کوچۂ سخن
غزل
چہرہ حلیہ حال پرانا پڑ جاتا ہے
اپنے گھر میں نام بتانا پڑ جاتا ہے
اک تیزی منزل سے آگے لے جاتی ہے
پھر سے دنیا گھوم کے آنا پڑ جاتا ہے
کچھ قبروں کو پھول ترستے رہ جاتے ہیں
کچھ خوابوں کو روز بھلانا پڑ جاتا ہے
نام کمانا تو پھر بھی آساں لگتا ہے
مت پوچھو جب رزق کمانا پڑ جاتا ہے
ایسا بھی ہے روز تعاقب میں اپنے ہی
خود سے اپنا آپ بچانا پڑ جاتا ہے
ایسا بھی اک شخص ہے جس کی کھوج میں اکثر
مجھ کو رب سے آگے جانا پڑ جاتا ہے
(علی ادراک۔ شہر چونیاں قصور)
۔۔۔
غزل
اٹھا لاتے تھے کمرے میں اگر چوکھٹ پہ ہوتی تھی
نگہ پھر سے بہ اندازِ دگر چوکھٹ پہ ہوتی تھی
عجب بے خوابی و بے تابی کا عالم سا رہتا تھا
ہماری آنکھ کھلتی تھی نظر چوکھٹ پہ ہوتی تھی
روانہ کرتے تھے در پر گلے مِل مِل کے روتے تھے
کبھی تقریبِ آغازِ سفر چوکھٹ پہ ہوتی تھی
ہمارا چاند گم ہوتا تھا جب تاریک راہوں میں
تو سورج لے کے بدلے میں سحر چوکھٹ پہ ہوتی تھی
وہ تھی ناراض مجھ سے پر میں جب گھر دیر سے آتا
تو وہ نم دیدہ و شوریدہ سر چوکھٹ پہ ہوتی تھی
(انعام کبیر ۔کامونکی )
۔۔۔
غزل
ایک معمہ حل تو ہوا ہے اب تک کی بے چینی سے
تُو نکلا ہے دل سے باہر، میں شک کی بے چینی سے
جادو گر ہوں، لیکن اس کی جانب دیکھ نہیں سکتا
سارا کھیل بگڑ جائے گا دھک دھک کی بے چینی سے
تم اندازہ کر سکتے ہو آنے والے موسم کا
دروازے پر ہونے والی دستک کی بے چینی سے
بھاؤ تاؤ کرنے سے وہ مول زیادہ کر دے گا
وہ تو لطف لیا کرتا ہے گاہک کی بے چینی سے
گرد پڑی تصویر کے اوپر چند لکیریں مٹی کی
نقش زیادہ اچھے ابھرے دیمک کی بے چینی سے
من مندر میں پتھر کا بُت کیسے پہلو نہ بدلے
رقاصہ نے کام لیا ہے کھتک کی بے چینی سے
(نذر حسین ناز۔ چکوال)
۔۔۔
غزل
غزال آنکھوں کو، مہ جبینوں کو دیکھتے ہیں
پرانے شاعر نئی زمینوں کو دیکھتے ہیں
تو علم ہوتا ہے سانپ بچھو پلے ہوئے تھے
اگر کبھی اپنی آستینوں کو دیکھتے ہیں
تمہارا چہرہ، تمہارے رخسار و لب سلامت
کہ ہم تو حسرت سے ان خزینوں کو دیکھتے ہیں
بچھڑنے والے اداس رت میں کلینڈروں پر
گزشتہ سالوں، دنوں، مہینوں کو دیکھتے ہیں
ہمارا کیا ہے کہ ہم تو اجڑے ہوئے مسافر
تمہارے پاؤں سے روندے زینوں کو دیکھتے ہیں
کبھی یہ دیکھا تماشہ گاہوں کے کچھ مداری
عجیب دکھ سے تماش بینوں کو دیکھتے ہیں
پرانی تصویر، ڈائری اور چند تحفے
بڑی اذیت سے روز تینوں کو دیکھتے ہیں
(کومل جوئیہ۔ کبیر والا)
۔۔۔۔
غزل
غار میں آگئے پر پتہ ہی نہ تھا اور بھی لوگ ہیں
ہم نے آواز دی تو یہ ہم پر کھلا اور بھی لوگ ہیں
کوئی مانوس خوشبو سمندر کی تہ سے بتاتی پھرے
کشتیاں ِکھینے والے تمہارے سوا اور بھی لوگ ہیں
اپنے ہونے نہ ہونے کی الجھن ازل سے ہے اک مسئلہ
ایک تم ہی نہیں زندگی سے خفا اور بھی لوگ ہیں
اس محبت کی چوری کو آہستہ آہستہ کھا، اور پچا،
یہ تبّرک نگل تو نہیں دوستا! اور بھی لوگ ہیں!
شہرِ ہجراں کی دیوار پر تھے یہ حرفِ تسلی لکھے
ایک ہم ہی نہیں شہر میں لا دوا اور بھی لوگ ہیں
(توقیر احمد۔منڈی بہاؤلدین)
۔۔۔
غزل
رشک کی بات چلی اذن کی دیوار بنی
ماں کے آنچل سے مرے باپ کی دستار بنی
دائمی رقص میں جانے کے لیے موقع دیا
زندگی سارے غموں کی مرے غم خوار بنی
علم نے میرے لیے راستہ دشوار کیا
آگہی میرے لیے رنجِ گراں بار بنی
تیز گامی میں نہیں آپ کا ثانی کوئی
آپ کو دیکھ کے سیارے کی رفتار بنی
ابرہہ جیسی اداسی نے مجھے گھیر لیا
تیری آواز ابابیل کی منقار بنی
وقت کی ریل کے پیروں میں پڑے ہیں عاجزؔ
موت بھی اپنے لیے خواہشِ اغیار بنی
(عاجزکمال رانا۔خوشاب)
۔۔۔
غزل
جب بھی لکھنا تو یہی رنج و مسرت لکھنا
پڑ گئی ہم کو تیری یاد کی عادت لکھنا
یہ تری ہم سے شب و روز تغافل کی روش
عین ممکن ہے کوئی ڈھائے قیامت لکھنا
تیری محفل میں چلے آنے کی اے جانِ غزل
صرف اک بار ہی مل جائے اجازت لکھنا
تجھ کو معلوم نہیں ہے کہ ترے جانے سے
گھر میں باقی نہ بچا کچھ بھی سلامت لکھنا
اپنا سایہ بھی ہوا باعثِ وحشت اب کے
عام اتنی ہے زمانے میں عداوت لکھنا
اب تیرے شہر میں ہم درد کے ماروں کے سوا
''اور سب بُھول گئے حرفِ صداقت لکِھنا''
(زریںؔ منور۔میاں چنوں)
۔۔۔
غزل
یہ چار دن کی کہانی ہے اور کچھ بھی نہیں
وفا کی رسم بھلانی ہے اور کچھ بھی نہیں
بٹھا کے پاس تجھے ہم نے آج رات گئے
تمام رات بتانی ہے اور کچھ بھی نہیں
میں بھیک لینے نہیں آیا رحم کی تجھ سے
بس ایک فلم دکھانی ہے اور کچھ بھی نہیں
یہ گریہ کرتے ہوئے ہم سے کہہ رہے ہیں چراغ
ہوا سے جنگ پرانی ہے اور کچھ بھی نہیں
بڑے کٹھن ہیں مراحل سو آئنے کی طرح
یہ بات اس کو بتانی ہے اور کچھ بھی نہیں
ندیمؔ شہر نے دیوار کر دیا ہے مجھے
یہ بات کہہ کے بھلانی ہے اور کچھ بھی نہیں
(ندیم ملک۔ نارروال)
۔۔۔
''نالۂ آبِ خراب''
اک جھمیلا ہے یہ نکاسیِ آب
ہے کراچی کے واسطے یہ عذاب
نالے لبریز ہوچکے اب تو
ہے نجات ان سے اک سہانا خواب
شہریوں کے بلند نالوں کا
نالے شوریدہ ہیں سراپا جواب
اپنے اطراف وہ تعفن ہے
رُخ ہر اک ہوگیا ہے زیرِ نقاب
کوڑا کرکٹ ہے کوہسارِ غلیظ
جس کی رنگت ہے گویا مثلِ غراب
کوئی گوشہ نہیں رہا محفوظ
ہے وہ آلودہ آب کا سیلاب
بے بس و بے نوا عوام ہیں یہ
اپنے ہی واسطے ہے جن کا عِتاب
شہر کے حاکموں کی اس پر بھی
ہے تمنا، انہیں ہوں پیش گلاب
اس غلاظت کا حل ہے، دل ہوں پاک
صاف ماحول پھر ملے گا جناب
نصف ایماں صفائی ہے لوگو
ہے محال اس بِنا حصولِ ثواب
تُو نے باندھا کلیم ؔکیا مضموں
اس نے تو موڈ کر دیا ہے خراب
(کلیم چغتائی۔ کراچی)
۔۔۔
غزل
صورت بنائیے کوئی تازہ وصال کی
حاجت ہے زخمِ ہجر کو اب اندمال کی
اک زخم ہوں جوزخم ہے تازہ شکست کا
خنکی سے پھٹ رہا ہوں میں باد ِشمال کی
خواہش خرد کے پاؤں پکڑتی ہے بار بار
ہے ملتمس کہ لائیے صورت وصال کی
مجھ پر طلوع کیجیے قربت کا ماہتاب
اور آفتاب ِہجر پہ راحت زوال کی
آنکھوں کے کینوس پہ ہے رنگوں کی چاند رات
تصویر بن رہی ہے کسی خوش خصال کی
دانتوں نے لب دبا کے جو کہہ دی ہے دل کی بات
آنکھوں نے اس کی چھوڑ دی عادت سوال کی
(ابو لویزا علی۔کراچی)
۔۔۔
غزل
ہجر میں غم رات بھر اُگنے لگے
درد میرے چاند پر اُگنے لگے
پانیوں میں کیا قیامت آگئی
دشت میں مچھلی کے پَر اُگنے لگے
گنبدِخضری کا جب منظر کھلا
دیدہ و دل میں گہر اُگنے لگے
شہر ِدل تعمیر یوں ہونے لگا
مجھ میں اب دیوار و در اُگنے لگے
حمدیہ اشعار پڑھتے لالہ زار
ورد کرتے یہ شجر اُگنے لگے
(نذیر حجازی ۔ نوشکی)
۔۔۔
غزل
مجھ کو صدیوں سے ہے اک مسیحا کے اعجاز کی بازگشت
جس طرح اک پرندے کو ہوتی ہے پرواز کی بازگشت
چاند پر ڈال آیا کمندیں پہاڑوں کو سر کر لیا
اب نہ جانے ہے انسان کو کیسے آغاز کی بازگشت
ایک عاشق کو ویسے ہی ہوتی ہے محبوب کی جستجو
اک گویے کو ہوتی ہے جیسے نئے ساز کی بازگشت
بند کمرے میں قید ایک قیدی صدائیں لگاتا رہا
اور سنتا رہا خود وہ اپنی ہی آواز کی بازگشت
(ریحان سعید ۔ ڈیرہ غازی خان)
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم ، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی