سارے رنگ

شرارتوں اورمنہ زوری کی بناپر ’ون‘ سے ہی ہماری کلاس پورے اسکول میں اتنی’مشہور‘ ہوگئی تھی کہ اساتذہ پناہ مانگتے تھے۔


Rizwan Tahir Mubeen October 11, 2020
بارانِ رحمت اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کی تائید و نصرت میں سے ایک ہے۔فوٹو : فائل

جب ہم نے 99 نمبر حاصل کیے۔۔۔!
خانہ پُری
ر۔ ط ۔ م

شرارتوں اور منہ زوری کی بنا پر 'وَن' سے ہی ہماری کلاس پورے اسکول میں اتنی 'مشہور' ہو گئی تھی کہ بہت سے اساتذہ پناہ مانگتے تھے۔۔۔ اِدھر کلاس کے 50، 55 بچوں میں، ہمیں لگتا تھا کہ ہم مفت میں 'بدنام' ہو رہے ہیں۔۔۔ جب استاد کی عدم موجودگی میں پوری کلاس آسمان سر پر اٹھا لیتی تھی، تو پھر میں کیا اور تُو کیا۔۔۔ پوری کلاس کو ہی سزا کے طور پر دونوں ہاتھ اوپر کر کے کھڑا کر دیا جاتا۔۔۔ کبھی یہ سزا 'بینچوں' کے اوپر بھی دی جاتی۔

تاہم کچھ بچوں کی 'نفسیات' سے واقف استاد باری باری انھیں اس سزا سے بَری کرتی جاتیں۔۔۔ کہ 'آپ بیٹھ جائیں' اور 'اب آپ بیٹھ جائیں۔۔۔!' عالَم یہ تھا کہ وَن کلاس میں تھے، تو مجھے یاد ہے کہ 'ٹو' کلاس کی 'کلاس ٹیچر' مس صبیحہ نے اسمبلی کے دوران جب تمام کلاسیں قطار بنی کھڑی تھیں، ہماری کلاس کو کہا تھا کہ بَچُو! آ تو جائو ذرا 'ٹو' میں، دیکھنا کیسے سیدھا کرتی ہوں۔۔۔!' یہ الگ بات ہے کہ 'ٹو' میں وہ ہماری کلاس ٹیچر نہ بن سکیں۔۔۔ ہمیں تو 'ون' میں جس طرح مس شہلا نے قابو کیا، یہ وہی بہتر جانتی ہوں گی، مس صبیحہ تو رعب ودبدبے میں ان کے سامنے کچھ بھی نہیں تھیں۔

اگر میں یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ ہمارے لیے ہمارے اسکول کے سارے اساتذہ کا کردار ایک طرف اور تنہا مس شہلا قیصر کی تدریس ایک طرف۔۔۔! انھوں نے تو ہمیں پہلی سے پانچویں تک ہر سال ہی کچھ نہ کچھ ضرور پڑھایا اور کبھی تو بہ یک وقت انہوں نے ہمیں تین، تین مضامین بھی پڑھائے۔۔۔

جب ہم 'کے جی ٹو' میں داخل ہوئے، تو شاید محدود اساتذہ سے متعارف ہونے کے سبب مس شہلا سے تعارف نہ ہو سکا یا پھر وہ ہمارے 'کے جی' کے دوران ہی کبھی اسکول کا حصہ بنی تھیں۔۔۔ لیکن ہماری کلاس 'ون اے' اُن سے بھرپور متعارف ہونے کا زمانہ تھا۔۔۔ ایک عرصے تک یہ باتیں ہماری یادداشت میں تازہ رہیں کہ کون سی ٹیچر اور کون سا بچہ کس کلاس سے ہمارے ساتھ ہوا اور کون ہم سے پہلے سے اسکول میں موجود تھا۔۔۔! ہمارا 'ون' کلاس کا کمرا اسکول میں داخل ہوں، تو 'راہ داری' میں داہنی طرف بالکل آخر میں پڑتا تھا۔۔۔ اب تصور میں شمار کر کے یاد کرتے ہیں، تو اسکول کے 20 کمروں میں یہ کمرا نمبر 15 بنتا ہوگا، اوپر چھت کو جانے والی سیڑھیوں کے ساتھ نیچے ایک راستہ اسکول کے ایک اجڑے ہوئے سے 'باغ' کی طرف کھلتا تھا، جہاں زمین کی سطح سے ذرا اوپر تک پانی کا ایک ٹینک بھی بنا ہوا تھا اور باقی جگہ کچی سی زمین تھی، جہاں کوئی باقاعدہ پودا یا درخت تو شاید نہیں تھا، بس خودرو جھاڑیاں اور کچھ پودے سے اُگے ہوئے تھے۔

کبھی برسات کے بعد ہریالی ہو جاتی، ورنہ یہ ریتیلی زمین خالی رہتی، البتہ آگے کی طرف اسکول کی دیوار کے پار بنگلے میں لگا ہوا آم کا گھنا پیڑ دیوار کے پار تک آیا ہوا تھا، اس لیے لڑکے اکثر وہاں سے 'امبیا' توڑا کرتے تھے، پھر جب یہ پک جاتی تھیں، تو زرد زرد آم بھی ہمیں دور سے ہی دکھائی دینے لگتے تھے۔ ادھر 'باغ' کی طرف کو کھلنے والی کھڑکیوں سے پیٹھ کر کے ہم کلاس میں بیٹھتے تھے، کیوں کہ بلیک بورڈ اس کے مقابل رخ پر تھا، یعنی اب ہمارے بائیں جانب (اسکول کے اندر داخل ہونے کے بعد دائیں جانب پڑنے والا) اسکول کا ایک وسیع وعریض برآمدہ تھا۔۔۔ جس میں سامنے والے کناروں پر مختلف چھوٹے بڑے پودوں سے بھری ہوئی ایک لمبی سی کیاری اسکول کے مرکزی دروازے تک چلتی چلی جا رہی تھی، اس کیاری میں ایک بڑا سا پودا موتیے کا بھی تھا۔۔۔ یہ ہمیں یوں بھی یاد رہ گیا کہ ایک مرتبہ کلاس کا کوئی بچہ 'بریک' کے بعد موتیے کے پھول جمع کر لایا تھا۔ بریک کے فوری بعد کلاس تھی مس شہلا کی۔ اب کسی طرح انھوں نے موتیے کے وہ سفید سفید پھول دیکھ لیے، تو بہت خوش ہوئیں۔

تب ہمیں پتا چلا تھا کہ یہ پھول انھیں بہت پسند ہیں، اس موقع پر ہمہ وقت سنجیدہ رہنے والی مس شہلا کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھی گئی۔۔۔ ان کا مسکرانا 'خبر' اس لیے ہے کہ یہ 'واقعہ' شاذ و نادر ہی ہوتا تھا، لیکن اس کا قطعی یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ وہ چڑچڑی اور بدمزاج تھیں، البتہ یہ بات ضرور ہے کہ وہ پوری کلاس کو سختی سے ایک حد میں رکھنے والی، قاعدے وقانون کی پاس دار اور بہت زیادہ بردبار استاد تھیں۔۔۔ شاید پورے اسکول میں سب سے زیادہ۔

اُن کی عمر تو زیادہ نہ تھی۔۔۔ لیکن رعب ودبدبہ ضرور بہت پکی عمر والے اساتذہ جیسا تھا۔۔۔ سیاہ فریم کا نظر کا چشمہ اور اس کے پیچھے سے ان کی تیز نگاہ اور بالوں میں لگا ہوا 'کیچر' ذہن کے پردے پر ماضی کے دھندلکوں سے کچھ واضح ہوتا ہے۔۔۔ دیگر ٹیچروں کی طرح وہ بھی اکثر بال پین اپنے 'جوڑے' میں اُڑس لیا کرتی تھیں۔۔۔ ہمارا ان سے پہلا تعارف ہی بھرپور تھا، وہ ہماری کلاس ٹیچر بنیں اور تب سے شاید کلاس کی 'خود سری' کچھ سوا ہونے لگی تھی۔۔۔ کلاس میں کوئی ٹیچر نہ ہو تو شور اتنا بڑھتا کہ پھر برابر والی کلاس یا اسٹاف روم سے کسی ٹیچر کو آنا پڑتا، کبھی ہیڈ مسٹریس کے کمرے سے شکایت، تو کبھی ہیڈ مسٹریس خود ہی چلی آتیں اور اکثر ہمیں بتایا جاتا کہ ہماری وجہ سے پورا اسکول پریشان ہے کہ 'کلاس 'ون اے' توبہ توبہ۔۔۔!'

جب ہم کلاس 'ٹو' میں گئے، تو اب ہمارا کمرا اس کلاس کے تقریباً مخالف سمت میں تھا، سیمنٹ کے بڑے سارے اسٹیج کے بالکل مقابل تھا، اس کا نمبر غالباً پانچ ہوگا!۔۔۔ ہماری نئی کلاس کے بالکل شروع کے دن تھے، شاید کوئی کلاس ٹیچر متعین نہیں ہوئی تھیں، تب اپنے ہم جماعت عاطف کا مس راحت سے یہ کہنا یاد ہے کہ 'مس شہلا ہی کو ہماری کلاس ٹیچر بنا دیں۔۔۔' اب خدا جانے وہ قبولیت کی گھڑی تھی یا محض اتفاق، کہ 'ٹو' میں بھی دوبارہ وہ ہماری کلاس ٹیچر بن گئیں۔۔۔ اچھا، ٹو کلاس کا کمرا اس اعتبار سے عجیب بے ڈھنگا سا تھا کہ کلاس تو بورڈ کی طرف منہ کر کے بیٹھی ہوئی ہے، لیکن کمرے کا دروازہ اس کے دائیں طرف کو آخری نشستوں کے ساتھ ہے۔۔۔ ورنہ عموماً کلاس کا دروازہ کلاس کی اگلی سمت میں کلاس میں آنے کی خالی جگہ پر بلیک بورڈ کے بالکل دائیں یا بائیں ہوتا ہے اور کلاس میں آنے والا پوری کلاس کے سامنے ہوتا ہے، لیکن یہاں کلاس میں کوئی آئے تو کلاس کو پیچھے دائیں طرف کو دیکھنا پڑتا۔۔۔

مس شہلا نے پڑھانے کو ہمیں انگریزی، اردو، سوشل اسٹڈیز اور اسلامیات سے سندھی وغیرہ تک سب پڑھائی۔۔۔ لیکن رپورٹ کارڈ میں دیکھ کر یہ اور زیادہ یاد ہوا ہے کہ دو مرتبہ انھوں نے ہمیں اردو میں 99 نمبر عنایت کیے، اب یہ بات شاید تب سے ہی یاد رہی ہوگی کہ یہ 99 نمبر انھی کے دیے ہوئے ہیں، ورنہ سرِدست ہماری یادداشت میں یہ بات نہیں۔۔۔ کیوں کہ وہ زمانہ اب وقت کی 'شاہ راہ' پر جتنا پیچھے ہوتا جا رہا ہے، اتنے ہی اس کے نقوش مٹتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں! اسی لیے ہم نے چاہا کہ ان نقوش کو مکمل کورا ہونے سے پہلے کچھ نہ کچھ ضرور دُہرا لیا جائے۔۔۔

۔۔۔

ہم نیوٹن کے مقابلے پر آتے آتے رہ گئے
رضوانہ نور، کراچی


آج ہم نے پھر اسکول سے بھاگنے کا پروگرام بنایا۔۔۔ دبے قدموں ابھی ہم ایک دیوار پھلانگ ہی رہے تھے کہ اماں کی کمر پر جمائی گئی ایک دھپ نے آشکار کیا کہ ہمارا یہ 'خواب' حقیقت میں ہی خواب تھا۔ 'امی آپ مجھے عظیم انسان نہ بننے دیجیے گا، اچھا بھلا اسکول سے بھاگنے والی تھی۔ سنا ہے نیوٹن جیسا سائنس دان بھی اسکول سے بھاگ گیا تھا، اور وہ بلب ایجاد کرنے والا تھامس ایڈیسن، اس کے تو اسکول والوں نے ہی معذرت کر لی تھی اور اس کی والدہ نے پھر اسے اسکول بھیجنے کا سوچا بھی نہیں اور ایک ہماری اماں حضور ہیں جن کو روزانہ اسکول بلا کر ہمارے قصیدے سنائے جاتے، مگر مجال ہے کہ انھوں نے ابا میاں کی حق حلال کی کمائی ضائع ہونے سے بچائی ہو۔

البتہ اب یونیورسٹی ہم جیسے ذہین لوگ چلے تو جاتے ہیں، لیکن کلاس کا رخ کم ہی کرتے ہیں! کہ ''قدر کھو دیتا ہے روز کا آنا جانا'' کتابیں نہ خرید کر ملکی سرمائے کے بچت کے زیادہ قائل ہیں، اور جس چیز سے امتحانات میں امداد باہم پہنچنے کی توقع ہوتی ہے، وہ ہوتے ہیں، دوست اور ہمارے دوست تو ایسے ہیں کہ 'مجھے اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا' جیسی بات ان پر صادق آتی ہے۔۔۔ وقت پر پہلے کبھی کچھ ان سے برآمد ہوا ہے جو اب ہوگا۔

اس لیے امتحانات کے دوران ساری رات اس دکھ میں کہ اب ہم کس طور اپنی اس چھوٹی سی ناک کو کٹنے سے بچا پائیں گے، 'فیس بک' پر دکھی اسٹیٹس اپ لوڈ کرتے رہے اور سو بھی نہ پائے... صبح کو خیال آیا کہ اب جب 'پرچے' سے متعلق کچھ پڑھنے کو ہے نہیں تو کیوں نہ نمرہ احمد کا ادھورا ناول ہی مکمل کر لیا جائے... اسے پڑھنے بیٹھے ہی تھے کچھ رت جگا اور کچھ رومانوی سا ہیرو۔۔۔ جلد ہی ہم نیند کی آغوش میں چلے گئے... مگر امتحان کی پریشانی میں ناآسودہ خواہش نے نیند والے ایک خواب کا روپ دھار لیا جس میں ابھی ہم اسکول سے بھاگنے ہی والے تھے کہ ہماری اماں نے ایک بار پھر 'دھاوا' بول دیا... گویا ہم ایک بار پھر نیوٹن کے مد مقابل آنے سے محروم رہ گئے۔۔۔ اب آپ خود ہی بتائیے کہ ملک سائنس کے میدان میں پیچھے نہ ہو تو اور کیا ہو۔۔۔!

۔۔۔

کچھ کھٹی میٹھی باتیں
ظہیر انجم تبسم، خوشاب

٭ جو شخص کل زکوٰۃ سے یہ کہہ کر نو جوڑے کپڑے اور جوتے لے گیا تھا کہ میری نو بیٹیاں پیروں تک میں جوتی سے محروم ہیں، آج جوتے واپس کرنے آیا ہے اور کہتا ہے کہ بیٹیاں کہہ رہی ہیں جوتے کپڑوں سے 'میچ' نہیں کرتے۔

٭ جو عورت شہر کے ایک فلاحی ادارے میں مالی امداد کی درخواست دے گئی تھی کہ میرے بچے بھوکے سوتے ہیں، گھر میں آٹا نہیں ہے، جب فلاحی ادارے کا شخص اس کے گھر چیک دینے گیا، تو اندر سے بچی نے آواز لگائی ''ابھی دھوپ بہت ہے شام کو دینے آئیے گا۔''

٭ بادشاہ کا ہاتھی مرگیا۔ درباریوں نے دیکھا کہ بادشاہ کا نوکر زاروقطار رو رہا ہے۔ کسی نے پوچھا کیا ہاتھی سے اتنی محبت تھی کہ اس کے مرنے پر گریہ کر رہے ہو، تو وہ نوکر کہنے لگا 'مجھے ہاتھی سے محبت کا تو نہیں پتا، لیکن بادشاہ نے مجھ اکیلے کو ہاتھی کی قبر کھودنے کا حکم دیا ہے۔

٭ یہ تب کی بات ہے کہ جب بہت سخت قحط پڑا تھا، یہاں تک کے جنگل کے چھوٹے جانور بھی شکار ہوگئے تھے یا کہیں چلے گئے تھے، جنگل میں شیروں کے نگر میں ایک شیرنی زاروقطار رورہی تھی۔ شکار نہ ملنے کے سبب شیر ایک دوسرے کو کاٹ کھا رہے تھے۔ اس شیرنی کے بچے کو بھی کچھ شیروں نے کھا لیا تھا۔ ایک بزرگ شیر کو ترس آیا۔ وہ اس آب دیدہ شیرنی کے پاس آیا اور بولا بی بی قحط بہت شدید ہے۔ بہت افسوس ہوا کہ آپ کے بیٹے کو شیروں نے کھا لیا ہے، اب آپ صبر کریں۔' یہ سنا تو شیرنی کہنے لگی۔ 'مجھے تو دکھ اس بات کا ہے کہ انھوں نے مجھے گوشت کا ایک ٹکڑا بھی نہ دیا اس غم میں میں رو رہی ہوں۔'

۔۔۔

صدیوں سے پیاسا چلّی کا صحرائے ایٹاکاما
امتیاز یٰسین، فتح پور


بارانِ رحمت اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کی تائید و نصرت میں سے ایک ہے۔ بارشوں کا رجحان نمی والے سر سبز، میدانی اور ساحلی علاقوں کی نسبت صحراؤں میں کم ہے، لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ دنیا کا ایک لق و دق، بے آب و گیاہ صحرا ایسا بھی ہے جو سالہاسال سے بارش کی بوند بوند کو ترسا ہوا ہے۔

وہاں پانی کی نایابی اور کم یابی کے باعث زندگی کے آثار نہ ہونے کے برابر ہیں، اور وہ ہے چلّی کا صحرا ایٹاکاما۔ ماہرین ایسے ریت کے پہاڑوں اور ٹیلوں والے علاقوں کو صحراؤں میں شمار کرتے ہیں، جہاں اوسط سالانہ بارش 250 ملی میٹر (10 انچ) سے کم ہو، لیکن ایٹاکاما کے بیابان جس میں نمی کا تناسب صفر فی صد ہے، سالہا سال کے بعد محدود، مختصر اور جزوی علاقوں میں بارش کا سالانہ تناسب اوسط 10ملی میٹر سالانہ ہے۔ بارش نہ ہونے کے سبب صحرائی پودے کیکٹس اور رینگنے اور خشکی والے جان داروں سانپ، چھپکلی وغیرہ کا بھی دم گھٹنے لگتا ہے۔

اس صحرا کے بعض علاقوں میں بارش کو برسے 400 سال سے زائد کا عرصہ شمار کیا جاتا ہے۔ 70 ہزار مربع میل کے طویل رقبے پر پھیلا یہ صحرا ڈیڑھ کروڑ سال قدیم سمجھا جاتا ہے۔ جنوبی امریکا کے مغربی ساحل پر شمالی چلّی میں واقع یہ صحرا بحرِ اوقیانوس اور کوہ انڈیز کے درمیان واقع ہے اور مغرب میں بحر القدس کے پانی کو چھوتا ہے۔

اس کی سرحدیں چار ممالک پیرو، ارجنٹینا، ہولیوبا او چلی تک پھیلی ہوئی ہیں ۔ اس میں سوڈیم نائٹریٹ، نمک، گندھک، سونا، چاندی اور تانبے جیسی قیمتی معدنیات کے وسیع ذخائر پائے جاتے ہیں۔ انھیں معدنی وسائل و ذخائر پر چلّی کی معیشت کا دارو مدار ہے۔ ایٹا کاما سمندر کی قربت میں ہونے سے یہاں کا درجۂ حرارت جولائی جیسے گرم مہینے میں دن میں 13 سے 15 سیلسیئس کے درمیان رہتا ہے اور رات کو اس سے بھی گر جاتا ہے۔ یہ دل چسپ و نایاب صحرا عالمی سیاحوں کی توجہ کا بھی مرکز ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں