رنگا رنگ پھول
گنتی کے چار پانچ رسائل کو چھوڑ کر ہمارے یہاں بچوں کا ادب مسلسل زوال اور بے توجہی کا شکار ہوتا چلا آرہا ہے۔
بہت مشکلوں سے اپنے دل کو ایک نیم سیاسی قسم کا کالم لکھنے پر آمادہ کر رہا تھا کہ اسی دوران میں ڈاک دیکھتے ہوئے بچوں کے دو رسالوں''پھول'' اور ''رنگارنگ'' پر نظر پڑی اور یوں اللہ نے یہ مشکل آسان کردی دونوں رسالوں میں اور بہت سی مشترک خصوصیات کے علاوہ ایک خوبی یہ بھی ہے کہ برادرِ عزیز محمد شعیب مرزا کا نام دونوں کے پہلے صفحوں پرجگمگا رہا ہے ''پھول''کے ایڈیٹر تووہ برسوںسے چلے آرہے ہیں مگر ''رنگارنگ'' میں اُن کا نام نگران مجلسِ مشاورت کا حصہ ہے جس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ یہ اُردو اور وطنِ عزیز میں شائع ہونے والا غالباً پہلا بچوں کا رسالہ ہے جس کی مجلسِ ادارت بھی بچوں پر ہی مشتمل ہے ۔
ہمارے بچپن میں (جو اَب پچپن برس سے بھی زیادہ پرانا ہوچکا ہے) بچوں کے چار رسالے ''کھلونا''، ''نونہال''، ''تعلیم و تربیت'' اور ''بچوں کی دنیا'' نسبتاً زیادہ مشہور اور مقبول تھے اس کے بعد احمد فوڈ والوں کے ایما پر عزیزی سلیم مغل نے ''آنکھ مچولی'' کا اجرا کیا جس کی مجلسِ مشاورت میں مجھے بھی شریک ہونے کا موقع ملا فی الوقت ''پُھول'' ہی اپنی باقاعدگی اور معیار کی وجہ سے بچوں میں زیادہ مقبول تھا لیکن ''رنگا رنگ''کے گٹ اَپ، آفسٹ پرنٹنگ اور مشمولات کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اب ''پُھول'' والوں کو بھی اپنے ''کارخانے'' کو اوور ہال کرنا ہوگا کہ اوّل پوزیشن کو قائم رکھنا بعض اوقات اول آنے سے بھی زیادہ مشکل ہوتا ہے۔بچوں کے رسالے کا رنگین اور دیدہ زیب ہونا ایک عالمی سطح پر تسلیم شدہ اُصول ہے کہ بچوں کی آنکھ کا ر دعمل اُن کے دماغ سے بھی زیادہ تیز ہوتاہے۔
مزید کوئی بات کرنے سے پہلے اس افسوسناک صورتِ حال کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے جس میں ہمارے بیشتر اسکول جانے والے بچے نہ تو اُردوڈھنگ سے پڑھ لکھ سکتے ہیں اور نہ ہی اس کو صحیح طرح سے بول پاتے ہیں اوراب تو ''انگریزی زدگی'' کا یہ زہر اُن کی مادری زبانوں تک میں سرایت کرگیا ہے کہ پورے ملک اور بالخصوص پنجاب میں لوگ اپنے بچوں کی اپنی ماں بولی بولنے کی اس طرح سے حوصلہ شکنی کرتے ہیں جیسے وہ کوئی بہت معیوب حرکت کر رہے ہوں۔
اس سے ملتا جُلتا حال انگلش میڈیم اسکولوں میں اُردو کا ہے کہ وہاں عام طور پر اُردو اس طرح سے پڑھائی جاتی ہے کہ اور تو اور بچے اپنا نام تک ٹھیک سے نہیں لکھ پاتے۔ ایک زمانہ تھا ہر مہذب اور لکھے پڑھے گھرمیں بچوں کا کوئی نہ کوئی رسالہ ضرور آتا تھا لیکن اب (کم از کم اُردو کی حد تک) خال خال ہی ایسا منظر دیکھنے میں آتا ہے بلاشبہ اس کی کچھ ذمے داری ان رسائل کے مالکان پر بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ اُن کو ایسے انداز میں چھاپتے ہیں کہ بیشتر بچے ان کے مندرجات کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوتے۔
یہی وجہ ہے کہ گنتی کے چار پانچ رسائل کو چھوڑ کر ہمارے یہاں بچوں کا ادب مسلسل زوال اور بے توجہی کا شکار ہوتا چلا آرہا ہے ۔ دنیا بھر کے ادب کی نسبت ہمارے یہاں خاص طور پر بچوں کے لیے لکھنے والے ادیب معیار اور مقدار دونوں حوالوں سے بے حد کم ہیں ایسے میں ''رنگا رنگ'' جیسے کسی خوشنما اور جدید تقاضوں کے مطابق رسالے کا اجراء یقینا ایک لائقِ ستائش اور اچھی خبر ہے۔
اس وقت میرے سامنے اس کے اگست اور ستمبرکے شمارے ہیں جس میں شامل تحریریں اور تصویریں نہ صرف خوب صورت اور دلچسپ ہیں بلکہ اس کے ہر صفحے کو آج کے اِردگرد کی دنیا سے باخبر بچے کے ذہن کو سامنے رکھ کر ترتیب دیا گیا ہے جو اس لیے بھی بہت ضروری ہے کہ اس عام لیکن بے معنی تأثر کو ختم کیا جاسکے کہ اچھی چیزیں صرف ترقی یافتہ قوموں کی زبانوں میں ہی لکھی جاسکتی ہیں اور دوسرے اُن کی اُردو پڑھنے کی عادت کو مستحکم کیا جاسکے کہ فی زمانہ زیادہ تر بچے کسی نہ کسی وجہ سے ایسا کرنے میں دِقّت محسوس کرتے ہیں۔
آسان اور عام فہم زبان اور دلکش رنگوں والی تصویروں کے ذریعے ہم اُس بے معنی قسم کے احساسِ کمتری کو بھی بہت حد تک کم کرسکتے ہیں جو ہمارے نظامِ تعلیم میں انگریزی پر ضرورت سے زیادہ زور دینے کی وجہ سے ہمارے بچوں کی زندگیوں کا حصہ بنتا چلا جا رہا ہے ۔
ضرورت اس اَمر کی بھی ہے کہ چار سے بارہ سال کی عمر کے بچوں کو بلحاظِ عمر ایسا نثری اور شعری مواد مہیا کیا جاسکے جس کو نہ صرف وہ آسانی سے سمجھ سکیں بلکہ اُس کے ساتھ اپنا کوئی ایسا ذاتی تعلق بھی استوار کر سکیں جس میں اپنائیت کا جوہر موجود ہو۔ میں نے ذاتی طور پر چار سے آٹھ اور آٹھ سے بارہ برس تک کی عمر کے بچوں کے لیے اسی طرح کے کچھ گیت لکھنے کی کوشش کی ہے جن میں نرسری رائمز کی موسیقیت بھی ہو اور ایسی خیال افروز باتیں بھی جنِ کا تعلق ہمارے معاشرے کی اقدار کے ساتھ ساتھ پوری دنیا سے بھی مربوط ہو ۔ دونوں رنگوں کا ایک ایک گیت کچھ اس طرح سے ہے ۔
مٹی جھوٹ نہیں بولے گی
جتنے کام کریں گے ہم تم
اِک اِک کو یہ تولے گی
مٹی جھوٹ نہیں بولے گی
اُونچے سبز درختوں والی
روشن روشن بختوں والی
ساتھ چلے گی منزل منزل
پُھول سفر کے رستوں والی
ہم ڈولے تو یہ ڈولے گی
مٹی جھوٹ نہیں بولے گی
دیکھتی ہے یہ چُپ رہتی ہے
لیکن اتنا دھیان میں رکھنا
دھرتی جُھوٹ نہیں کہتی ہے
جب بھی اپنے لب کھولے گی
مٹی جھوٹ نہیں بھولے گی
بیج وفا کے بوتے جائیں
ہر اک داغ کو دھوتے جائیں
لمحوں کی اس بَرمالا میں
اِک اِک سانس پروتے جائیں
ساتھ ہنسے گی اور رولے گی
مٹی جھوٹ نہیں بولے گی
10 اکتوبر کو عالمی سطح پر ذہنی طور پر پسماندہ بچوں کا دن منایا جاتا ہے اس گیت میں اُن کے ساتھی صحت مند بچوں کی توجہ اس بات کی طرف بھی دلائی گئی ہے کہ اس ضمن میں اُن کا معاشرتی فریضہ کیا ہے اور انھیں کیا کرنا چاہیے۔
تھکی تھکی خالی آنکھوں کو خواب اک دیتے جائیں
دُکھ سے بوجھل ان کاندھوں کا کچھ تو بوجھ گھٹائیں
رات سیہ اور تیز ہوا ہے اور سفر ہے عمروں کا
ایک دیا بُجھنے سے روکیں ایک چراغ جلائیں
بس اِک بول تسلی والا ایک نظر سی اُلفت کی
بجھتے چہرے روشن کردیں، راکھ میں پھول کھلائیں
تھکی تھکی خالی آنکھوں کو خواب اک دیتے جائیں
ہمارے بچپن میں (جو اَب پچپن برس سے بھی زیادہ پرانا ہوچکا ہے) بچوں کے چار رسالے ''کھلونا''، ''نونہال''، ''تعلیم و تربیت'' اور ''بچوں کی دنیا'' نسبتاً زیادہ مشہور اور مقبول تھے اس کے بعد احمد فوڈ والوں کے ایما پر عزیزی سلیم مغل نے ''آنکھ مچولی'' کا اجرا کیا جس کی مجلسِ مشاورت میں مجھے بھی شریک ہونے کا موقع ملا فی الوقت ''پُھول'' ہی اپنی باقاعدگی اور معیار کی وجہ سے بچوں میں زیادہ مقبول تھا لیکن ''رنگا رنگ''کے گٹ اَپ، آفسٹ پرنٹنگ اور مشمولات کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اب ''پُھول'' والوں کو بھی اپنے ''کارخانے'' کو اوور ہال کرنا ہوگا کہ اوّل پوزیشن کو قائم رکھنا بعض اوقات اول آنے سے بھی زیادہ مشکل ہوتا ہے۔بچوں کے رسالے کا رنگین اور دیدہ زیب ہونا ایک عالمی سطح پر تسلیم شدہ اُصول ہے کہ بچوں کی آنکھ کا ر دعمل اُن کے دماغ سے بھی زیادہ تیز ہوتاہے۔
مزید کوئی بات کرنے سے پہلے اس افسوسناک صورتِ حال کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے جس میں ہمارے بیشتر اسکول جانے والے بچے نہ تو اُردوڈھنگ سے پڑھ لکھ سکتے ہیں اور نہ ہی اس کو صحیح طرح سے بول پاتے ہیں اوراب تو ''انگریزی زدگی'' کا یہ زہر اُن کی مادری زبانوں تک میں سرایت کرگیا ہے کہ پورے ملک اور بالخصوص پنجاب میں لوگ اپنے بچوں کی اپنی ماں بولی بولنے کی اس طرح سے حوصلہ شکنی کرتے ہیں جیسے وہ کوئی بہت معیوب حرکت کر رہے ہوں۔
اس سے ملتا جُلتا حال انگلش میڈیم اسکولوں میں اُردو کا ہے کہ وہاں عام طور پر اُردو اس طرح سے پڑھائی جاتی ہے کہ اور تو اور بچے اپنا نام تک ٹھیک سے نہیں لکھ پاتے۔ ایک زمانہ تھا ہر مہذب اور لکھے پڑھے گھرمیں بچوں کا کوئی نہ کوئی رسالہ ضرور آتا تھا لیکن اب (کم از کم اُردو کی حد تک) خال خال ہی ایسا منظر دیکھنے میں آتا ہے بلاشبہ اس کی کچھ ذمے داری ان رسائل کے مالکان پر بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ اُن کو ایسے انداز میں چھاپتے ہیں کہ بیشتر بچے ان کے مندرجات کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوتے۔
یہی وجہ ہے کہ گنتی کے چار پانچ رسائل کو چھوڑ کر ہمارے یہاں بچوں کا ادب مسلسل زوال اور بے توجہی کا شکار ہوتا چلا آرہا ہے ۔ دنیا بھر کے ادب کی نسبت ہمارے یہاں خاص طور پر بچوں کے لیے لکھنے والے ادیب معیار اور مقدار دونوں حوالوں سے بے حد کم ہیں ایسے میں ''رنگا رنگ'' جیسے کسی خوشنما اور جدید تقاضوں کے مطابق رسالے کا اجراء یقینا ایک لائقِ ستائش اور اچھی خبر ہے۔
اس وقت میرے سامنے اس کے اگست اور ستمبرکے شمارے ہیں جس میں شامل تحریریں اور تصویریں نہ صرف خوب صورت اور دلچسپ ہیں بلکہ اس کے ہر صفحے کو آج کے اِردگرد کی دنیا سے باخبر بچے کے ذہن کو سامنے رکھ کر ترتیب دیا گیا ہے جو اس لیے بھی بہت ضروری ہے کہ اس عام لیکن بے معنی تأثر کو ختم کیا جاسکے کہ اچھی چیزیں صرف ترقی یافتہ قوموں کی زبانوں میں ہی لکھی جاسکتی ہیں اور دوسرے اُن کی اُردو پڑھنے کی عادت کو مستحکم کیا جاسکے کہ فی زمانہ زیادہ تر بچے کسی نہ کسی وجہ سے ایسا کرنے میں دِقّت محسوس کرتے ہیں۔
آسان اور عام فہم زبان اور دلکش رنگوں والی تصویروں کے ذریعے ہم اُس بے معنی قسم کے احساسِ کمتری کو بھی بہت حد تک کم کرسکتے ہیں جو ہمارے نظامِ تعلیم میں انگریزی پر ضرورت سے زیادہ زور دینے کی وجہ سے ہمارے بچوں کی زندگیوں کا حصہ بنتا چلا جا رہا ہے ۔
ضرورت اس اَمر کی بھی ہے کہ چار سے بارہ سال کی عمر کے بچوں کو بلحاظِ عمر ایسا نثری اور شعری مواد مہیا کیا جاسکے جس کو نہ صرف وہ آسانی سے سمجھ سکیں بلکہ اُس کے ساتھ اپنا کوئی ایسا ذاتی تعلق بھی استوار کر سکیں جس میں اپنائیت کا جوہر موجود ہو۔ میں نے ذاتی طور پر چار سے آٹھ اور آٹھ سے بارہ برس تک کی عمر کے بچوں کے لیے اسی طرح کے کچھ گیت لکھنے کی کوشش کی ہے جن میں نرسری رائمز کی موسیقیت بھی ہو اور ایسی خیال افروز باتیں بھی جنِ کا تعلق ہمارے معاشرے کی اقدار کے ساتھ ساتھ پوری دنیا سے بھی مربوط ہو ۔ دونوں رنگوں کا ایک ایک گیت کچھ اس طرح سے ہے ۔
مٹی جھوٹ نہیں بولے گی
جتنے کام کریں گے ہم تم
اِک اِک کو یہ تولے گی
مٹی جھوٹ نہیں بولے گی
اُونچے سبز درختوں والی
روشن روشن بختوں والی
ساتھ چلے گی منزل منزل
پُھول سفر کے رستوں والی
ہم ڈولے تو یہ ڈولے گی
مٹی جھوٹ نہیں بولے گی
دیکھتی ہے یہ چُپ رہتی ہے
لیکن اتنا دھیان میں رکھنا
دھرتی جُھوٹ نہیں کہتی ہے
جب بھی اپنے لب کھولے گی
مٹی جھوٹ نہیں بھولے گی
بیج وفا کے بوتے جائیں
ہر اک داغ کو دھوتے جائیں
لمحوں کی اس بَرمالا میں
اِک اِک سانس پروتے جائیں
ساتھ ہنسے گی اور رولے گی
مٹی جھوٹ نہیں بولے گی
10 اکتوبر کو عالمی سطح پر ذہنی طور پر پسماندہ بچوں کا دن منایا جاتا ہے اس گیت میں اُن کے ساتھی صحت مند بچوں کی توجہ اس بات کی طرف بھی دلائی گئی ہے کہ اس ضمن میں اُن کا معاشرتی فریضہ کیا ہے اور انھیں کیا کرنا چاہیے۔
تھکی تھکی خالی آنکھوں کو خواب اک دیتے جائیں
دُکھ سے بوجھل ان کاندھوں کا کچھ تو بوجھ گھٹائیں
رات سیہ اور تیز ہوا ہے اور سفر ہے عمروں کا
ایک دیا بُجھنے سے روکیں ایک چراغ جلائیں
بس اِک بول تسلی والا ایک نظر سی اُلفت کی
بجھتے چہرے روشن کردیں، راکھ میں پھول کھلائیں
تھکی تھکی خالی آنکھوں کو خواب اک دیتے جائیں