محتاج ہر شرط مان لیتا ہے
نکھٹو جتنا نکھٹو رہے گا قرضے کا محتاج ہو گا اور محتاج ہر شرط مان لیتا ہے۔
ہماری مہا لکشمی دیوی عرف آئی ایم ایف جو الُو پر سواری کرتی ہے اور یہ الُو اتفاق سے الُو کا پٹھا بھی ہے، نے کہا ہے، اوہ سوری فرمایا ہے کہ اگر میری مہربانی چاہیے تو بجلی، گیس اور یوٹیلٹی اسٹورز پر سبسڈی ختم کرو ورنہ ''میں تم سے نا ہی بولوں گا'' اس کے حضور میں پجاریوں کا جو ٹولہ حاضر ہوا تھا ان کی تپسیا اور پوجا کو رد کرتے ہوئے دیوی نے اسے دھتکار دیا ہے۔
اور کہا کہ اب آنا۔ توعوام کی بھینٹ چڑھا کر آنا ورنہ میرے درشن نہیں ملیں گے۔ پچاریوں کا وفد دیوی کو '' پرسند'' کرنے کے لیے تدابیر کر رہا ہے کہ عوام کے گلے پر کون کون سی چھری اور پھیری جائے اور عوام کے کٹے گلے کو کہاں سے مزید کاٹا جا سکتا ہے۔
مسئلہ کچھ زیادہ گھمبیر نہ ہوتا کیونکہ عوام بھی بہت ہیں ان کے گلے بھی بہت ہیں اور چھریاں بھی بے شمار ہیں لیکن ڈریہ ہے کہ اگر ان کے گلے مزید کاٹے گئے تو یہ مر جائیں گے اور اگر یہ مر گئے تو پھر انڈے، دودھ اور کھالیں کہاں سے آئیں گی۔ دودھیل گائے کو مارا بھی نہیں جا سکتا اور یہی مسئلہ مہالکشمی کے پچاریوں کو درپیش ہے کیونکہ ''قرضے''کی ''مے'' پھر کہاں سے آئے گی اور قرضہ کیسے ملے گا تو کارڈ کہاں سے آئیں گے۔ لنگرخانے کیسے چلیں گے اتنے بڑے بڑے مونہوں کے لیے نوالے کہاں سے آئیں، انصاف کیسے ہو گا ''وژن''کیسے پورا ہو گا ''ریاست مدینہ''کیسے چلے گی۔
یہاں پر کسی کم بخت، منفی تنقیدیے بلکہ وطن دشمن غدار کے ذہن میں یہ سوال آ سکتا ہے کہ ریاست مدینہ اور مہالکشمی کا مشروط اور ''سود'' سے تر بتر قرضہ؟ تو ایسے سوال کر کے منہ کا زپ کھینچ لیجیے کہ یہ نئی ریاست مدینہ، نیا پاکستان اور نیا وژن ہے جس میں پرانے قوانین منسوخ ہو چکے ہیں۔
لیکن ہمیں اس کی چنتا نہیں ہے، انگار جانے لوہار جانے، اتنے بے شمار و قطار باتدبیر، جو لگے رہو منا بھائی ہیں وہ جانیں اور ان کی تدبیریں، ہم تو گدائے گوشہ نشین ہیں۔ لیکن ایسے ہی ایک خیال آیا کہ یہ جو مہالکشمی ہے اور جو الُو یا الوؤں پر سوار پھرتی ہے یہ جب بھی مطالبہ کرتی ہے ''نو من تیل'' کا کرتی ہے کہ
مینو چاندی دیا جھانجھراں لیا دے
جے تو میری ٹور ویکھنی
نرخ اور ٹیکس بڑھانے کی بات کرتی ہے لیکن یہ کبھی نہیں کہتی کہ وزیر کم کرو، مشیر کم کرو، بے نظیر کم کرو، کارڈوں کی بھیڑ کم کرو یعنی ''کمی'' کے بجائے ''زیادتی'' پر زور دیتی ہے، یہ کہیں وہی ''زیادتی'' کا کیس تو نہیں جو پاکستان میں وقفے وقفے سے افادہ عام یعنی عوام کو مصروف رکھنے کے لیے پیدا کیے جاتے ہیں کہ یک گونہ بے خود مجھے''دن رات'' چاہیے اور''لہو''گرم رکھنے کے لیے بہانہ ضروری ہے۔
کہیں یہ اندھی تو نہیں انصاف کی دیوی کی طرح اور بنا دیکھے ''میزان'' تو نہیں کرتی۔ یا کسی زمانے میں کالانعام نے اسے ناراض تو نہیں کیا ہے، ورنہ یہ بھی کہہ سکتی ہے کہ وزیر آدھے کر دو مشیر پونے کر دو اور خصوصی کو دفع دور کر دو کہ یہ سفید ہاتھی صرف خود ہی نہیںکھاتے بلکہ اپنے خاندانوں کو بھی دسترخوان پر بٹھائے ہوئے ہیں جن کے کنوئیں بھرتے ہی نہیں۔
یہاں پر ایک حقیقہ نے دم ہلانا شروع کر دیا ہے، ایک معروف بزرگ یعنی بابے کے بارے میں کتابوں کے اندر آیا ہے کہ کھاتے وقت اس کا ''میٹر'' رک جاتا تھا یعنی اس کے اندر یہ خرابی تھی کہ اسے پیٹ بھر جانے کا احساس نہیں ہوتا چنانچہ وہ ہمیشہ مفت کی دعوتوں میں اپنے ساتھ ایک شاگرد بھی لے جاتے تھے جو ان کے نوالے گن کر اشارہ کر دیتا کہ حضور اب بس کر دیجیے۔کسی اعلیٰ درجے کی دعوت میں میزبان نے وی آئی پی لوگوں کے لیے الگ انتظام کیا تھا۔ چنانچہ ان حضرت کا اشارہ دینے والا شاگرد عوامی پنڈال میں لے جایا گیا اس دن وہ بیچارے کا آخری دن ثابت ہو گیا کھاتے کھاتے دسترخوان پر ہی شہید ہو گئے۔
یہ کوئی لطیفہ نہیں بلکہ ایک مشہور بابے کا سچا واقعہ ہے جو ایک اور بابے کے ''بالک'' اور بہت ساری کتابوں کے مصنف ہیں۔ ارے ہاں علامہ بریانی کا واقعہ تو ہم بھول گئے جو ان کی شادی کے بعد ہوا۔ تو جب پہلی واردات یعنی دعوت پر علامہ اور اس کے والد گئے تو ساس نے بہو سے کہا۔ بیٹا بستر تیار کرو تمہارا سسر اور شوہر جب دعوت کھا کے آتے ہیں تو ان میں کھڑے ہونے کی سکت نہیں ہوتی ہے۔ اس پر بہو نے تعجب سے کہا۔ اچھا مگر ہمارے ہاں دعوتیے آتے نہیں بلکہ چارپائیوں پر ڈال کر ''لائے'' جاتے ہیں۔
خیر یہ چھوڑیے سوال ہمارا یہ ہے کہ مہا لکشمی جب بھی ہمارے دکھ میں شریک ہو کر کوئی ''حکم'' دیتی ہے تو نرخ اور ٹیکس بڑھانے کا حکم دیتی ہے، بچت کرو یا روپیہ کو کسی پیداواری کام میں لگانے کا حکم نہیں دیتی، ہمارے خیال میں بے نظیرانکم سپورٹ میں اب تک اتنی رقم یقیناً دریا برد کی جا چکی ہو گی جس سے مہا لکشمی کا قرضہ اتارا جا سکتا تھا، کوئی ڈیم بنایا جا سکتا تھا، کوئی انڈسٹری لگا کر روزگار پیدا کیا جا سکتا تھا۔
پشاور میں جو عظیم الشان اژدہا بی آر ٹی کے نام پر لٹایا گیا ہے اس خرچے سے بھی نہ جانے کتنے کماؤ اور پیداواری کام کیے جا سکتے اور موجودہ نصف لی ونصف لک حکومت نے کارڈوں کی شکل میں جو سلسلہ شروع کیا ہے، اس رقم سے بھی کئی کماؤ کام کیے جا سکتے تھے اور اگر ابتدا ہی میں وزیروں مشیروں کی کوئی لمٹ رکھی جاتی تو شاید ہم مقروض ہی نہ ہوتے۔ تو آخر یہ ٹیکس اور نرخوں پر زور کیوں اور پیسہ کو ضایع کرنے والے کاموں پر آنکھیں بند کرنا۔
سیدھی سی بات ہے نکھٹو اگر ''کام'' کرنے لگے تو اس میں سودخور کا فائدہ کیا، نکھٹو جتنا نکھٹو رہے گا قرضے کا محتاج ہو گا اور محتاج ہر شرط مان لیتا ہے۔
اور کہا کہ اب آنا۔ توعوام کی بھینٹ چڑھا کر آنا ورنہ میرے درشن نہیں ملیں گے۔ پچاریوں کا وفد دیوی کو '' پرسند'' کرنے کے لیے تدابیر کر رہا ہے کہ عوام کے گلے پر کون کون سی چھری اور پھیری جائے اور عوام کے کٹے گلے کو کہاں سے مزید کاٹا جا سکتا ہے۔
مسئلہ کچھ زیادہ گھمبیر نہ ہوتا کیونکہ عوام بھی بہت ہیں ان کے گلے بھی بہت ہیں اور چھریاں بھی بے شمار ہیں لیکن ڈریہ ہے کہ اگر ان کے گلے مزید کاٹے گئے تو یہ مر جائیں گے اور اگر یہ مر گئے تو پھر انڈے، دودھ اور کھالیں کہاں سے آئیں گی۔ دودھیل گائے کو مارا بھی نہیں جا سکتا اور یہی مسئلہ مہالکشمی کے پچاریوں کو درپیش ہے کیونکہ ''قرضے''کی ''مے'' پھر کہاں سے آئے گی اور قرضہ کیسے ملے گا تو کارڈ کہاں سے آئیں گے۔ لنگرخانے کیسے چلیں گے اتنے بڑے بڑے مونہوں کے لیے نوالے کہاں سے آئیں، انصاف کیسے ہو گا ''وژن''کیسے پورا ہو گا ''ریاست مدینہ''کیسے چلے گی۔
یہاں پر کسی کم بخت، منفی تنقیدیے بلکہ وطن دشمن غدار کے ذہن میں یہ سوال آ سکتا ہے کہ ریاست مدینہ اور مہالکشمی کا مشروط اور ''سود'' سے تر بتر قرضہ؟ تو ایسے سوال کر کے منہ کا زپ کھینچ لیجیے کہ یہ نئی ریاست مدینہ، نیا پاکستان اور نیا وژن ہے جس میں پرانے قوانین منسوخ ہو چکے ہیں۔
لیکن ہمیں اس کی چنتا نہیں ہے، انگار جانے لوہار جانے، اتنے بے شمار و قطار باتدبیر، جو لگے رہو منا بھائی ہیں وہ جانیں اور ان کی تدبیریں، ہم تو گدائے گوشہ نشین ہیں۔ لیکن ایسے ہی ایک خیال آیا کہ یہ جو مہالکشمی ہے اور جو الُو یا الوؤں پر سوار پھرتی ہے یہ جب بھی مطالبہ کرتی ہے ''نو من تیل'' کا کرتی ہے کہ
مینو چاندی دیا جھانجھراں لیا دے
جے تو میری ٹور ویکھنی
نرخ اور ٹیکس بڑھانے کی بات کرتی ہے لیکن یہ کبھی نہیں کہتی کہ وزیر کم کرو، مشیر کم کرو، بے نظیر کم کرو، کارڈوں کی بھیڑ کم کرو یعنی ''کمی'' کے بجائے ''زیادتی'' پر زور دیتی ہے، یہ کہیں وہی ''زیادتی'' کا کیس تو نہیں جو پاکستان میں وقفے وقفے سے افادہ عام یعنی عوام کو مصروف رکھنے کے لیے پیدا کیے جاتے ہیں کہ یک گونہ بے خود مجھے''دن رات'' چاہیے اور''لہو''گرم رکھنے کے لیے بہانہ ضروری ہے۔
کہیں یہ اندھی تو نہیں انصاف کی دیوی کی طرح اور بنا دیکھے ''میزان'' تو نہیں کرتی۔ یا کسی زمانے میں کالانعام نے اسے ناراض تو نہیں کیا ہے، ورنہ یہ بھی کہہ سکتی ہے کہ وزیر آدھے کر دو مشیر پونے کر دو اور خصوصی کو دفع دور کر دو کہ یہ سفید ہاتھی صرف خود ہی نہیںکھاتے بلکہ اپنے خاندانوں کو بھی دسترخوان پر بٹھائے ہوئے ہیں جن کے کنوئیں بھرتے ہی نہیں۔
یہاں پر ایک حقیقہ نے دم ہلانا شروع کر دیا ہے، ایک معروف بزرگ یعنی بابے کے بارے میں کتابوں کے اندر آیا ہے کہ کھاتے وقت اس کا ''میٹر'' رک جاتا تھا یعنی اس کے اندر یہ خرابی تھی کہ اسے پیٹ بھر جانے کا احساس نہیں ہوتا چنانچہ وہ ہمیشہ مفت کی دعوتوں میں اپنے ساتھ ایک شاگرد بھی لے جاتے تھے جو ان کے نوالے گن کر اشارہ کر دیتا کہ حضور اب بس کر دیجیے۔کسی اعلیٰ درجے کی دعوت میں میزبان نے وی آئی پی لوگوں کے لیے الگ انتظام کیا تھا۔ چنانچہ ان حضرت کا اشارہ دینے والا شاگرد عوامی پنڈال میں لے جایا گیا اس دن وہ بیچارے کا آخری دن ثابت ہو گیا کھاتے کھاتے دسترخوان پر ہی شہید ہو گئے۔
یہ کوئی لطیفہ نہیں بلکہ ایک مشہور بابے کا سچا واقعہ ہے جو ایک اور بابے کے ''بالک'' اور بہت ساری کتابوں کے مصنف ہیں۔ ارے ہاں علامہ بریانی کا واقعہ تو ہم بھول گئے جو ان کی شادی کے بعد ہوا۔ تو جب پہلی واردات یعنی دعوت پر علامہ اور اس کے والد گئے تو ساس نے بہو سے کہا۔ بیٹا بستر تیار کرو تمہارا سسر اور شوہر جب دعوت کھا کے آتے ہیں تو ان میں کھڑے ہونے کی سکت نہیں ہوتی ہے۔ اس پر بہو نے تعجب سے کہا۔ اچھا مگر ہمارے ہاں دعوتیے آتے نہیں بلکہ چارپائیوں پر ڈال کر ''لائے'' جاتے ہیں۔
خیر یہ چھوڑیے سوال ہمارا یہ ہے کہ مہا لکشمی جب بھی ہمارے دکھ میں شریک ہو کر کوئی ''حکم'' دیتی ہے تو نرخ اور ٹیکس بڑھانے کا حکم دیتی ہے، بچت کرو یا روپیہ کو کسی پیداواری کام میں لگانے کا حکم نہیں دیتی، ہمارے خیال میں بے نظیرانکم سپورٹ میں اب تک اتنی رقم یقیناً دریا برد کی جا چکی ہو گی جس سے مہا لکشمی کا قرضہ اتارا جا سکتا تھا، کوئی ڈیم بنایا جا سکتا تھا، کوئی انڈسٹری لگا کر روزگار پیدا کیا جا سکتا تھا۔
پشاور میں جو عظیم الشان اژدہا بی آر ٹی کے نام پر لٹایا گیا ہے اس خرچے سے بھی نہ جانے کتنے کماؤ اور پیداواری کام کیے جا سکتے اور موجودہ نصف لی ونصف لک حکومت نے کارڈوں کی شکل میں جو سلسلہ شروع کیا ہے، اس رقم سے بھی کئی کماؤ کام کیے جا سکتے تھے اور اگر ابتدا ہی میں وزیروں مشیروں کی کوئی لمٹ رکھی جاتی تو شاید ہم مقروض ہی نہ ہوتے۔ تو آخر یہ ٹیکس اور نرخوں پر زور کیوں اور پیسہ کو ضایع کرنے والے کاموں پر آنکھیں بند کرنا۔
سیدھی سی بات ہے نکھٹو اگر ''کام'' کرنے لگے تو اس میں سودخور کا فائدہ کیا، نکھٹو جتنا نکھٹو رہے گا قرضے کا محتاج ہو گا اور محتاج ہر شرط مان لیتا ہے۔