بے لگام پوت

لاہور سے ایک بار پھر افسوسناک خبر آئی ہے۔ خبر کے مطابق چار طلبا کے تشدد سے ریلو ے کا ٹکٹ چیکر اس دنیا سے...

لاہور سے ایک بار پھر افسوسناک خبر آئی ہے۔ خبر کے مطابق چار طلبا کے تشدد سے ریلو ے کا ٹکٹ چیکر اس دنیا سے کو چ کرگیا۔ ایک زمانہ وہ تھا کہ طلبا اور ٹکٹ چیکرز میں ''بے ٹکٹی'' کی چشمک اور نوک جھونک کا چلن عام تھا، وہیں ان کے درمیان شفقت پدری کا ''یارانہ'' بھی ہوا کرتا تھا۔ بسا اوقات تو ٹکٹ چیکرز ریل کے مختلف ڈبوں میں ٹکٹ چیک کرنے کی ڈیوٹی سر انجام دینے کے بعد طلبا کے ٹولے کے پاس آتے اور ان کی خوش گپیوں سے محظوظ ہوا کرتے لیکن وقت کی گھڑی اور حکمرانوں کی ''چھڑی'' نے وہ ادب آداب ہوا کردیے۔

گزشتہ چند سال کی تعلیمی پالیسیوں نے طلبا میں وہ ''طالبانہ خو'' ختم کردی، جو طلبا طبقے کی پہچان تھی۔ انھی حکومتی پالیسیوں کی مہربانی کی وجہ سے وہ طلبا جو کل تک سرتا پا ادب کا نمونہ ہوا کرتے تھے وہ آج ''اینگری ینگ مین'' کا کردار ادا کرتے پائے جاتے ہیں۔ مادر پدر آزاد پالیسیوں کی بنا پر طلبا اپنی راہ میں حائل ہر اس رکاوٹ کو روندنا اپنا حق سمجھتے ہیں جس سے ان کے جذبات پر ضرب پڑے۔ وہی طلبا جو کل تک ریلوے ٹکٹ چیکرز اور بس کنڈیکٹر کو اپنی ''مجبوریاں'' بتا کر کرایہ نہ دینے پر قائل کرتے وہ آج ''کرنا ہے جو کرلو'' کی عملی تفسیر بنے پھرتے ہیں۔

بھلے زمانے میں اگر کوئی ایک آدھ طالب علم ''لائن'' سے اترنے کی کوشش کرتا بس اسے استاد یا ماں باپ کی ''مثال'' ہی کافی ہوتی اور وہ اپنے رویے پر معذرت کرلیا کرتا۔ لیکن ''جان ڈیوی'' کی آمد نے پاکستانی نظام تعلیم کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیے۔ ایک طرف استاد کی تعظیم ختم ہوئی، دوسری جانب والدین کے احترام کا جنازہ نکلتا جارہا ہے۔ حکومتی ایما پر طلبا میں''میں مسٹر رائٹ'' کی سوچ آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگی ہے۔ تماشا آپ کے سامنے ہے اور عقل سب کی حیران ہے اس تماشے پر۔ کیا تعلیم اسی کا نام ہے؟ کیا تعلیم کا مطلب اور مفہوم یہی نکلتا ہے کہ بے ضرر سے انسان سے ذرا سی تو تو میں میں ہو تو اس کی جان لے لی جائے۔ کیا طلبا منہ اندھیرے کتابیں اٹھائے اساتذہ کی تذلیل اور اپنے سے بڑوں کی جان لینے کے لیے گھروں سے نکلا کرتے ہیں؟

چند سال قبل تک طلبا طبقہ معاشرے کی ''درستی'' کا ایک ستون تصور کیا جاتا تھا۔ والدین تو اپنے لخت جگر پر فخر کر تے ہی، دیکھنے اور جاننے والے بھی ان طلبا پر شفقت اور محبت کی برکھا برسایا کرتے۔ طلبا نسل گویا پوری قوم کی سانجھی تھی۔ اب مادر پدر آزادی اور روشن خیالی نے طلبا سے ''ادب'' چھین لیا اور معاشرہ اپنی نئی نسل کی عقیدت سے محروم ہوگیا۔ نقصان در نقصان کا سلسلہ بڑی تیزی سے جاری ہے۔ دوسروں کی بلکہ بڑوں کے ادب کرنے کی روایت اب کہاں دفن ہوچکی؟ اس کی قبر تک سے قوم ناآشنا ہے۔ جان ڈیوی کے پیروکاروں اور غیر قوتوں کے ہاتھوں تعلیم کو ''سیل'' کرنے کے بعد تعلیمی امور میں نئے رجحانات اور جہتوں کے نام پر ایسی خرافات نازل کردی گئیں، جن کا ذکر بھی کھلے بندوں کرنا قلم کے لیے مشکل ہے۔


مادر پدر آزادی کے نظریے نے جہاں طلبا کو پڑھائی کے خوف سے آزاد کردیا، ساتھ ہی طلبا میں دوسروں کے لیے ''ادب نوازی'' کی جگہ ''اینگری ینگ مین'' کے جذبے کو فروغ دیا گیا۔ مختلف عوامی حلقے اس خبر پر تاسف کا اظہار کررہے ہیں۔ علمی اور ادبی حلقوں میں یکے بعد دیگرے رونما ہونے والے واقعات نے معاشرے کو سانپ سونگھا دیا ہے۔ وہ طلبا جو کل تک اپنے استاد کی جوتیاں سیدھی کرنے کو اپنا ''کل'' تصور کیا کرتے تھے، وہ آج اپنے اساتذہ کے گریبانوں پر ہاتھ ڈالنے سے نہیں چوکتے، وہ طلبا جو راہ چلنے والوں کے لیے سرتاپا ''آسانی'' کے مینار تھے، وہ طلبا جو معذوروں، کمزوروں اور بزرگوں کے لیے ''بیساکھی'' بنا کرتے تھے، ان کے ہاتھوں سے آج لوگ قتل ہورہے ہیں۔ اساتذہ سے بدتمیزی کرنا گزشتہ چند سال میں طلبا کا وطیرہ بن گیا ہے لیکن اتنا جلد معاملہ یہاں تک پہنچے گا شاید کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔

حالات کیا ہیں؟ جس معاشرے میں استاد طلبا کے ہاتھوں یرغمال ہو جہاں استاد کے پیٹھ پیچھے ''سیٹیاں'' بجانا طلبا کا مشغلہ جاں ہو، جس معاشرے میں طلبا استاد کے گریبان پر ہاتھ ڈالنا بہادری تصور کریں۔ پیچھے کیا رہ جاتا ہے؟ بے لگام آزادی اور پھر ''چیک اینڈ بیلنس'' کی ناپیدی کی ''بیماری'' سے کل تک کالجز اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ ''عزت سادات'' بچانے کی فکر میں غلطاں تھے لیکن حکومتی سطح پر تعلیمی مد میں اپنائی جانیوالی پالیسیوں سے حالات اس نہج پر ہیں کہ اب اسکولوں کے طلبا بھی رویوں کے لحاظ سے ''کالجیٹ'' بن گئے ہیں۔ کسی بھی سرکاری اور نجی اسکول کے اندرونی حالات پر کڑی نظر رکھ لیں۔ تعلیم کے نام پر سارے کا سارا ''کچا چٹھا'' آپ کے سامنے آجائے گا۔ کسی زمانے میں ''باادب بامراد'' کا مقولہ اور اس پر عمل دانش گاہوں کا ''ماٹو'' ہوا کرتا تھا، عہد حاضر کے حالات اس سے قطعی برعکس ہیں۔ اب ہر طرف ''بے ادب بامراد'' کی گونج ہے۔ کون پڑھتا ہے، کون نہیں پڑھتا؟ بھلے وقتوں میں پاکستانی درسگاہوں میں صرف اس نکتے پر نظر رکھی جاتی تھی اور اب روشن خیالی آگئی۔

لشتم پشتم اور فیشن سے لدھے یونیفارم نے ان کی جگہ لے لی ہے۔ رہ گئی پڑھائی اور ادب؟ جس نے تعلیمی مدارج طے کرنے ہیں خود طے کرے۔ کہ استاد سے طلبا کی ''کردار سازی'' سکوں کی جھنکار پر فدا ہونیوالوں نے چھین لی ہے۔ اختلاف ہے تو چند سال میں روا رکھی جانیوالی مادر پدر آزاد تعلیمی پالیسیوں اور اقدامات سے نتائج خود اخذ کرلیں۔ نئی نسل کو کس ''تاریکی'' میں دھکیلا جارہا ہے؟ جانتے بوجھتے اسلامی اور مشرقی روایات کو پاؤں تلے روندنے کے نتائج آپ کے دائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر ہیں۔ دیکھ لیجیے! درس گاہوں میں کیا ہورہا ہے؟

لا ہور کی جامعہ کا قضیہ اور طلبا کے ہاتھوں ٹکٹ چیکر کا قتل محض اس لیے ''مثال'' بن گئے کہ متذکرہ دونوں المناک واقعات میں میڈیا نے اپنا ''حصہ'' ڈالا۔ حقائق اس سے بھی زیادہ خوفناک ہیں۔ کراچی کی تعلیمی درس گاہوں میں کیا ہورہا ہے؟ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ کراچی سے شروع ہوجائیے اور پشاور تک کے تعلیمی اداروں کو کھنگال لیجیے۔ رونگٹے کھڑے کردینے والے واقعات سے آپ کا دامن بھر جائے گا۔ درس گاہوں میں ایسے قصے کیوں جنم لے رہے ہیں؟ آسان سے الفاظ میں اس کا جواب یہ ہے کہ تعلیم کبھی ہماری اولین ترجیح رہی ہی نہیں۔ حکومت اور سماج دونوں سطح پر تعلیم کو نظر انداز کرنے کا رویہ ہمارے خون میں رچا بسا ہے۔ اگر قیام پاکستان کے بعد تعلیم کے حصول کو اولین ترجیح قرار دیا جاتا اور صدق دل سے حکومتی اور سماجی سطح پر تعلیم کے حصول کے باب میں سنجیدہ اقدامات کیے جاتے، تو آج ہمارا رنجیدہ واقعات سے واسطہ نہ پڑتا۔ ہم اپنے ''کل'' سے اس لیے مایوس ہیں کہ ہم اپنے ''آج'' بننے والے ''کل'' پر وہ توجہ نہیں دے رہے جو اس کا حق ہے۔ اپنی نئی پوت کو ادب کی لگام ڈالنے کی سبیل کیجیے ورنہ کل کلاں آپ کا گریباں بھی محفوظ نہیں ہوگا۔
Load Next Story