کیا قصہ۔۔۔۔

’’دنیا کو برے آدمیوں کی بدمعاشی سے اتنا نقصان نہیں پہنچتا جتنا نقصان اچھے آدمیوں کی خاموشی سے پہنچتا ہے۔‘‘ (نپولین)


Jabbar Jaffer December 19, 2013

''دنیا کو برے آدمیوں کی بدمعاشی سے اتنا نقصان نہیں پہنچتا جتنا نقصان اچھے آدمیوں کی خاموشی سے پہنچتا ہے۔'' (نپولین)

قصہ یہ ہے کہ 2014 میں امریکا کو افغانستان سے ہر حال میں نکلنا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے اگر امریکا کو نکلنے میں تھوڑی دیر ہوگئی تو پھر یونائیٹڈ اسٹیٹ آف امریکا پہنچنے میں بہت دیر ہو جائے گی۔ سوویت یونین کا حشر کل کی بات ہے۔ اس کو بھی افغانستان سے نکلنے میں دیر ہوگئی تھی۔ مسئلہ یہ ہے کہ چاہے برطانیہ ہو، روس ہو یا امریکا افغانستان کے چوہے دان میں جاتے اپنی مرضی سے ہیں لیکن نکلنا پختون کی مرضی سے پڑتا ہے۔ پختون کی لسٹ ملاحظہ کیجیے۔ طالبان (ملا عمر والے)، کوئٹہ شوریٰ، پنجابی طالبان، حقانی گروپ، تحریک طالبان پاکستان، تمام کالعدم جہادی تنظیمیں وغیرہ جو سب کے سب امریکا کے دشمن ہیں۔ اس کے علاوہ افغان حکومت ہے، جو چاہتی ہے کہ افغانستان کے تعلق سے جو بھی امریکا طالبان مذاکرات ہوں اس میں وہ شامل رہے۔

پاکستان کی بھی یہی خواہش ہے کہ ایسی مستحکم حکومت قائم ہو تاکہ وہاں سے پاکستان میں تخریب کاری نہ ہو، اور نہ پناہ افغانستان میں ملے، یا تخریب کاری افغانستان میں نہ ہو اور نہ پناہ پاکستان میں ملے وغیرہ۔ یہ سب کے سب نہ صرف امریکا کے دشمن ہیں بلکہ یہ آپس میں بھی ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ کیونکہ امریکا ان کا مشترکہ دشمن ہے اور باہر کا دشمن ہے، ان سے نیٹو کنٹینرز کی واپسی کے لیے محفوظ گزرگاہ کی گارنٹی حاصل کرنے کا سوچ کر ہی پسینہ آتا ہے بلکہ سوچ کو بھی پسینہ آجاتا ہے، مسئلہ لاکھوں نیٹو کنٹینرز کا ہے جس میں مبینہ طور پر فوجیوں کا استعمال شدہ اسلحے کا (اسکریپ) کچرہ ہے۔ کیونکہ یہ جہادیوں کی نظر میں میدان جنگ کا مال غنیمت ہے اور امریکا جا نہیں رہا ہے بلکہ پسپا ہو رہا ہے۔ جو گوریلا جنگ کا کلائمیکس کہلاتا ہے۔ اس وقت یہ کچرا اسپارک پلگ کا کچرا ثابت ہو رہا ہے۔ کنٹینرز بیک فائر کر رہے ہیں، دھواں چھوڑ رہے ہیں، دھچکے کھا رہے ہیں۔

حالات کا مسخرا پن یہ ہے یہ سارے گروپ امریکا کے دشمن بھی ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کے بھی۔ جوں ہی سامنے سے مشترکہ دشمن ہٹا یہ ایک دوسرے سے دست و گریبان ہوئے۔ ایک طرف سب کی دلی خواہش جب کہ جتنی جلد ہوسکے اس قطعہ سے امریکا روانہ ہوجائے دوسری طرف روڑے بھی خود ہی اٹکا رہے ہیں۔

اب رہا پاکستان تو نیٹو کنٹینرز افغانستان سے روانہ ہو کر کراچی آتا ہے، یہاں سے سمندر میں، کراچی کے حالات سب کے سامنے ہیں، بھلا حکومت پاکستان آخری کنٹینر نکل جانے تک محفوظ گزر گاہ کی گارنٹی کیسے دے سکتی ہے؟

آپ نے ایک اشتہار میں یہ جملہ ضرور پڑھا، سنا ہوگا ''ہم آپ کے بالوں کو آپ سے زیادہ جانتے ہیں'' یہی حال ہمارا ہے، امریکا ہماری کرپشن مآب غچہ شاہی کو ہم سے زیادہ جانتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو بھرتی کرنے کے لیے تھوڑی سی سودی امداد (ڈالروں میں) اور فون پر ایک ''ریشمی تڑی'' سے کام نکال لیا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن پاکستان دونوں طرف سے پٹ رہا ہے۔ ایک Do More پہ دو ڈرون میزائل امریکا چلاتا ہے، دو ڈرون میزائل کے جواب میں چار خودکش بمبار طالبان مارتے ہیں جس کے جواب میں چوکس پاکستانی قانون نافذ کرنے والے ادارے موٹرسائیکل پر ڈبل سواری پر پابندی لگا دیتے ہیں، اللہ اللہ خیر صلا۔

آج ہماری یہ حالت ہوگئی ہے کہ ہمارے کارخانوں کی چمنیاں خاموش ہیں، محراب و منبر سے دھواں اٹھ رہا ہے، فضا میں بارود کی بو رچ گئی ہے، بموں کی گھن گرج ، معصوموں کی چیخیں گونج رہی ہیں، گلیوں بازاروں میں موت رقص کر رہی ہے، نہ گھر میں امان ہے نہ گھر کے باہر۔ کراچی والے، جہاں سے نیٹو کنٹینرز بحری جہاز میں لوڈ ہوتا ہے اپنی ذمے داری پر کام پر جانے کے لیے گھر کی دہلیز پار کرتے واپس وہی آتا ہے جس کی موت نہیں آتی۔ مارکیٹ میں اگر کسی کار کا ٹائر برسٹ ہو جائے تو وہ بھگدڑ مچتی ہے کہ سب سے آگے عوام کی جان و مال کے محافظ، سب سے پیچھے عورتیں ، بچے!

سوال اپنی جگہ موجود ہے کیا امریکا 2014 میں اس خطے سے نکل جائے گا۔۔۔۔۔کیسے؟

پچھلے دنوں ایران اور P5+1 (امریکا، روس، چین، برطانیہ، فرانس+ جرمن) دنیا کی چھ بڑی طاقتوں کے درمیان یورینیم کی افزودگی کے حوالے سے کامیاب مذاکرات ہوئے جس میں طے پایا کہ ایران 5 فیصد سے زیادہ یورینیم افزودہ نہیں کرے گا۔ اس وقت 5 فیصد سے زیادہ افزودہ یورینیم کا جتنا ذخیرہ ہے وہ تلف کردے گا۔ جواباً اس کی معاشی پابندیاں نرم کی جائیں گی۔ منجمد اثاثے بحال کردیے جائیں گے وغیرہ وغیرہ۔ اسرائیلی وزیر اعظم کی چیخ و پکار پر کسی نے کان نہیں دھرا۔ یہ 2013 کا سب سے اہم Event ہے جس کی کئی جہتیں قابل غور ہیں۔ اس میں مستقبل قریب میں امریکا کی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیوں کے امکانات نظر آتے ہیں (جس پر بحث پھر کبھی) لیکن اس وقت امریکا نے اس سمجھوتے سے ایک اہم مقصد حاصل کرلیا۔

وہ یہ کہ 2014 میں اگر کبھی پاکستان کے راستے نیٹو کنٹینرز کے انخلا میں خلل پڑا تو امریکا ایران سے چاہ بیار کی بندرگاہ استعمال کرنے کی درخواست کرسکتا ہے جو گوادر کی بندرگاہ سے قریب ایران کی بندرگاہ ہے۔ ایران کی نظر میں امریکا کل تک ''شیطان بزرگ'' تھا اور جس کا ''لے پالک'' اسرائیل ہے اس خطے کا وہ بھی اسٹیک ہولڈر ہوتے ہوئے وہ بھی یہی چاہے گا کہ امریکا کل کا جاتا آج جائے۔ اس کے علاوہ موجودہ حالات کے تناظر میں قوی امکان یہ ہے کہ ایران راضی ہو جائے گا۔

آگے چل کر اگر ایران اپنے وعدے پر قائم رہتا ہے، امریکا کام نکلنے کے بعد آنکھیں نہیں پھیر لیتا، اور سب سے بڑھ کر پھر کسی افغانستان جیسی مہم جوئی میں پھنس کر ڈبکیاں کھاتی ہوئی اپنی معیشت کو مکمل غرق نہیں کرلیتا تو دنیا پر اس معاہدے کے مثبت اثرات پڑیں گے۔ یہ کہنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ چچا سام جیسے بھی ہیں فی الوقت اکلوتے سپرپاور تو ہیں۔ جب تک سپر پاور ہیں تو کھوپڑی میں ''سپر خناس'' تو رہے گا۔ یعنی میرے منہ سے جو نکلے وہی صحیح، جو میں کروں وہی صحیح، باقی سب غلط۔ کچھ ہی عرصہ پہلے افغانستان سے سیدھا امریکا جانے کے بجائے شام میں خانہ جنگی کی بو سونگھ کر وہاں خیمہ گاڑھنے لگے تھے تو قسمت صحیح تھی فریق مخالف میں چین جیسا ڈپلومیسی کا ماہر موجود ہے جس نے شام سے کیمیکل ویپن سرنڈر کروا دیے۔ حکومت مخالف عناصر کو اسلحہ سپلائی کرنے والوں کو روس سے تڑی دلوادی۔ معاملہ رفع دفع کروا دیا۔ کھلی جنگ سے بچا لیا۔

ماؤزے تنگ کا قول ''میدان جنگ میں کبھی دائیں کبھی بائیں ہوجانا، یا کبھی پیچھے ہٹ جانا بزدلی نہیں بلکہ حکمت عملی ہے، بزدلی جنگ کا میدان چھوڑ کر بھاگ جانا ہے''۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں