خودکشی مسائل کا حل نہیں
خودکشی کسی بھی حالت میں جائز نہیں ہوسکتی، کتنے ہی مشکل حالات کیوں نہ ہوں، مسائل کا سامنا کیجئے، ان سے بھاگیے نہیں
جب سے یہ کورونا آیا ہے، ایک طرف تو زندگی تھم سی گئی، تو دوسری طرف اس سے ہونے والی اموات نے پوری دنیا میں غم کی فضا قائم کردی ہے۔ سب ہی منتظر ہیں کہ زندگی کی رونقیں کب بحال ہوں گی۔ اس سب میں آپ نے پوری دنیا سے مختلف شعبوں سے وابستہ لوگوں کی خودکشی کرنے کے بہت سے واقعات کے بارے میں سنا ہوگا۔ جب کوئی اپنا کسی بھی وجہ سے اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو صبر آجاتا ہے۔ یہ ایک قدرتی چیز ہے کہ سب نے جانا ہے، مگر جب کوئی خود ہی اپنی زندگی کا خاتمہ کرتا ہے، تو ان کے گھر والے کس اذیت سے گزرتے ہیں، یہ ہم اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔
کچھ مہینے پہلے ایک خاتون نے اپنے اکلوتے بیٹے کی خودکشی کے بارے میں بتایا، جو کہ خود پیشے سے ماہر نفسیات ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کا بیٹا خوش تھا، پڑھائی میں ٹھیک تھا، معاشی لحاظ سے بھی کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ ایک دن اچانک یونیورسٹی سے آکر اس نے خودکشی کرلی۔ ان کے محلے کی مسجد کے مولوی نے ان کے بیٹے کا نماز جنازہ پڑھانے سے ہی انکار کردیا، کیونکہ ان کے بیٹے نے خودکشی کی تھی۔ پھر اگلا مرحلہ رشتے داروں اور محلے والوں کے تیکھے سوال کہ ایسا کیا کردیا کہ خودکشی کی نوبت آگئی، وہ اب تک سہنے پر مجبور ہیں۔
میں جب امریکا میں تھی تو مجھے وہاں دل کے بڑے سرجنز میاں بیوی کے بارے میں پتہ چلا، جو ایک شادی میں مدعو تھے۔ وہ دونوں دل کے ڈاکٹر، انڈیا سے تھے۔ امریکا میں خوب نام بنایا، ان کے دو بچے تھے، بیٹا کمار اور بیٹی مینا۔ بیٹے نے امریکا میں ہی گوری سے شادی کی، مگر جلد ہی ان کے گھریلو جھگڑے شروع ہوگئے۔ جب شادی محبت کی ہو، تو نباہنا تو پڑتا ہے، پھر چاہے لوگوں کو دکھانے کےلیے ہی کیوں نہ ہو۔ وہاں شادی کرنا ایسا ہی ہے کہ شادی چل گئی تو چاند تک، نہیں تو رات تک۔ شادی کو پانچ سال ہوگئے، دو بچے بھی ہوگئے، مگر ان کے جھگڑے کم نہیں ہوئے۔ اور پھر ایک صبح کمار آفس کےلیے گھر سے نکلا، اور اپنی ہی گاڑی میں خود کو گولی مار لی۔ اس کی موت کے بعد اس کے والدین اپنے پوتے اور پوتی تک سے نہیں مل سکتے، کیوں کہ ان کی بہو ملنے نہیں دیتی۔ وہاں کے قانون کے مطابق یہ ماں کی مرضی ہے کہ وہ بچوں کو دادا، دادی سے ملنے دے یا نہ ملنے دے۔ اس سانحے کے کوئی دو سال بعد ان کی بیٹی نے خود کو اس وقت گولی مار کر خود کی جان لے لی، جب اس کی بارات کا دن تھا، اور شادی بھی اس کی پسند کی تھی۔ اس جوڑے کے پاس نام، شہرت، پیسہ، سب ہے مگر اولاد کا سکھ نہیں ہے۔ اس لیے وہ مل کر اب اپنے ملک کے بچوں کےلیے فلاحی کام کرتے ہیں اور انہوں نے اپنی جائیداد اسی کام کےلیے وقف کردی ہے۔
ابھی پنجاب کے ایک علاقے میں ایک خاتون کی شوہر سے فون پر لڑائی ہوئی، جو کہ باہر رہتا تھا۔ اس خاتون نے اپنی تینوں بچیوں سمیت نہر میں چھلانگ لگادی۔ خود تو بچ گئی مگر بچیاں جانبر نہ ہوسکیں۔ ایک بچے نے گیم کی وجہ سے جان دی، تو دوسری طرف لڑکے لڑکی نے مل کر جان دی کیونکہ ان کی فیملیز ان کی شادی کے خلاف تھیں۔ ابھی ظفروال کے علاقے میں ایک باپ نے غربت سے تنگ آکر تین بچوں سمیت زہر پی لیا۔ ابھی کراچی میں ڈاکٹر ماہا کی خودکشی کا معاملہ سامنے آیا، جو کہ ڈاکٹر ہونے کے ساتھ سوشل میڈیا پر ماڈل کے طور پر کافی ایکٹو تھی۔ ابتدائی تحقیق کے مطابق اس کے والد کے ساتھ اختلافات تھے اور اس کا قریبی دوست اسے اس کی کچھ نازیبا تصاویر کےلیے بلیک میل کررہا تھا۔ سچائی سامنے آنے میں وقت لگے گا، مگروہ اب واپس کبھی نہیں آئے گی۔ ایسے پتہ نہیں کتنے ہی واقعات آپ کی نظروں سے گزرے ہوں گے۔ ہمارے لیے یہ محض ایک خبر ہوتی ہے، مگر جس گھر میں یہ المناک موت ہوتی ہے، ان کی حالت کا ہم اندازہ بھی نہیں کرسکتے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں سالانہ 8 لاکھ لوگ خودکشی کرتے ہیں۔ یعنی ہر 40 سیکنڈ میں ایک خودکشی۔ اور پوری دنیا میں 15 سے 29 سال کے لوگوں کی موت کی دوسری بڑی وجہ خودکشی ہے۔ ڈبلیو ایچ او کی 2016 کی ایک رپورٹ کے مطابق خودکشی کا سب سے زیادہ رجحان یورپ میں رہا، اور دوسرے نمبر پر ساؤتھ ایسٹ ایشیا کا رہا۔ ڈیلی میل، لندن میں 11 اپریل 2020 کو جرمنی میں کیا گیا ایک سروے آرٹیکل ''کون سے گروپ کے لوگ زیادہ خوش رہتے ہیں'' شائع کیا گیا، جس میں 67,500 لوگوں کا انٹرویو کیا گیا۔ اس سروے کے مطابق جو لوگ مذہب کو مانتے ہیں، وہ ملحد یعنی کوئی بھی مذہب نہ ماننے والوں کے مقابلے میں زیادہ خوش ہوتے ہیں، اور مذہب ماننے والوں میں سب سے زیادہ خوش مسلمان اور دوسرے نمبر پر عیسائی ہیں۔ ہم وہ خوش نصیب ہیں جو مسلمان پیدا ہوئے، وہ دین جو کہ مکمل ضابطہ حیات ہے، مگر ہمارے ہاں بھی اب خودکشی کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔
ہمارے ہاں خودکشی کی وجوہات میں غربت، پڑھائی میں اچھے گریڈ نہ لانا، گھریلو جھگڑے، پسند کی شادی نہ ہونا، ڈپریشن اور آج کل سائبر کرائمز کے ذریعے لڑکیوں کو تصاویر یا ویڈیوز کےلیے بلیک میل کرنا وغیرہ شامل ہیں۔
خودکشی کسی بھی حالت میں جائز نہیں ہوسکتی، کتنے ہی مشکل حالات کیوں نہ ہوں، مسائل کا سامنا کیجئے، ان سے بھاگیں نہیں۔ زندگی میں بہت دوست ہونا بالکل بھی ضروری نہیں ہے، بس ایک اچھا دوست ہی کافی ہے، جس سے آپ دل کی ہر بات کہہ سکیں۔ کیونکہ جب دل پر مسائل، مشکلات اور پریشانیوں کا بوجھ بڑھ جاتا ہے، تبھی دماغ آپ کو زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا کرتا ہے اور دماغ ایسے کیمیکل پیدا کرتا ہے جو آپ کو خودکشی کرنے پر اکساتے ہیں۔ اس لیے دل پر بوجھ نہ بننے دیجئے۔ اور اس کا سب سے آسان نسخہ اللہ کو یاد کرنا، اس کا شکر کرنا اور اس پر بھروسہ کرنا ہے۔
کیسے ہی حالات کیوں نہ ہوں، صبر اور شکر کا دامن کبھی بھی نہ چھوڑیے۔ ہر انسانی زندگی عروج اور زوال کی داستان ہے، اور یہ دونوں کسی کی زندگی میں زیادہ دیر نہیں ٹکتے۔ اور ان میں سے کس کا دورانیہ زیادہ ہوگا، یہ سراسر خود انسان پر منحصر ہے کہ وہ ان کو ڈیل کیسے کرتا ہے، تو جو جیتا وہی سکندر۔
قرآن مجید سورۃ الشرح میں تکرار کے ساتھ دو آیات ہیں کہ ''بے شک ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے''۔ تو بس اللہ پر یقین رکھیے کہ یہ وقت بھی گزر جائے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کچھ مہینے پہلے ایک خاتون نے اپنے اکلوتے بیٹے کی خودکشی کے بارے میں بتایا، جو کہ خود پیشے سے ماہر نفسیات ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کا بیٹا خوش تھا، پڑھائی میں ٹھیک تھا، معاشی لحاظ سے بھی کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ ایک دن اچانک یونیورسٹی سے آکر اس نے خودکشی کرلی۔ ان کے محلے کی مسجد کے مولوی نے ان کے بیٹے کا نماز جنازہ پڑھانے سے ہی انکار کردیا، کیونکہ ان کے بیٹے نے خودکشی کی تھی۔ پھر اگلا مرحلہ رشتے داروں اور محلے والوں کے تیکھے سوال کہ ایسا کیا کردیا کہ خودکشی کی نوبت آگئی، وہ اب تک سہنے پر مجبور ہیں۔
میں جب امریکا میں تھی تو مجھے وہاں دل کے بڑے سرجنز میاں بیوی کے بارے میں پتہ چلا، جو ایک شادی میں مدعو تھے۔ وہ دونوں دل کے ڈاکٹر، انڈیا سے تھے۔ امریکا میں خوب نام بنایا، ان کے دو بچے تھے، بیٹا کمار اور بیٹی مینا۔ بیٹے نے امریکا میں ہی گوری سے شادی کی، مگر جلد ہی ان کے گھریلو جھگڑے شروع ہوگئے۔ جب شادی محبت کی ہو، تو نباہنا تو پڑتا ہے، پھر چاہے لوگوں کو دکھانے کےلیے ہی کیوں نہ ہو۔ وہاں شادی کرنا ایسا ہی ہے کہ شادی چل گئی تو چاند تک، نہیں تو رات تک۔ شادی کو پانچ سال ہوگئے، دو بچے بھی ہوگئے، مگر ان کے جھگڑے کم نہیں ہوئے۔ اور پھر ایک صبح کمار آفس کےلیے گھر سے نکلا، اور اپنی ہی گاڑی میں خود کو گولی مار لی۔ اس کی موت کے بعد اس کے والدین اپنے پوتے اور پوتی تک سے نہیں مل سکتے، کیوں کہ ان کی بہو ملنے نہیں دیتی۔ وہاں کے قانون کے مطابق یہ ماں کی مرضی ہے کہ وہ بچوں کو دادا، دادی سے ملنے دے یا نہ ملنے دے۔ اس سانحے کے کوئی دو سال بعد ان کی بیٹی نے خود کو اس وقت گولی مار کر خود کی جان لے لی، جب اس کی بارات کا دن تھا، اور شادی بھی اس کی پسند کی تھی۔ اس جوڑے کے پاس نام، شہرت، پیسہ، سب ہے مگر اولاد کا سکھ نہیں ہے۔ اس لیے وہ مل کر اب اپنے ملک کے بچوں کےلیے فلاحی کام کرتے ہیں اور انہوں نے اپنی جائیداد اسی کام کےلیے وقف کردی ہے۔
ابھی پنجاب کے ایک علاقے میں ایک خاتون کی شوہر سے فون پر لڑائی ہوئی، جو کہ باہر رہتا تھا۔ اس خاتون نے اپنی تینوں بچیوں سمیت نہر میں چھلانگ لگادی۔ خود تو بچ گئی مگر بچیاں جانبر نہ ہوسکیں۔ ایک بچے نے گیم کی وجہ سے جان دی، تو دوسری طرف لڑکے لڑکی نے مل کر جان دی کیونکہ ان کی فیملیز ان کی شادی کے خلاف تھیں۔ ابھی ظفروال کے علاقے میں ایک باپ نے غربت سے تنگ آکر تین بچوں سمیت زہر پی لیا۔ ابھی کراچی میں ڈاکٹر ماہا کی خودکشی کا معاملہ سامنے آیا، جو کہ ڈاکٹر ہونے کے ساتھ سوشل میڈیا پر ماڈل کے طور پر کافی ایکٹو تھی۔ ابتدائی تحقیق کے مطابق اس کے والد کے ساتھ اختلافات تھے اور اس کا قریبی دوست اسے اس کی کچھ نازیبا تصاویر کےلیے بلیک میل کررہا تھا۔ سچائی سامنے آنے میں وقت لگے گا، مگروہ اب واپس کبھی نہیں آئے گی۔ ایسے پتہ نہیں کتنے ہی واقعات آپ کی نظروں سے گزرے ہوں گے۔ ہمارے لیے یہ محض ایک خبر ہوتی ہے، مگر جس گھر میں یہ المناک موت ہوتی ہے، ان کی حالت کا ہم اندازہ بھی نہیں کرسکتے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں سالانہ 8 لاکھ لوگ خودکشی کرتے ہیں۔ یعنی ہر 40 سیکنڈ میں ایک خودکشی۔ اور پوری دنیا میں 15 سے 29 سال کے لوگوں کی موت کی دوسری بڑی وجہ خودکشی ہے۔ ڈبلیو ایچ او کی 2016 کی ایک رپورٹ کے مطابق خودکشی کا سب سے زیادہ رجحان یورپ میں رہا، اور دوسرے نمبر پر ساؤتھ ایسٹ ایشیا کا رہا۔ ڈیلی میل، لندن میں 11 اپریل 2020 کو جرمنی میں کیا گیا ایک سروے آرٹیکل ''کون سے گروپ کے لوگ زیادہ خوش رہتے ہیں'' شائع کیا گیا، جس میں 67,500 لوگوں کا انٹرویو کیا گیا۔ اس سروے کے مطابق جو لوگ مذہب کو مانتے ہیں، وہ ملحد یعنی کوئی بھی مذہب نہ ماننے والوں کے مقابلے میں زیادہ خوش ہوتے ہیں، اور مذہب ماننے والوں میں سب سے زیادہ خوش مسلمان اور دوسرے نمبر پر عیسائی ہیں۔ ہم وہ خوش نصیب ہیں جو مسلمان پیدا ہوئے، وہ دین جو کہ مکمل ضابطہ حیات ہے، مگر ہمارے ہاں بھی اب خودکشی کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔
ہمارے ہاں خودکشی کی وجوہات میں غربت، پڑھائی میں اچھے گریڈ نہ لانا، گھریلو جھگڑے، پسند کی شادی نہ ہونا، ڈپریشن اور آج کل سائبر کرائمز کے ذریعے لڑکیوں کو تصاویر یا ویڈیوز کےلیے بلیک میل کرنا وغیرہ شامل ہیں۔
خودکشی کسی بھی حالت میں جائز نہیں ہوسکتی، کتنے ہی مشکل حالات کیوں نہ ہوں، مسائل کا سامنا کیجئے، ان سے بھاگیں نہیں۔ زندگی میں بہت دوست ہونا بالکل بھی ضروری نہیں ہے، بس ایک اچھا دوست ہی کافی ہے، جس سے آپ دل کی ہر بات کہہ سکیں۔ کیونکہ جب دل پر مسائل، مشکلات اور پریشانیوں کا بوجھ بڑھ جاتا ہے، تبھی دماغ آپ کو زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا کرتا ہے اور دماغ ایسے کیمیکل پیدا کرتا ہے جو آپ کو خودکشی کرنے پر اکساتے ہیں۔ اس لیے دل پر بوجھ نہ بننے دیجئے۔ اور اس کا سب سے آسان نسخہ اللہ کو یاد کرنا، اس کا شکر کرنا اور اس پر بھروسہ کرنا ہے۔
کیسے ہی حالات کیوں نہ ہوں، صبر اور شکر کا دامن کبھی بھی نہ چھوڑیے۔ ہر انسانی زندگی عروج اور زوال کی داستان ہے، اور یہ دونوں کسی کی زندگی میں زیادہ دیر نہیں ٹکتے۔ اور ان میں سے کس کا دورانیہ زیادہ ہوگا، یہ سراسر خود انسان پر منحصر ہے کہ وہ ان کو ڈیل کیسے کرتا ہے، تو جو جیتا وہی سکندر۔
قرآن مجید سورۃ الشرح میں تکرار کے ساتھ دو آیات ہیں کہ ''بے شک ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے''۔ تو بس اللہ پر یقین رکھیے کہ یہ وقت بھی گزر جائے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔