چلو وقت گزاری کریں
گروپ بندیاں کرکے، مختلف ٹولیاں بناکر ہم باقاعدہ ایک منظم سازش کا حصہ بنتے ہیں
''یار تم نے سلمان کو دیکھا ہے۔ موٹے سے ہلا تو جاتا نہیں اور مالکان کو دیکھو کہ اسے کمپنی کا ایم ڈی بنا دیا ہے۔ مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ جب یہ مالکان خود غلط فیصلے کرتے ہیں اور کمپنی خسارے میں جانے لگتی ہے تو پھر ہم جیسوں کی شامت آتی ہے۔ ایسی ڈانٹ پھٹکار ہوتی ہے کہ اللہ کی پناہ۔ جب کہ ہوتی ساری کارستانی ان کے چہیتے کی ہے۔'' عثمان کا یہ کہنا تھا کہ ایک زوردار قہقہ ماحول کو گرما گیا۔ فخر جو اس دوران بالکل خاموش تھا اور اس کی طبعیت روز روز کی غیبتیں سن کر مکدر ہوچکی تھی، بولا آپ لوگ خوامخواہ بات کو طول دے رہے ہیں، کیونکہ آپ یہ بھی تو دیکھیں کہ وہ صرف جسمانی طور پر موٹا ہے ذہنی طور پر غبی نہیں۔ پوری کمپنی میں اپنی صلاحیت کے اعتبار سے وہی اس قابل تھا کہ اس کے کندھوں پر یہ ذمے داری ڈالی جاتی۔ تاہم یہ الگ بات کہ فخر کی بات کو ہمیشہ کی طرح کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔
روزمرہ زندگی میں دفاتر اور گھروں میں ایسا لاپروا رویہ عام ہے۔ غیبت جسے درحقیقت گپ شپ کا نام دے دیا گیا ہے پورے معاشرے کو ایک ناسور کی طرح اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ دن بھر ہم اپنے ساتھ کام کرنے والوں اور مختلف رشتوں کے بارے میں باتیں کرتے رہتے ہیں۔
غیبت آج کل بہت عام ہے۔ ایک تو سب اس گفتگو کا حصہ بننے کےلیے تیار رہتے ہیں، کیونکہ دوسروں کا مذاق اڑانا زیادہ تر افراد کا ایک پسندیدہ مشغلہ ہوتا ہے۔ فطری طور پر بہت سے لوگ دوسروں کی ناکامیوں میں ہی اپنی کامیابی کو ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آج کل کے دور کے لوگ کھوکھلے ہیں، ان کے کردار اور گفتار میں کوئی ایسی خوبی نہیں ہوتی جس پر وہ خود فخر کرسکیں، اس لیے بھی وہ اس اخلاقی برائی کو جاری رکھتے ہیں۔
دوسری اہم وجہ فراغت ہے، کیونکہ جو لوگ کچھ نہیں کرتے وہ ایسے کارنامے سرانجام دیتے رہتے ہیں۔ جن کے پاس کچھ کرنے کو نہیں ہوتا وہ حسد کرتے ہیں۔ آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ ایسی بے معنی گفتگو میں زیادہ تر لوگوں کی برائیاں ہوتی ہیں، ان کی کامیابیوں کا بہت کم ذکر کیا جاتا ہے۔
اب جو باتیں ہم کسی کے سامنے نہیں کہہ سکتے، وہ غیبت کی صورت میں کہہ دیتے ہیں تاکہ دل کی بھڑاس بھی نکل جائے اور اس شخص تک بات بھی پہنچ جائے۔ اسی طرح لوگوں کے پاس کوئی بات کرنے کےلیے اپنی کوئی بات نہیں ہوتی اس لیے وہ دوسروں پر تنقید کے پہلو ہی تلاش کرتے رہتے ہیں۔
غیبت ایک ایسی بیماری ہے جو تقریباً ہر انسان کے اندر موجود ہے، چاہے کم ہو یا زیادہ۔ اس بیماری کو اپنے جیسے ہم خیال لوگوں میں اور بھی بڑھاوا ملنے لگتا ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ گناہ عظیم ہے، ہم کسی کی غیبت کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ گروپ بندیاں کرکے، مختلف ٹولیاں بناکر ہم باقاعدہ ایک منظم سازش کا حصہ بنتے ہیں۔ نہ صرف اس دنیا میں ہمیں اچھے الفاظ سے یاد نہیں کیا جاتا بلکہ ہماری آخرت بھی خراب ہونے لگتی ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ ہم اس رویے کی ابھی سے حوصلہ شکنی کریں، اسے وقت گزاری کا ذریعہ نہ بنائیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
روزمرہ زندگی میں دفاتر اور گھروں میں ایسا لاپروا رویہ عام ہے۔ غیبت جسے درحقیقت گپ شپ کا نام دے دیا گیا ہے پورے معاشرے کو ایک ناسور کی طرح اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ دن بھر ہم اپنے ساتھ کام کرنے والوں اور مختلف رشتوں کے بارے میں باتیں کرتے رہتے ہیں۔
غیبت آج کل بہت عام ہے۔ ایک تو سب اس گفتگو کا حصہ بننے کےلیے تیار رہتے ہیں، کیونکہ دوسروں کا مذاق اڑانا زیادہ تر افراد کا ایک پسندیدہ مشغلہ ہوتا ہے۔ فطری طور پر بہت سے لوگ دوسروں کی ناکامیوں میں ہی اپنی کامیابی کو ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آج کل کے دور کے لوگ کھوکھلے ہیں، ان کے کردار اور گفتار میں کوئی ایسی خوبی نہیں ہوتی جس پر وہ خود فخر کرسکیں، اس لیے بھی وہ اس اخلاقی برائی کو جاری رکھتے ہیں۔
دوسری اہم وجہ فراغت ہے، کیونکہ جو لوگ کچھ نہیں کرتے وہ ایسے کارنامے سرانجام دیتے رہتے ہیں۔ جن کے پاس کچھ کرنے کو نہیں ہوتا وہ حسد کرتے ہیں۔ آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ ایسی بے معنی گفتگو میں زیادہ تر لوگوں کی برائیاں ہوتی ہیں، ان کی کامیابیوں کا بہت کم ذکر کیا جاتا ہے۔
اب جو باتیں ہم کسی کے سامنے نہیں کہہ سکتے، وہ غیبت کی صورت میں کہہ دیتے ہیں تاکہ دل کی بھڑاس بھی نکل جائے اور اس شخص تک بات بھی پہنچ جائے۔ اسی طرح لوگوں کے پاس کوئی بات کرنے کےلیے اپنی کوئی بات نہیں ہوتی اس لیے وہ دوسروں پر تنقید کے پہلو ہی تلاش کرتے رہتے ہیں۔
غیبت ایک ایسی بیماری ہے جو تقریباً ہر انسان کے اندر موجود ہے، چاہے کم ہو یا زیادہ۔ اس بیماری کو اپنے جیسے ہم خیال لوگوں میں اور بھی بڑھاوا ملنے لگتا ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ گناہ عظیم ہے، ہم کسی کی غیبت کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ گروپ بندیاں کرکے، مختلف ٹولیاں بناکر ہم باقاعدہ ایک منظم سازش کا حصہ بنتے ہیں۔ نہ صرف اس دنیا میں ہمیں اچھے الفاظ سے یاد نہیں کیا جاتا بلکہ ہماری آخرت بھی خراب ہونے لگتی ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ ہم اس رویے کی ابھی سے حوصلہ شکنی کریں، اسے وقت گزاری کا ذریعہ نہ بنائیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔