کوئٹہ جلسے کا شیڈول تبدیل اپوزیشن کی احتجاجی تحریک متاثر ہو گی
بعض سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ کوئٹہ میں منعقد ہونے والا یہ جلسہ عام ایک تاریخی جلسے کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔
اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل اتحاد پی ڈی ایم اپنی عوامی طاقت کا پہلا مظاہرہ اور تحریک کا آغاز بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے کرنے کا ارادہ رکھتا تھا جس کیلئے اپوزیشن جماعتوں نے11 اکتوبر کو جلسے کا اعلان کیا تھا جسے بعد ازاں 18 اکتوبر کر دیا گیا جس پر پیپلز پارٹی نے اعتراض اُٹھایا جلسے کی تاریخ سے متعلق اعتراض کمیٹی کے سامنے رکھا گیا جس میں یہ کہا گیا کہ سانحہ کارساز کے جلسے کے باعث پیپلز پارٹی کی قیادت کوئٹہ کے جلسے میں شرکت نہیں کر سکے گی کیونکہ ہر سال کی طرح اس سال بھی 18 اکتوبر کو سانحہ کارساز کا جلسہ کراچی میں ہوگا۔
پی ڈی ایم کی پیپلز پارٹی کے اعتراضات پر جلسے کی نئی تاریخ کے حوالے سے مشاورت ہوئی جس کے بعد کوئٹہ کے جلسے کی تاریخ تبدیل کر کے25 اکتوبر رکھ دی گئی ہے۔ 25 اکتوبر کو کوئٹہ میں ہونے والے اس عوامی طاقت کے مظاہرے جلسہ عام سے پی ڈی ایم کے نو منتخب سربراہ مولانا فضل الرحمان، بلاول بھٹو زرداری، محمود خان اچکزئی، سردار اختر جان مینگل، ڈاکٹر عبدالمالک سمیت دیگر اہم رہنما خطاب کریں گے۔
بعض سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ کوئٹہ میں منعقد ہونے والا یہ جلسہ عام ایک تاریخی جلسے کی شکل اختیار کر سکتا ہے کیونکہ اپوزیشن جماعتوں میں شامل جمعیت علماء اسلام، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی سمیت دیگر جماعتیں بلوچستان میں بڑا سیاسی اثر و رسوخ رکھتی ہیں اور ان جماعتوں کے پاس عوامی طاقت بھی موجود ہے ۔
بعض سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے پی ڈی ایم کی تحریک کا آغاز کرنے کا فیصلہ اس لئے بھی کیا گیا تھا کہ یہ ایک تاریخی پس منظر رکھتا ہے اور پی ڈی ایم کی قیادت نے کوئٹہ سے تحریک کے آغاز کا کرنے کا فیصلہ بھی ایک حکمت عملی کے تحت کیا تھا تاہم اس میں ردوبدل کے بعد بعض سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ جلسے کی تاریخ میں بار بار تبدیلیوں سے سیاسی جماعتوں کے کارکنوں پر اس کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔
تاہم یہ سیاسی جماعتیں اس کے باوجود بھی اپنے سیاسی ورکروں کو اس حوالے سے متحرک کر رہی ہیں ۔ تاہم بعض سیاسی گروؤں کا خیال ہے کہ اگر اپوزیشن جماعتیں جو ماضی میں ایک دوسرے کے خلاف بر سر پیکار رہی ہیں اگر ایک دوسرے کے ساتھ مخلص رہیں اور متحد ہو کر اُنہوں نے اس تحریک کو آگے بڑھایا تو اس سال کے آخر تک وہ کسی حتمی نتیجے پر پہنچ پائیں گی اور کوئٹہ کا جلسہ جس کی بارہا تاریخوں میں ردوبدل کیا گیا ہے اس تحریک کو مزید تقویت دینے میں اہم کردار ادا کرے گا۔
ان حلقوںکے مطابق اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم میں دراڑیں ڈالنے کیلئے حکومت نے بھی اپنی حکمت عملی مرتب کر لی ہے جس کا اندازہ حکومتی سائیڈ سے پی ڈی ایم کے قیام کے بعد اُس کے خلاف مختلف اطراف سے بیانات کے تیروں کی بھرمار ہے ۔ حکومتی اطراف سے پی ڈی ایم پر سیاسی بیانات کی ''تیراندازی'' سے محسوس ہو رہا ہے کہ حکومت بھی کچھ گھبرائی سی ہے تاہم دفاع کرنا اُس کا جمہوری حق ہے لیکن اخلاق کے دائرے کو ملحوظ خاطر رکھنا حکومتی اور اپوزیشن ارکان کا فرض بنتا ہے۔ ان سیاسی حلقوں کے مطابق تحریک انصاف کی اتحادی اور بلوچستان کی حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی نے بھی پی ڈی ایم کے خلاف بیان بازی کا سلسلہ شروع کرکے اپنا حصہ بھی ڈالنا شروع کردیا ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق جیسے یہ پہلے کہا جا چکا ہے کہ ملکی سطح پر حکومت کے خلاف چلنے والی تحریک کے اثرات بلوچستان پر بھی مرتب ہونگے اور یہاں پر بھی کچھ عرصے سے سیاسی ہلچل سی دکھائی دے رہی ہے مرکز اور صوبے میں بلوچستان کی حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی اور تحریک انصاف ایک دوسرے کی اتحادی جماعتیں ہیں ۔
مرکز اور صوبے میں دونوں کے درمیان ہلکے پھلکے انداز میں تنقید اور دبے الفاظ میں ناراضگی ایک ڈیڑھ سال سے دکھائی دے رہی ہے لیکن بلوچستان میں دونوں اتحادی جماعتیں اب بعض معاملات میں ایک دوسرے سے کچھ کھچی کھچی سی بھی دکھائی دے رہی ہیں اور بعض سیاسی نجی محفلوں میں دونوں اتحادی جماعتوں کی قیادت ایک دوسرے سے گلے شکوے بھی کرتی آرہی ہیں۔ حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے صدر و وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال سے صرف اُن کی اتحادی جماعت تحریک انصاف کو ہی نہیں بلکہ دیگر اتحادی جماعتوں بشمول اُن کی اپنی جماعت کے بعض پارلیمانی ارکان کو بھی سخت گلے شکوے ہیں۔
وزیراعلیٰ جام کمال نے کچھ عرصے قبل بھی جب بلوچستان کی متحدہ اپوزیشن نے اُن کے خلاف باقاعدہ ایک مہم شروع کی تھی اور اُن کی بعض اتحادی جماعتوں سے رابطے کئے تھے تو حالات کو سنبھالا دینے کیلئے باقاعدہ وہ متحرک ہوگئے تھے اور اُنہوں نے اپنی جماعت اور اتحادیوں کے تحفظات کو دور کرنے کیلئے اُن سے رابطے کئے اور انہیں منایا جس کے بعد ان کے خلاف اپوزیشن کی یہ مہم دب کر رہ گئی ۔ ان سیاسی مبصرین کے مطابق وزیراعلیٰ جام کمال سے کچھ ہی عرصے میں دوبارہ اُن کے اتحادیوں اور پارٹی کے ساتھیوں کو وعدوں پر عملدرآمد نہ کرنے کی شکایات پیدا ہوگئی ہیں اور ماحول دوبارہ کچھ عرصے قبل والا بنتا جا رہا ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق اگر صورتحال یہی رہی تو ماضی کی طرح بلوچستان میں دوبارہ حکومت کی تبدیلی اور تحریک عدم اعتماد جیسی''جمہوری و آئینی موومنٹ'' ہو سکتی ہے؟ اور 25 اکتوبر کو کوئٹہ سے اپوزیشن جماعتوں کا عوامی پاور شو بلوچستان میں اس جمہوری و آئینی موومنٹ کو تقویت دے سکتا ہے، اگر عمران حکومت کی پہلی وکٹ اُس کے اتحادی کی گری تو پھر اس کے اثرات سے مرکزی حکومت کو بھی بچانا مشکل ہوگا جس کیلئے اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل اتحاد پی ڈی ایم اپنی حکمت عملی مرتب کر رہا ہے اور اس اتحاد میں بلوچستان کی مضبوط اپوزیشن جماعتیں جمعیت علماء اسلام، بی این پی، پشتونخوا میپ اور (ن) لیگ کلیدی کردار ادا کر رہی ہیں ۔
پی ڈی ایم کی پیپلز پارٹی کے اعتراضات پر جلسے کی نئی تاریخ کے حوالے سے مشاورت ہوئی جس کے بعد کوئٹہ کے جلسے کی تاریخ تبدیل کر کے25 اکتوبر رکھ دی گئی ہے۔ 25 اکتوبر کو کوئٹہ میں ہونے والے اس عوامی طاقت کے مظاہرے جلسہ عام سے پی ڈی ایم کے نو منتخب سربراہ مولانا فضل الرحمان، بلاول بھٹو زرداری، محمود خان اچکزئی، سردار اختر جان مینگل، ڈاکٹر عبدالمالک سمیت دیگر اہم رہنما خطاب کریں گے۔
بعض سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ کوئٹہ میں منعقد ہونے والا یہ جلسہ عام ایک تاریخی جلسے کی شکل اختیار کر سکتا ہے کیونکہ اپوزیشن جماعتوں میں شامل جمعیت علماء اسلام، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی سمیت دیگر جماعتیں بلوچستان میں بڑا سیاسی اثر و رسوخ رکھتی ہیں اور ان جماعتوں کے پاس عوامی طاقت بھی موجود ہے ۔
بعض سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے پی ڈی ایم کی تحریک کا آغاز کرنے کا فیصلہ اس لئے بھی کیا گیا تھا کہ یہ ایک تاریخی پس منظر رکھتا ہے اور پی ڈی ایم کی قیادت نے کوئٹہ سے تحریک کے آغاز کا کرنے کا فیصلہ بھی ایک حکمت عملی کے تحت کیا تھا تاہم اس میں ردوبدل کے بعد بعض سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ جلسے کی تاریخ میں بار بار تبدیلیوں سے سیاسی جماعتوں کے کارکنوں پر اس کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔
تاہم یہ سیاسی جماعتیں اس کے باوجود بھی اپنے سیاسی ورکروں کو اس حوالے سے متحرک کر رہی ہیں ۔ تاہم بعض سیاسی گروؤں کا خیال ہے کہ اگر اپوزیشن جماعتیں جو ماضی میں ایک دوسرے کے خلاف بر سر پیکار رہی ہیں اگر ایک دوسرے کے ساتھ مخلص رہیں اور متحد ہو کر اُنہوں نے اس تحریک کو آگے بڑھایا تو اس سال کے آخر تک وہ کسی حتمی نتیجے پر پہنچ پائیں گی اور کوئٹہ کا جلسہ جس کی بارہا تاریخوں میں ردوبدل کیا گیا ہے اس تحریک کو مزید تقویت دینے میں اہم کردار ادا کرے گا۔
ان حلقوںکے مطابق اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم میں دراڑیں ڈالنے کیلئے حکومت نے بھی اپنی حکمت عملی مرتب کر لی ہے جس کا اندازہ حکومتی سائیڈ سے پی ڈی ایم کے قیام کے بعد اُس کے خلاف مختلف اطراف سے بیانات کے تیروں کی بھرمار ہے ۔ حکومتی اطراف سے پی ڈی ایم پر سیاسی بیانات کی ''تیراندازی'' سے محسوس ہو رہا ہے کہ حکومت بھی کچھ گھبرائی سی ہے تاہم دفاع کرنا اُس کا جمہوری حق ہے لیکن اخلاق کے دائرے کو ملحوظ خاطر رکھنا حکومتی اور اپوزیشن ارکان کا فرض بنتا ہے۔ ان سیاسی حلقوں کے مطابق تحریک انصاف کی اتحادی اور بلوچستان کی حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی نے بھی پی ڈی ایم کے خلاف بیان بازی کا سلسلہ شروع کرکے اپنا حصہ بھی ڈالنا شروع کردیا ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق جیسے یہ پہلے کہا جا چکا ہے کہ ملکی سطح پر حکومت کے خلاف چلنے والی تحریک کے اثرات بلوچستان پر بھی مرتب ہونگے اور یہاں پر بھی کچھ عرصے سے سیاسی ہلچل سی دکھائی دے رہی ہے مرکز اور صوبے میں بلوچستان کی حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی اور تحریک انصاف ایک دوسرے کی اتحادی جماعتیں ہیں ۔
مرکز اور صوبے میں دونوں کے درمیان ہلکے پھلکے انداز میں تنقید اور دبے الفاظ میں ناراضگی ایک ڈیڑھ سال سے دکھائی دے رہی ہے لیکن بلوچستان میں دونوں اتحادی جماعتیں اب بعض معاملات میں ایک دوسرے سے کچھ کھچی کھچی سی بھی دکھائی دے رہی ہیں اور بعض سیاسی نجی محفلوں میں دونوں اتحادی جماعتوں کی قیادت ایک دوسرے سے گلے شکوے بھی کرتی آرہی ہیں۔ حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے صدر و وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال سے صرف اُن کی اتحادی جماعت تحریک انصاف کو ہی نہیں بلکہ دیگر اتحادی جماعتوں بشمول اُن کی اپنی جماعت کے بعض پارلیمانی ارکان کو بھی سخت گلے شکوے ہیں۔
وزیراعلیٰ جام کمال نے کچھ عرصے قبل بھی جب بلوچستان کی متحدہ اپوزیشن نے اُن کے خلاف باقاعدہ ایک مہم شروع کی تھی اور اُن کی بعض اتحادی جماعتوں سے رابطے کئے تھے تو حالات کو سنبھالا دینے کیلئے باقاعدہ وہ متحرک ہوگئے تھے اور اُنہوں نے اپنی جماعت اور اتحادیوں کے تحفظات کو دور کرنے کیلئے اُن سے رابطے کئے اور انہیں منایا جس کے بعد ان کے خلاف اپوزیشن کی یہ مہم دب کر رہ گئی ۔ ان سیاسی مبصرین کے مطابق وزیراعلیٰ جام کمال سے کچھ ہی عرصے میں دوبارہ اُن کے اتحادیوں اور پارٹی کے ساتھیوں کو وعدوں پر عملدرآمد نہ کرنے کی شکایات پیدا ہوگئی ہیں اور ماحول دوبارہ کچھ عرصے قبل والا بنتا جا رہا ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق اگر صورتحال یہی رہی تو ماضی کی طرح بلوچستان میں دوبارہ حکومت کی تبدیلی اور تحریک عدم اعتماد جیسی''جمہوری و آئینی موومنٹ'' ہو سکتی ہے؟ اور 25 اکتوبر کو کوئٹہ سے اپوزیشن جماعتوں کا عوامی پاور شو بلوچستان میں اس جمہوری و آئینی موومنٹ کو تقویت دے سکتا ہے، اگر عمران حکومت کی پہلی وکٹ اُس کے اتحادی کی گری تو پھر اس کے اثرات سے مرکزی حکومت کو بھی بچانا مشکل ہوگا جس کیلئے اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل اتحاد پی ڈی ایم اپنی حکمت عملی مرتب کر رہا ہے اور اس اتحاد میں بلوچستان کی مضبوط اپوزیشن جماعتیں جمعیت علماء اسلام، بی این پی، پشتونخوا میپ اور (ن) لیگ کلیدی کردار ادا کر رہی ہیں ۔