نیب کی آنکھ سے اوجھل مولانا کے اثاثے
مولانا کا ایک قیمتی اثاثہ انصار الاسلام بھی ہے۔
کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے، مفاہمتی سیاست کے بے تاج بادشاہوں اور ان کے پیادوں نے دوسال ہاتھ پاؤں مارنے کے بعد آخر کار مولانا فضل الرحمان کی قیادت کو تسلیم کرہی لیا اورچاہتے نہ چاہتے ہوئے مولانا کی اقتداء میں "تحریکِ نجات" چلانے پرراضی ہوچکے ہیں۔
اس سلسلے کا پہلا پاور شو 18اکتوبرکو پہلوانوں کے شہر گوجرانوالہ میں ہونے جارہا ہے۔ غربت ، مہنگائی، بے روزگاری ، لاقانونیت، بدامنی، بدحالی اور ظلم کا شکار عوام الناس کو مولانا کی شکل میں امید کی کرن دکھائی دے رہی ہے کیونکہ ایم آر ڈی کے ہیرو مولانا فضل الرحمان کوپاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ( پی ڈی ایم ) کا سربراہ بنا دیا گیا۔
مولانا مفاہمتی سیاست کے نبض شناس ومزاحمتی سیاست کے استعارہ، اسلامی سیاست کے رہبر ، جانشین شیخ الہند، وارث رہنما ہیں، یہی وہ وجہ ہے کہ دائیں ہی نہیں بائیں بازو کی قومی و قوم پرست جماعتوں نے بھی مولانا کی قیادت کے سامنے سرتسلیم خم کردیا ہے لیکن اب بھی سیاسی مبصرین اس بات کے خدشے کا اظہار کررہے ہیں کہ دونوں بڑی جماعتیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) بیچ منجھدار مولانا کو داغ مفارقت دے کر مفاہمت کے ٹرک کی بتی کے پیچھے دوڑ پڑیں گی۔
اس خدشے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ دونوں جماعتوں کا ریکارڈ یقین کی منزل تک پہنچنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے لیکن یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ مذکورہ جماعتوں کے اس روایتی فعل سے اب اس تحریک کو فرق پڑنے والا نہیں، اگر کسی کو فرق پڑا تو وہ انھیں جماعتوں کو پڑے گا کیونکہ اب مولانا فیصلہ کرچکے ہیں کہ موجودہ حکومت کو مزید وقت دینا ملک و قوم کے ساتھ زیادتی ہوگی، عوام بھی مولانا کی آواز پر لبیک کہنے کو بے تاب و بے قرار دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ وہ سمجھ چکے ہیں کہ ملک کی حالت گاؤں میں پیش آنے والے اس حادثے سے مختلف ہرگز نہیں جس میں ایک میراثی نے تیز رفتار گاڑی تلے کچل کر بارات کے پچاس افراد مار ڈالے، لوگوں نے پکڑ کر ملزم کو پولیس کے حوالے کردیا۔
مقدمہ درج ہوا، ملزم کو عدالت میں پیش کیا گیا جج نے ریمانڈ دے دیا۔ تفتیش کے دوران پولیس نے ملزم سے پوچھا اتنے سارے بندے کیسے کچل دیے؟ ملزم نے جواب دیا کہ میں گاڑی چلا رہا تھااچانک بریک فیل ہوگئے، سامنے ایک طرف بارات تھی اور دوسری طرف دو بھائی، اب آپ ہی بتائیں میں گاڑی کس طرف موڑتا؟۔ تفتیشی آفیسر نے جھٹ سے جواب دیا کہ ظاہر ہے دو بھائیوں کی طرف۔ میراثی بولا بادشاہو! میں نے تو یہی کیا تھا لیکن۔۔۔۔۔۔پولیس افسر نے پھر پوچھا تم نے ایسا کیا تھا تو اتنے بندے کیوں مرگئے؟۔ میراثی بولا! وہ دونوں بھائی بھاگ کر بارات میں گھس گئے تھے۔
آج ہمارے ملک کے حالات بھی ایسے ہی ہیں، پی ٹی آئی حکومت نے دو بھائیوں کے چکر میں پوری قوم پر گاڑی چڑھا دی ہے۔
اب اس حادثے کے بعد مولانا فضل الرحمان قوم کو ریسکیو کرنے کے لیے میدان میں کود پڑے ہیں، مولانا کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ جنہوں نے عمران خان کو اقتدار کی گاڑی پر بٹھایا انھیں قوم پر ترس کھانا چاہیے اور یہ گاڑی عوام کے حقیقی نمائندوں کے حوالے کردی جانی چاہیے ۔ مولانا کا راستہ روکنے کے لیے تمام سرکاری مشینری کو استعمال کیا جارہاہے ۔کبھی ان کی کردار کشی کی جارہی کبھی الزامات کے نشتربرسائے جارہے ہیں، حکومتی ترجمانوں کا کوئی منجن نہ بکے تو مولانا کے خلاف گالم گلوچ بریگیڈ سرگرم ہوجاتا ہے۔
کوئی ہتھکنڈا کارگر ثابت نہیں ہوا تو نیب کو ان کے پیچھے لگادیا۔مولانا ہی نہیں اب تومولانا کے رفقاء کے خلاف بھی نیب سرگرم ہے، گزشتہ دنوں سابق ڈسٹرکٹ فارسٹ آفیسر موسی خان کو آمدن سے زائد اثاثوں کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا، حالانکہ یہ وہ افسر ہیں جن کی تعیناتی کے لیے عمران خان کو حتمی فیصلہ کرنا پڑتا تھا لیکن ان کاجرم صرف یہ ہے کہ ان کا بیٹا مولانا کا پرسنل سیکریٹری ہے۔موسی خان نے اپنے ضلع میں بلین ٹرمی سونامی منصوبے کا ٹارگٹ محض چند ماہ میں مکمل کیا تھا بلکہ قبضہ مافیا سے چار سو کنال محکمہ کی اراضی بھی واگزار کرائی تھی۔
ان پر محکمہ کی جناب سے ایک بھی شکایت نہیں تھی ، جب بھی انھیں عدالت پیش کیا جاتا ہے تو سیکڑوں ہزاروں اہل علاقہ عدالت کے باہر جمع ہوتے ہیں۔ موجودہ حکومت کے اکا دکا بندے سمیت اپوزیشن کے تقریبا ہر پارٹی رہنما کے خلاف ہر دوسرے دن نئی کارروائی سامنے آ رہی ہے جس کو دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ نیب عدالت میں اپوزیشن کی آنیاں جانیاں لگی ہوئی ہیں۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے کسی لیڈر سے ایک پائی وصول نہیں کی جاسکی سارا زور جھوٹے سچے کیس بننے پر ہے، نجانے ان کیسز کو ثابت کرنے کے لیے کون سی مخلوق آئے گی، ان کے بس کا کام تو لگتا نہیں۔ ان حالات میں جب بات مولانا فضل الرحمن تک پہنچی تو صورتحال دلچسپ ہوچکی ہے۔
دوسری پارٹیوں کے لیے نیب اور عزرائیل کا بلاوا یکساں دہشت رکھتاہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی کمر درد اور کسی کو کوئی اور مرض لاحق ہوجاتا ہے مگر مولانا فضل الرحمن کے خلاف تحقیقات بارے افواہوں اور غیرمصدقہ خبروں کا طوفان اٹھنے کے بعد بجائے مولانا گوشہ نشین ہو جاتے لیکن ان کی سرگرمیوں میں مزید اضافہ ہوگیا اور حکومت کے زبردستی کے ''ترجمان'' نے مولانا اور آرمی چیف کی ملاقات والی شرلی چھوڑ کر رنگ میں بھنگ ڈال دی ۔یہ معاملہ تو ملکی سلامتی اور اہم نوعیت کا ہے جس کو آغاز پر ہی سمیٹ لیا گیا۔ترجمان صاحب نے ایک دم زبان دانتوں تلے دبا لی ۔ ادھر دوسروں کا پیچھا کرنے والا نیب مولانا کے آگے آگے بھاگ رہا ہے جس کا اندازہ اس سے لگائیے کہ مولانا کو طلبی نوٹس کی تردید بھی آچکی ہے۔
قوم نے یہ منظر بھی دیکھے کہ نیب کے معاملے پر جارحانہ انداز اپنا کر بیک وقت صحافت اور سیاست میں ہلچل مچانے کے بعد مولانا فضل الرحمن خود پہاڑوں کی آغوش میں جا بیٹھے ہیں ،صرف اتنا ہی نہیں افواہوں کی بنیاد پر اپنے خلاف ہونے والے پروپیگنڈا کرنے والوں کو اربوں روپے ہرجانے کے نوٹس بھیجنے کے بعد متعلقہ حکام کو قانونی کارروائی کے واسطے باقاعدہ درخواستیں دے چکے ہیں۔
پوری حکومتی مشینری اس وقت مولانا کے اثاثوں کی چھان بین میں لگی ہوئی ہے، کوئی ان کی نامی و بے نامی جائیدادیں تلاش کررہا ہے، کوئی بینک بیلنس اور پلازوں کی کھوج میں مارا مارا پھر رہا ہے، اب تک تمام کھوجیوں نے مولانا کے اثاثوں کی چھان بین میں وقت کی بربادی کے سوا کچھ نہیں کیا اور انھیں کوئی کامیابی نہیں مل سکی۔
سرکار مزید دس سال بھی لگی رہے تو اسے مولانا کے اثاثوں کی بھنک بھی نہیں پڑنے والی۔ آئیے ہم بتاتے میں مولانا کے اثاثوں کی تفصیلات۔ مولانا کے اثاثوں تک پہنچنے کے لیے کسی پٹوار خانے، کسی تحصیل دار ، ٹاؤن انتظامیہ یا بینکوں کے پاس جانے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں، کراچی سے لے کر خیبر تک پھیلے ہوئے ہزاروں دینی مدارس ان کے سب سے قیمتی اثاثے ہیں، ملک کے طول و عرض میں لاکھوں مساجد کا بچھا ہوا جال مولانا کے اثاثے ہی تو ہیں۔
ان مدارس و مساجد سے وابستہ لاکھوں علماء و مشائخ،علماء و خطباء، موذن و مدرس اور طلباء مولانا کے اثاثے ہیں جو مولانا کی ایک آواز پر لبیک کہتے ہوئے جہاں وہ بلائیں جانے کو تیار ہیں، جسے یقین نہیں وہ گزشتہ سال ہونے والے آزادی مارچ و دھرنے کی تفصیلات نکلوا کر دیکھ لے۔ مولانا کا ایک قیمتی اثاثہ انصار الاسلام بھی ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ جمعیت علماء اسلام کی اس ذیلی تنظیم کے رضا کاروں کی تعداد دولاکھ کے لگ بھگ ہے، جو نہ مولانا سے تنخواہ کا مطالبہ کرتے ہیں نہ کھانے کا، محض اللہ و اللہ کے رسول کی رضا کے لیے مولانا کی قیادت میں ملک میں نفاذ شریعت کا خواہشمند ہے۔ نیب کے ریڈار پر گزشتہ دو سال سے بڑے بڑے سیاسی پنڈت موجود ہیں، سب کے سب خوفزدہ ہیں، سب کے اثاثوں کی تفصیلات قوم کے سامنے آرہی ہیں لیکن جو اثاثے مولانا کے ہیں، وہ کسی اور لیڈر کے پاس نہیں، انھیں اثاثوں نے مولانا کو نڈر ، بہادر اور جرات مند لیڈر بنا دیا ہے۔ یہ مولانا کے وہ اثاثے ہیں جو نیب کی آنکھ سے اوجھل ہیں۔
اس سلسلے کا پہلا پاور شو 18اکتوبرکو پہلوانوں کے شہر گوجرانوالہ میں ہونے جارہا ہے۔ غربت ، مہنگائی، بے روزگاری ، لاقانونیت، بدامنی، بدحالی اور ظلم کا شکار عوام الناس کو مولانا کی شکل میں امید کی کرن دکھائی دے رہی ہے کیونکہ ایم آر ڈی کے ہیرو مولانا فضل الرحمان کوپاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ( پی ڈی ایم ) کا سربراہ بنا دیا گیا۔
مولانا مفاہمتی سیاست کے نبض شناس ومزاحمتی سیاست کے استعارہ، اسلامی سیاست کے رہبر ، جانشین شیخ الہند، وارث رہنما ہیں، یہی وہ وجہ ہے کہ دائیں ہی نہیں بائیں بازو کی قومی و قوم پرست جماعتوں نے بھی مولانا کی قیادت کے سامنے سرتسلیم خم کردیا ہے لیکن اب بھی سیاسی مبصرین اس بات کے خدشے کا اظہار کررہے ہیں کہ دونوں بڑی جماعتیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) بیچ منجھدار مولانا کو داغ مفارقت دے کر مفاہمت کے ٹرک کی بتی کے پیچھے دوڑ پڑیں گی۔
اس خدشے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ دونوں جماعتوں کا ریکارڈ یقین کی منزل تک پہنچنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے لیکن یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ مذکورہ جماعتوں کے اس روایتی فعل سے اب اس تحریک کو فرق پڑنے والا نہیں، اگر کسی کو فرق پڑا تو وہ انھیں جماعتوں کو پڑے گا کیونکہ اب مولانا فیصلہ کرچکے ہیں کہ موجودہ حکومت کو مزید وقت دینا ملک و قوم کے ساتھ زیادتی ہوگی، عوام بھی مولانا کی آواز پر لبیک کہنے کو بے تاب و بے قرار دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ وہ سمجھ چکے ہیں کہ ملک کی حالت گاؤں میں پیش آنے والے اس حادثے سے مختلف ہرگز نہیں جس میں ایک میراثی نے تیز رفتار گاڑی تلے کچل کر بارات کے پچاس افراد مار ڈالے، لوگوں نے پکڑ کر ملزم کو پولیس کے حوالے کردیا۔
مقدمہ درج ہوا، ملزم کو عدالت میں پیش کیا گیا جج نے ریمانڈ دے دیا۔ تفتیش کے دوران پولیس نے ملزم سے پوچھا اتنے سارے بندے کیسے کچل دیے؟ ملزم نے جواب دیا کہ میں گاڑی چلا رہا تھااچانک بریک فیل ہوگئے، سامنے ایک طرف بارات تھی اور دوسری طرف دو بھائی، اب آپ ہی بتائیں میں گاڑی کس طرف موڑتا؟۔ تفتیشی آفیسر نے جھٹ سے جواب دیا کہ ظاہر ہے دو بھائیوں کی طرف۔ میراثی بولا بادشاہو! میں نے تو یہی کیا تھا لیکن۔۔۔۔۔۔پولیس افسر نے پھر پوچھا تم نے ایسا کیا تھا تو اتنے بندے کیوں مرگئے؟۔ میراثی بولا! وہ دونوں بھائی بھاگ کر بارات میں گھس گئے تھے۔
آج ہمارے ملک کے حالات بھی ایسے ہی ہیں، پی ٹی آئی حکومت نے دو بھائیوں کے چکر میں پوری قوم پر گاڑی چڑھا دی ہے۔
اب اس حادثے کے بعد مولانا فضل الرحمان قوم کو ریسکیو کرنے کے لیے میدان میں کود پڑے ہیں، مولانا کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ جنہوں نے عمران خان کو اقتدار کی گاڑی پر بٹھایا انھیں قوم پر ترس کھانا چاہیے اور یہ گاڑی عوام کے حقیقی نمائندوں کے حوالے کردی جانی چاہیے ۔ مولانا کا راستہ روکنے کے لیے تمام سرکاری مشینری کو استعمال کیا جارہاہے ۔کبھی ان کی کردار کشی کی جارہی کبھی الزامات کے نشتربرسائے جارہے ہیں، حکومتی ترجمانوں کا کوئی منجن نہ بکے تو مولانا کے خلاف گالم گلوچ بریگیڈ سرگرم ہوجاتا ہے۔
کوئی ہتھکنڈا کارگر ثابت نہیں ہوا تو نیب کو ان کے پیچھے لگادیا۔مولانا ہی نہیں اب تومولانا کے رفقاء کے خلاف بھی نیب سرگرم ہے، گزشتہ دنوں سابق ڈسٹرکٹ فارسٹ آفیسر موسی خان کو آمدن سے زائد اثاثوں کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا، حالانکہ یہ وہ افسر ہیں جن کی تعیناتی کے لیے عمران خان کو حتمی فیصلہ کرنا پڑتا تھا لیکن ان کاجرم صرف یہ ہے کہ ان کا بیٹا مولانا کا پرسنل سیکریٹری ہے۔موسی خان نے اپنے ضلع میں بلین ٹرمی سونامی منصوبے کا ٹارگٹ محض چند ماہ میں مکمل کیا تھا بلکہ قبضہ مافیا سے چار سو کنال محکمہ کی اراضی بھی واگزار کرائی تھی۔
ان پر محکمہ کی جناب سے ایک بھی شکایت نہیں تھی ، جب بھی انھیں عدالت پیش کیا جاتا ہے تو سیکڑوں ہزاروں اہل علاقہ عدالت کے باہر جمع ہوتے ہیں۔ موجودہ حکومت کے اکا دکا بندے سمیت اپوزیشن کے تقریبا ہر پارٹی رہنما کے خلاف ہر دوسرے دن نئی کارروائی سامنے آ رہی ہے جس کو دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ نیب عدالت میں اپوزیشن کی آنیاں جانیاں لگی ہوئی ہیں۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے کسی لیڈر سے ایک پائی وصول نہیں کی جاسکی سارا زور جھوٹے سچے کیس بننے پر ہے، نجانے ان کیسز کو ثابت کرنے کے لیے کون سی مخلوق آئے گی، ان کے بس کا کام تو لگتا نہیں۔ ان حالات میں جب بات مولانا فضل الرحمن تک پہنچی تو صورتحال دلچسپ ہوچکی ہے۔
دوسری پارٹیوں کے لیے نیب اور عزرائیل کا بلاوا یکساں دہشت رکھتاہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی کمر درد اور کسی کو کوئی اور مرض لاحق ہوجاتا ہے مگر مولانا فضل الرحمن کے خلاف تحقیقات بارے افواہوں اور غیرمصدقہ خبروں کا طوفان اٹھنے کے بعد بجائے مولانا گوشہ نشین ہو جاتے لیکن ان کی سرگرمیوں میں مزید اضافہ ہوگیا اور حکومت کے زبردستی کے ''ترجمان'' نے مولانا اور آرمی چیف کی ملاقات والی شرلی چھوڑ کر رنگ میں بھنگ ڈال دی ۔یہ معاملہ تو ملکی سلامتی اور اہم نوعیت کا ہے جس کو آغاز پر ہی سمیٹ لیا گیا۔ترجمان صاحب نے ایک دم زبان دانتوں تلے دبا لی ۔ ادھر دوسروں کا پیچھا کرنے والا نیب مولانا کے آگے آگے بھاگ رہا ہے جس کا اندازہ اس سے لگائیے کہ مولانا کو طلبی نوٹس کی تردید بھی آچکی ہے۔
قوم نے یہ منظر بھی دیکھے کہ نیب کے معاملے پر جارحانہ انداز اپنا کر بیک وقت صحافت اور سیاست میں ہلچل مچانے کے بعد مولانا فضل الرحمن خود پہاڑوں کی آغوش میں جا بیٹھے ہیں ،صرف اتنا ہی نہیں افواہوں کی بنیاد پر اپنے خلاف ہونے والے پروپیگنڈا کرنے والوں کو اربوں روپے ہرجانے کے نوٹس بھیجنے کے بعد متعلقہ حکام کو قانونی کارروائی کے واسطے باقاعدہ درخواستیں دے چکے ہیں۔
پوری حکومتی مشینری اس وقت مولانا کے اثاثوں کی چھان بین میں لگی ہوئی ہے، کوئی ان کی نامی و بے نامی جائیدادیں تلاش کررہا ہے، کوئی بینک بیلنس اور پلازوں کی کھوج میں مارا مارا پھر رہا ہے، اب تک تمام کھوجیوں نے مولانا کے اثاثوں کی چھان بین میں وقت کی بربادی کے سوا کچھ نہیں کیا اور انھیں کوئی کامیابی نہیں مل سکی۔
سرکار مزید دس سال بھی لگی رہے تو اسے مولانا کے اثاثوں کی بھنک بھی نہیں پڑنے والی۔ آئیے ہم بتاتے میں مولانا کے اثاثوں کی تفصیلات۔ مولانا کے اثاثوں تک پہنچنے کے لیے کسی پٹوار خانے، کسی تحصیل دار ، ٹاؤن انتظامیہ یا بینکوں کے پاس جانے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں، کراچی سے لے کر خیبر تک پھیلے ہوئے ہزاروں دینی مدارس ان کے سب سے قیمتی اثاثے ہیں، ملک کے طول و عرض میں لاکھوں مساجد کا بچھا ہوا جال مولانا کے اثاثے ہی تو ہیں۔
ان مدارس و مساجد سے وابستہ لاکھوں علماء و مشائخ،علماء و خطباء، موذن و مدرس اور طلباء مولانا کے اثاثے ہیں جو مولانا کی ایک آواز پر لبیک کہتے ہوئے جہاں وہ بلائیں جانے کو تیار ہیں، جسے یقین نہیں وہ گزشتہ سال ہونے والے آزادی مارچ و دھرنے کی تفصیلات نکلوا کر دیکھ لے۔ مولانا کا ایک قیمتی اثاثہ انصار الاسلام بھی ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ جمعیت علماء اسلام کی اس ذیلی تنظیم کے رضا کاروں کی تعداد دولاکھ کے لگ بھگ ہے، جو نہ مولانا سے تنخواہ کا مطالبہ کرتے ہیں نہ کھانے کا، محض اللہ و اللہ کے رسول کی رضا کے لیے مولانا کی قیادت میں ملک میں نفاذ شریعت کا خواہشمند ہے۔ نیب کے ریڈار پر گزشتہ دو سال سے بڑے بڑے سیاسی پنڈت موجود ہیں، سب کے سب خوفزدہ ہیں، سب کے اثاثوں کی تفصیلات قوم کے سامنے آرہی ہیں لیکن جو اثاثے مولانا کے ہیں، وہ کسی اور لیڈر کے پاس نہیں، انھیں اثاثوں نے مولانا کو نڈر ، بہادر اور جرات مند لیڈر بنا دیا ہے۔ یہ مولانا کے وہ اثاثے ہیں جو نیب کی آنکھ سے اوجھل ہیں۔