کراچی ماسٹر پلان 2020 پر بھی عملدرآمد نہیں ہوسکا
بغیر ماسٹر پلان شہر کونام نہاد ترقی دینے کی کوشش تباہی کے سوا کچھ نہیں ہوگی
شہر کا ماسٹر پلان 2020بھی ماضی کے دیگر ماسٹرپلانز کی طرح معینہ مدت میں عملدرآمد نہیں ہوسکا ہے۔
اس بار بھی بغیر منصوبہ بندی ونظم وضبط شہر کا پھیلاؤ اور آبادکاری بے ہنگم طریقے سے تشکیل دی جارہی ہے جس کے نتیجے میں پانی کا بحران سیوریج و ٹرانسپورٹ کا نظام، برساتی نالے، ہاؤسنگ ، صنعتی وکمرشل سیکٹرز اور دیگر شہری امور تباہی کے دھانے پر کھڑے ہیں، حالیہ بارشوں نے تو اس شہرکے فرسودہ اور گلے سڑے نظام کی قلعی کھول دی ہے۔
برطانوی راج سے اب تک شہری انتظامیہ نے کراچی شہر کی تعمیر وترقی کے لیے چھ ماسٹر پلان دیے ہیں لیکن بدقسمت اس لحاظ سے ہے کہ کسی ایک ماسٹر پلان پر کلی طور پر عملدرآمد نہیں ہوا ہے، چھٹا ماسٹر پلان کراچی اسٹراٹیجک ڈیولپمنٹ پلان2020اس اعتبار سے ناکام ثابت ہوا ہے کہ اس کی سفارشات یا ڈیٹا پر مبنی کوئی ایک منصوبہ ابھی تک مکمل نہیں ہوا ہے المیہ یہ ہے کہ کراچی اسٹرٹیجک ڈیولپمنٹ پلان 2020کو سندھ حکومت نے اون ہی نہیں کیا تھا۔
یہ تو سپریم کورٹ کا حکم نامہ تھا کہ سندھ حکومت نے2019میں اس کا گزٹ نوٹیفکیشن نکالا جس سے اس کو لیگل کور مل چکا ہے لیکن سندھ حکومت کی اس مہربانی کا اب کوئی فائدہ نہیں کیونکہ ایک سال بعد یعنی 2020دسمبر میں اس ماسٹر پلان کی معینہ مدت پوری ہورہی ہے۔
ماسٹر پلان ڈپارٹمنٹ کے ایک آفیسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انگریزوں کے دور میں کراچی کے لیے 1923اور 1945میں ماسٹر پلان بنایا گیا جبکہ آزادی ملنے کے بعد کراچی کیلیے1951، 1974، 2000اور 2007میں بنایا گیا،شہر کا چھٹا ماسٹر پلان کراچی اسٹرٹیجک ڈیولپمنٹ پلان 2020سٹی ناظم مصطفی کمال کے دور میں 2007میں تشکیل پایا گیا، سٹی کونسل نے اسے منظور کیا لیکن پیپلزپارٹی حکومت نے 2008میں وفاق و سندھ میں حکومت سنبھلتے ہی کراچی کو نظر اندازکرنا شروع کردیا۔
حیرت انگیزبات یہ ہے کہ اس ماسٹرپلان کے دستاویزات میں درج ہے کہ 2020 تک کراچی کی آبادی دو کروڑ 75لاکھ ہوجائے گی لیکن 2017کی مردم شماری میں کراچی کی آبادی ایک کروڑ 60لاکھ ظاہر کی گئی ہے، یعنی کراچی کی آبادی ایک کروڑ پندرہ لاکھ آبادی گھٹا کر بتائی جارہی ہے۔
کراچی کے لیے کے ایس ڈی پی 2020کی اصل سفارشات یہ تھیں کہ شہر کے اولڈ سٹی ایریاز اور مرکزی تجارتی علاقوں و سینٹرل بزنس یونٹس(CBU)کی دکانوں اور گوداموں کو ناردرن بائی پاس منتقل کیا جائے اور ان علاقوں کو ازسر ے نو تعمیر کیا جائے۔
دوسری اہم تجویز یہ تھی کہ شہر کے گنجان علاقوں میں مزید افقی یا عموری ہاؤسنگ یونٹس میں اضافہ نہ کیا جائے ماسٹر پلان کی سفارشات میں شامل تھا کہ نارتھ ناظم آبادٹاؤن، جمشید ٹاؤن، صدر ٹاؤن، گلبرگ ٹاؤن، گلشن اقبال ٹاؤن میں مزید ہاؤسنگ یونٹس نہ تعمیر کیے جائی اور کچی آبادیوں کے موجودہ انفرااسٹرکچر کو بہتر کیا جائے، نئے ہاؤسنگ یونٹس گڈاپ ٹاؤن، لانڈھی ٹاؤن، اسکیم 33، سرجانی ٹاؤن، ہاکس بے اسکیم وغیرہ میں تعمیر کی جائیں۔
اس بار بھی بغیر منصوبہ بندی ونظم وضبط شہر کا پھیلاؤ اور آبادکاری بے ہنگم طریقے سے تشکیل دی جارہی ہے جس کے نتیجے میں پانی کا بحران سیوریج و ٹرانسپورٹ کا نظام، برساتی نالے، ہاؤسنگ ، صنعتی وکمرشل سیکٹرز اور دیگر شہری امور تباہی کے دھانے پر کھڑے ہیں، حالیہ بارشوں نے تو اس شہرکے فرسودہ اور گلے سڑے نظام کی قلعی کھول دی ہے۔
برطانوی راج سے اب تک شہری انتظامیہ نے کراچی شہر کی تعمیر وترقی کے لیے چھ ماسٹر پلان دیے ہیں لیکن بدقسمت اس لحاظ سے ہے کہ کسی ایک ماسٹر پلان پر کلی طور پر عملدرآمد نہیں ہوا ہے، چھٹا ماسٹر پلان کراچی اسٹراٹیجک ڈیولپمنٹ پلان2020اس اعتبار سے ناکام ثابت ہوا ہے کہ اس کی سفارشات یا ڈیٹا پر مبنی کوئی ایک منصوبہ ابھی تک مکمل نہیں ہوا ہے المیہ یہ ہے کہ کراچی اسٹرٹیجک ڈیولپمنٹ پلان 2020کو سندھ حکومت نے اون ہی نہیں کیا تھا۔
یہ تو سپریم کورٹ کا حکم نامہ تھا کہ سندھ حکومت نے2019میں اس کا گزٹ نوٹیفکیشن نکالا جس سے اس کو لیگل کور مل چکا ہے لیکن سندھ حکومت کی اس مہربانی کا اب کوئی فائدہ نہیں کیونکہ ایک سال بعد یعنی 2020دسمبر میں اس ماسٹر پلان کی معینہ مدت پوری ہورہی ہے۔
ماسٹر پلان ڈپارٹمنٹ کے ایک آفیسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انگریزوں کے دور میں کراچی کے لیے 1923اور 1945میں ماسٹر پلان بنایا گیا جبکہ آزادی ملنے کے بعد کراچی کیلیے1951، 1974، 2000اور 2007میں بنایا گیا،شہر کا چھٹا ماسٹر پلان کراچی اسٹرٹیجک ڈیولپمنٹ پلان 2020سٹی ناظم مصطفی کمال کے دور میں 2007میں تشکیل پایا گیا، سٹی کونسل نے اسے منظور کیا لیکن پیپلزپارٹی حکومت نے 2008میں وفاق و سندھ میں حکومت سنبھلتے ہی کراچی کو نظر اندازکرنا شروع کردیا۔
حیرت انگیزبات یہ ہے کہ اس ماسٹرپلان کے دستاویزات میں درج ہے کہ 2020 تک کراچی کی آبادی دو کروڑ 75لاکھ ہوجائے گی لیکن 2017کی مردم شماری میں کراچی کی آبادی ایک کروڑ 60لاکھ ظاہر کی گئی ہے، یعنی کراچی کی آبادی ایک کروڑ پندرہ لاکھ آبادی گھٹا کر بتائی جارہی ہے۔
کراچی کے لیے کے ایس ڈی پی 2020کی اصل سفارشات یہ تھیں کہ شہر کے اولڈ سٹی ایریاز اور مرکزی تجارتی علاقوں و سینٹرل بزنس یونٹس(CBU)کی دکانوں اور گوداموں کو ناردرن بائی پاس منتقل کیا جائے اور ان علاقوں کو ازسر ے نو تعمیر کیا جائے۔
دوسری اہم تجویز یہ تھی کہ شہر کے گنجان علاقوں میں مزید افقی یا عموری ہاؤسنگ یونٹس میں اضافہ نہ کیا جائے ماسٹر پلان کی سفارشات میں شامل تھا کہ نارتھ ناظم آبادٹاؤن، جمشید ٹاؤن، صدر ٹاؤن، گلبرگ ٹاؤن، گلشن اقبال ٹاؤن میں مزید ہاؤسنگ یونٹس نہ تعمیر کیے جائی اور کچی آبادیوں کے موجودہ انفرااسٹرکچر کو بہتر کیا جائے، نئے ہاؤسنگ یونٹس گڈاپ ٹاؤن، لانڈھی ٹاؤن، اسکیم 33، سرجانی ٹاؤن، ہاکس بے اسکیم وغیرہ میں تعمیر کی جائیں۔