانب سیاستدانوں کے خلاف بغاوت پر اکسانے کے مقدمات بارے ملک کے وزیراعظم عمران خان تمام اہم واقعات سے لاعلمی کی ماضی کی روایت برقرار رکھتے ہوئے اس بار بھی نہ صرف لاعلم ہی رہے ہیں بلکہ بقول وفاقی وزیر فواد چوہدری کے وزیراعظم نے نوازشریف کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کرنے پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔
وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نوازشریف کے خلاف اشتعال انگیز تقریر پر بغاوت کا مقدمہ درج کرنے کے حوالے سے لاعلم تھے اور جب میں نے انہیں یہ بتایا تو انہوں نے اس پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا، اب اسے وزیراعظم کی سادگی کہیں یا حکومتی معاملات پرکمزور گرفت سے تعبیر کیا جائے کہ جب سے وہ اقتدار میں آئے ہیں متعدد مرتبہ اہم نوعیت کے معاملات سے وہ لاعلمی کا اظہار کرتے دکھائی دیئے ہیں اور بعض معاملات کا تو انہوں نے خود اعتراف کیا کہ انہیں ٹی وی سے معلوم ہوا لیکن دوسری جانب سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس بار معاملہ کچھ اور معلوم ہوتا ہے یہ سب جان بوجھ کر کیا گیا لیکن مقتدر قوتوں کی جانب سے ناپسندیدگی کا اظہار کرنے پر لاتعلقی ظاہر کی جا رہی ہے یا پھر مقتدر قوتوں کی جانب سے حکومت کو عضومعطل سمجھتے ہوئے کام دکھایا گیا لیکن کچھ بھی ہو اسکے نتائج کوئی اچھے سامنے آتے دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔
اس مقدمے کے سامنے آنے پر اپوزیشن کا تو سخت ردعمل سامنے آنا فطری تقاضا تھا خود حکومت اور اسکی پوری مشینری بھی صفائیاں دینے میں لگی ہوئی ہے، جب سے حکومت اقتدار میں آئی ہے اس وقت سے کارکردگی کی بجائے انڈیا کارڈ کھیل کر اپنا وقت گزار رہی ہے جب بھی کسی کارنر سے حکومت کی کارکردگی پر سوال اٹھایاجاتا ہے تو جواب میں کارکردگی پیش کرنے کی بجائے مخالف پر انڈیا کو خوش کرنے کے الزامات کی بوچھاڑ کردی جاتی ہے اور اب بھی جب سے متحدہ اپوزیشن نے نیا اتحاد قائم کر کے حکومت کے خلاف سیاسی میدان میں طبل جنگ بجایا ہے۔
اس وقت سے حکومتی حلقوں میں بے چینی پھیلی ہوئی ہے اور مولانا فضل الرحمن کے اس نئے الائنس کے سربراہ بننے کے بعد سے حکومت کی ہوائیاں زیادہ اڑی ہوئی ہیں اسکی شائد ایک وجہ اس سے قبل مولانا فضل الرحمن کے والد مفتی محمود کی سربراہی میں بننے والے اتحاد کی مثال ہے اور اب کی بار بھی مولانا فضل الرحمن مذہبی کارڈ کھیلتے دکھائی دے رہے ہیں جس کے جواب میں حکومت نے بھی مولانا طاہر اشرفی کی صورت اپنے پیادے میدان میں اتاردیئے ہیں لیکن حکومتی حلقوں میں اوپر سے لے کر نیچے تک سب کی لائن اور بیانیہ ایک ہی ہے اور سب آپسی سیاسی لڑائی میں انڈیا کو ڈھال بنا رہے ہیں اور انڈین ایجنٹ و غداری کے سرٹیفکیٹس تقسیم کئے جا رہے ہیں اور جس بڑی تعداد میں غداری کے سرٹیفکیٹ تقسیم کئے جا رہے ہیں لگتا اس بار غداری کا یہ بیانیہ بھی بیک فائر ہوجائے گا۔
بعض حلقوں کا خیال ہے کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بھی فاصلے بڑھنا شروع ہوگئے ہیں اور پچھلے کچھ عرصے کے دوران پیدا ہونیوالی صورتحال میں حکومتی حلقوں کے کردار بارے اسٹیبلشمنٹ نالاں ہے اور ان حلقوں کا خیال ہے کہ اپوزیشن کی جانب سے جب مقتدر حلقوں پر تنقید کی گئی تو حکومتی رہنما خاموش رہے اور جب وزیراعظم اور ان کی ٹیم پر تنقید ہوئی تو وزراء کی فوج دفاع کیلئے سامنے آگئی جس پر ناراضگی تو بنتی ہے اور کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ اب جو صورتحال پیدا ہوئی ہے۔
اس میں بھی حکومت نے سارا بوجھ اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر ڈال دیا ہے کہ خود کو بھی بچاو اور حکومت کو بھی بچاو۔ ان حلقوں کا خیال ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اب شائد حکومت سے ہاتھ کھینچتی دکھا ئی دے رہی ہے اور شائد طوطا فال نکالنے والے سیاسی رہنما شیخ رشید نے بھی عمران خان کے اسمبلیاں توڑنے سے متعلق بیان اسی تناظر میں دیا ہے کہ عمران خان اسمبلیاں توڑ دیں گے لیکن کسی کو این آر او نہیں دیں گے۔ اس سے سوال اٹھتا ہے کہ کیا کسی طرف سے وزیراعظم عمران خان پر این آر او دینے کیلئے دباو ہے جو شیخ رشیدکو یہ بیان دینا پڑا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جب سے اپوزیشن کی جانب سے حکومت کے خلاف تحریک اور جلسوں و ریلیوں کے شیڈول کا اعلان سامنے آیا ہے اس وقت سے حکومتی حلقوں میں زیادہ بوکھلاہٹ ہے اور حکومت نے اپوزیشن کے مقابلے میں اپنا پلان دیدیا ہے جس دن اپوزیشن جلسے جلوس کرے گی حکومتی وزراء
اپنی اپنی کارکردگی پیش کیا کریں گے، اس سب کا مقصد اپوزیشن کو میڈیا سے دور رکھنا ہے اب اس میں کتنا کامیاب ہو پائے گا یہ وقت بتائے گا۔ مگر ابھی ملک میں ہر طرف غدار ، غدار کا شور مچا ہوا ہے اور سب کے پاس ریاست سے غداری کا اپنا اپنا پیمانہ ہے لیکن سب کو دوسروں کی غداری کا بخار اسی وقت چڑھتا ہے جب اپنے مفادات یا اپنی انا کو خطرہ محسوس ہو یا پھر کسی اہم معاملے سے عوام کی توجہ ہٹانا ہو۔
ابھی مہنگائی نے عوام کا جینا محال کر دیا ہے اور غریب عوام کی چیخیں غداری غداری کے شور میں کہیں دب کر رہ گئی ہے اور کہیں غریب کی کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی ہے۔ ابھی رواں مالی سال کے پہلے تین ماہ کے اقتصادی اعشارئے سامنے آئے ہیں جس میں مہنگائی بڑھی ہے اور تجارتی خسارہ پانچ ارب ڈالر سے تجاوز کرگیا ہے اور ابھی آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کی بھی تیاریاں ہو رہی ہیں جس سے بجلی،گیس مزید مہنگی ہونے کو ہے اور اس سے مہنگائی کا نیا طوفان آنے کو ہے اور حکومت مسلسل کنفیوژن کا شکار دکھائی دے رہی ہے۔ اب اپنی اقتصادی ٹیم میں ڈاکٹر وقار مسعود کی صورت میں کپتان نے نئے ٹیم ممبر کا اضافہ کیا ہے اور انہیں مشیر برائے ریونیو کا قلمدان دے کر وزیر مملکت کے برابر عہدہ دیا گیا ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ڈاکٹر وقار مسعود کی ٹیم میں شمولیت بڑی مثبت پیشرفت ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کے ہوتے ہوئے کیا وہ کچھ کر پائیں گے کیونکہ اس سے پہلے حماد اظہر کو بھی ریونیو کا قلمدان دیا گیا تھا اوروفاقی وزیر بنایا گیا تھا پھر جلد ہی قلمدان واپس لے لیا گیا اور انہیں وزیر صنعت و پیداوار بنادیا گیا۔ اگرچہ بعض حلقوں کی طرف سے کپتان کی کابینہ میں پھر سے تبدیلی کی باتیں بھی ہو رہی ہیں اب کیا حفیظ شیخ اور ان کی ٹیم کے جانے کا وقت ہوگیا ہے یہ تو وقت بتائے گا لیکن یہ آئے روز کی تبدیلیاں اس تبدیلی سرکار کیلئے کوئی نیک شگون نہیں ہے۔