کراچی ٹارگٹڈ آپریشن کے مضمرات
کراچی آپریشن کے تین ماہ مکمل ہونے کے بعد بھی بدامنی کی ملک گیر لہر نے شہریوں کو سکون کا سانس نہیں لینے دیا۔۔۔
کراچی آپریشن کے تین ماہ مکمل ہونے کے بعد بھی بدامنی کی ملک گیر لہر نے شہریوں کو سکون کا سانس نہیں لینے دیا، گو آپریشن اپنی شد و مد کے ساتھ جاری و ساری ہے لیکن نتیجہ خیز صورت حال کسی طور پر دکھائی نہیں دے رہی۔ آئی جی پولیس شاہد ندیم کے مطابق ستمبر 2013 سے 7376مختلف مقامات پر چھاپے مارے گئے، جن میں مبینہ طور پر 509 پولیس مقابلے ہوئے اور ان مقابلوں میں 81 ''دہشت گرد'' بھی ہلاک ہوئے، جب کہ گرفتار ہونے والوں کی 10179 کی تعداد پر سینٹرل اور ڈسٹرکٹ جیل ملیر کے ذرایع کے مطابق تقریباً 5,500 ملزمان آئے، جب کہ چار ہزار سے زائد ملزمان کے حوالے سے ابھی تک وضاحت سامنے نہیں آئی کہ اگر 10,000 سے زائد ملزمان گرفتار کیے گئے تو باقی 4 ہزار سے زائد ملزمان کہاں گئے۔
10179 ملزمان کی گرفتاری میں 3572 اشتہاری اور مفرور ملزمان بھی شامل ہیں، جب کہ 246 ملزمان کو ٹارگٹ کلنگ، دہشت گردی، بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کے حوالے سے گرفتار کیا گیا، جب کہ 619 ملزمان کو ڈکیتی کے ملزمان ظاہر کیا گیا۔ 3000 سے زائد ملزمان کو غیر قانونی اسلحہ اور 2000 سے زائد ملزمان کو منشیات فروشی کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ اس قدر گنجلگ اعداد و شمار کے بعد جب نتائج نکالے جاتے ہیں تو ڈھاک کے تین پات ہی نظر آتے ہیں۔ کراچی میں بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ، منشیات فروشی کے اڈے اور اسٹریٹ کرائم کے واقعات میں تواتر سے اضافہ ہی دیکھنے کو مل رہا ہے، جب کہ عوام کو اسنیپ چیکنگ اور گھر گھر تلاشی میں سوائے پریشانی اور ہراساں ہونے کے کچھ اور فائدہ نہیں مل پارہا۔
تحفظ پاکستان آرڈیننس پر عمل درآمد کے لیے وزیراعلیٰ سندھ نے احکامات جاری کیے ہیں، جب کہ اس آرڈیننس کو پارلیمنٹ سے منظور کرانے کی کوشش بھی کی جارہی ہے۔ ٹارگیٹڈ آپریشن تمام تر احکامات و ہدایات کے باوجود نتیجہ خیز اس لیے ثابت نہیں ہورہا کیوںکہ گرفتار کیے جانے والے ملزمان کی بڑی تعداد کسی سیاسی جماعت سے منسلک ہے اور یہی اس کا جرم کہلایا جارہا ہے۔ اگر اردو بولنے والا گرفتار ہوتا ہے تو اسے ایم کیو ایم میں شامل کرلیا جاتا ہے اور اگر پشتو بولنے والا ہے تو اسے اے این پی یا جہادی تنظیموں سے تعلق وار بنادیا جاتا ہے۔
اسی طرح سندھی اور بلوچی ملزمان کو کالعدم کمیٹیوں سمیت قوم پرست جماعتوں کا ہمنوا قرار دے دیا جاتا ہے۔ شرجیل میمن کے مطابق پی پی پی کا ایک کارکن بھی گرفتار نہیں ہوا۔ کراچی میں ٹارگیٹڈ آپریشن جس قدر تیزی سے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے اس کے مضمرات بھی منظر عام پر آنا شروع ہوگئے ہیں۔ اورنگی کے علاقے گبول ٹاؤن کے رہائشیوں نے میڈیا کو بتایا کہ ''نامعلوم پولیس پارٹیاں'' انھیں گھروں سے نکال کر تلاشی کے بہانے ان کا قیمتی سامان لوٹ لیتے ہیں، جب کہ مختلف مضافاتی علاقوں میں روزگار کے لیے آنے والے پشتونوں کو بڑے مصائب کا سامنا ہے۔
پیر آباد، لانڈھی، ناظم آباد، فرنٹیئر کالونی، میٹروول، بلدیہ جیسے علاقوں میں خیبر پختونخوا سے آنے والے ہزاروں، لاکھوں پختون ڈیروں میں اجتماعی شکل میں رہتے ہیں، ایک مکان میں 40، پچاس نفوس کا رہنا معمول کا حصہ ہے، ان آبادیوں کے رہائشوں کو متواتر ایسے چھاپوں کا سامنا رہتا ہے جس میں صرف دو تین ڈیروں سے بڑی تعداد اٹھالی جاتی ہے اور ٹارگیٹڈ آپریشن کے سیزن میں ان افراد کو چھوڑ دیا جاتا ہے، جو پولیس کو رشوت دے، بصورت دیگر جیلوں میں آنے والے متعدد ملزمان کی تعداد ایسی ہے جن کے اہل خانہ کو علم بھی نہیں کہ انھیں گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیاگیا ہے۔
اسی طرح ٹارگیٹڈ آپریشن کے اس دھندے میں بڑی تعداد ایسی بھی ہے جنھیں ہولناک تشدد کا نشانہ بنایا گیا ، انسانیت سوز تشدد میں انھیں تھانوں اور ایسے عقوبت خانوں میں رکھا گیا جہاں کمر بھی سیدھی کرنے کے لیے کھڑے ہونے کی جگہ میسر نہ تھی ، پیروں کے تلوؤں اور تابڑ توڑ چھتروں سمیت بجلی کے دیے جانے والے کرنٹ نے انھیں چلنے پھرنے سے عاجز بنادیا ہے۔ پیروں کے ٹخنوں، گھٹنوں اور ناف کے اوپری حصوں پر بریکٹ لگاکر خوفناک تشدد کیا جاتا ہے۔ پیروں کے ناخن نکال لیے جاتے ہیں اور 4x4 کے عقوبت خانوں میں طویل عرصے تک تنہائی کی سزا دے کر انھیں ذہنی مریض بنادیا جاتا ہے۔ دونوں ہاتھوں کو پچھلی طرف سے باندھ کر چھت پر لگے ہینگر سے کئی دنوں تک الٹا لٹکایا جاتا ہے تو جسمانی طور پر تشدد کے تمام حربے آزمائے جاتے ہیں۔
ٹارگیٹڈ آپریشن کا سب سے تاریک پہلو یہی ہے کہ تمام تر تشدد کے باوجود وہ فرد بے گناہ ثابت ہوتا ہے تو اسے رہا کرنے کے بجائے غیر قانونی اسلحے کے کیس میں ملوث کرکے جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ ایسے ملزمان کی بڑی تعداد کو دیکھا ہے کہ جس میں ان پر کوئی ایسا بڑا الزام ثابت نہیں ہوسکا لیکن انھیں ان کی سیاسی وابستگی کی بناء پر مورد الزام قرار دے کر جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ رینجرز کی جانب سے اٹھائے جانے والے افراد کو جب پولیس کے حوالے کیا جاتا ہے تو تشدد سے زیادہ زخمی ہونے والے ملزمان کو بیشتر تھانے کے SHO لینے سے انکار کردیتے ہیں لیکن بعض تھانے ایسے ملزمان کو اس لیے لے لیتے ہیں کہ وہ اعلیٰ حکام کے دباؤ کا شکار ہوجاتے ہیں۔
بعد ازاں بیشتر تھانوں میں ان پر مزید مقدمات ڈالنے کی روش بھی قائم ہے کہ وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایسی FIR تلاش کرتے ہیں جس میں اس ملزم کے علاقے میں کسی نامعلوم شخص نے قتل کیا ہو۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کئی سال بعد وہ نامعلوم، یکدم معلوم ہوجاتا ہے اور اسے اس FIR میں نامزد کردیا جاتا ہے۔ ساڑھے تین ہزار سے زائد اشتہاری اور مفرور ملزمان میں بڑی تعداد ایسے ملزمان کی ہے جنھیں پرانی نامعلوم FIR میں نامزد کردیا جاتا ہے، کیوںکہ ان ایف آئی آر میں نام اور ولدیت معدوم ہوتی ہے، اس لیے کسی بھی فرد کو نامزد کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
لیکن اس کے نتائج کچھ اس طرح نکلتے ہیں کہ مدعی اگر سرکار ہے تو مقدمہ ویسا ہی کمزور ہوتا ہے اور اگر کوئی مدعی پرائیویٹ ہے تو اسے گرفتار ملزم سے کبھی آگاہی نہیں ہوتی۔ اس لیے عدالتوں میں ایسے ملزمان کو باآسانی ضمانت مل جاتی ہے اور پھر حکومت کی جانب سے واویلا کیا جاتا ہے کہ ٹارگٹ کلرز کی اتنی تعداد گرفتار کی لیکن عدالتوں نے انھیں چھوڑ دیا۔
ٹارگیٹڈ آپریشن میں جب 10 ہزار سے زائد ملزمان کی گرفتاری کے بعد جیل حکام کی جانب سے یہ وضاحت آئی کہ ان کی جیلوں میں 10 ہزار نہیں بلکہ 5 ہزار کے قریب ملزمان قید ہیں تو سپریم کورٹ میں دی جانے والی پولیس رپورٹ کے بعد ہلچل مچ گئی کہ باقی ملزمان کہاں ہیں؟
جب کہ میری دانست میں یہاں اعداد و شمار میں جلد بازی کا مظاہرہ کیا گیا ہے، غالباً امکان یہی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ہزاروں افراد پر دہرے مقدمات بھی قائم کیے ہیں جیسے کسی ملزم کو 23-A غیر قانونی اسلحہ میں گرفتار کیا تو اس پر دوسری FIR، 6/9-A کی بھی ڈال دی گئی۔ اسی طرح پولیس مقابلے میں 353 کے تحت کسی ملزم کو گرفتار کیا گیا تو اس پر دوسری FIR، 22-Aکی بھی ڈال دی گئی۔ کیوںکہ امتناع منشیات، غیر قانونی اسلحے کے حوالے سے بڑی گرفتاریاں ظاہر کی گئیں تو غالب امکان یہی ہے کہ ''مارو ایک گنو دس'' کے مصداق جداگانہ ایف آئی آر پر زائد ملزمان ظاہر کیے گئے۔ ورنہ یہ تو ناممکن ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں ملزمان جیل پہنچنے کے بجائے لاپتہ ہوجائیں۔ ویسے ہی سینٹرل جیل کے 41 قیدیوں کی دہری شناخت کے حوالے سے اسکینڈل حکام کے لیے درد سر بنا ہوا ہے۔
ٹارگیٹڈ آپریشن کے حوالے سے تیسرے مرحلے کے خدوخال سامنے آچکے ہیں کہ پولیس حکام 450 ایسے افراد سیاسی جماعتوں سے حاصل کرنے کے خواہاں ہیں، جنھیں وہ گرفتار کرنا چاہتی ہے۔ یہاں پولیس کی رٹ قائم ہونے کا سوال اٹھ جاتا ہے کہ قانون کی نظر میں تمام ملزمان برابر ہیں۔ کوئی سیاسی دباؤ نہیں ہے وغیرہ وغیرہ کے دعوے کھوکھلے ثابت ہوچکے ہیں ۔کہا جا رہا ہے کہ 3 ماہ جاری آپریشن میں مختلف سیاسی جماعتوں کے سیکڑوں کارکنان اٹھائے گئے۔ لیکن اتنے عرصے میں کسی بھی سیاسی جماعت نے احتجاج نہیں کیا۔ لہٰذا پولیس کی جانب سے 450 افراد کو سیاسی جماعتوں سے طلب کرنا مضحکہ خیز صورت حال ہے۔
یہ لازم امر ہے کہ آخر کوئی کب تک بے گناہ افراد کی گرفتاریوں پر خاموش رہے گا۔ 3 ماہ بعد اگر کسی بھی جانب سے احتجاج کی کال دے دی جاتی ہے تو یہ فرسٹریشن کی آخری حد ہے۔ تمام تر ریاستی قوت کے بعد بھی اگر نتائج صفر رہیں تو ارباب اختیار کو اپنے گریبانوں میں ضرور جھانکنا چاہیے کہ اصل خامی کہیں ان میں تو نہیں ہے۔ جو یقینی طورپر موجود ہے۔ اس لیے تحفظ پاکستان آرڈیننس مکمل نافذ کرنے سے پہلے تطہیر و اصلاح ضروری ہے۔
10179 ملزمان کی گرفتاری میں 3572 اشتہاری اور مفرور ملزمان بھی شامل ہیں، جب کہ 246 ملزمان کو ٹارگٹ کلنگ، دہشت گردی، بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کے حوالے سے گرفتار کیا گیا، جب کہ 619 ملزمان کو ڈکیتی کے ملزمان ظاہر کیا گیا۔ 3000 سے زائد ملزمان کو غیر قانونی اسلحہ اور 2000 سے زائد ملزمان کو منشیات فروشی کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ اس قدر گنجلگ اعداد و شمار کے بعد جب نتائج نکالے جاتے ہیں تو ڈھاک کے تین پات ہی نظر آتے ہیں۔ کراچی میں بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ، منشیات فروشی کے اڈے اور اسٹریٹ کرائم کے واقعات میں تواتر سے اضافہ ہی دیکھنے کو مل رہا ہے، جب کہ عوام کو اسنیپ چیکنگ اور گھر گھر تلاشی میں سوائے پریشانی اور ہراساں ہونے کے کچھ اور فائدہ نہیں مل پارہا۔
تحفظ پاکستان آرڈیننس پر عمل درآمد کے لیے وزیراعلیٰ سندھ نے احکامات جاری کیے ہیں، جب کہ اس آرڈیننس کو پارلیمنٹ سے منظور کرانے کی کوشش بھی کی جارہی ہے۔ ٹارگیٹڈ آپریشن تمام تر احکامات و ہدایات کے باوجود نتیجہ خیز اس لیے ثابت نہیں ہورہا کیوںکہ گرفتار کیے جانے والے ملزمان کی بڑی تعداد کسی سیاسی جماعت سے منسلک ہے اور یہی اس کا جرم کہلایا جارہا ہے۔ اگر اردو بولنے والا گرفتار ہوتا ہے تو اسے ایم کیو ایم میں شامل کرلیا جاتا ہے اور اگر پشتو بولنے والا ہے تو اسے اے این پی یا جہادی تنظیموں سے تعلق وار بنادیا جاتا ہے۔
اسی طرح سندھی اور بلوچی ملزمان کو کالعدم کمیٹیوں سمیت قوم پرست جماعتوں کا ہمنوا قرار دے دیا جاتا ہے۔ شرجیل میمن کے مطابق پی پی پی کا ایک کارکن بھی گرفتار نہیں ہوا۔ کراچی میں ٹارگیٹڈ آپریشن جس قدر تیزی سے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے اس کے مضمرات بھی منظر عام پر آنا شروع ہوگئے ہیں۔ اورنگی کے علاقے گبول ٹاؤن کے رہائشیوں نے میڈیا کو بتایا کہ ''نامعلوم پولیس پارٹیاں'' انھیں گھروں سے نکال کر تلاشی کے بہانے ان کا قیمتی سامان لوٹ لیتے ہیں، جب کہ مختلف مضافاتی علاقوں میں روزگار کے لیے آنے والے پشتونوں کو بڑے مصائب کا سامنا ہے۔
پیر آباد، لانڈھی، ناظم آباد، فرنٹیئر کالونی، میٹروول، بلدیہ جیسے علاقوں میں خیبر پختونخوا سے آنے والے ہزاروں، لاکھوں پختون ڈیروں میں اجتماعی شکل میں رہتے ہیں، ایک مکان میں 40، پچاس نفوس کا رہنا معمول کا حصہ ہے، ان آبادیوں کے رہائشوں کو متواتر ایسے چھاپوں کا سامنا رہتا ہے جس میں صرف دو تین ڈیروں سے بڑی تعداد اٹھالی جاتی ہے اور ٹارگیٹڈ آپریشن کے سیزن میں ان افراد کو چھوڑ دیا جاتا ہے، جو پولیس کو رشوت دے، بصورت دیگر جیلوں میں آنے والے متعدد ملزمان کی تعداد ایسی ہے جن کے اہل خانہ کو علم بھی نہیں کہ انھیں گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیاگیا ہے۔
اسی طرح ٹارگیٹڈ آپریشن کے اس دھندے میں بڑی تعداد ایسی بھی ہے جنھیں ہولناک تشدد کا نشانہ بنایا گیا ، انسانیت سوز تشدد میں انھیں تھانوں اور ایسے عقوبت خانوں میں رکھا گیا جہاں کمر بھی سیدھی کرنے کے لیے کھڑے ہونے کی جگہ میسر نہ تھی ، پیروں کے تلوؤں اور تابڑ توڑ چھتروں سمیت بجلی کے دیے جانے والے کرنٹ نے انھیں چلنے پھرنے سے عاجز بنادیا ہے۔ پیروں کے ٹخنوں، گھٹنوں اور ناف کے اوپری حصوں پر بریکٹ لگاکر خوفناک تشدد کیا جاتا ہے۔ پیروں کے ناخن نکال لیے جاتے ہیں اور 4x4 کے عقوبت خانوں میں طویل عرصے تک تنہائی کی سزا دے کر انھیں ذہنی مریض بنادیا جاتا ہے۔ دونوں ہاتھوں کو پچھلی طرف سے باندھ کر چھت پر لگے ہینگر سے کئی دنوں تک الٹا لٹکایا جاتا ہے تو جسمانی طور پر تشدد کے تمام حربے آزمائے جاتے ہیں۔
ٹارگیٹڈ آپریشن کا سب سے تاریک پہلو یہی ہے کہ تمام تر تشدد کے باوجود وہ فرد بے گناہ ثابت ہوتا ہے تو اسے رہا کرنے کے بجائے غیر قانونی اسلحے کے کیس میں ملوث کرکے جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ ایسے ملزمان کی بڑی تعداد کو دیکھا ہے کہ جس میں ان پر کوئی ایسا بڑا الزام ثابت نہیں ہوسکا لیکن انھیں ان کی سیاسی وابستگی کی بناء پر مورد الزام قرار دے کر جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ رینجرز کی جانب سے اٹھائے جانے والے افراد کو جب پولیس کے حوالے کیا جاتا ہے تو تشدد سے زیادہ زخمی ہونے والے ملزمان کو بیشتر تھانے کے SHO لینے سے انکار کردیتے ہیں لیکن بعض تھانے ایسے ملزمان کو اس لیے لے لیتے ہیں کہ وہ اعلیٰ حکام کے دباؤ کا شکار ہوجاتے ہیں۔
بعد ازاں بیشتر تھانوں میں ان پر مزید مقدمات ڈالنے کی روش بھی قائم ہے کہ وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایسی FIR تلاش کرتے ہیں جس میں اس ملزم کے علاقے میں کسی نامعلوم شخص نے قتل کیا ہو۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کئی سال بعد وہ نامعلوم، یکدم معلوم ہوجاتا ہے اور اسے اس FIR میں نامزد کردیا جاتا ہے۔ ساڑھے تین ہزار سے زائد اشتہاری اور مفرور ملزمان میں بڑی تعداد ایسے ملزمان کی ہے جنھیں پرانی نامعلوم FIR میں نامزد کردیا جاتا ہے، کیوںکہ ان ایف آئی آر میں نام اور ولدیت معدوم ہوتی ہے، اس لیے کسی بھی فرد کو نامزد کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
لیکن اس کے نتائج کچھ اس طرح نکلتے ہیں کہ مدعی اگر سرکار ہے تو مقدمہ ویسا ہی کمزور ہوتا ہے اور اگر کوئی مدعی پرائیویٹ ہے تو اسے گرفتار ملزم سے کبھی آگاہی نہیں ہوتی۔ اس لیے عدالتوں میں ایسے ملزمان کو باآسانی ضمانت مل جاتی ہے اور پھر حکومت کی جانب سے واویلا کیا جاتا ہے کہ ٹارگٹ کلرز کی اتنی تعداد گرفتار کی لیکن عدالتوں نے انھیں چھوڑ دیا۔
ٹارگیٹڈ آپریشن میں جب 10 ہزار سے زائد ملزمان کی گرفتاری کے بعد جیل حکام کی جانب سے یہ وضاحت آئی کہ ان کی جیلوں میں 10 ہزار نہیں بلکہ 5 ہزار کے قریب ملزمان قید ہیں تو سپریم کورٹ میں دی جانے والی پولیس رپورٹ کے بعد ہلچل مچ گئی کہ باقی ملزمان کہاں ہیں؟
جب کہ میری دانست میں یہاں اعداد و شمار میں جلد بازی کا مظاہرہ کیا گیا ہے، غالباً امکان یہی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ہزاروں افراد پر دہرے مقدمات بھی قائم کیے ہیں جیسے کسی ملزم کو 23-A غیر قانونی اسلحہ میں گرفتار کیا تو اس پر دوسری FIR، 6/9-A کی بھی ڈال دی گئی۔ اسی طرح پولیس مقابلے میں 353 کے تحت کسی ملزم کو گرفتار کیا گیا تو اس پر دوسری FIR، 22-Aکی بھی ڈال دی گئی۔ کیوںکہ امتناع منشیات، غیر قانونی اسلحے کے حوالے سے بڑی گرفتاریاں ظاہر کی گئیں تو غالب امکان یہی ہے کہ ''مارو ایک گنو دس'' کے مصداق جداگانہ ایف آئی آر پر زائد ملزمان ظاہر کیے گئے۔ ورنہ یہ تو ناممکن ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں ملزمان جیل پہنچنے کے بجائے لاپتہ ہوجائیں۔ ویسے ہی سینٹرل جیل کے 41 قیدیوں کی دہری شناخت کے حوالے سے اسکینڈل حکام کے لیے درد سر بنا ہوا ہے۔
ٹارگیٹڈ آپریشن کے حوالے سے تیسرے مرحلے کے خدوخال سامنے آچکے ہیں کہ پولیس حکام 450 ایسے افراد سیاسی جماعتوں سے حاصل کرنے کے خواہاں ہیں، جنھیں وہ گرفتار کرنا چاہتی ہے۔ یہاں پولیس کی رٹ قائم ہونے کا سوال اٹھ جاتا ہے کہ قانون کی نظر میں تمام ملزمان برابر ہیں۔ کوئی سیاسی دباؤ نہیں ہے وغیرہ وغیرہ کے دعوے کھوکھلے ثابت ہوچکے ہیں ۔کہا جا رہا ہے کہ 3 ماہ جاری آپریشن میں مختلف سیاسی جماعتوں کے سیکڑوں کارکنان اٹھائے گئے۔ لیکن اتنے عرصے میں کسی بھی سیاسی جماعت نے احتجاج نہیں کیا۔ لہٰذا پولیس کی جانب سے 450 افراد کو سیاسی جماعتوں سے طلب کرنا مضحکہ خیز صورت حال ہے۔
یہ لازم امر ہے کہ آخر کوئی کب تک بے گناہ افراد کی گرفتاریوں پر خاموش رہے گا۔ 3 ماہ بعد اگر کسی بھی جانب سے احتجاج کی کال دے دی جاتی ہے تو یہ فرسٹریشن کی آخری حد ہے۔ تمام تر ریاستی قوت کے بعد بھی اگر نتائج صفر رہیں تو ارباب اختیار کو اپنے گریبانوں میں ضرور جھانکنا چاہیے کہ اصل خامی کہیں ان میں تو نہیں ہے۔ جو یقینی طورپر موجود ہے۔ اس لیے تحفظ پاکستان آرڈیننس مکمل نافذ کرنے سے پہلے تطہیر و اصلاح ضروری ہے۔